sang jo tu hae
BY zariya fd
EPI:1
مرش ! مرش ! مرش بیٹا اٹھ جاو_ فایزہ بیگم چلتی ہویی اس کے کمرے میں داخل ہویی مرش ایک بار پھر سے آواز دیتی اس کے چہرے سے لہاف کھنچی__ افف امی کیا ہے ‘ کم از کم آج کے دن تو سونے دیں !!!
مرش نیند سے ڈوبی آواز میں بولی “”” تمہارے بابا ناشتے پر تمہارا انتظار کر رہے ہے “” فایزہ بیگم کھڑکی سے پردے ھٹاتے ہویے بولی جہاں چمکتی دوپ نے اس کا استقبال کیا “!!!!! اچھا ٹھیک ہے آتی ہوں “” اس نے کمر تک آتے بالوں کو جوڑے کی شکل دیتے ہوے بولی “”” جلدی آنا ! فایزہ بیگم کہتی ہویی واپس چلی گی !!!!
کھٹ ۔۔۔کھٹ ۔۔۔ سلام صاحب کیا میں اندر آ جاوں !!!! سمیرا نے ڈرتے ہوے پوچھا !!! یس !!! اجازت ملنے پر سمیرا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کمرے میں داخل ہویی !!!! صاحب جی آپ کی چاے “”” سمیرا گرم بھاپ اڑاتی چاے کا ٹرے ہاتھ میں لیے اندر آیی !!
ہمم !! آہل شاہ آفندی موبایل میں میسج ٹیکس کرتے ہوے جواب دیا !!
صاحب جی اب جاوں ؟؟ سمیرا جھجھکتے ہویے بولی “” آہل نے ہلکے سے گردن ہلا کر جانے کی اجازت دی !! سمیرا نے جیسے ہی باہر جانے کے لیے قدم بڑھاے !!!
سنو!!
جی ۔۔۔جی صاحب جی ؟؟؟ سمیرا ڈرتی ہویی بولی !!!
بریرہ کو بھیجنا !! آہل شاہ آفندی نے اپنی روبیلی آواز کے ساتھ بولا !!
جی صاحب جی !! اب جاوں ؟؟ سمیرا گھبراتی ہویی بولی !! ہمم !! آہل نے جانے کی اجازت دی !! آہل نے جیسے ہی چاے کا کپ لینے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا !!! موبایل کی بجتی رنگ نے اس کو ہاتھ کو روک دیا ۔۔ ۔۔
ہیلو ؟ آہل نے ہلکے ہاتھوں سے اپنی پیشانی کو دباتے ہوے بولا !!
ہاں یار آہل !! یار ہماری جو میٹنگ تھی مسٹر شہروز کے ساتھ وہ کینسل ہو گی !! “”””” فارس گھبراتے ہوے بولا !!
اچھا اس کی رگوں میں لالچ کا خون دوڑنے لگا ہوگا !! آہل اپنی مٹھیوں کو بیھنچتے ہوے کہا !! تو ٹینشن نا لے میں کچھ کرتا ہوں !!! آہل پرسکون لہجے میں بولا موبایل رکھتے ہوے کسی نکتے کو ڈھونڈے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔
بریرہ شاور لے کر باہر نکلی گیلے بالوں کو سلجھاتے ہوے آینے کے سامنے کھڑی گنگنانے میں مگن تھی !! سلام بی بی جی !!! سمیرا دروازے پر کھڑی بریرہ کو سلام کیا !!!
وعلیکم اسلام !! بریرہ مسکراتی ہویی جواب دی !!
وہ جی بی بی جی آپ کو چھوٹے صاحب کمرے میں بلا رہے ہے !! سمیرا بولی !!
ٹھیک ہے تم جاو میں آتی ہوں !!! بریرہ نے جواب دیا !!
ٹھیک ہے بی بی جی !! سمیرا الٹے قدموں واپس چلی گئی !!
اسلام و علیکم بھایی !! “””” بریرہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہی آہل کو سلام کیا !!! بریرہ کو کمرے میں آنے کے لیے کبھی بھی آہل کی اجازت کی ضرورت نہیں پڑتی تھی !! اور نا ہی آہل نے کبھی اس کو اس بات کے لیے ٹوکا تھا ۔۔۔
وعلیکم اسلام !! آہل نے بریرہ کو جواب دیا ۔۔ کل سے کالج میں تمہیں پک اینڈ ڈراپ کرونگا ۔۔ آہل نے اپنی بات ختم کرتے ہوے نظریں بریرہ کے چہرے پر مرکوز کی !!! جیسا آپ کی مرضی بھایی !! بریرہ نے فورا حکم کی تعمیل کرتے ہوے بولی !!
اوکے اب جاو _ آہل نے اس کو جانے کی اجازت دی ۔۔۔ اور پھر سے میسج ٹیکس کرنے میں مصروف ہو گیا ۔۔۔ بھایی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے !!! بریرہ انگلیوں کو مروڑتے ہوے بولی !! بولو !! کیسی بات کرنی ہے !! آہل بریرہ کا چہرہ کو بغور دیکھتے ہوے بولا !! بھایی میں چاہتی ہوں کی کالج میں جیسے سب اسٹوڈینٹس رہتے ہے میں چاہتی ہوں مجھے بھی اسی نظروں سے دیکھا جاے جس طرح باقی اسٹوڈینٹس کو دیکھا جاتا ہے ،،،،کیوں کی میں جانتی ہوں وہ کالج ہمارا ہے تو مجھے کس طرح سے پروٹوکول دیا جائے گا ۔۔ بریرہ اپنی بات ختم کرتے ہوئے آہل کے بولنے کا انتظار کرنے لگی __ ٹھیک ہے جیسا تم چاہتی ہوں ویسا ہی ہوگا ۔۔ آہل ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا !! یے مسکراہٹ بہت کم ہی دیکھنے کو ملتی تھی !۔۔!! تھینکیوں بھایی !! بریرہ مسکرا کر تھنکس بولتی کمرے سے باہر چلی گئی

امی کتنا سکون مل رہا ہے !! آپ کے ہاتھوں کی تو بات ہی کچھ اور ہے ۔۔۔۔ آہ مزا آ گیا ۔۔ مرش آنکھ بند کرکے مسکراتی ہویی بولی ۔۔۔ آپ جب میرے بالوں میں مالش کرتی ہے مجھے جاروں طرف سکون ہی سکون محسوس ہوتا ہے !!!! مرش دونوں آنکھ بند کر کے بولی !!
اچھا اچھا بس کرو سب جانتی ہوں میں “”””””””” فایزہ بیگم غصے سے مصنوعی شکل بناتے ہوے بولی !!
امی —- مرش کی معصومیت پر سب کچھ قربان کر دیا جاے تو بھی کم تھا ۔۔۔ آپ کو پتا ہے آپ دنیا کی بیسٹ امی ہے !! “”””””” مرش اب یہ مکھن لگانا بند کرو اور بات بتاو کیا چاہیے تمیں __ فایزہ بیگم آواز میں سختی لاتے ہوے بولی !!!
آپ کو پتا ہے نہ میری کتنی دوستییں ہیں،،،مرش معصومیت سے بولی۔ ،،، ہاں بلکل پتہ ہے !!!!فائزہ بیگم نے سر سری سا جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو یے بھی پتا ہوگا پرسوں میری دوست زارا کی برتھ ڈے ہے !! “”””” مرش دونوں آنکھ پٹپٹاتی ہویی بولی !! دیکھو مرش اگر تم مجھ سے اجازت چاہتی ہو تو میری طرف سے بلکل انکار سمجھو ۔۔۔۔۔ “””” فایزہ بیگم غصے سے بولی ۔۔۔ مرش ایک جھٹکے سے اٹھی اور آواز اونچی کرتے ہوے بولی ۔۔۔ کیوں میں کیوں نہیں جا سکتی ۔۔۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور آپ ابھی تک پرانی سوچ ہی لے کر بیٹھی ہے !! “””” حد ہے “”” مرش پیر پٹختی دوڑتے ہوے کمرے میں بھاگ جاتی ہے اور تیز آواز سے دروازے کو اندر سے بند کر لیا !!! ۔۔ مرش چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت جلدی بےزار ہو جاتی تھی ۔ !!!! “”””
فایزہ بیگم خالی خالی نظروں سے بند دروازے کو دیکھتی رہے گی ۔۔۔ اور اہک لمبی سانس خارج کرتے ہوے اٹھ گی ۔۔۔ فایزہ بیگم باورچی خانے میں کھڑی ہانڈی بنانے میں مصروف تھی !!! ہانڈی چڑھا کر دیوار کا ٹیک لگا کر کھڑی ہو گی !! آبھی بھی ان کی سوچوں کا مرکز مرش کی باتوں پر اٹکا تھا !!! سرفراز صاحب کھانے پینے کا شاپر پکڑے باورچی خانے میں داخل ہوے !! اور وہی کھڑے ہوکر اپنی بیوی کے چہرے پر آنسوں کی روانی دیکھنے لگے !!! فایزہ ؟؟ سرفراز صاحب افسردہ لہجے میں گویا ہوے ۔۔ فایزہ بیگم کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا !! پلکوں کی باڑ میں آے آنسوں کو بامشکل پیچھے کی اور ڈکھیلا !!! ارے آپ ؟ آپ کب آیے ؟؟ فایزہ بیگم جبرًا مسکراتی ہویی بولی !!!
میں تو اسی وقت آیا جب آپ رونے کا مشغلا فرما رہی تھی !!! سرفراز صاحب مسکراتے ہوے بولے !
ارے نہی نہیں میں تو بس یوںہی آپ بھی نا !! سرفرز صاحب جانتے تھے یے آنسوں کس کے لیے تھے اور انہوں نے اس بات پر کویی استفار نہیں کیا ۔۔۔۔۔ بھی ہماری گڑیا نطر نہیں آ رہی ہے کہاں ہے ۔۔۔۔ ویسے تو پورے گھر میں بللیوں کی طرح کودتی رہتی ہے ۔۔۔۔ “””” سرفراز صاحب نے مرش کے بارے میں دریافت کیا ۔۔۔ فایزہ بیگم مرش کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوے کھانا نکالنے لگی !!! سرفراز صاحب ناسمجھی کے عالم میں مرش کے کمرے کی طرف قدم بڑھاے ۔۔۔ دروازے پر ہلکی سی دستک دیتے ہوے بولے !!! مرش میری جان دروازہ تو کھولے !!! مرش بتاے تو سہی کیا ہوا ہے ۔۔ دیھکے گڑیا ہم آپ کی ناراضگی افورڈ نہیں کر سکتے
کچھ دیر رسٹ کرنے کے بعد آہل نے اپنی نیند سے ڈوبی آنکھیں کھولی ۔۔۔۔ آدھی رات تک آفس کا کام کرتا رہا اگلی میٹنگ پر آہل شاہ آفندی پوری جوڑ توڑ کوشش کر رہا تھا مسٹر شہروز کو سبق سکھانے کے لے اس کو اس کی حیثیت کا اندازہ کرانے کے لے ۔۔۔ ناشتے کی ٹیبل پر بھی آہل غیر موجود تھا “” اور نا ہی کسی کی اتنی جرات تھی وہ آہل شاہ آفندی کو ڈسٹرب کرتا ۔۔ عادت کے مطابق صبح بیڈ ٹی اس کی کمزوری تھی ۔۔۔ ایک بار پھر سے شاور لینے کے بعد ٹاول لیے گیلے بالوں کو روگڑنے لگا واڈروب کھول کرگنگناتے ہوے اپنی فیورٹ کلر “””” بلیک” “”” تھریپی تھریپی سوٹ نکالا ۔۔۔ کپڑا زیب تن کرنے کے بعد اس نےسیاہ گیلے بالوں کو برش کیا شرٹ کی آستین فولڈ کرتا غضب کا ڈھا رہا تھا ۔۔ اس ہاتھ بڑھا کر مہنگا ترین پرفیوم اسپرے کیا ۔۔۔ دایں ہاتھ میں خوبصورت رسٹ واچ پہنتا اس نے ایک نظر خود کو آینیے میں دیکھا خدا نے آہل شاہ آفندی کو ہر چیز سے نوازا تھا ۔۔ آہل شاہ آفندی کو دیکھ کر انسان سوچنے پر خود بخود مجبور ہو جاے ۔۔ خدا نے آہل شاہ آفندی کو بڑی فرصت میں بنایا ہوگا ۔۔۔۔ اسکول کے زمانے سے ان گنت لڑکیاں اس کی محبت میں خود کو پاگل کر بیٹھی تھی ۔۔ لیکن آہل شاہ آفندی کی سخت طبیعت کی وجہ سے کویی بھی اس کے قریب آنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا ۔۔۔ آہل نے ایک ہاتھ کی کلایی پر کوٹ رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اپنا مہنگا خوبصورت موبایل ہاتھ میں لیے جوتے کی نوک سے ٹک ٹک کرتا سڑھیاں اترتا کھانے کی ٹیبل پر پہنچا ۔۔ ایک سرسری نگاہ ٹیبل پر بیٹھے نفوس پر ڈالی ۔سامنے بیٹھی اس عورت پر ڈالی جو شاید اس کی ماں تھی ۔ آہل مدہم آواز میں سلام کہتا کرسی پر براجمان ہو گیا ۔۔ ٹیبل پر بیٹھے سبھی نفوس نے سلام کا جواب دیا ۔۔۔۔
جآوید شاہ آفندی نے ایک نظر اپنے شہزادے جیسے بیٹے کو دیکھا جو واقعی کسی شہزادے سے کم نہیں تھا ۔۔۔ سبھی لوگ خاموشی سے کھانا کھانے میں مگن تھے ۔۔۔ جاوید شاہ آفندی نے آنکھوں کے اشارے سے مریم بیگم کو تسلی دیتے ہوے آہل سے بات کرنے کی تہمید باندھی ۔۔۔
آہل ؟؟ جاوید شاہ آفندی نے آہل کو پکارا !!
جی ؟؟ آہل سوالیا نظروں سے جاوید شاہ آفندی کی طرف دیکھا !!!
بزنس کیسا چل رہا ہے ؟؟ جاوید شاہ آفندی نے بات کا آغاز کچھ اس طرح کیا،،،، جاید شاہ آفندی نے کچھ دنوں کے لیے بزنس سے چھٹی لے لی تھی اور سارا بزنس آہل کے سپرد کردیا۔
لیکن جب ان کا موڈ ہوتا آفس کا چکر لگاتے رہتے اور کویی نا کویی مٹینگس بھی اٹینڈ کرتے رہتے ۔۔۔
ویل ڈن “””” آہل پانی سے بھرا کانچ کا گلاس سرخ لبوں سے لگاتے ہوے بولا !!!
انگلیوں کی پوروں کو ٹشو سے صاف کرتا آہل کہتے ہوے کرسی پیچھے کی اور کرتا اٹھنے کے لیے تیار ہو گیا !!
آہل بیٹھو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔ جاوید صاحب دو ٹوک لہجے میں بولے !!!
آپ بولے میں کھڑا ہو کر بھی سن سکتا ہوں ۔۔۔ آہل ایک نظر سامنے بیٹھی عورت کو دیکھ کر بولا ۔۔۔
مریم بیگم ڈرتے ہوے شوہر کی طرف نظریں مرکوز کی ۔
آہل میں چاہتا ہوں تم اپنی ماں کے ساتھ اپنا رویہ دروست رکھو!!! جس طرح ماں کو عزت دی جاتی ہے اسی طرح تم اپنی ماں کو عزت دو ان کا احترام کرو !!! گھر میں ہزار ملازمایں ہے ان کے سامنے تم نے اپنی ماں کی عزت دو کوڑی کی کر کے رکھ دی ہے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ “””” جاوید صاحب نے اپنی بات مکمل کی اور آہل کے بولنے کا انتظار کرنے لگے ۔۔
بریرہ خوفزدہ آنکھوں سے آہل کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
ماں !!!!
میری ماں کون ہے ؟؟ جہاں تک میرا خیال ہے میری بچپن میں ہی گزر چکی ہے !!! اور یے عورت صرف جاوید شاہ آفندی کی بیوی ہے ۔۔
آہل !!!!!!!
جاوید صاحب غصے سے دھاڑے —–
بتمیزی بند کرو آہل میں تمہارا باپ ہوں ۔۔
کآش آپ نے مجھے تمیز سکھایی ہوتی تو آج یے دن نہیں دیکھنا پڑتا آپ کو ۔!!!!!
مریم بیگم کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر ان کے گالوں کو بھگو دیا !!!!
آہل بات ختم کر کے جانے کے لیے پلٹا !! کچھ یاد آنے پر پھر سے پلٹا !!!
ضروری نہیں بابا جان “””””””” آپ جو چاہے ہمیشا وہی ہو !!!!
آہل کی مسکراہٹ سے صاف ظاہر ہو رہا تھا ،،،
جیسے جاوید شاہ آفندی کا مزاق اڑا رہا ہو_
Sang_jo_tu_hae

BY_zariya_fd
EPi:2
Do_not_copy_without_my_prmission….
چلے جائیں آپ یہاں سے مجھےکچھ نہیں سننا،،،،مرش کی پھنسی پھنسی سی آواز جو شاید رونے کی وجہ سے ہوئی تھی اندر سے آی ،،،
بابا کی جان آپ باہر آئیں اور کھانا کھائیں ورنہ آپ کی طبیعت خراب ہو سکتی ہے…
سرفراز صاحب ہارے ہوئے لہجے میں بولے ۔۔۔ ایک بار دروازہ تو کھول دے انہوں نے پھر ہلکی دستک دی۔۔۔۔۔
مرش سے اب بھوک ہڑتال نہیں ہو سکتی تھی صرف صبح کا ناشتہ کر کے رہنا اسکے لئے بہت مشکل تھا۔۔
۔۔۔ آخر ہار کر مرش دروازہ کھول دیتی ہے اور دنیا جہاں کی معصومیت اپنے چہرے پر سمو ےاپنے بابا جان کے گلے لگ گی اور موٹےموٹے آنسوؤں سے اپنے بابا کی براؤن شرٹ بھگو دی،،،،،
بس میری جان بس آپ بتاے مجھے’کیا ہوا ہے ۔۔ سرفراز صاحب کی آنکھوں سے بھی آنسو گرنے لگے ۔۔
بیٹی کے آنسو ان کی برداشت سے باہر تھے۔
فائزہ بیگم دونو باپ بیٹی کو کھانے پر بلانے آیی ۔۔۔ ‘ سرفراز صاحب فائزہ بیگم سے ،مخاطب ہوے ،، فائزہ بیگم اپنے ہماری گڑیا کو کیا کہا ہے ،،،،
فائزہ بیگم نے ایک نظر اپنے شوہر پر ڈالی پھر اپنی بیٹی کے چہرے کو دیکھا جو آنسوؤں سے سرخ ہو چکا تھا
بب ا،بابا، ہچکیوں کی وجہ سے مرش کی آواز نکلنی مشکل ہو گی تھی بمشکل اس نے کچھ الفاظ اپنی زبان سے ادا کے کیے ،،،
پرسوں میری فرینڈز کی “”Birthday”” ہے اور مجھے جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں! تو مسؑلہ کیا ہے ہم جاینگے ضرور جاینگے ،، سرفراز صاحب اپنی بیٹی کو خوش کرنے کےلئے کچھ بھی کر سکتے تھے
سچی، مرش بےیقینی سے اپنے بابا کے آنکھوں میں دیکھنے لگی
مچی، سرفراز نے خوش ہوتے ہوئے کہا
ہم گفت کیا لیکر جاینگے اسنے اپنے بابا کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھا،،، جو آپ کو پسند ہو انہوں نے خوش ہوتے ہوے کہا
“””Thank u””” Thank u sooo much “”مرش کی خوشی دیدنی تھی
چلیں اب آپ کھانا کھایں سرفراز صاحب نے غصے کی شکل بنا کر کہا،،،،،،
اوکے مرش اپنے بابا کے ساتھ ٹیبل کی طرف بڑھ گیی
ارے واہ کیا کمال کی ڈریسنگ ہے
فارس بے آہل کوایک نظر دیکھتے ہوئے اس کی تعریف میں جو قصیدہ شروع کئےتو سفرتمام ہونے کے بعد ہی ختم ہو سکتے تھے
شٹ اپ!یہ بتا کس ریسٹورنٹ میں جانا ہے آہل ڈرائیونگ کرتے ہوئے پوچھا ،،،،،
وہیں جہاں تو لے کر جاےگا،،،فارس نے اپنے جان سے عزیز پیارے سے دوست کو دیکھا۔۔۔۔
آہل جاوید شاہ آفندی اور فارس ہاشمی کی دوستی بے مثال تھی اسکول، کالج، یونیورسٹی، دونوں نےساتھ ہی طے کیا۔ہر مشکلات میں ساتھ ساتھ ،ہر خوشی اور غم میں ایک ساتھ ، جیسے ایک دوست کو ہونا چاہیے
آہل کی زندگی میں ایک فارس ہی ایسا شخص تھا جس سے آہل کو زندگی کے ہر رنگ اچھے لگنےلگے تھے آہل کے سامنے کسی کی بھی ہمّت نہیں تھی اونچی آواز میں بات کر سکے،، سواے جاویدشاہ آفند ی کے علاوہ وہ بھی اسلئے شاید وہ باپ کا درجہ رکھتے تھے۔۔۔۔
مرش میں گاڑی نکال رہاہوں۔جلدی سے آجاؤ بیٹا سرفراز صاحب نے باہر نکلتے ہوئے آواز دی
جی بابا جان ! آپ چلیں میں بس 2منٹ میں آیی ۔مرش کہتے ہوئےاپنے بالوں میں
برش کی اور اپنی خوبصورت سی چادرکو لپیٹتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگی۔فائزہ بیگم ظہر کی نماز ادا کرنے میں مصروف تھیں، ورنہ کو نا کوئی نصیحت ضرور کرتیں۔ ۔۔۔۔
مرش بیٹا دعاپڑھیں ،،،سرفراز صاحب نے بیٹی کو نصیحت کی۔۔ مرش نے حکم کی تعمیل کی۔ اور آنکھیں بند کرکے دعا کی گردانی کر کے اپنے چاروں طرف اپنے بابا کے پاس پھونک دی۔ ۔۔۔سرفراز صاحب گاڑی آہستہ چلاتےہوئے روڈ پر ائے۔۔۔۔اور اچانک گاڑی کا ٹائر چرچرایا،،فضا میں چڑیوں کی چہچہاہٹ گونجی،اور گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہوا سرفراز صاحب کا اسٹیرنگ پر سے ہاتھ ہٹا۔۔۔۔ گاڑی ایک تیزرفتار سے ایک پیڑ سے جا لگی۔ ۔۔مرش کی چینخ فضا میں گونجی۔ ۔۔۔۔۔
فارس کی چینخ کی آواز آہل کے کانوں سے ٹکرای ۔۔۔۔۔۔آہل کو اچانک ہوش آیا،،،اور دونوں جلدی سر گاڑی کا دروازہ کھول کر ہککا بککا ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔۔
مرش نے گردن موڑ ی اوردیکھا وہ دونوں شخص گاڑی کے قریب آے،،، مرش نے تیز رفتاری سے اپنے چہرے کو ڈھکااور آنکھوں سے آنسوں کی دھارے شروع ہو گیی وہ خالی خالی نظروں سے کبھی اپنے بابا کو کبھی ان دونوں شخص کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
“”””I am sorry”””I am really sorryy”””
فارس کی آنکھوں میں ڈر کی لکیریں صاف دکھ رہی تھی۔ آہل نے ناچاہتے ہوے بھی فارس کے لاکھ کہنے پر اسنےکچھ ٹوٹےپھوٹے لفظ بمشکل ادا کیا۔۔۔۔۔
“””I..am sorry””” محترما
آہل نے سرد نظر اس لڑکی پر ڈالی جو اس وقت پریشان سی حالت میں آنکھوں سے گرتے آنسووں کو ہاتھ سےرگڑ کر انقاب سے چہرے کو پوری طرح چھپاےگاڑی سے نکلی اور سخت غصے میں بولی۔۔۔۔۔مانا کہ یہ گاڑی آپ کی ملکیت ہے لیکن یہ روڈ میرےخیال سے آپ کی ملکیت ہے ۔۔۔مرش چڑاتے ہوئے انداز میں بولی ،،،،
فارس گھبراتے ہوئے بولا دیکھیں غلطی ہم سے ہوگی ہے
“””I am sorry”””
سرفرازصاحب گاڑی کی چابی نکال کر باھر اے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے اچّھے گھر کے دیکھتے ہیں بیٹا آپ دونوں ،،،، غلطی ہوئی ہے ایندا خیال رکھیے گا۔۔۔۔۔
سرفراز صاحب اپنی شگفتہ طبیعت کی وجہ سے کچھ نا بول سکے۔۔۔۔اسلئے انہوں نے بات کو در گزر کرنا چاہا۔۔۔۔۔
تبھی مرش بیچ میں اونچی آواز میں بولی ،،،، بابا ،،ایسے کیسے ،،،، اگر آپ کو کچھ ہوجاتا تو ،،،، یہ امیر لوگ خود کونا جانے کیاسمجھتےہیں، ساری چیز تو ان کی ملکیت ہے۔مرش نے آخری الفاظ دہراتے ہوۓ آہل پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔۔
“”I am sorry uncle””
آیندہ ہم خیال رکھیں گےفارس نے افسردہ لہجے میں کہا۔۔۔انکل اگر آپ کو کہیں جانا ہو تو ہم ڈراپ کر سکتے ہیں
۔””””۔If u don’t mind”””” فارس مسکراتے ہوئے کہا آہل کو اب یہ سب سے بیزاریت محسوس ہورہی تھی ۔۔۔
فارس فری ہوجانا تو گاڑی میں آجانامیں ویٹ کر رہا ہو تمہارا آہل کا یہ انداز فارس کو ایک آنکھ نا بھایا۔۔۔۔ایک لمحے کے لئے آہل شاہ آفندی اور مرش سرفراز احمدکی نظریں ٹکرایں۔۔۔۔مرش کی آنسوؤں سے بھری بهور ی آنکھیں اہل شاہ آفندی کو کنفیوز کر رہی تھی ۔۔۔جس پر سیاہ گھنی پلکوں نے آنسوؤں سے نم تر آنکھوں کو دو بالا خوب صورت کر دیا تھا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایک ہی پل میں جھک گئی ۔۔۔۔۔۔
“بدتمیز”مرش نے اونچی آواز میں کہا۔۔۔۔جو آہل شاہ آفندی کے کانوں نے بخوبی سنا تھا__
لیکن موبائل میں مصروف ہوتا ہواآگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔
کارجو کے آہل شاہ آفندی کی من پسند بلیک کلر کی خوب صورت چم چماتی ہوئی کار تھی۔۔۔۔۔
نہیں نہی بیٹا کوئی بات نہیں ہم چلے جاینگے ،، سرفراز صاحب نے مسکراتے ہوئے بولے۔۔۔۔۔۔ہمیں کسی کا احسان لینے کی ضرورت نہیں ہے ،،، مرش چڑچڑھی انداز میں بولی ۔۔۔۔۔
فارس نے مرش کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر سرفراز صاحب سے بولا””انکل ہمیں شرمندگی محسوس ہورہی ہے۔۔۔۔۔۔پلیز چلیں ہم آپ کو ڈراپ کر دیں۔ ۔۔۔۔۔
Do_not_copy_without_my_permisson
sang_jo_tu_hae
BY_zariya_fd
EPI_3
فارس کے اتنے اسرار پر سرفراز صاحب مجبور ہوکر مرش کی طرف دیکھے مرش نے ہاں میں سر ہلا دیا ،
وہ بھی صرف اسلیے کی اس چمچماتی ہویی دھوپ میں جانا اسکے لئے مشکل تھا۔
فارس ہلکی سی مسکان کے ساتھ ان دونوں کو اپنے ساتھ گاڑی کی طرف لایا پھر دروازہ کھولکر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔آہل نے موبائل سے نظرے اٹھایی اور سرد نظروں سے فارس کی اور دیکھا ،فارس نے آنکھوں کے سہارے آہل کو چپ رہنے کے لئے کہا ۔۔
آہل نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے اچانک سے میوزک کا بٹن دبا دیا اور کسی خوبصورت سے سنگر کی آواز پورے ماحول کو گنگنانے پر مجبور کر دیتی ہے_
“”ہم نا سمجھے تیری نظروں کا تقاضہ کیا ہے،،،
کبھی جلوہ کبھی پردہ یہ تماشا کیا ہے”۔۔۔۔۔
*ماحول کے مطابق مرش کو سخت غصّہ آیا۔ یہ کیسی میوزک ہے بند کریں اسے مرش نے بھاری آواز میں چڑھتے ہوئے کہا۔ آہل صرف اور صرف *مرش* کی باتیں فارس کے لئے برداشت کر رہا تھا،اسے ہی ہمدردیاں نبھانے کا بہت شوق تھا۔۔۔_
- آپ کی منزل کہاں ہے میرے خیال سے آپ بتائنگی تبھی ہم پہنچ سکتے ہیں،”آہل جیسے صاف لفظوں میں مرش کا مذاق اڑا رہا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔یہاں سے دو گلی چھوڑکر ہے، مرش نے گاڑی سے باہر دیکھتے ہوئے جواب دیا۔غصّہ تو بہت آیا دل تو کر رہا تھا قرارا سا جواب دے لیکن شاید اسکے بس میں نہیں تھا’ بابا جو وہاں موجود تھے۔۔۔
گاڑی اندر نہیں جا سکتی اہل نے گاڑی روکتے ہوئے بور سے لہجے میں کہا۔ آہل کے چہرے سے یوں زاھر ہو رہا تھا جیسے کسی غریب کے اوپر احسان کر رہا ہو۔
کیوں! گاڑی کیوں اندر نہیں جاےگی؟مرش نے جھٹ سے سوال کیا، آپ یوں کہیں نا آپ ہمیں چھوڑنا ہی نہیں چاہتے مرش نے اپنی کٹیلی آنکھوں سے آہل کو دیکھا،Mirror سے دونوں کی نظریں ٹکرائیں آہل سرد اہ بھرتے ہوئے پھر سے گویا ہوا۔”
دیکھیں محترمہ گاڑی بڑی ہے اندر لیکر جانا مشکل ہے آہل چڑچڑاتے انداز میں بولا۔۔فارس بخوبی جانتا تھا گاڑی اندر جاسکتی ہے لیکن اہل شاہ کا شاید موڈ نہیں تھا لیجانے کا۔۔فارس نےجلدی بات سنبھالتےہوےسرفراز صاحب سے مخاطب ہوا”Iam sorry سر گاڑی اندر نہیں جا سکتی ہے ،آپ please اگر آپ کو کوئی اعتراض نا ہو تو آپ یہیں اتر جائیں اور آپ بےفکر رہیں ہم آپ کی گاڑی اپنے ڈرائیور سے بھجوا دینگے،فارس نے جلدی جلدی بات ختم کی ، اسے پہلے آحل کوئی لفظ اپنے منہ سے نکالتا تبھی،” شکریہ بیٹا اللہ تمھے خوش رکھے۔ اس پورے سفر میں ایک بار بھی آحل نے سرفراز صاحب سے مخاطب ہونا ضروری نہیں سمجھا،شاید ایسے لوگوں کی اسکی نظر میں کوئی value نہیں تھی۔مرش چادر سمبھالتی ہوئی گاڑی کا دروازہ کھولکر باہر آی اور ہلکے سے انداز میں فارس کو thanx کیا اور اپنے بابا کے ساتھ وہ گھر کی طرف چل پڑی۔۔۔۔۔۔
اسکے جانے کے بعد ہی آہل فارس پر پھٹ پڑا، کیا ضرورت تھی انھیں گاڑی میں بٹھانے کی بہت ہمدردیاں کرنے کا شوق ہے تجھے NGO کھولکر بیٹھ جا_فارس کو تو پہلے سے پتا تھا سرفراز صاحب کے جانے کے بعد ۔ کہرام ہونے والا ہے،فارس نے ایک نظر اس سنگدل انسان کو دیکھا اور گویا ہوا،”تو کتنا بے رحم ہےاور ہاں یہ مت بھول ACCIDENT ہماری ہی گاڑی سے ہوا ہے”۔۔۔۔ وہ تو شکر ہے کوئی نقصان نہیں ہوا اور نا ہی انھیں چوٹ آی فارس نے اللہ کا شکر کیا۔
خاموشی کے ساتھ آہل نے گاڑی ٹرن لیتے ہوے گھر کی طرف گامزن کر دی ۔۔۔ کیوں کی وہ گھر جلد از جلد پہنچ جانا چاہتا تھا ۔۔
یار ایم سوری پلیز ریسٹورنٹ چل قسم سے پیٹ میں ایک سو ایک چوہے دوڑ رہے ہیں ۔۔۔ فارس شرارتی انداز میں بولا ۔۔۔
شٹ اپ “””” آہل دھیمےمگر کرخت لہجے میں بولا ۔۔۔
یار کیوں نہیں جائیں گے ؟؟؟ فارس جنجھلاتے ہوے لہجے میں پوچھا۔۔۔
میرا موڈ نہیں ہے ۔۔۔ آہل دو ٹوک لہجے میں کہا ۔۔۔
ٹھیک ہے “””””فارس سنجیدگی سے کہتا خاموش ہو گیا “” کیوں کی وہ جانتا تھا اب ضد کرنا بے جا تھا ۔۔
پورچ میں گاڑی روک کر آہل دروازہ کھول کر باہر آیا ۔۔ دوسری جانب سے فارس بھی گاڑی اترا ۔۔ اندر چلیں ۔۔ آہل فارس سے مخاطب ہوا ۔۔
نہیں اب گھر جاوں گا ۔۔ لیکن جاوں گا کیسے ؟؟
فارس آہل کےچہرے پر نظریں مرکوز کرتے ہوے بولا !!!
اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے لے چابی پکڑ ۔۔ آہل ہاتھ بڑھا کر فارس کو چابی پکڑایا ۔۔ فارس منھ پھلاے آہل کے ہاتھ سے چابی لی ۔۔ گاڑی میں بیٹھتا آگے بڑھ گیا ۔
گھر میں داخل ہوتے ہی مرش سے جو جو بن سکا اس نے ان دو خوبصورت نوجوانوں کے بارے میں راے قایم کی ۔۔۔کھانے کی ٹیبل پر بھی مرش کی زبان پر اب بھی وہی قصہ تھا ۔۔ آپ نے دیکھا نہیں تھا کتنا پراوڈلی بندہ تھا ۔۔ مرش منھ بناتی ہویی بولی ۔۔۔۔ مرش بیٹا اب رہنے بھی دے ۔۔ کیا ہو گیا ۔ ۔ سرفراز صاحب اکتاتے ہوے بولے ۔۔
کس بارے میں بات کر رہے ہے آپ ؟؟ فایزہ بیگم منھ میں لقمہ رکھتی ہویی بولی ۔۔۔ کچھ بھی نہیں ۔۔۔ سرفراز صاحب بات ختم کرنی چاہی ۔۔۔ خاموشی کے ساتھ کھانا کھایا گیا ۔۔ سرفراز صاحب شکر کرتے اٹھ گے ۔۔۔
فایزہ بیگم کی مرش کے ساتھ بول چال بند تھی ۔۔
امی ؟؟
مرش حسرت بھری نظروں سے فایزہ بیگم کو پکاری ۔۔ لیکن فایزہ بیگم اس کو نظر انداز کرتی ٹیبل سے روٹی اٹھاتے باورچی خانے کی طرف قدم بڑھا دی ۔۔۔ مرش بھی ان کے پیچھے چلتی ہویی باورچی خانے میں داخل ہویی ۔۔۔۔ امی ایم سوری “””” مرش معصوم سی شکل بناتے ہوے بولی ۔۔ امی مان جاے نا “””” مرش کہتی ہویی ان کے گلے میں جھول گیی !!! ۔ فایزہ بیگم جانتی تھی جب تک وہ اس سے بولیں گی نہیں وہ سر کھاتی رہے گی !!!
اور ویسے بھی ماں اور اولاد میں کب تک خاموشی رہ سکتی تھی ۔۔۔ فایزہ بیگم نے اس کے ماتھے پر ممتا بھرا بوسا ثبت کیا ۔۔۔ مرش خوش ہوتے ہوے ان کے گلے لگ گی ۔۔۔
بھایی آپ نے کھانا نہیں کھایا ۔۔۔ بریرہ آہل کے کمرے میں داخل ہوتے ہوے بولی ۔۔۔ نہیں بھوک نہیں ہے آہل اپنی انگلیوں کو بالوں میں پھیرتے ہوے بولا ۔۔۔
لیکن بھایی !! بریرہ نے ابھی کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا ۔ ۔۔ آہل بیچ میں بول پڑا ۔۔
بریرہ پلیز سخت نیند آ رہی ہے ۔۔ ہم صبح بات کرے آہل نیند سے ڈوبی آواز میں بولا کیوں کی جب سے گھر آیا تھا لیپٹاپ پر ہی بزی تھا ۔۔
اوکے بھایی گڈ نایٹ ۔۔ بریرہ مسکراتی کمرے سے باہر نکل گی ۔۔ آہل شاہ آفندی کے اوپر نیند کا غلبا تھا ۔۔ آہل کب کا نیند کی وادیوں میں کھو چکا تھا ۔۔ اس کے خوبصورت چمکتے بال نم آلود پیشانی کو چھو رے تھے !!
صبح روشن ہو چکی تھی چڑیوں کی چہچہاہٹ پوری فضا میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔ مرش جلدی جلدی بالوں کو پونی کی شکل دی ۔۔۔ بیگ اٹھاتے ہوے کمرے سے باہر آیی ۔۔۔ چادر کو ارد گرد پھیلاتی فایزہ بیگم کی جانب ۔ دوڑی ۔۔۔
سوری امی بہت لیٹ ہو رہا ۔۔ بس بھی نکل جاے گی ان کمبختوں نے گاڑی بھی نہیں بھیجی ۔۔۔
مرش کی آنکھوں کے سامنے آہل اور فارس کا چہرا لہرایا ۔۔ لیکن مرش بیٹا ناشتا فایزہ بیگم ناشتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے بولی ۔۔ بہت لیٹ ہو رہا ہے قسم سے امی ۔۔ مرش فایزہ بیگم کو بوسا لیتے ہوے باہر کی طرف بھاگی ۔۔۔
یا اللھ بس مل جاے ۔۔ مرش دعا کرتی تیزی سے قدم آگے بڑھا رہی تھی ۔۔۔ اوپر والے نے اس کی دعا سن لی تھی ۔۔۔ بس کو نکلنے میں ابھی دو منٹ اور رہے گے تھے ۔۔۔۔ مرش کا اس بس پر چڑھنا خاصا مشکل ہو رہا تھا ہر قسم کے لوگ اس بس میں موجود تھے ۔۔۔ وہ تو شکر ہے کونے کی ایک سیٹ خالی دیکھ کر جھٹ سے اس پر براجمان ہو گی ۔۔۔
آہل تیار ہوکر نیچے آیا بلیک پینٹ پر وایٹ شرٹ بہت ہی کھل رہی تھی اس کے کسرتی جسم پر ۔۔۔ ناشتا کرنے کے بعد آہل باہر آیا جہاں پر ٹھنڈی پر نور فضا نے اس کا استقبال کیا ۔۔۔ مالی بابا پانی دینے میں مصروف تھے ۔۔۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ سننے پر مجبور کر رہی تھی ۔۔ رنگ برنگے پھول ہر جانب بھرے تھے ۔۔۔ آہل کو یہ منظر بہت ہی بھلا لگ رہا تھا ۔۔۔
بریرہ ہاپتی کاپتی رسٹ واچ ہاتھ میں پہنتے ہوے باہر آیی ۔۔ سامنے آہل کو دیکھ کر اس کو تھوڑا سکون ملا ۔۔۔
بھایی ؟؟ بریرہ نے آہل کو آواز دی ۔۔ آہل نے نظریں بریرہ کی جانب مرکوز کی ۔۔۔ ہلکے سی گرین کلر کے سوٹ میں بریرہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔ میچنگ اسٹال گلے میں مفلر کی طرح باندھے ہوے تھی ۔۔۔ کالی سیاہ آنکھ میں کاجل کی لکیر غضب کی ڈھا رہی تھی !!! آہل شاہ آفندی جانتا تھا اس کی بہن بہت خوبصورت ہے ۔۔ ۔
ہاں چلو ۔۔ آہل گاڑی کا دروازہ کھولتا سیٹ پر بیٹھتے ہوے سیٹ بیلٹ باندھا ۔۔۔ بریرہ کو پیچھے کا دروازہ کھولتا دیکھ آہل فورا بولا ۔۔۔ آگے آ کر بیٹھو ۔۔ “””” آہل دو ٹوک لہجے میں بولا ۔
بھایی میں ہی comfotable ہوں ۔۔۔ بریرہ نے مسکراتے ہوے جواب دیا ۔۔۔
لیکن میں uncomfotable ہوں ۔۔ “”” آہل سپاٹ لہجے میں بولا ۔۔
اچھا ٹھیک ہے آتی ہوں ۔۔۔ “”” بریرہ نے فورا حکم کی تعمیل کی ۔۔۔
میڈم جی کرایا ۔۔ کنڈکٹر سامنے کھڑا کرایے کی مانگ کر رہا تھا ۔۔ مرش اپنی سوچوں سے باہر آیی ۔۔ بیگ میں یہاں وہاں ہاتھ ماری کچھ سرخ سرخ چند نوٹیں اس کے ہاتھ میں آیی ۔۔ مرش نے جلدی سے ان نوٹوں کو کنڈکٹر کے ہاتھ میں پکڑایا ۔۔۔
بلیک چمچماتی گاڑی یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے رکی ۔۔۔ بریرہ گاڑی کا دروازہ کھولتی باہر اتری ۔۔
تھینکس “””” بریرہ مسکراتی ہویی آہل کو تھینکس بولتی لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو گی ۔۔۔ آہل کو مسلسل فارس کی کال آ رہی تھی لیکن نیٹورک ایشو ہونے کی وجہ سے کال سن نہیں پا رہا تھا ۔۔آہل گاڑی کا دروازہ کھولتا باہر نکلا ۔۔ اور فارس کو کال ملانے لگا ۔۔۔۔
آخر کار سفر تمام ہوا مرش لوگوں کے ہجوم سے بچتی بس سے نیچے اتری ۔۔۔ یار وہ کون ہے ؟؟ اریشا موموز سے انصاف کرتی ہویی بولی ۔۔ کون ثمرہ نے یہاں وہاں نظریں دوڑایی ۔۔۔
سامنے دیکھو ۔۔ اریشا چاے کا مگ ٹیبل پر رکھتے ہوے ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوے بولی ۔۔
ہاں یار ۔۔ پتا نہیں کون لیکن کیا اسمارٹنیس ہے واو ۔۔۔ ثمرہ آہل کو نظروں کے حصار میں لیتے ہوے کمنٹ پاس کی ۔۔۔ آیی تھنک یہ مرش آج نہیں آنے والی اریشہ منھ بناتی ہویی بولی ۔۔۔
مرش اپنی ہی دھن میں چلتی ہویی سامنے سے آ رہی تھی ۔۔۔ ہاں امی ضرور کھا لونگی پلیز آپ پریشان نا ہو ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ناشتا بھی کر لونگی ۔۔ مرش فایزہ بیگم کی نصیحت سننے میں مگن اپنی دھن میں چلی آ رہی تھی ۔۔۔
آہل کو دیکھ کر لوگ تعریف کیے بنا نہیں رہ سکتے تھے ۔۔ کچھ لڑکیاں تو گروپ کی ٹولی بنا کر آہل کی تعریف کے قصیدے پڑھنے میں مگن تھی ۔۔
ٹھیک ہے آ رہا ہوں ۔۔ آہل موبائل پر فارس سے بات کرتا ہوا بولا ۔۔
آہ ۔۔۔ مرش کی چینخ اتنی تیز تھی کی آتے جاتے لوگوں کی نظر اس پڑ رہی تھی ۔۔۔۔
آہل کی نظروں کے سامنے وہی بھوری آنکھیں تھی۔۔۔ جو وہ لمحے کے ہزارویں حصے میں پہچان سکتا تھا ۔۔۔
مرش نے نظریں آٹھا کر دیکھی وہی پراوڈلی بندہ سامنے تھا ۔ ۔۔۔۔ آہل مرش کو بازوں سے پکڑے ہوے تھا ۔۔
مرش ایک جھٹکے سے خود کو چھڑاتی پیچھے کی اور ہٹی ۔۔۔
تم ؟؟ تم یہاں !!!! ۔ یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔ اوہ اب میں سمجھی تم مجھے فالو کر رہے ہو ہاں ؟؟؟ ۔۔ اپنی حد میں رہو مسٹر سمجھتے کیا ہو ؟؟ ۔۔ تم مجھے جانتے نہیں ہو ۔۔۔ میں کون ہوں ۔۔ اور ہماری گاڑی پر قبضہ کر لیا تم نے ۔۔۔ آج کے بعد اگر تم مجھے اس کالج میں دوبارہ دکھا تو دھککے دے کر باہر نکلواوںگی ۔ ۔۔۔ مرش کے منھ میں جو جو الفاظ آے ۔۔۔ منھ سے پھوٹ دیا ۔۔۔
اس کو یے بھی اندازہ نا ہو سکا مقابل کون ہے ۔۔۔
“””””” حد میں آپ رہے میڈم ورنہ میں ساری حدودیں پار کر دونگا ۔۔۔ آہل غصےمیں مرش کا بازوں ایک بار پھر سے دبوچتے ہوے بولا ۔۔۔
ثمرہ اور اریشا کی نظر سامنے مرش پر پڑی ۔۔ جو اس وقت سخت غصے میں تھی ۔۔ وہ دونوں دوڑتی ہویی مرش کے قریب آیی ۔۔ ۔۔ چلو یہاں سے ثمرہ مرش کا ہاتھ پکڑتے ہوے بولی ۔۔
چپ رہو تم دونوں !!
ایسے لوگوں سے نبٹنا مجھے اچھی طرح آتا ہے ۔۔ مرش آہل شاہ آفندی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوے بولی ۔۔۔
اگر تم مجھے اس کالج میں کبھی نظر آے تو میں تمہارا قتل کر دونگی ۔۔۔
آہل کا قہقہہ بے ساختا تھا ۔۔ مجھے جوکس بلکل پسند نہیں ہاں لیکن فرسٹ ٹایم مجھے کویی جوک بہت پسند آیا ۔۔ آہل ہنستے ہوکہا،،،،اور واپس مڑتے ھوے کار کا دروازہ کھولکر اندر بيٹھتےھوے کار اسٹارٹ کی,,,,,,,
ابھي لوگوں کا ھجوم ويسا کا ويسا ھی تھا۔
آھل نے کار آگے بڑھا کر ”مرش“ کے پاس روکی،شيشہ نيچے کرتے ھوے طنزيہ مسکراکرنظريں مرش پر مرکوز کی ,,,,مرش کار کے اتنے قريب تھی کی آھل کی آوازبخوبى سن سکتی تھی۔
“””نظروں سے قتل کرنے والے کا ھر قتل قبول ھے ۔“””
آھل نے کھتے ھوے sunglasses آنکھوں پر لگايا اور شيشہ اوپر کرتے ھوے تيز رفتاری سے آگے بڑھ گيا۔
“”پاس رہکر بھی ھميشہ وہ بھت دور ملا،
اس کا انداز تغافل تھا خداٶں جيسا۔“”
DO_Not_copy_paste_without_my_permisson
SANG_tu_Hae
BY_zariya_fd
EPI_4
بریرہ بہت نروس تھی ۔۔۔ کیوں کی آج کالج کا فرسٹ ڈے تھا ۔۔ ہر کسی سے انجان نا ہی کویی فرینڈ ۔۔۔ وہ کلاس میں بیٹھی آتے جاتے لوگوں کا ہجوم دیکھ رہی تھی۔ ۔ ۔۔ بریرہ کی خوبصورتی سب کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی ۔۔ اس کے لیے یہ سب بہت ٹف تھا۔ ۔
فارس آخر کار تھک ہار کر آفس خود چلا گیا ۔۔ بہت ہی غصےمیں آہل کی راہ دیکھنے لگا ۔ ۔۔۔۔
آہل شاہ آفندی کی بلیک چمچماتی ہویی گاڑی آٹھ منزلا عمارت کے سامنے آ کر رکی ۔۔۔ اس سفید سنگ مرمر سے بنی لوگوں کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی تھی ۔۔ AD GROUPS OF COMPANY “””””” ۔۔ جس کی شہرت ہر ملک میں پھیلی ہویی تھی ۔۔ ۔۔۔
گاڑی کا دروازہ کھول کر آہل شاہ آفندی باہر آیا ۔۔۔ آہل کو اپنا ہر کام زیادہ تر خود کرنے کی عادت تھی ۔ ڈرایور نوکر یے سب بہت کم تھا اس کی گڈ بکس میں ۔۔۔
آہل لمبے لمبے ڈگ بھرتا آفس میں داخل ہوا ۔۔
گڈ مارنگ سر “””” سبھی اسٹاف میمبر ادب سے کھڑے ہو گے ۔۔۔ کیوں کی اپنے باس کی سخت طبیعت سے سبھی واقف تھے ۔۔۔
گڈ مارنگ ۔۔ آہل سر کو ہلکا سا سر زنش کرتا ہوا بولا ۔۔
اپنے کیبن میں داخل ہوتے ہی سامنے فارس کا غصے سے لال چہرہ نظروں کرے تعاقب میں آیا ۔۔۔ آہل کچھ پل فارس کو دیکھتا رہا ۔۔
فارس ٹکی باندھے آہل کو دیکھ رہا تھا ۔۔
فارس تو کب آیا یار ؟؟؟ ۔۔۔ آہل نے مسکرا کر بات سمبھالنی چاہی ۔۔۔
کون میں ؟؟؟ فارس شہادت کی انگلی اپنی طرف مرکوز کرتے ہوے بولا ۔۔۔
ہاں ظاہر ہے تو ہی ۔۔ کیوں یہاں کویی اور بھی ہے کیا ؟؟
اہل اپنی بلیک کورٹ اتار کر چییر پر ٹکاتا ہوا بولا ۔۔۔
فارس ایم سوری ۔۔۔ ایک پرابلم میں پھنس گیا تھا ۔۔
آہل معذرت خواہ لہجے میں بولا ۔۔۔۔
آہل تو ایک بار مجھے بتا تو دیتا یار میں وہاں پر کھڑا تیرا انتظار کر رہا تھا تو ایک کال تو کر سکتا تھا ۔۔
یار بتایا تو ہے پرابلم میں پھنس گیا تھا ۔۔ ایک بدتمیز لڑکی سے ٹکر ہو گی تھی ۔۔آہل نے ایک بار پھر سے اپنی صفایی پیش کی ۔۔۔
یہ فایلز دینی تھی تجھے ۔۔ آج میری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے میں آفس آنے کے موڈ میں نہیں تھا ۔۔ فارس نے ناراضگی سے کہا ۔
روک میں چاے منگواتا ہوں ۔۔ پھر ٹھنڈا ہوگا تو ۔۔ “”” آہل کال کرتا ۔پیون کو دو کپ چاے لانے کے لیے کہا ۔۔ “””” اور ایک بار پھر سے فارس کی طرف متوجا ہوا ۔۔۔
کس لڑکی سے ٹکر ہویی تھی ۔؟؟۔ فارس کا موڈ اب تھوڑا بہتر ہو گیا تھا ۔۔ اس لیے اب اسے اتنا اہم سوال اسے یاد آیا تھا ۔۔
پتا نہیں یے تو نہیں جانتا !!!! ۔۔ آہل ابھی اس بدتمیز لڑکی کے بارے میں کچھ بولتا ۔۔ باہر سے دستک کی آواز آیی ۔۔۔
یس کم ان ۔۔ اندر سے اجازت آیی ۔
پیون ٹرے میں چاے کا دو کپ لیے داخل ہوا ۔۔
پیون کو آتا دیکھ ان دونوں کے بیچ مکمل خاموشی چھا چکی تھی__
دھیرے دھیرےلوگوں کا ہجوم ہٹا مرش اپنا بیگ اٹھاتی ثمرہ اور اریشہ کے ساتھ سیڈھیاں عبورکرتی کلاس میں داخل ہوئی ۔۔۔۔کچھ سٹوڈنٹس نیچے ہو۔نے والے تماشے کو دیکھ نہیں پاے کلاس مے ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔مرش نےشکرادا کیا۔۔۔وہ تینوں چلتی ہوئی اپنی جگہوں پر براجمان ہوئی۔۔۔۔ویسے مرش تم نے اچّھی خاصی انسلٹ کردی بیچارے کی۔۔۔۔اریشہ نے مہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔۔کیوں تمھیں اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے،،مرش نےجانچتی نظرو سے اریشہ کو دیکھا۔۔۔۔یار ویسے ہی کہ رہی ہوں لیکن قسم سے سمارٹنیس کیاغضب کی تھی۔۔۔۔اریشہ اہل کا شفاف چہرہ سوچتے ہوئے مسکرائی۔۔۔،،،،،شٹ اپ اگر میرے بس میں ہوتا تو اسکا منہ نوچ لیتی،،،””بدتمیز “” پتا نہیں کس ماں باپ کی بگڑی ہوئی اولاد تھا ،،،تھپپڑ لگاتی میں اسے دو چار ایک دو لفظ اور بولتا ،،،،مرش کا غصہ ساتہویں آسمان کو چھو رہا تھا،،،سمر کے کچھ یاد آنے پر اسنے مر ش کومخاطب کیا ،،،،یار تم نے یہ کیو ں کہا کےوہ تمہیں فالو کر رہا ہے،،سمرہ نے تنبیہ کیا۔۔۔وہ actully کل ہماری گاڑی سے اسکی ٹکر ہوگیی تھی””infact” ہوئی نہیں تھی مجھے یہ ہی پلان لگ رہا ہے مرش نےسر جھٹکتے ہویے بتایا۔۔۔یار نہیں اچّھے خاندان کا لگ رہا تھا_ہوسکتا ہے غلطی سے ہوئی ہو،،،چھوڑو یار تم لوگ ایک ہی ٹوپک لیکر بیٹھ گیی ہو۔۔۔مرش چڑچڑاتے ہوئے بولی.””
بریرہ ان لڑکیوں کی باتیں سننے میں مگن تھی۔۔۔اسے ان لڑکیوں کی باتیں سننےمیں مزا آرہا تھا۔۔۔ہلکے سے مسکرائ اور پیچھے کی طرف مڑکر دیکھا۔ ۔۔تین لڑکیاں بات کرنے میں مصروف تھیں۔ ۔۔مرش کی نظر اچانک بریرہ کی طرف گی “”یار وہ کون ہے””مرش کے سوال پرسمر ا اور اریشہ نے بھی بَریر ا کو آنکھوں کے حصار میں لیا۔۔۔۔شاید نیو سٹوڈنٹ ہے۔۔ سمرہ نے اپنی راۓ کا اظہار کیا۔۔۔چلو اسکے پاس چلتے ہیں اریشہ جلد از جلد بریرا کے پاس پہنچنا چاہتی تھی۔۔۔رکو مرش نے ہاتھ پکڑ کر رکنے کو کہا۔۔۔کلاس ختم ہونے کے بعد چلیں گے۔۔۔
اریشہ برا سا منھ بناتی بیٹھ گیی۔۔۔
گڈ مارننگ میم مس رشنا کے کلاس میں داخل ہوتے ہی سارے سٹوڈنٹ ادب سے کھڑےہوے۔ ۔۔
گڈ مارننگ مس رشنا نے فریش مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا _ “”sit down””مس رشنا نے بیٹھنے کو کہا اردو کی کتاب میں نظریں جماےکچھ پڑھانے کے لئے جیسے ہی منہ کھولا انکی نظریں بلکل سامنے بیٹھی مرش پر گیی جو کی اس وقت کھسر پھسر کرنے میں مگن تھی چیونگم منہ میں چباتی کسی معصوم گڑیاسے کم نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔مرش سرفراز احمد !،مرش کو اپنا نام بلاتا ہوا کوئ لگا,,, اس نے یہاں وہاں نظریں دوڑائ ۔۔۔سبھی سٹوڈنٹ مرش کےچہرے پر ٹکی باندھے ایک ٹک دیکھ رہے تھے ۔۔۔”standup”مس رشنا نے حکم کیا””” مرش چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھتی ہوئی کھڑ ی ہوی،،،کیا کھا رہی ہیں آپ ؟؟مس رشنانے مرش کے چلتے ہوے منہ کو بغور دیکھتے ہوے پوچھا۔۔۔آ۔۔آ۔۔وہ۔ ۔آ میں وہ۔ایکچولی وہ میں کچھ بھی نہیں۔ ۔۔مرش کے چہرے کی ہوائیاں اڑرہی تھی سمرہ اریشہ کتاب می۔ منہ گھساےکھی کھی کرنے میں مصروف تھی مرش ہواس باختہ کچھ با معنی لفظ بول کر رہ گی ۔۔۔۔ مس رشنا کی سوالیہ نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں
اگر آپ کو کلاس میں رہنا ہے تو پلز اپنی بچو ں جیسی حرکتیں بند
کردیں ۔۔۔۔مس رشنا شاید آج اچھی خاصی مرش کو سنانے کے موڈمیں تھی۔۔۔ایم سوری میم مرش رو دینے کو تھی،،،، But next tine u careful ,ok __ ok میم مرش اداس سی شکل بناتے ہوئے بیٹھ گیی۔۔۔۔۔۔پوری کلاس میں ایک بار پھر سے خاموشی چھا گیی۔۔۔۔۔
“”MAY I come in Sir”” مسز آفاق باہر کھڑی اجازت طلب نظروں سےآهل کو دیکھ رہی تھی
“یس” اہل نے ہلکے سے سرزنش کی ۔۔۔السلام علیکم سر ان فائل پر آپ کی signature چاہیے ہم وہ پروجیکٹ تیّار کر چکے ہیں نیکسٹ ویک آپ کی حمدان صاحب کے ساتھ میٹینگ ہے۔۔۔۔
اوکے اہل فائل پڑ signature کرتے ہوے کچھ کاغزی سوالات بھی کئے جن کا جواب مسز آفاق بخوبی دے رہی تھیں
“WELDONE”
اہل نےمسکراتے ہوئے انکی تعریف دبے لفظوں میں کی اہل کی مسکراہٹ ان کےلئے حیرت زدہ تھی بہت کم ہی آهل آفندی مسکراتا تھا۔۔۔مسز آفاق فائل اٹھاتے کمرے سے باہر چلی گیں ۔۔۔
یہ لیں چاے فائزہ بیگم چاے کا کپ تھماتی بیڈ کے کچھ فاصلے پر بیٹھی سرفراز صاحب سے مخاطب ہوئیں۔۔۔
مرش کے بارے میں کیا سوچا ہے اپنے پوری زندگی پڑھانا ہی ہے یا آگے بھی کچھ سوچا ہوا ہے۔۔۔۔فائزہ بیگم کی بات سن سرفراز صاحب کچھ سوچتے ہویے مسکراے اور پر سکون لہجے میں گویا
ہویے،،، مرش ہماری اکلوتی بیٹی ہے۔۔آپ جانتی ہیں نا کتنی منتوں کے بعد رب نے اسے ہماری جھولی میں ڈالا ہے۔۔۔
ابھی اپنی بیٹی کی خواہشات پوری کرونگا وہ ایم ایس سی میں ماسٹرز کرنا چاہتی ہے۔۔۔سرفراز صاحب مرشکی خواھشات کے بارے میں بتاے ۔۔۔۔۔کوئی ضرورت نہیں ہے،،،فائزہ بیگم دوٹوک لہجے میں بولی۔۔۔بیٹیاں جتنی جلدی اپنے گھر کو رخصت ہوجاییں اچّھا ہے۔۔۔۔انکے لئے بھی اور ماں باپ کے لئے بھی،،،وہ تو جیسے آج ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہ رہی ہوں۔۔
بھی فائزہ ابھی ہماری بیٹی کی عمر ہی کیا ہے ،، اسکے اندر ابھی بہت ہی بچپنا ہے سرفراز صاحب اپنی بیٹی کی حرکتیں سوچ کر مسکراتے ہوئے بولے۔۔۔کچھ بھی ہو جلد ہی کوئی فیصلہ کیجئے اولاد جب بدی ہو جائے ماں باپ کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔۔۔۔فائزہ بیگم کہتی چاۓ کا کپ اٹھا ے کچن کی راہ لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
DO_Not_Copy_Without_My_Prmison
sang_jo_tu_hae
By_zariya_fd
EPI_5
کلاس ختم ہوتے ہی سبھی سٹوڈنٹس اپنی اپنی باتو مصروف ہو گئے ۔۔۔۔کچھ سٹوڈنٹس کلاس سے باہر چلے گئے کچھ کلاس میں ہی بیٹھے کے گپ شپ میں مصروف تھے ۔۔۔
ہاے،،،وہ تینوں بریرہ کے سر پر موجود تھیں
ہیلو بریرہ مسکرا تی ہوئی جواب دی۔۔۔۔
“”نام کیا ہے تمہارا”” مرش بریرہ کو یوں مخاطب کی جیسے کوئی پرانی جان پہچان ہو۔۔۔۔۔””بریرہ جاوید شاہ آفندی”” بریرہ نے جھٹ سے اپنا نام بتایا،،،
اور آپ لوگوں کا،،،،،اریشہ جیسے اسی موقع کی تلاش میں نے تھی۔۔۔۔میں اریشہ عباد اور ے میری فرینڈ مرش سرفراز احمد
اور ثمرہ نعمان ہماری ایک اور فرینڈ ہے زاراعبّاس لیکن کل اسکا برتھڈے اسلئے وہ آج نہیں آیی۔۔۔۔۔
اچّھا بریرہ کو یہ نٹ کھٹ لڑکیاں کافی اچّھی لگی تھیں۔۔۔۔۔
تمہارا نیا ایڈ میشن ہے کیا؟؟؟ثمرہ کے سوال سے بریرہ کو ہنسی آگی۔۔۔جی میرا نیو ایڈمیشن ہے
Actully I Iived in london
بٹ وہاں سے پڑھائی کومپلیٹ کرکے وآپس آگئی ۔۔مجھے اردو پڑھنے کا بہت شوق تھا تو یہاں addmisson لے لیا اردو کی کلاس کا ۔۔بریرہ نے اپنی بات ختم کی ۔۔کچھ دیر کی گفتگو کے باد ان تینوں کی بریرہ سے اچّھی بورڈنگ ہو ہو چکی تھی ۔۔مرش ریسٹ واچ پر ڈیلتے ہویے بولی یار ٹائم کافی ہو گیا ہےاب چلنا چاہیے ثمرہ اور اریشہ نے ہاں میں ہاں ملائی ۔تم بھی کیوں نہیں آتی کل ایک چھوٹی سی پارٹی ہے ۔اریشہ نے بھی انوائٹ کرنے کی کوئی کثر نہ چھوڑی ہاں یار پلیز آنا ۔۔ارے نہیں پھر کبھی ابھی آپ لوگ جاہیں ۔لٹ ہو رہا ہے ۔۔۔بریرہ کو انکار کرنے کا کافی بہانہ سوچ رہا تھا ۔۔اچّھا ٹھیک ہے پھر ملیں گے byee see u وہ تینوں ہاتھ ہلاتی کلاس سے باہر چلی گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسٹر شہروز مارکیٹ میں اپنا مرجن رکھنا کویی خاص بات نہیں ۔۔۔ آہل کی اس وقت میٹنگ اس وقت کسی خاص معاملے پر ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ فارس سامنے والی کرسی پر بیٹھا اپنے دوست کی صلاحیت کو نظر بھر کے دیکھا ۔۔۔۔۔۔ خدا نے ہر چیز سے آہل کو نوازا تھا ۔۔۔ خوبصورت دل ۔۔۔جو دنیا کے لیے تو نہیں ہاں لیکن فارس کے لیے ضرور تھا ۔۔۔ہر آشایش سے بھر پور ۔۔۔۔ فارس کی صلاحیت بھی کسی سے کم نہیں تھی ۔۔ آہل کے بہت اسرار کرنے پر ہی فارس آہل کے آفس میں جاب کرنے کے لیے راضی ہوا تھا ۔۔۔۔ شاید وہ دوست کا احسان نہیں لینا چاہتا تھا ۔۔۔ دیکھیے مسٹر آہل ہمارا پروفیٹ دس پرسینٹ کم ہوگا ۔۔۔۔۔ اور ہمارا نقصان ہوگا ۔۔۔۔۔۔
مسٹر شہروز پیسے کے پیچھے بھاگنے والا انسان کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔۔۔
اوکے فاین ہمیں آپ کے ساتھ کویی ڈییل نہیں کرنی ۔۔۔
آہل غصے سے کہتا سب کچھ چھوڑ کر میٹنگ روم سے باہر آیا ۔۔۔انتہاہی غصے کے عالم میں
اپنے کیبن میں آتے ہوے آہل نے ٹیبل پر ہاتھ کے زریعے ایک کک ماری ۔۔۔۔ فارس آہل کو پیچھے سے آواز دیتا کیبن میں آیا ۔۔۔۔ اور پر سکون ہوتا ہوا chair پر براجمان ہوا ۔۔۔۔ ٹہرے ہوے لہجا میں بولا ۔۔۔
یار آہل چھوڑ اس شہروز کو گھٹیا انسان دس پرسینٹ کے لیے مرا جا رہا ہے اور ویسے بھی نقصان اس کے بزنس کا ہوگا انسلٹ اس کی ہوگی ۔۔۔۔۔ ہماری نہی ۔۔۔!!!!! فآرس آہل کو پانی کا گلاس پکڑاتے ہوے آہل کے غصے کو کم کرنے کی جوڑ توڑ کوشش کر رہا تھا !!!!!
بریرہ کلاس روم سے باہر آیی کیفے میں بیٹھ کر آہل کا انتظار کرنے لگی !!! کافی کا آڈر کر کے بریرہ موبایل میں مگن ہو گی۔۔۔۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بریرہ نے تھک ہار کر آہل کو کال کی !!!! ہیلو بھایی آپ کہاں ہے میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں میرا کالج کب کا آف ہو چکا ہے !!! بریرہ نان اسٹاپ بولتی گی اسے اندازہ ہی نہیں ہوا دوسری جانب کون اس ساہرہ کے سحر میں گرفتار ہو رہا ہے !!! بھایی ؟؟؟
کویی رسپانس نا ملنے بریرہ نے ایک بار پھر سے آہل کو پکارا !!!!
اں اکیچولی آہل کچھ کام سے باہر گیا ہے !!! موبایل آفس میں ہی بھول گیا ہے !!!
بریرہ کا منھ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا !!! OH سوری میں سمجھی بھایی آپ پلیز بھایی سے کہہ دے میں ان کا انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔ “””” بریرہ نے جلدی جلدی بات ختم کرتے ہوے کال ڈسکنیٹ کر دی !!!
,*
موبایل کی اسکرین پر بریرہ کا نام جگمگاتا دیکھ فارس نے مسکرا کر نام زیرلب دہرایا !!! کچھ دیر بعد آہل کیبن میں داخل ہوا !!! فارس نے انجان بنتے ہوے موبائل آہل کے ہاتھ میں میں پکڑایا !!! یار کسی بریرہ نامی لڑکی کا کال آ رہی تھی ۔۔۔ آہل اور فارس کے درمیان بہت کم فیملی کے بارے ڈسکشن ہوتا تھا ۔۔۔۔ بریرہ پڑھایی مکمل کرنے کے لیے لندن چلی گی تھی ۔۔۔ اس کی واپسی پر بھی آہل نے کبھی ذکر نہیں کیا تھا ۔۔۔ حالانکی فارس کو پتا تھا آہل کی ایک بہن بھی ہے لیکن کبھی دیکھ نہیی سکا !!! بچپن میں اسے گول مٹول سی سی ننھی بریرہ کا چہرا ہلکا ہلکا ذہن پر نقش تھا !!! فارس ایک بار پھر سے فایلز میں مگن ہو گیا تھا !!!!
آہل پریشان سی حالت میں آفس سے باہر آتا ہے گاڑی کو انلاق کرتا دروازہ کھول کر بیٹھا گاڑی کو تیز رفتاری سے بریرہ کے کالج کی طرف گامزن کر دی !!!
اللہ اللہ کر کے ان تینوں نے گفٹ لیا زارا کی برتھڈے کے لیے !!! مرش تو کل ہی گفٹ لینے کے لیے نکلی تھی !! اس ایکسیڈینٹ کے بعد مرش کی ہمت نیہں تھی گفٹ لے کر گھر جاے !!! لہزا کل کی نسبت اس نے آج گفٹ لیا !!! ایک دو سیلر مین سے تو مرش کی اچھی خاصی بحث ہو گی تھی !!!
فایزہ بیگم کا پریشانی سے برا حال تھا !!! مرش کو کال کر کر تھک گی تھی لیکن مجال ہے جو اس لڑکی نے کال ریسیو کی ہو ۔۔۔۔۔ فایزہ بیگم کا کسی انہونی ہونے کی دستک سے دل لرز اٹھا ۔۔!!!!!
بریرہ کا پریشانی سے برا حال تھا اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندے ٹپکنے لگی تھی !!!! بس ایک دو لوگ ہی رہے گے تھے !!! جن سے بریرہ کی ہمت تھوڑی بہت بچی تھی !!! آہل کی خوبصورت بلیک کار گیٹ کے پاس رکی !! آہل دروازہ کھولتا تیزی سے بریرہ کے پاس آیا !!! ایم سوری میری جان !!
آہل کی مریم بیگم کے ساتھ لاکھ دشمنی سہی لیکن بریرہ کے لیے اس کے دل میں ہمیشا عزت اور احترام تھا !!!! کیوں کی اس کے ماضی میں بریرہ کا کویی قصور نظر نہی تھا !!!!! آہل بریرہ کا ہاتھ تھامے گاڑی کے پاس لے گیا دروازہ کھولتا بیٹھنے کو اشارہ کیا !!!!!
آہل کو سامنے دیکھ کر بریرہ کی سانس بجال ہویی !!!
آیس کریم کھانے چلے ؟؟؟
آہل اپنی غلطی کی تلافی کچھ اس طرح سے کرنا چاہا !!!
نہی بھایی دل نہیں چاہ رہا !!
بریرہ طمانیت سے مسکراتی ہویی بولی !!!
ان تینوں نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی !!! مرش دبے قدموں گھر میں داخل ہویی فایزہ بیگم کی نظر اس پڑی اور غصے سے چلتی ہویی اس کے پاس آیی !!!! “”””” مرش یے وقت ہے تمہارے گھر آنے کا !! فایزہ بیگم دیوار گیر گھڑی کی طرف نظریں مرکوز کرتی ہویی بولی !!! فایزہ بیگم زمانے سے خوف کھاتی تھی !!!
ایم سوری امی ۔۔۔۔ اب کبھی لیٹ نہی ہوگا !!! مرش کو صہیح معنوں میں شرمندگی ہو رہی تھی !!
فایزہ بیگم بلا وجا زمانے سے نہی ڈرتی تھی !! زمانے ہی اتنا خراب ہے !!! ۔۔۔ نہی اگر دیکھا جاۓ تو زمانے نہی زمانے میں رہنے والے لوگ خراب ہے !! ہم تو زمانے کو خواہ مخواہ ہی بدنام کر کے رکھے ہے !!!
امی اب کبھی لیٹ نہیں ہوگا ایی پرامس یو !!! ۔۔۔۔۔۔۔ مرش آج یے آخری مرتبا معاف کر رہی ہوں آج سے ایسی گلتی کبھی نہی کروگی ؟؟ ٹھیک ہے امی کبھی نہیں وادا کرتی ہوں آپ سے !! مرش معصوم سی شکل بناتے ہوے بولی !!! چلو ہاتھ منھ دھو کر کھانا کھاو !!! فایزہ بیگم کہتی کھانے لگانے میں مصروف ہو گی !!
کھانا کھانے کے بعد مرش اپنے کمرے میں آیی !! تھکن کی وجا سے بدن میں کراہیت ہو رہی تھی ۔۔۔۔ کل پارٹی میں اسے فریش دکھنا تھا ۔۔ مرش ابھی سونے کے لیے لیٹی ہی تھی !! آنکھیں بند کرتے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سامنے آہل شاہ آفندی کا مسکراتا ہوا چہرا سامنے آیا !! مرش جلدی سے اٹھ بیٹھی مرش کی نیندیں آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔۔۔۔ کس وجا سے وہ خود انجان تھی !!! اس نے اٹھ کر کھڑی سے پردے ہٹاے چمکتا چاند پوری آب و تاب سے روشنی دے رہا تھا ۔۔۔ مرش اپنی ہی سوچوں میں محو تھی !!!
“”نظروں سے قتل کرنے والے کا ہر قتل قبول ہے “”!! بہت ہی انجان مسکراہٹ نے مرش کے ہونٹوں پر احاطا کیا !!!
مرش خود کو سر زنش کرتی کھڑی بند کی !! بیڈ پر لیٹتے ہوے اس نے آہل شاہ آفندی کو دو چار گالیوں سے نوازا !!
نیند نے اب اس کے اوپر قبضا کر لیا تھا !! مرش آج معمول سے پہلے سو گی تھی صبح پارٹی میں جو جانا تھا !!!!! ۔۔۔۔۔۔۔
,*
اہل پیچھے سے کسی نے آواز دی۔۔۔۔اہل نے گردن موڈی پیچھے مریم بیگم اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑی تھیں
جی اہل جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا،،،اور بہت ہی برداشت کے ساتھ ان کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔
یہ دودھ لائی تھی میں،،،،فائزہ بیگم دودھ کا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
کس خوشی میں اہل نے ہنس کر پوچھا ،،،
پرابلم کیا ہے آپ کی ،،،نہیں آپ کو ہزار بار بتا چکا ہوں ،،،دور رہا کریں مجھسے ،،،شاید آپ کو میری بات سمجھ نہیں آتی ۔۔۔۔۔
اپنا یہ گلاس اٹھایں اور جایئں یہاں سے پلیز ۔۔۔۔۔
اہل نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا_ اہل میری جان!میں تمہاری ماں ہوں۔مریم بیگم کی آنکھوں سے کچھ موتی ٹوٹ کر گرے۔۔۔ مآئیں تو ایسی نہیں ہوتیں۔۔۔میری ماں کو مجھ سے چھین کر آپ ماں ہونے کا حق جتا رہی ہے۔ اہل کے لہجے میں بدتمیزی نمایاں تھی _اہل تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو،،،،میری بات تو سنو ،،
مریم بیگم آگے بڑھتی اسے پہلے اہل نے جوس کا ٹرے ان کے ہاتھ میں تھما دیا ۔۔۔۔
وہ رہا باہر جانے کا راستہ،،،اہل باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،،،
مریم بیگم آنسوں پوچھتی ایک نظر اہل پر ڈال کر کمرے سے باہر چلی گیں
ہارے ہوئے انسان کی طرح اہل بیڈ پر گر پڑا،،،اور اپنی آنکھیں موند لی ۔۔۔۔۔
DO_Not_copy_without_my_permission
sang_jo_tu_hae
BY_zariya_fd
EPI_6
مرش آج وقت سے پہلے اٹھ گیی تھی ۔۔۔۔اسکو خوشی کی وجہ سے نیند نہیں آرہی تھی ۔۔۔
۔دس بجے کے قریب اسنے ناشتہ کیا اور تیار ہونے کے لئے کمرے میں آگئی ،،
،زارا کی برتھ ڈے کے لئے وہ بہت ایکساٹیڈ تھی۔۔۔
شاور لینے کے بعد اسنے اپنے گیلے بالوں کو کھلا چھوڑ دیا،اورینج کلر کا ڈریس نکال کر اسنے زیب تن کیا کومبنیشن اورینج کے ساتھ ہلکی جیولر ی پہنی, جو کے بہت ہی نفیس قسم سے آراستہ تھی ۔ اس نے کھلے بالوں سے ایک بار پھر سے برش کیا۔۔۔۔گلابی گالوں پر ننھا سا ڈمپل جو اسکی خوب صورتی کو چار چاند لگا رہا تھا ۔۔۔،،
ستواں ناک، آنکھیں بهوری ہونٹ شر بتی جیسے ہنسی ہو تو کی موسم ہنس پڑے ہوں،،پتلی اور خوبصورت کلائی میں خوبصورت گولڈن بریسلیٹ ڈال کر کالی چادر کو ارد گرد پھیلاتے ہوئے ،میک اپ کا آخری ٹچ دیا ۔۔۔۔ نفیس سی میڈیم سایز کی ہیل اپنے موم جیسے پیروں میں پہنا ۔۔ جلدی سے فائزہ بیگم سے دعایں لی ۔۔
مرش جس طرح جانے کی جلدی ہے اسی طرح آنا بھی جلدی”””” فایزہ بیگم مرش کو ہدایت دیتے ہوے بولی ۔۔۔
ٹھیک ہے امی ۔۔۔ پرامس جلدی آوں گی ۔۔ مرش مسکراتی ہویی بولی ۔ سرفراز صاحب گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوے روڈ پر لے آے ۔۔ بابا ان لوگوں نے گاڑی بھیج دی تھی کیا مرش اس وقت حیران ہوتے بولی ۔۔
ہاں بیٹا اسی دن رات کو بھیج دی تھی ۔۔ سرفراز صاحب نے جواب دیا ۔۔۔۔
گآڑی زارا کے گھر کے باہر جا کر رکی ۔۔
مرش واپسی کس ٹایم ہوگی بیٹا ؟؟ “”” سرفراز صاحب مرش کو دیکھتے ہوے بولے ۔۔۔۔
آپ پریشان نا ہو بابا ۔۔ ثمرہ مجھے ڈراپ کر دے گی ۔۔ مرش مسکراتی ہویی بولتے ہوے ہوے گھر کی جانب قدم بڑھا دی ۔۔۔
اندر زیادہ لوگ نہیں تھے ۔۔ پھر بھی مرش بہت نروس تھی ۔۔ مرش کا وہاں بہت اچھا استقبال ہوا ۔۔۔ کچھ لوگ تو مرش کی خوبصورتی دیکھ کر سرگوشیاں کرنے پر مجبور ہو گے ۔۔۔۔۔
ہاے !!! “”””
۔ ۔۔۔ مرش کو اپنے عقب سے آواز آیی ۔۔۔
اس نے گردن موڑ کر دیکھا ۔۔ سامنے ایک نوجوان ہاتھ کی انگلیوں میں سگریٹ پھنساے مرش کو نظروں کے حصار میں لیا ۔۔
۔۔۔ مرش نے سرسری سی نظر اس شخص پر ڈالی جو مسلسل اسے گھورے جا رہا تھا مرش کو اسکی نظروں سے الجھن ہونے لگی تھی اور اسے نظر انداز کرتی ہوئی قدم آگے کی طرف بڑھا لی ۔۔علی کو مرش کا یوں نظرانداز کرنا ایک آنکھ نہ بھایا ،،،اسنے اپنا سرخ چہرہ لئے غصےکو ضبط کرتا وہیں کرسی پر براجمان ہوا__
کچھ دیر کی گفتگو کے بعد کیک کٹا ۔۔ اور خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا ۔۔۔ مرش کو اب گھر جانے کی جلدی تھی ۔۔۔
مش ۔۔۔ ثمرہ گھبراتی ہویی مرش کے پاس آیی ۔۔۔
ہاں ۔۔ تم اتنی پریشان کیوں ہو ۔۔ مرش جانچتی ہوی نظروں سے ثمرہ کو دیکھتے ہویی بولی ۔۔۔
یار ۔۔ ماما کی کال آیی تھی بابا کی طبعیت اچانک خراب ہو گی
مجھے جانا ہوگا ۔۔ ایم ریلی سو سوری ۔۔ ثمرہ پریشان ہوتی ہویی بولی ۔۔۔
اچھا کویی بات نہیں تم جاو میں چلی جاوں گی ۔۔
مرش ثمرہ کو تسلی دیتے ہوے بولی ۔۔
ثمرہ الٹے قدموں واپس چلی گی ۔۔
اب میں کس کے ساتھ جاوں ؟؟؟ ۔ مرش پریشان ہوتی ہویی زارا سے بولی ۔۔ میں ڈراپ کر دوں ؟؟ “”” ۔۔ علی موقع کا فایدہ اٹھاتا ہوا بولا ۔۔
ن ۔۔۔ نہیں مرش ابھی انکار کرنے کے منھ کھولی ۔۔ زارا بیچ میں بول پڑی ۔۔ ارے مرش علی بھایی تمیں ڈراپ کر دیں گے ۔۔ بہت بھروسے کے انسان ہے ۔۔ زارا کو علی کے بارے میں جیسا بتایا گیا تھا ۔۔ ویسا ہی اس کے اوپر بھروسا کرتی تھی ۔ ۔۔ اچھا ٹھیک ہے ۔۔ مرش جانے کے لیے تیار ہو گیی ۔۔ کیوں کی اس کو گھر جانے کی بہت جلدی تھی ۔۔ زارا سے گلے مل کر زارا کے والدین سے سلام دعا کرتی وہ گاڑی میں آ کر بیٹھی ۔۔۔ “”” علی گاڑی میں پہلے سے ہی موجود تھا ۔۔
مرش کو اندر ہی اندر گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی ۔۔
تمہارا کویی بواے فرینڈ ہے ؟؟ “”” باتوں کا آغاز علی کی طرف سے ہوا ۔ ۔
نہیں مجھے بواے فرینڈ کی کویی ضرورت نہیں ہے ۔۔ مرش نے تحمل سے جواب دیا ۔۔
تو بنا لو ۔۔ علی اپنی طرف اشارہ کرتے ہوے بہت ہی خبیث مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔۔۔ میں نے کہا نہیں ،،، مجھے ضرورت نہیں ہے ۔۔ مرش غصے سے بولی
۔۔ لیکن مجھے تو ہے “””” علی مرش کا ہاتھ پکڑتے ہوے بولا ۔۔
یے یے ۔۔کیا حرکت ہے بکواس بند کرو ۔۔۔
مجھے چیپ باتیں بلکل پسند نہیں ۔۔۔
چیپ لوگ تو پسند ہیں نا ۔۔ علی خباثت سے مسکراتے ہوے بولا ۔۔
گھٹیا انسان ۔۔ منھ بند کرو اپنا ۔۔ اسکی چیپ باتوں سے وہ ڈر گیئ ۔۔۔علی اس سے پہلے کچھ اور کرتا۔۔۔۔ مرش اپنے نکیلے دانت علی کی ہاتھوں میں گاڑ دی
آہ ۔۔۔ علی کی چینخ بہت درد ناک تھی ۔۔
مرش موقع پاتے ہی گاڑی سے اتری ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کی علی گاڑی اسٹارٹ کر دیتا ۔۔۔ دیکھ لوگا تمہیں ۔۔ علی غصے سے بولا ۔۔
مرش خود کو بچانے کے لیے دوڑتی ہویی کچھ آگے آیی ۔۔ آچانک اس کی ٹکر کسی گاڑی سے ہویی مرش اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی ۔۔ مرش ایک جھٹکے سے زمین پر گر گیی ۔۔
آہل شاہ آفندی گاڑی کا دروازہ کھول کر جلدی سے باہر آیا ۔۔
اگر آپ کو اتنا ہی مرنے کا شوق ہے تو پلیز کسی چھت سے چھلانگ لے وہ موت زیادہ بہتر ہوگی ۔۔ آہل غصے سے بولتا ہوا مرش کا بازوں دونوں ہاتھوں سے دبوچ کر کھڑا کرتا ہوا بولا ۔۔
سامنے وہی آنسووں سے بھری بھوری آنکھیں جو آہل کے ذہن پر نقش ہو چکی تھی شام کے وقت سڑک تھوڑا سنسان تھی اس حالت میں دیکھ کر اسے شدید حیرت کا جھٹکا لگا۔۔۔آ پ ٹھیک تو ہیں ؟؟ اہل نے نرم لہجے میں پوچھا _مرش جو پہلے سے ہی گھبرایی تھی ،،،،،اس وقت اس کی سمجھ میں
کچھ نہیں آ رہا تھا ۔۔ کیوں کی وہ فایزہ بیگم کو سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی ۔
۔ مرش نے اپنی کالی سیاہ پلکیں اٹھایی سامنے اس شخص کو کھڑا پایا ۔۔۔جس کی امید نہیں تھی اس کو ۔
۔ اسے اس وقت ناجانے کیوں محسوس ہو رہا تھا ۔۔
جیسے وہ کسی محفوظ ہاتھوں میں آ گی ہو ۔۔ اب اسے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔اسنے بنا کچھ سوچے سمجھے آہل کی شرٹ اپنی انگلی میں دبوچ لی بلا جھجک وہ آہل شاہ آفندی کے گلے لگ گی ۔۔ آہل ابھی اس افتاد کے لیے تیار نہیں تھا ۔۔ وہ حیرت ذدہ مرش کو صرف دیکھنے لگا ۔۔۔
چلو میں آپ کو ڈراپ کردوں۔۔ اہل کے کہنے پر وہ جیسے ہوش میں آیی اور جلدی سے پیچھے ہوئی,,,,,,
اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اندرجا بیٹھی ۔۔ ملگجا سا اندھیرا ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔ گاڑی کے اندر ہلکا سا اندھیرا تھا ۔۔۔ مرش کو اندر گھٹن محسوس ہو رہی تھی ۔۔ اس نے چہرے سے شال ہٹا دی ۔۔
آہل کا ہاتھ نا چاہتے ہوے بھی لایٹ آن کی بٹن کی طرف بڑھ گیا پورے گاڑی میں روشنی کا چوکا چوند ہو گیا ۔۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں مرش سرفراز احمد ۔۔۔ آہل شاہ آفندی کی نظریں ملی ۔۔
آہل شاہ آفندی مرش کو اس طرح دیکھ رہا تھا گویا اس سے پہلے کبھی لڑکی دیکھی ہی نہیں ۔۔
اتنے ندیدے پن سے کیوں دیکھ رہے ہو ۔۔
مرش شال کو اپنے ارد گرد اچھے سے لپیٹتی ہویی بولی ۔۔
شاید آپ مجھے اچھی لگ گی ہے ۔۔ آہل کی زبان بے ساختا پھسلی ۔۔۔
کک ۔۔۔کیا مطلب دیکھو مسٹر میں اکیلی ہوں تو اس کا یے مطلب نہیں تم مجھ سے پ
فری ہوگے ۔۔کچھ بھی تھا ۔۔
ان سب کے دوران آہل کے خیال سے بلکل نکل گیا تھا اس نے بریرہ کو بھی پک کرنا ہے ۔۔
تبھی موبایل کی وایبریشن ہویی ۔۔ آہل نے ایک ہاتھ کے سہارے سے اسٹیرنگ سمبھالتا دوسرے ہاتھ سے کال اٹینڈ کی ۔۔
بھایی آپ کہاں رہ گے ہے ۔۔ میں آپ کا کب سے انتظار کر رہی ہوں ۔۔”””” دوسری جانب سے بریرہ کی پریشانی سے ڈوبی حالت میں آواز آیی ۔۔۔!!
اوہ ۔۔ ایم سوری میری (جان) ۔۔۔۔ ذہن سے بلکل نکل گیا تھا ۔۔
جان “””” ۔۔۔ اس الفاظ کو سنتے ہی مرش کے دونوں کان کھڑے ہو گے ۔۔
دراصل ایک مصیبت میں پھنس گیا ہوں ۔
۔ آہل شاہ آفندی “مصیبت” کا الفاظ دہراتے ہوے مرش پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی ۔۔
لفنگا ۔۔ نا جانے کتنی بے چاری معصوم لڑکیوں کو پھنسا کر رکھا ہے ۔۔۔ مرش کے ذہن تیزی سے چلنے لگا تھا ۔۔۔
یو ڈونٹ وری ۔۔میں بس پانچ منٹ کے اندر فارس کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں ۔۔
مرش دھیرے۔۔۔ دھیرے پوری جوڑ توڑ کوشش کرتی آہل کے کان سے لگے موبایل کی طرف اپنا کان لایی ۔۔ دوسری جانب سے آتی آواز مرش سننے کے لیے بے چین تھی۔۔۔۔
بھایِی پلیز جلدی بھیجیں میں انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔
اوکے ۔۔ جسٹ ٹو منٹ ۔۔ آہل بریرہ کو تسلی دیتا موبایل کان سے ہٹایا ۔۔
۔۔۔۔۔ یے کیا حرکت ہے ؟؟؟ ۔۔ مرش کی چوری پکڑی جا چکی تھی ۔۔
کک کون سی حرکت ۔۔۔۔ تمہیں کیا لگ رہا ہے میں تمہاری باتیں سن رہی ہوں ۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ۔ دراصل میں کسی کی باتیں سنتی ہی نہیں ۔۔ یے سب میری عادت نہیں ہے ۔۔ “””” ۔ مرش اپنی صفایی میں کچھ زیادہ ہی بول گی تھی ۔۔۔۔
ایک منٹ ایک منٹ ۔۔۔ میں نے یے کب کہا آپ میری باتیں سن رہی ہے ۔۔۔
آہل موبایل اسکرین پر نظریں ہٹا کر مرش کے چہرے پر مرکوز کرتا ہوا بولا ۔۔
!!!۔۔۔۔ضروری نہیں ہر بات کہی ہی جاے کچھ باتیں سوچی بھی جا سکتی ہے ۔۔
مرش نظریں چراتی ہویی بولی ۔۔
ان سب کے دوران مرش راستا بھی گایڈ کراتی جا رہی تھی ۔۔۔
ویسے مجھے لگ نہیں رہا تھا ۔
۔ آپ میری باتیں سن رہی ہے ۔۔۔
مجھے یقین تھا ۔۔۔
آپ میری باتیں سن رہی ہے ۔۔۔
آہل شاہ آفندی کے سرخ ہونٹوں پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ رینگ گیی تھی ۔۔۔۔
مرش نے خاموش ہی رہنے میں عافیت سمجھی ۔۔۔۔
مرش کو لاجواب کرتا آہل فارس کو کال ملانے لگا ۔۔۔۔
Episode_ 7
Sang_ Jo_ tu_ hae
By_ Zariya
آہل نے فارس کو کال ملایی ۔۔۔ دوسری جانب سے کال ریسیو کر لی گی تھی ۔۔
فارس یار میں اس وقت کسی کام میں پھنس گیا ہوں ۔۔ بریرہ میرا ویٹ کر رہی ہے ۔۔ تم پلیز جا کر اس کو پک کر لو ۔۔ آہل دوسری جانب سے جواب کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے لیکن میں پہنچ گا کیسا ۔۔ میرا مطلب کالج کا نیم کیا ہے ؟؟ ۔۔ فارس الجھتے ہوے پوچھا ۔۔ ٹھیک ہے میں تجھے اور بریرہ کا کانٹیکٹ نمبربھی دے رہا ہوں ۔۔ تو آسانی سے پہنچ سکتا ہے ۔۔ آہل اس کی الجھن کو دور کرتے ہوے بولا ۔۔۔۔
اوکے یار ۔۔ کال کٹ ہو چکی تھی ۔۔
بریرہ کا نمبر فارس کو مل چکا تھا ۔۔ گاڑی کی چابھی اٹھاتا فارس ایک نظر آینے میں خود کو دیکھا ۔۔ اچھا خاصا ہینڈسم دکھ رہا تھا ۔۔ جس پر کسی بھی لڑکی کا دل آ سکتا تھا ۔۔۔ گاڑی کو اسٹارٹ کر کے فارس نے بریرہ کو کال ملایی ۔۔
ہیلو ؟ ۔۔ بریرہ نے کال ریسیو کی ۔۔
ہاے میں فارس بات کر رہا ہوں ۔۔ ایکچولی آہل نے مجھ سے کہا ہے میں آپ کو پک کو لوں ۔۔
کیا آپ مجھے کالج کا نیم بتا سکتی ہے ؟؟ ۔ فارس جواب کا انتظار کرنے لگا ۔۔ پلیز جلدی آ جاے ۔۔ بریرہ کالج کا نیم بتاتی ہویی بولی ۔۔ اٹس اوکے میں بس آ رہا ہوں ۔۔ کال کٹ ہو چکی تھی ۔۔
آہل کو پورا یقین تھا ۔۔فارس اب تک پہنچ چکا ہوگا ۔۔ کیوں کی آہل شاہ آفندی خود سے زیادہ فارس پر بھروسا کرتا تھا ۔۔
نام کیا ہے آپ کا ؟؟ ۔۔ آہل نے پھر سے بات کا آغاز کیا ۔۔
میرا نام جو بھی ہو تم سے مطلب ۔۔ مرش چڑتے ہوے بولی ۔۔
اگر میری مجبوری نہیں ہوتی تو میں تمہیں اور تمہاری اس گاڑی کو آگ لگا دیتی ۔۔ مرش غصے سے آواز کو تھوڑا تیز کرتی ہوی بولی ۔۔
کیوں آپ کے بس میں نہیں ہے کیا ۔۔ آہل ہنستے ہوے بولا ۔۔
جاہل انسان ۔۔ مرش آہل کو گالی سے نوازتی باہر کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔
فارس گاڑی کو پارک کرتا ہوا کالج کے اندر داخل ہوا ۔۔ یہاں وہاں نظریں دوڑاتے ہوے فارس کو ایک اچانک سے یاد آیا ۔۔۔ اوہ نو ۔۔ میں پہچانوگا کیسا ۔۔ فارس کالج کے پیچھے والے گیٹ سے داخل ہوا تھا ۔۔ جبکی بریرہ پہلے والے گیٹ کے سامنے کیفے میں بیٹھی ہویی تھی ۔۔ جو کی فارس کو نظر آنا خاصا مشکل تھا ۔ ۔۔۔
دو تین لڑکیاں فارس کو سامنے سے آتی ہویی دکھی ۔۔
یکسکیوز می ۔۔ فارس انہیں ہاتھ کے اشارے سے روکتا ہوا بولا ۔۔
آر یو بریرہ ؟؟
فارس کے اس عجیب و غریبوں سوال پر ان لڑکیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔ نہیں ۔۔ ان سب میں سے ایک لڑکی نے جواب دیا ۔۔
اوہ سوری ۔۔ فارس جلدی سے وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا ۔۔
اب کہاں ڈھونڈو محترما کو ۔۔ موبایل بھی سویچٹ آف ہو گیا ۔۔
فارس کو ایک بار پھر سے ذلت اٹھانی پڑی ۔۔
ایکسکیوز می ؟؟ فارس اس لڑکی کے سامنے آ کر روکتا ہوا بولا ۔۔
یس ؟ وہ لڑکی حیرت سے فارس کو دیکھتے ہوے بولی ۔۔
آر یو بریرہ ؟؟ ۔۔
وآٹ ۔۔۔ نو ۔۔ بس فری ہونا ہوتا ہے تم لوگوں کو بدتمیز ۔۔ وہ لڑکی فارس کو برا بھلا کہتی آگے بڑھ گیی ۔۔
فارس ٹہلتے ٹہلتے آخر کیفے کے پاس پہنچا ۔۔ سامنے ہی اس کی نظر عین سامنے اس حسین و جمیل پیکر پر پڑی ۔۔ جو کبھی ادھر تو کبھی ادھر دیکھ رہی تھی ۔۔ بریرہ کی نظر فارس پر پڑی ۔۔
بےشرم ۔۔ سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر بولی ۔۔ اس سے بھی پوچھ لیتا ہوں ۔۔ فارس سوچتے ہے اپنے قدم آگے بڑھا دیے ۔۔۔
آپ بریرہ ہے ۔۔ فارس بریرہ کو دیکھتے ہوے پوچھا ۔۔
جی ۔۔ بریرہ کے جی کہنے کی ہی دیر تھی کی فارس کے ہونٹوں پر بہت ہی خوبصورت مسکراہٹ رینگ گیی ۔۔
میں فارس ۔۔ آہل نے مجھے ہی بھیجا یے ۔۔ چلیں ۔۔ فارس بریرہ کو چلنے کے لیے بولا ۔۔
جی ۔۔ آ۔ ۔۔ نن نہیں ۔۔ میں آپ کے ساتھ کیسے چلوں آپ کے ساتھ ۔۔ پتا نہیں آپ کون ہے ۔۔ اور آپ سچ بھی بول رہے ہے یا نہیں ۔۔ بریرہ دو قدم پیچھے ہٹتے ہوے بولی ۔۔۔
آہل کو کال ملاے۔۔ فارس چڑتے ہوے بولا ۔۔
آہل جو اس وقت ڈرایو کرتے ہوے کچھ گنگنا بھی رہا تھا ۔۔ رنگ ٹون کی آواز پر اس نے ہاتھ بڑھا کر دیکھا بریرہ کی کال تھی ۔۔ کال ریسیو کرتے ہی دوسرے جانب سے فارس کی آواز آیی ۔۔ ہار تمہاری بہن مجھے کویی گلی کا آوارہ لڑکا سمجھ رہی ہے ۔۔ فارس بریرہ کے چہرے پر نظریں مرکوز کرتا ہوا بولا ۔۔ ہا ہا ۔۔ تو لگتا ہی ایسا ہے ۔۔ آہل کی ہنسی بے ساختا تھی ۔۔ اچھا یار سوری ۔۔ برہرہ کو فون دو ۔۔ آہل ہنسی کو کنٹرول کرتے ہوے بولا ۔۔۔ یے لیں آپ کے محترم بھایی جان کا فون ۔۔ فارس ایک ایک لفظ چبا کر بولا ۔۔
ہیلو ۔۔ بریرہ بولی ۔۔ بریرہ آپ فارس کے ساتھ جاے میں نے اس کو بھیجا ہے ۔۔ ڈونٹ وری ۔۔ آہل برہرہ کو تسلی دیتے ہوے بولا ۔۔۔ جی بھایی ۔۔ بریرہ شرمندگی سے کہتی ہوی بولی ۔۔چلیں ۔۔
جی ۔۔ فارس نے ہاں میں گردن ہلایی ۔۔ ۔
چلے آپ کی منزل آ گیی ہے ۔۔ آہل کو گاڑی روکتا ہوا بولا ۔۔
مرش لمبی سانس کھینچتی گاڑی سے اتری ۔۔ اور جیسے ہی جانے کے لیے پیچھے کی اور مڑی ۔۔۔
آہل کے الفاظ نے اس کے بڑھتے قدم کو روک لیا ۔۔
بندہ تھینکس ہی بولتا ہے ۔۔
جی نہیں مجھے نہیں لگتا اس کی کویی ضرورت ہے ۔۔مرش نظر انداز کرتی آگے بڑھ گیی ۔۔ واٹ اے اٹیٹیوڈ ۔۔۔
آہل مسکرا کر کہتا گاڑی آگے بڑھا دیا ۔۔
مرش نے جیسے ہی گھر میں قدم رکھا ۔۔ سامنے فایزہ بیگم سوفے پر بیٹھی نظر آیی ۔۔
یے کویی وقت ہے گھر آنے کا ۔۔ میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا مرش گھر جلدی آ جانا ۔۔
کیا ہو گیا فایزہ پارٹی میں گیی تھی دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے ۔۔
جب جوان اولاد اس وقت گھر سے باہر رہے تو ماں باپ کی عزت سولی پر لٹکی ہوی ہوتی ہے ۔۔ فایزہ بیگم مرش کو دیکھتے ہوے بولی ۔۔
مرش آپ اپنے کمرے میں جاے ۔۔ سرفراز صاحب مرش کو حکم دیا ۔۔
جی بابا ۔۔ مرش اسی موقع کی تلاش میں تھی ۔۔ دوڑتی ہویی اپنے کمرے میں آیی ۔۔ کپڑا چینج کرنے کے باد میک اپ کو خود سے ازاد کرتے ہوے اس نظر اپنے ہاتھوں پر گی ۔۔ افف میرا بریسلیٹ کہاں گیا ۔۔ امی نے کتنے چاو بنوایا تھا ۔۔ مرش پریشان سی ہوتی ہویی خود سے بولی ۔۔ ۔۔۔۔
گاڑی کو پورچ میں داخل کر کے آہل جیسے ہی گاڑی سے نیچے اترا ۔۔ اچانک اس کی نظر سامنے کسی چمکتی شے پر پڑی ۔۔ آہل نے ہاتھ بڑھا کر اس کو اپنے ہاتھوں میں لیا ۔۔ خوبصورت نفیس سا بریسلیٹ جس پر سفید موتی چار چاند لگا رہے تھے ۔۔
یے ہو کس کا سکتا ہے ۔۔ آہل کی آنکھوں کے سامنے مرش کا سراپا لہرایا ۔۔تو محترما کا ہیں ۔۔ آہل مسکراتے ہوے پینٹ کی جیب میں ڈال لیا ۔۔ چابھی ہاتھ میں لیے آہل سڑھیاں عبور کرتا اپنے کمرے کمرے میں آ گیا ۔۔ نیند کا غلبا اس کے اوپر طاری تھا ۔۔ کپڑے چینج کرنے کے بعد آہل نےجینس سے بریسلیٹ نکال کر تکیے کے نیچے رکھ دیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاند کے روپ میں تم آے ہی نہیں ورنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غم کی راتوں میں عجب جشن بہاراں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے اندھیرے میں فارس اپنی چھت پر کھڑا چاند کو دیکھ کر باتیں بھی کر رہا تھا ۔۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا فارس کے گوش گزار ہو رہی تھی ۔۔
بریرہ شاہ آفندی ۔۔۔ فارس اس نام کو زیر لب دہرایا ۔۔ بہت ہی گہری مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر رکس کر رہی تھی ۔۔ نہیں وہ آہل کی بہن ہے فارس ۔۔ تیرے عزیز دوست کی ۔۔ جو تیرے اوپر بہت بھروسا کرتا ہے ۔۔ یے میں کیا سوچ رہا ہوں بریرہ ۔ آہل کی عزت ہے مطلب وہ میری بھی عزت ہویی ۔۔ فارس خود کو سر زنش کرتا نیچے آ گیا ۔۔
۔۔۔ گڈ مارنگ فارس آفس میں داخل ہوتے ہوے بولا ۔۔
گڈ مارنگ ۔۔ آہل مسکرا کر جواب دیا ۔۔۔
کس کے بارے میں سوچ رہا ہے ؟؟
فارس ایک آنکھ مار کر پوچھا ۔۔
کسی کے بارے میں نہیں ۔۔
آہل نے بھی مسکرانے پر اکتفا کیا ۔۔
کہیں عشق وشق تو نہیں ہو گیا ۔۔
فارس آہل کو عورتوں کی طرح جانچتے ہوے بولا ۔۔
اگر میں خاموش بیٹھ جاوں تو تیرا دماغ کتنی تیزی سے چلنے لگتا ہے ۔۔ بکواس بند کر یار ۔۔
کیوں تجھے عشق نہیں ہو سکتا کیا ؟؟
فارس کے اس سوال پر آہل کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا ۔۔
ہو سکتا ہے ۔۔ آہل اتنے پر یقین لہجے میں کہہ رہا تھا ۔۔مانو عشق کی وادی میں قدم رکھ چکا ہو۔ ۔ آہل جواب دیتا ہوا لیپ ٹاپ پر مصروف ہو گیا ۔۔۔
یار کیسے ہو سکتا ہے ۔۔ ویسے تجھے کس قسم کی لڑکی چاہیے ؟؟؟ ۔اپنے جیسی یا بلکل الگ ؟؟ ۔۔۔۔ فارس اس وقت یوں سوال پر سوال کر رہا تھا ۔۔ گویا عشق سے ضروری اور کویی کام نہیں ۔۔۔
یے کیسا سوال ہے ؟؟ آہل لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹاتا ہوا بولا ۔۔
یار سمپل سا سوال ہے ۔۔ تجھے کس قسم کی لڑکی پسند ہے ویسے جہاں تک مجھے معلوم ہے تیری پسند تو بلکل یونیک ہوگی۔۔ فارس بے چین سا ہو رہا تھا جواب کے لیے ۔۔
بکواس بند کر ۔۔۔ آہل فارس کو ڈپٹتے ہوے بولا ۔۔
یار بتا نا ۔۔ فارس منھ پھلاتے ہوے بولا ۔۔
آہل کو نا چاہتے بھی جواب دینا پڑا کیوں کی فارس کو ٹالنا آسان نہیں تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں پسند مہبت میں ملاوٹ مجھ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ میرا ہے تو خواب بھی میرے ہی دیکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کم گو ۔۔۔۔ وفادار ۔۔۔۔ بدتمیززی کا نام و نشان نا ہو ۔۔۔۔۔ اور سب سے ضروری شوہر کے حکم کی تعمیل کرنے والی ہو ۔۔ ۔۔ آہل اپنی بات مکمل کرتا پھر سے مصروف ہو گیا ۔۔
فارس نے چند منٹوں تک کویی جواب نہیں دیا ۔۔۔بہت بڑی ڈمانڈ ہے تیری ۔۔ دیکھتے ہو کون کون سی پوری ہوتی ہے ۔۔
وہ سب کی سب کیفے میں بیٹھی باتوں میں مصروف تھی ۔۔ یار چلو کلاس کا ٹایم ہو گیا ہے ۔۔ اریشا نے سب کو ٹایم باور کرایا ۔۔ ہاں چلو۔ ۔ سب لوگ اپنا اپنا بیگ سمبھالتی ہویی کلاس میں داخل ہویی ۔۔
گڈ مارنگ سر ۔۔ سر جواد کے کلاس میں داخل ہوتے ہی سبھی اسٹوڈینٹس ادب سے کھڑے ہو گے ۔۔ سواے مرش کے ۔۔ جو اس وقت نیچے گری کتاب اٹھانے کے لیے جھکی تھی ۔۔ سر جواد کی شان میں گستخایی کرنا کسی کی جرات نہیں تھی ۔۔ ناک پر چشما ٹکاے سر پر سفید بالوں کی تعداد اچھی خاصی تھی ۔۔
مرش جیسے ہی کتاب لے کر اوپر اٹھی ۔۔۔ سامنے ہی جواد سر کا خوفناک چہرہ اس کو نظر آیا ۔۔۔۔
ہیلو ۔۔ اگر آپ کو انویٹیشن کارڈ چاہیے تو وہ بھی بتا دے ۔۔۔ ہا۔ ۔ہا۔ ۔ہا ۔۔ اریشا کا قہقہہ بے ساختا تھا ۔۔ شٹ اپ ۔۔ جواد صاحب تیز آواز میں دھاڑے ۔۔
سوری سر بک گر گیی تھی ۔۔۔ بک گر گیی تھی تو مطلب آپ مجھے سلام نہیں کریں گی ۔۔
سوری سر ۔۔ مرش نے ایک بار پھر سے صفایی پیش کی ۔۔۔
سوری آج کل کی نسل کو ناجانے کیا ہو گیا ہے ۔۔ استاد کی کویی عزت ہی نہیں ۔۔ جواد صاحب برا بھلا کہتے مڑ گے ۔۔
تمہں تو میں کلاس ختم ہونے کے بعد بتاوں گی ۔۔ مرش اپنا لمبا ناخن اریشا کو دکھاتے ہوے بولی ۔۔
ٹک ۔۔۔ سر جواد کو اپنے سر پر لگنے کی آواز آیی ۔۔۔ پہلی بار تو انہوں نے نظر انداز کیا ۔۔
ٹک ۔۔۔ ایک بار پھر سے حملا کیا گیا ۔۔ اس بار تو بم کا پھوٹنا لازمی تھا ۔۔
سر جواد کھونکھار نظروں سے باری باری سب کو دیکھا ۔۔
ثمرہ جس دانت اندر جانے کا بام نہیں لے رہا تھا ۔۔۔
اسٹینڈ اپ ۔۔۔ جواد صاحب ثمرہ کو ہاتھ کے اشارے سے کھڑا ہونے کے لیے کہا ۔۔ ثمرہ بیچاری نظروں سے اٹھتے ہوے بولی ۔۔
جی سر ۔۔
بدتمیز ۔۔ جواد صاحب غصے سے بولے ۔۔
نو سر یے میں نے نہیں کیا ۔۔ یے تو ۔۔۔ثمرہ گردن مرش کی طرف موڑتے ہوے ابھی کچھ بولتی ۔۔ مرش کے لمبے ناخن نے اسے چپ رہنے پر مجبور کر دیا ۔۔
کس نے یے گھٹیا جرکت کی ہے ؟؟ جواد صاحب پوری کلاس میں نظریں دوڑاتے ہوے چلاے ۔۔
عین نظروں کے سامنے مرش کا چہرہ نظر آیا ۔۔ جو اپنی ہنسی دبانے کے لیے با مشکل محنت کر رہی تھی ۔۔
اسٹینڈ اپ ۔۔ جواد صاحب نے ایک بار پھر سے حکم صادر کیا ۔۔
جی سر ۔۔ مرش کی معصومیت بلا کی تھی ۔۔
آپ نے یے حرکت کی ہے ۔۔ جواد صاحب چشمے کی نوک آنکھ پر کرتے ہوے بولے
سر میں اپنی جان سے گزر جاوں ۔۔ لیکن ایسی حرکت توبہ ۔۔ ویسے سر ہوا کیا ہے ؟ ۔۔
مرش کی اس ایکٹینگ پر پوری کلاس میں کھی کھی شروع ہو گی۔
۔۔ سر چلیں جو بھی ہوا ہوگا آپ نا بتاے شاید اس میں آپ کی بے عزتی ہوگی ۔۔
خیر کویی نہیں سر ۔۔ ہم کچھ بھی کرنے سے پہلے مر جانا پسند کریں گے ۔۔مرش کا چہرے سے یو ظاہر ہو رہا تھا ۔۔
گویا اس ذیادہ معصوم لڑکی اس دنیا میں ہے ہی نہیں ۔۔۔۔۔
شٹ اپ ۔۔ بدتمیزوں ۔۔
جواد صاحب غصے سے کہتے کلاس سے چلے گیے ۔۔
سر جواد کے کلاس سے جاتے ہی پورا کلاس قہقہہ سے گونج اٹھا ۔۔
ایک ایک کر کے سب نے مرش کی تعریف کی ۔۔ شکریا شکریا ۔۔ مرش داد قبول کرنے میں مگن تھی ۔۔
کچھ دیر باد ثمرہ اریشا بریرہ اور مرش کالج کی گھاس پر بیٹھی باتوں کرنے میں مصروف تھی ۔۔
لیسین ٹو می ۔
۔ بریرہ کی آواز پر سب کی زبان کو بریک لگ گیا ۔۔
پرسوں میری پرینٹس کی انیورسری ہے ۔۔ میں چاہتی ہوں تم سب لوگ آو مجھے بہت خوشی ہوگی ۔۔ برہرہ ایک ایک کو کارڈ پکڑاتی ہویی بولی ۔۔
اچھا واقعی واو بہت مزا آنے والا ہے ۔۔ اریشا کی خوشی دیکھنے لایق تھی۔۔۔
اسی بہانے تمہارے خڑوس بھایی سے بھی ملاقات ہو جاے گی جبکی انہیں معلوم ہوتا وہ اس خڑوس بندے سے پہلے ہی مل چکی ہے ۔۔ لیکن بریرہ کے بھایی کے حوالے سے نہیں مرش کے دشمن کے حوالے سے ۔۔ ثمرہ بریرہ کو آنکھ مارتی ہویی بولی ۔۔
کیوں ہم اس کے بھایی سے ہی ملنے جایے گے کیا ۔۔ مرش چڑھتے ہوے بولی ۔۔
مزاق تھا یار ۔۔ ثمرہ نے ہنستے ہوے صفایی دی
بریرہ تمہارے خڑوس بھایی کی گاڑی آ گی ۔۔ اریشا نے بریرہ کو گاڑی آنے کی اطلاع دی ۔۔
تم خواہ مخواہ میرے بھایی کو کھڑوس کہہ رہی ہو ۔۔ بریرہ بیگ سمبھالتی ایک کر کے سب گلے ملتی گیٹ عبور کرتی گاڑی میں آ کر بیٹھ گی ۔۔اسی دوران ان سب کی بھی گاڑی آ چکی تھی ۔
آج ہماری بیٹی کا دن کیسا گزرا بہت خوش لگ رہی ہے آپ
۔۔ جاوید صاحب بریرہ کو کافی کا مگ پکڑاتے ہوے بولے ۔۔ مریم بیگم نے بھی مسکرا کر بریرہ کو دیکھا ۔۔
آپ کو پتا ہے بابا ۔۔ میری فرینڈس اتنی اچھی ہے میں بتا نہیں سکتی ۔۔ ہماری کلاس کی سب سے چنچل لڑکی مرش ہے ۔۔ بریرہ صوفے کی ایک سایڈ پر بیٹھ کر جاوید شاہ آفندی ۔۔ مریم شاہ آفندی کو مرش ناما قصہ سنا رہی تھی ۔۔
آہل ٹیبل پر اپنا گرم بھاپ اڑتی چاے کو گھمانے میں مگن تھا ۔۔ لیکن اس کا پورا دھیان بریرہ کی جانب تھا ۔۔۔
ماما مرش ہماری کلاس کی سب سے چنچل لڑکی ہے بہت شوخیاں ہے وہ ۔
۔ آہل چاے کا سپ لے کر میز پر رکھا بریرہ کی زبانی مرش ناما قصہ سن کر آہل کو سخت بوریت محسوس ہو رہی تھی ۔۔
جاوید شاہ آفندی نے ایک بار بھی آہل کو مخاتب کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا ۔۔ شاید وہ نارضگی کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے ۔۔
بریرہ ۔۔ پلیز مرش ناما بند کرو یار بور ہو گیا میں سن سن کر ۔۔ بدتمیز لڑکیوں سے دور رہا کرو ۔۔ آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے بولا ۔۔
بریرہ کو زبان کو بریک لگ گیا ۔۔
مریم بیگم نے ایک نظر آہل پر ڈالی اور آنکھوں کے اشارے سے بریرہ کو خاموش رہنے کے لیے کہا ۔۔
آہل چاے کا آخری سپ لیتے ہوے کھڑا اسڑھیوں کی جانب قدم بڑھایا ہی تھا ۔۔ مریم بیگم کی آواز نے اس کو روک دیا ۔
آہل کھانا نہیں کھاو گے کیا ۔۔ بھوک نہیں ہے آہل پیچھے بنا مڑے ہی جواب دیا ۔۔ مریم بیگم آہل کی نشت ہی دیکھتی رہ گی ۔۔
آہل کی نیندیں اس کی آنکھوں سے غایب تھی ۔۔ بیڈ پر لیٹتے ہوے اس نے تکیے کے نیچے سے اس چمکتے بریسلیٹ کو اپنے ہاتھوں میں لیا ۔۔ نا جانے اس کو اس بریسلیٹ میں کس چیز کی تلاش تھی ۔۔
تبھی موبایل کو رنگ ہویی ۔۔ اسکرین پر فارس کا نیم چمک رہا تھا ۔۔
ہیلو ۔۔ آہل بولا ۔۔
یار آہل مجھے سخت بوریت ہو رہی ہے ۔۔ ہم کل شاپنگ پر چلیں ۔۔ فارس چہکتے ہوے بولا ۔۔۔
نہیں میرا موڈ نہیں ہے تجھے جانا ہے تو تو جا ۔۔ آہل نے دو بدو جواب دیا ۔۔
پلیز آہل اس ہماری تھوڑی مستی بھی ہو جاے گی اور میں انکل اور آنٹی کے گفٹ بھی لے لوں گا ۔۔ ! فارس نے شاپنگ کرنے کا اپنا اصل مقصد بتایا ۔۔
کتنا بے عزت ہے تو ۔۔ میں تجھے انوایٹ تو نہیں کیا ہے ۔۔ پھر بھی منھ اٹھا کر آ جاے گا ہے نا ۔۔ آہل افسوس سے لہجے میں بولا۔۔
ہا ہا ہا ۔۔۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے تو مجھے کبھی انوایٹ نہیں کرتا لیکن میں سب سے پہلے موجود ہوتا ہوں ۔۔ فارس ڈھٹایی سے بولا ۔۔
بے عزت جو ہے ۔۔۔ آہل مسکرا کر بولا ۔۔
اچھا یار بتا نا جاے گا یا نہیں ۔۔ فارس پھر سے اپنے مقصد پر آیا ۔۔
ٹھیک ہے چلوں گا ۔۔۔ آہل جان چھڑاتا ہوا بولا ۔۔ اوکے یار کل ملتے ہے ۔ ۔ آہل نے کال ڈسکنیٹ کر دی ۔۔ ۔۔
اب امی سے اجازت کیسے لوں گی ۔۔ مرش سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی ۔۔ سرفراز صاحب نے بیٹی کو غور سے دیکھا ۔۔
مرش کیا بات ہے بیٹا ۔۔سرفراز صاحب نے بیٹی کی پریشانی جاننی چاہی ۔۔
کچھ بھی نہیں بابا۔۔ مرش زبردستی مسکراتی ہویی بولی ۔۔
اب اپنے بابا سے بھی چھاپایں گی ۔۔ سرفراز صاحب بیٹی کو دیکھ کر بولے ۔۔
بابا ۔۔ پرسوں میری فرینڈ کے گھر ایک پارٹی ہے میری ساری دوستیں جایں گی ۔ ۔مجھے بھی جانا ہے ۔۔ پلیز ۔۔
مرش کے اتنے اسرار پر سرفراز صاحب مجبور ہو گے ۔ ۔
ٹھیک ہے بیٹا ۔۔ آپ تیاری کرے میں آپ کی امی کو منا لوں گا ۔۔ سرفراز صاحب کہتے ہوے جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوے ۔۔
بریرہ ابھی جیسے ہی لیٹنےکے لیے بیڈ پر آیی ۔۔ میسیج کی رنگ ٹون ہویی ۔۔
بریرہ موبایل اٹھاتی ہویی میسیج انباکس میں آے میسیجیس کو دیکھنے لگی ۔۔۔
Hii
کا میسیج وہ بھی انجان نمبر سے دیکھ کر بریرہ کی پیشانی پر نم آلود شکنیں نمودار ہویی ۔۔
کون ؟؟؟ بریرہ نے بھی میسیج ٹایپ کر کے سینڈ کیا ۔۔
شاید آپ کا کویی چاہنے والا ہو ۔۔ جواب دوسری جانب سے آیا ۔۔ بریرہ کو ایسے جواب کی امید نہیں تھی ۔۔
کیا مطلب چپ چاپ اپنا نام بتاو ۔۔ بریرہ نے چڑھتے ہوے ٹایپ کر کے سینڈ کیا ۔۔
بدتمیز منھ بند کرو جانتے نہیں ہو میں کون ہوں ۔۔ بریرہ نے اپنی پہچان کرانا ضروری سمجھا ۔۔۔
جی جانتا آپ کون ہے ۔۔ لیکن یے کمبخت دل نہیں مانتا ہزار بار یے کہہ کر سمجھایا یے وہ آہل شاہ آفندی کی بہن ہے ۔۔ لیکن یے ماننے کو راضی ہی نہیں ہے ۔۔ دوسری جانب سے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنا دکھڑا سنایا گیا ۔۔
اس جواب پر بریرہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گی ۔۔
تم مجھے جانتے ہو ؟؟ بریرہ نے ایک بار پھر سے سوال کیا ۔۔
دوسری جانب مقابل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گیی ۔۔
نہیں جاننے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔
صبح ہونے دو پھر میں بتاتی ہوں تمہیں ۔۔ آہل بھایی سے کہہ کر تمہاری سات نسلوں کا پتا نکلواتی ہوں ۔۔ بریرہ غصے سے تیز اسپیڈ سے ٹایپ کر کے سینڈ کیا ۔۔
بریرہ کا میسیج پڑھ کر فارس کے ہونٹ مسکرانے باز نہیں آ رہے تھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے ظالم نا بنو کچھ تو مروت سیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم پر مرتے ہے تو کیا مار ہی ڈالو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری جانب سے شعر و شاعری کا آغاز ہوا ۔۔
بدتمیز ۔۔بریرہ منھ ہی منھ بڑبڑایی ۔۔
چلیں اب آپ سو جاے آپ کو کالج بھی تو جانا ہوگا ۔۔
میسیج پڑھ کر بریرہ کو ایک کے بعد ایک جھٹکے لگ رہے تھے ۔۔مم
موبایل آف کر کے بریرہ سونے کی سعی کرنے لگی ۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_ 8
By_Zariya_fd
صبح معمول کے مطابق آہل ناشتا کر کے برہرہ کو کالج ڈراپ کیا اور گاڑی فارس کے گھر کے راستے پر گامزن کر دی ۔۔ تھوڑی دیر بعد آہل فارس کے بیڈ روم میں موجود تھا ۔۔ یہاں وہاں کی گفتگو کرنے میں دونوں مگن تھے ۔۔ فارس کو دو مرحلے کا گھر بہت ہی خوبصورت تھا ۔۔ اس گھر میں صرف دو نفوس رہتے تھے وہ اور اس کی ماں بچپن میں ہی فارس کے ابو کا انتقال ہو گیا تھا جس اس کی ماں ڈپریشن کر مریضا ہو گی تھی ۔۔وقت کے ساتھ ساتھ فارس کو اپنی زمےداریوں کا بھی احساس ہو گیا تھا ۔۔
اگر آپ کی تیاری مکمل ہو گی ہو تو چلیں ۔۔ آہل فارس کی تیاری کو دیکھتے ہوے بولا ۔۔
خود تو شہزادہ بن کر آیا ہے اور مجھے اچھے سے تیار بھی نہیں ہونے دے رہا ہے ۔۔ یے پر فیوم تو اسپرے کو لوں ۔۔ فارس منھ پھلاتے ہوے بولا ۔۔
فارس بھی کسی شہزادے سے کم نہیں تھا ۔۔ نکھرا نکھرا سا فارس ہزاروں لڑکیوں کا جان تھا ۔۔
کر لیجیے۔ ۔۔ آہل بناوٹی مسکراہٹ مسکراتے ہوے بولا ۔
ایک دو کلاسیز اٹینڈ کرنے کے بعد وہ پانچوں فیلڈ کی ہری بھری گھاس پر بیٹھی مسلسل بولے جا رہی تھی ۔۔
یار کل جب ہم بریرہ کے گھر جاینگے تو خالی ہاتھ تو جاینگے نہیں بھی ہماری عزت کا سوال ہے ۔۔ “””” مرش کی باتوں پر سب نے اپنے کان دھرے ۔۔
ہاں یار یے تو ہم بھول ہی گے تھے ۔۔ زارا نے بھی اپنی راے دینی ضروری سمجھی ۔۔
زارا جو کی بریرہ سے آج اس کی پہلی ملاقات تھی ۔۔ پھر میں دونوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا ۔۔ جیسے ایک دوسرے کو برسوں سے جانتی ہو ۔۔۔۔
ارے نہیں نہیں اس کویی ضرورت نہیں ہے تم سب میں لوگ آ جاو بس میرے لیے وہی کافی ہے ۔۔ بریرہ نرمی سے مسکراتے ہوے بولی ۔۔
ایسے کیسے ۔۔ ہماری عزت کا سوال ہے ۔۔۔ مرش کو جلدی سے اپنی عزت کا خیال آیا ۔۔
یار لیکن ہمارے پاس تو اس وقت پیسے ہی نہیں ہے ۔ ۔مرش کا نقتا اب پیسوں پر تھا ۔۔ ویسے تو ان لوگوں کے پاس پیسے کی کویی کمی نہیں تھی ۔۔لیکن اس وقت کالج میں ہونے کے باعث اتنا پیسا نہیں تھا یے شاپنگ کر سکے ۔۔۔
یے تو کویی پرابلم ہی نہیں ہے میرا کریڑیٹ کارڈ ہے نا ۔۔ زارا نے جھٹ سے اپنا کریڈٹ کارڈ ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔۔
ارے واہ ۔۔ مرش نے زارا کے ہاتھ پر تالی مارتے ہوے خوش ہو کر کہا ۔۔
تو چلو پھر دیر کس بات کی ۔۔ اریشا کو اب جانے کی جلدی تھی ۔۔
یار کلاس اٹینڈ کر کے چلتے ہے ۔۔ بریرہ نے کلاس اٹینڈ کرنا ضروری سمجھا ۔۔
نہیں ضروری ہے کیا ۔۔مجھ سے تو صبر ہی نہیں ہو رہا ۔۔ چلو ۔۔””” ۔۔ مرش بے چین ہوتے بولی ۔۔
ہاں چلو ۔۔ ثمرہ کو بھی جانے کی جلدی تھی ۔۔
وہ پانچوں اپنا اپنا بیگ سمبھالتی چپکے سے گیٹ عبور کرتی ہویی سڑک پر آیی ۔۔ دور سے ایک ٹیکسی آتی ہویی دکھایی دی ۔۔ ان لوگوں نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو رکوایا ۔۔ ایک ایک کر کے سب لوگ اندر ایڈجیسٹ ہویی ۔۔
آہل نے مال کی قریب جا کر گاڑی پر روکی ۔۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر دونوں باہر آیے ۔۔۔ فارس ہم یہاں زیادہ ٹایم نہیں روکیں گے ۔۔ آہل فارس کا چہرہ بغور دیکھتے ہوے بولا ۔۔
کچھ سمجھ میں آیا کیا کہہ رہا ہوں میں ۔۔ آہل کو جواب نا ملنے پر ایک بار پھر سے فارس کو مخاتب کیا ۔۔
ٹھیک ہے یار پہلے اندر تو چل ۔۔ فارس نے اندر جانے کا اشارہ کیا ۔۔ وہ دونوں قدم سے قدم ملاتے ہوے اندر داخل ہوے ۔۔ فارس تھری سوٹ دیکھنے میں مگن تھا ۔۔
اس کے بر عکس آہل کسی سے کال پر مصروف تھا ۔
یار ہم یہاں پر ہم شاپنگ کرنے آے ہے تو مسلسل فون پر بزی ہے ۔۔ فارس دو ٹوک لہجے میں بولا ۔۔
آفاق صاحب کا کال ہے یار بہت امپورٹینٹ ہے ۔۔ آہل معذرت خواہ لہجے میں بولا ۔۔ تو ویٹ کر میں بس کال سن کر آ رہا ہوں ۔۔ آہل فارس سے کہتا کانچ کا دروازہ کھول کر باہر چلا آیا ۔۔
ثمرہ وہ دیکھو کتنا خوبصورت اسٹال ہے چلو وہاں چلتے ہے ۔۔ مرش شہادت کی انگلی سے اریشا کو دکھاتی ہویی بولی ۔۔
رکو یے تو پسند کر لیں پھر چلتے ہے ۔۔ اریشا سرسری سے انداز میں بولتے ہوے ایک بار پھر سے رنگس دیکھنے میں مصروف ہو گی ۔
میں تو جا رہی ہوں تم لوگ کا دل ہو تو آ جانا ۔۔ “””” مرش کہتی آگے بڑھ گی ۔ ۔۔۔
مرش اپنی ہی دھن میں چلتی ہویی آ رہی تھی ۔۔ آہل شاہ آفندی موبایل کان سے لگاے باتوں مصروف سامنے سے آ رہا تھا ۔۔
مرش کو اپنے سامنے وہی شخص کھڑا ملا مرش بے خیالیمیں ایک ٹک آہل کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔
نظر لگاو گی کیا ۔۔ آہل مرش کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہراتا ہوا بولا ۔۔
کیوں تم بہت خوبصورت ہو کیا ۔۔ مرش نظریں چراتی ہویی بولی ۔۔
یے تو آپ بتایں گی ۔
کک کیا مطلب ؟؟ ۔۔ مرش غصے سے بولی ۔۔
مطلب بہت پوچھتی ہے آپ ۔۔ آہل ہونٹوں پر بہت ہی گہری مسکراہٹ تھی ۔۔
تم میرا پیچھا !!۔۔۔۔ مرش اس سے پہلے آگے کچھ بولتی آہل موبایل کو جینس کی جیب میں ڈال کر ادھر ۔۔ادھر دیکھا اور مرش کا دونوں بازوں سختی سے دبوچتا ہوا کونے کی سایڈ لے گیا جہاں سے لوگوں کا دکھنا خاصا مشکل تھا ۔۔
ت۔ ۔تم کیا کر رہے ہو چھوڑو مجھے گھٹیا انسان ۔۔ مرش آواز اونچی کرتے ہوے بولی
اگر میں تمہارا پیچھا کرتا ۔۔ ۔۔۔
تو تم یہاں پر نہیں میرے بیڈ روم میں ہوتی ۔۔ آہل نے آج سارا عزت کا چولا اتار دور پھینکا ۔۔ آہل مرش کے تھوڑا اور قریب ہوتے ہوے بولا ۔
مرش کے تن بدن میں آگ لگ گی ۔۔
اس کے بعد جب ہم ملیں گے تم یے الفاظ نہیں دہراو گی ورنا اس کی زمیدار تم خود ہوگی ۔۔
کیوں ہم پھر کیوں ملیں گے ؟؟
مرش بے چینی سے بولی ۔۔
وجہ تو وقت بتاے گا ۔۔
آہل کا ہاتھ ابھی بھی مرش دونوں بازوں پر تھے ۔۔
چھوڑے مجھے ۔۔ گھٹیا انسان ۔۔ مرش چلاتی ہوی بولی
آہل مرش کا بازوں چھوڑتا اپنے قدم واپس موڑ لیا ۔۔
ذلیل انسان چھوڑوں گی نہیں تمہیں میں ۔۔آہل مرش کا الفاظوں کو نظر انداز کرتا چلا گیا ۔۔
یار اب صرف انکل کے لیے گفٹ لینا ہے چلو چلتے ہے ۔ ثمرہ کہتی ہویی آگے بڑھی ۔۔ بریرہ ان لوگوں سے کچھ فاصلے پر تھی ۔۔ زارا ثمرہ اور ایشا دوسری جانب چلی گی ۔۔
بریرہ بیگ میں کچھ ٹٹولتی ہویی آ رہی تھی اس کی نظروں کے عین سامنے فارس بریرہ کو تک رہا تھا ۔۔
بریرہ دونوں آنکھوں کو سختی سے بند کرتی ہوی پیچھے مڑ گی ۔۔
فارس مسکراتا ہوا بریرہ کے پاس آیا ۔۔ آج اس کی خوش قسمتی تھی دشمن جاں کا دیدار ہوا تھا ۔۔
آپ یہاں ؟ فارس کی مسکراہٹ کسی کو بھی اپنی طرف متوجا کر سکتی تھی ۔۔
پلیز آپ بھایی سے مت کہیے گا پلیز۔۔
لیکن آپ آیی کس کے ساتھ ہے؟۔۔ “””” ۔ فارس کا سوال بے ساختا تھا ۔
اپنی فرینڈز کے ساتھ پلیز آپ بھایی سے نا کہیے گا ۔۔ بریرہ فارس کی التجا کرتی ہویی بولی ۔۔
اوکے ٹھیک ہے ٹھیک ہے نہیں کہوں گا ۔۔
آپ مسکرا کیوں رہے ہے ؟؟ بریرہ فارس کی مسکراہٹ بغور دیکھتے پوچھ بیٹھی ۔۔
مسکرانا گناہ ہے کیا ۔۔ فارس کی مسکراہٹ اور گہری ہو گی ۔۔
ٹھیک ہے مسکرایں لیکن بھایی سے نا کہیے گا ۔۔
بریرہ ۔۔۔ ثمرہ کی عقب سے آواز آیی ۔
آتی ہوں ۔۔ بریرہ ایک نظر فارس پر ڈال کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گی ۔۔
Don’t copy whithout my permisson
Sang_Jo_tu_hae_
Zariya fd
Episode 9
مرش تم اتنی گھبرایی ہویی کیوں ہو ؟؟
ثمرہ مرش کی حالت دیکھتے ہوے بولی ۔۔
ن۔ نہیں تو ۔ میں تو بلکل ٹھیک ہوں ۔۔ “”” مرش بناوٹی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر بولی ۔۔
اچھا شاپنگ تو ہو گی اب چلیں “” مرش جلد از جلد یہاں سے غایب ہونا چاہتی تھی ۔۔
ہاں چلو کافی لیٹ ہو رہا ہے ۔۔ “”” بریرہ کو اپنی ہی جلدی تھی ۔
وہ سب مال سے باہر آیی ٹیکسی میں بیٹھ کر کالج کی راہ لی ۔۔ بریرہ کو کالج ڈراپ کیا اور اپنے گھر چلے گی ۔کیوں کالج آف ہونے میں کچھ ہی وقت رہے گیا تھا بریرہ کا بھایی اس کو پک کرنے آتا تھا اس لیے پہلے بریرہ کو پہلے کالج ڈراپ کر دیا تھا ۔۔
تمہاری شاپنگ ہو گی ہے ۔۔ آہل فارس کو دیکھ کر بولا ۔ جس کی شاپنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔
ابھی تو نہیں پلیز تھوڑا اور وقت اس غریب کو دے دے ۔۔ فارس افسوس سے منھ بناتا ہوا بولا ۔۔
نہیں یار اب مجھے جانا ہوگا بریرہ میرا انتظار کر رہی ہوگی ۔۔ اس کو پک بھی کرنا ہے ۔۔ آہل ریسٹ واچ پر ایک نظر دیکھتے ہوے بولا ۔
ٹھیک ہے تو چل وہ تیرا انتظار کر رہی ہوگی کسی کو انتظار کرانا غلط بات ہے ۔ فارس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی ۔۔
خیر تو ہے آج بڑا فلسفا بولا جا رہا ہے ۔۔ آہل فارس کو بغور دیکھتے ہوے بولا ۔۔
یار ایسے ہی کہہ رہا ہوں ۔اب دیر نہیں ہو رہی ہے ۔ ۔۔ فارس بات کو در گزر کرتا ہوا بولا ۔۔ ٹک ہے چلو آہل نے چلنے کا اشارہ کیا وہ دونوں گاڑی میں آیے آہل ڈراویینگ سیٹ سمبھال لی اور گاڑی کالج کے راستے پر گامزن کر دی ۔۔
گیٹ کے قریب گاڑی جا کر رکی بریرہ پہلے ہی سے وہاں موجود تھی ۔۔ فارس کی عجیب و غریب تھی جس کو آہل بھی سمجھنے سے قاصر تھا ۔۔
بریرہ ایک نظر فارس پر ڈال کر دروازہ کھول کر اندر بیٹھی ۔۔
راستہ خاموشی سے طے ہوا گاڑی کو پورچ میں کھڑا کر کے آہل باہر آیا دوسری جانب سے فارس بھی باہر آیا ۔۔ بریرہ ایک بھی لمحہ زایا کیے بغیر اندر چلی گی ۔۔
اندر چلو ؟؟ فارسکا سوال بے معنی تھا ۔۔
منا کروں گا تو نہیں جایے گا ۔۔ آہل مسکراتا ہوا بولا ۔
آہل کے ساتھ قدم سے قدم ملاتا فارس گھر میں داخل ہوا ۔۔ نظریں اب بھی دشمن جاں کو تلاش کر رہی تھی ۔۔ لیکن افسوس فارس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ ۔آہل کے بیڈ روم داخل ہوتے ہی فارس تھکے انداز میں بیڈ پر گر گیا ۔۔ آہل نے اس کی اس حرکت کرتا کوٹ اتار کر سایڈ میں رکھا ۔۔
آہل تیرا روم نا کسی بادشاہ سے کم نہیں ہے ۔ فارس آہل کے روم کو سراہتے ہوے بولا ۔۔
آہل نے صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کیا ۔۔
فارس نے ہاتھ بڑھا کر تکیا لینا چاہا اچانک اس نظر اسی خوبصورت بریس لیٹ پر پڑی ۔۔
آہل فارس کو دیکھ چکا تھا وہ کیا دیکھ رہا ہے اس وقت ۔۔
فارس ہاتھ بڑھا کر بریسلیٹ کو ہاتھ میں لیا ۔ اور بے یقینی کی نظر آہل پر ڈالی ۔۔
ارے واہ !!! مطلب میرا یار عاشق نکلا ۔فارس ابھی بھی یقین نہیں کر پا رہا تھا ۔۔
ن۔ ۔۔نہیں ۔۔نہیں یار یے ۔۔یے تو ۔ آہل کو سمجھ نہیں آ رہا فارس کو کیا جواب دے ۔
نا نا ۔۔ تو بتا کس کا ہے میں سن رہا ہوں ۔۔ مطلب میری بھابھی پہلے سے ہی ڈسایڈ ہو چکی ہے مجھے کچھ خبر ہی نہیں ۔۔ فارس اپنے آگے کچھ بھی سننے کے لیے راضی نہیں تھا ۔
یار یے بریرہ کا ہے ۔۔ آں ۔۔۔ میں بس اسے دینے ہی والا تھا ۔ ۔ آہل کو بات بن چکی ہے ۔
میں دے دیتا ہوں مسلا ہی کویی نہیں ہے ۔۔ فارس بیڈ سے اٹھتے ہوے بولا ۔۔
نہیں ۔۔نہیں میں دے دوں گا نا ۔۔ تو کیوں پریشان ہو رہا ہے ۔۔ آہل پریشان سا مسکراتا ہوا بولا ۔۔
میرے دینے میں کویی حرج ہے کیا ۔۔ فارس آنکھ مارتا ہوا بولا ۔
اس دن بتایا تھا نا میں کسی کام میں پھنس گیا ہوں ایک لڑکی تھی اسی کو ڈراپ کرنا تھا ۔۔ شاید اسی کا ہے ۔۔ آہل ہار مانتے ہوے بولا ۔۔
تو کب سے لڑکیوں کو ڈراپ کرنے لگا ۔۔ فارس کا بات ختم کرنے کا من ابھی بھی نہیں تھا ۔۔
نہیں وہ گاڑی کے سامنے آ گی تھی تو بس ہیلپ مانگ رہی تھی تو میں نے ہیلپ کر دی اور بس !!
اسی طرح تو مہبت کا آغاز ہوتا ہے میرے یار ہیرو گاڑی چلاتا ہے ہیروین سامنے آ جاتی ہے اور ۔۔ فارس پلیز یار اب چپ ہو جا ۔۔ آہل ہار مانتے ہوے بولا ۔۔ اسی دوران چاے پانی کی ٹرالی بھی آ چکی تھی ۔ ۔ فارس چاے کا آخری گھونٹ بھرتے ہوے اٹھا ۔۔ میں جا تو رہا ہوں لیکن میری باتوں کا جواب ابھی مکمل نہیں ملا ہے ۔۔ فارس گھورتی نظروں سے آہل کو دیکھ کر بولا ۔۔
جواب ہوگا تو ملے گا نا ۔ ۔ آہل غصے سے مصنوعی شکل بناتے ہوے بولا ۔ ۔۔
خدا حافظ ۔۔ فارس بریسلیٹ آہل کے ہاتھ میں پکڑاتا ہوا کمرے سے باہر آیا ۔ ۔۔
ہاے ۔۔ فارس پر قسمت مہربان تھی اس وقت سڑھیوں پر ہی دشمن جاں کا دیدار ہو گیا ۔۔
کچھ وقت پہلے آ گی ہوتی تو اور بھی اچھا ہو جاتا ۔۔ فارس بریرہ کو مسکرا کربدیکھتے ہوے بولا ۔۔
جی ؟؟ بریرہ نا سمجھی کے عالم میں فارس کو دیکھتے ہوے بولی ۔۔
جی نہیں ہاں ۔۔ فارس بریرہ کی پلکوں کو بغور دیکھتے ہوے بولا ۔
آپ میرے خیال سے جا رہے تھے ۔۔ بریرہ ایک اچٹتی نگاہ فارس پر ڈالتی ہوی بولی ۔۔
منزل کا نہیں پتا کس راستے جاوں ۔۔ عشق کے یا گھر کے ۔۔ فارس آنکھ بند کیے اپنی دلی کیفیات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا چناو کر رہا تھا ۔۔
ج۔ ۔۔۔ج۔۔جی ۔۔ کیا کہہ رہے یے آپ ۔۔ بریرہ گھبراتی ہویی بولی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھپانا راز اس دل کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر تم چھوڑ دو جاناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے تم سے مہبت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر تم بول دو جاناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو جیون کے سفر میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔راستے آسان ہو جاے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے پاس بھی جینے کا کچھ سامان ہو جاے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ ہم تمہارے دل کے دروازے کے باہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔اس آس میں بیٹھے رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم کبھی بند دروازے کو کھولوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے شانے پر سر رکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی دھیرے سے بولوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے تم سے مہبت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا حافظ ۔۔ فارس اسی مسکراہٹ کے ساتھ چلا گیا ۔۔
بریرہ اس کو جاتا دیکھتی رہی ایک لمبی سانس بھر کر بریرہ آہل کے کمرے میں آیی ۔جو اس وقت پوری توجہ کے ساتھ لیپ ٹاپ میں بزی تھا ۔
بھایی ۔۔ ؟ بریرہ آہل کو پکارتی ہویی صوفے کے قریب آیی ۔
آو بیٹھو ۔۔ آہل لیپٹاپ بند کرکے بریرہ سے بولا ۔۔
آپ کل پارٹی میں رہے گے نا ؟؟ بریرہ کی آنکھوں میں ایک آس تھی شاید اس کا بھایی ہاں کہہ دے ۔
نہیں کل ایک ضروری میٹنگ ہے مجھے کراچی جانا ہوگا میری جان آہل بہت ہی صفایی سے جھوٹ بول گیا تھا ۔۔
بھایی مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہیے پلیز لیکن کل آپ کہیں نہیں جایں گے پلیز ۔۔ بریرہ کی آنکھیں آنسوں سے نم تر تھی ۔۔
میں ضرور آتا میری جان لیکن میٹنگ ۔۔ آہل اس پہلے کچھ اور بولتا بریرہ بیچ میں بول پڑی ۔۔
پلیز بھایی میں پہلی بار آپ سے کچھ مانگ رہی ہو آپ انکار نا کرے بھائی پلیز میں چاہتی ہوں آپ مام کو تھوڑی عزت دے وہ بہت اچھی ہے بھایی ۔۔ بریرہ روتے ہوئے بولی ۔۔
بریرہ کی اتنی منّت پر آہل آخر کر راضی ہو ہے گیا صرف اور صرف بریرہ کے لئے ۔ ورنہ اس پارٹی میں اس کا دم گھٹتا تھا ہمیشہ کی طرح اس کا یہی ارادہ تھا منظر سے غایب ہو جاے گ ۔۔ لیکن قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔
اب رونا بند کرو اور جا کر سو جاو ۔ آہل بریرہ کی ناک دباتا ہوا بولا ۔۔
گڈ نایٹ بھایی ۔۔ بریرہ گڈ ناہٹ کہتی چلی گی ۔۔
آہل کا بہت اکتاہٹ محسوس ہو رہی تھی کل وہ اس عورت کی اینیورسری پر جاے گا جہاں پر اس کی ماں کو ہونا چاہیے تھا ۔۔ ڈراں میں سے سگیرٹ کا پیکٹ نکال کر اس سلگا کر اپنے سرخ ہونٹوں کے بیچ دبایا ۔۔ آہل اسموکینگ بہت کم کرتا تھا لیکن جب انسان ہر چیز سے ہار جاتا ہے پھر وہ خود کو بھی نقصان پہنچانے لگتا ہے ایسا ہی کچھ حال آہل کا بھی تھا ۔۔۔
بریرہ ہاتھ پیر میں لوشن ملتی ساتھ میں کچھ گنگناے بھی جا رہی تھی ۔۔
میسیج کی رنگ نے اس کی گنگناہٹ کو بریک لگایا ۔۔
ہاتھ بڑھا کر موبایل اٹھایا اسکرین پر چمکتے میسیج کو پڑھ کر بریرہ کو جھرجھری سی آ گی ۔۔
آج تم مال میں کیا کرنے گیی تھی ۔۔
تم نے میرا پیچھا کیا ۔۔ بریرہ کی انگلیاں تیزی سے کام کر رہی تھی ۔
پہلے جو پوچھا ہے وہ بتاو ۔۔ دوسری جانب بھی ڈھٹایی کا مظاہرہ کیا گیا ۔
شاپنگ کرنے گیی تھی ۔۔ بریرہ کو بلا آخر جواب دینا ہی پڑا ۔۔
اور اس شخص سے کیوں بات کر رہی تھی ۔۔ دوسری جانب سے پھر سے سوال کیا گیا ۔۔
کس سے ؟؟ بریرہ کو سمجھ میں نہیں آیا وہ کس کی بات کر رہا ہے ۔۔
یاد کرو مال میں آج تم نے کس شخص سے باتیں کی تھی ۔۔
کسی سے بھی کروں تم سے مطلب ۔۔ بریرہ نے غصے سے میسیج ٹایپ کر کے سینڈ کیا ۔۔
دیکھو مجھے بلکل برداشت نہیں تم کسی غیر سے بات کرو ۔۔ دوسری جانب سے تھوڑا روب جھاڑا گیا ۔۔
تو کیا تم میرے اپنے ہو کیا ؟؟ بریرہ نے سوال کیا ۔
مہبت کرنے والے اپنے ہی ہوتے ہے ۔۔ جواب دو ٹوک تھا ۔۔
میں تو تم سے مہبت نہیں کرتی ۔۔
میں تو کرتا ہوں مہبت وہ بھی بہت شدت سے ۔۔
تم میرا پیچھا کر رہے تھے ۔ ۔ بریرہ کی سویی اب وہیں اٹکی تھی ۔۔
مہبت کا کرتا ہو تم سے تو احتیاط تو کروں گا نا مہبت میں کوطاہی مجھے بلکل بر داشت نہیں ہے ۔۔
ایسے جواب کی توقع نہیں تھی بریرہ کو ۔
نام کیا ہے تمہارا ؟؟ بریرہ کو اب اس کا نام جاننے کی بے چینی تھی ۔۔
نام کیا رکھا ہے بریرہ میڈم پہلے مہبت کا آغاز تو جاے پھر نام بھی بتا دیں گے ۔۔
تمہاری باتوں سے لگتا ہے تم بہت چیپ ہو ؟؟ بریرہ کو نا جانے کیوں اس سے بات کرتے ہوے تھوڑا تھوڑا اچھا لگنے لگا تھا ۔۔
ہا ۔ہا ہا ۔۔ ہر انسان شریف ہوتا ہے لیکن یے مہبت اس کی شرافت کو چھین کر چیپ بنا دیتی ہے ۔۔ جواب دوسری جانب سے آیا ۔
سونا نہیں ہے کیا ہے تمہیں ؟؟ بریرہ جمایی لیتے ہوے پوچھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ بالوں میں وہ پھیرے تو میں سو جاوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کویی قصہ وہ سناے تو میں سو جاوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے کہنا مجھے نیند نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی باہوں میں وہ سلاے تو میں سو جاوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری پلکوں پر سجے ہے کیی راتوں کے دیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کویی پلکوں سے بھجاے تو میں سو جاوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری سانس مجھے موقع تو دے یے ذرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا وعدہ ہے وہ آے تو میں سو جاوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد کی بعد میں دیکھیں گے ابھی اس سے کہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کی رات وہ نا جاے تو میں سو جاوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم شاعر ہو کیا ۔؟؟ بریرہ شاعری پڑھ کر پوچھ بیٹھی ۔۔
ہا ۔ہا ۔۔ ہا ۔۔ نہیں شاعر تو نہیں ہوں ہاں کوشش ضرور کر رہا ہوں ۔۔
چلو گڈ نایٹ تمہیں نیند آ رہی ہوگی ۔۔
گڈ نایٹ ۔۔ بریرہ گڈ نایٹ کا جواب دے کر موبایل بند کی ۔۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔۔ کون ہو سکتا ہے یے میں ہنس کیوں رہی ہوں بریرہ خود پر حیران ہو رہی تھی ۔۔ انہیں سب سوچوں میں نیند اس کے اوپر کب کی طاری ہو چکی تھی ۔۔
مرش کا ڈریس آخر کار ڈیسایڈ ہو ہی گیا تھا کل کے لیے ۔۔ مرش کو صرف فایزہ بیگم کا ڈر تھا ہو سکتا ہے وہ نا جانے دے لیکن سرفراز صاحب فایزہ بیگم کو منانے میں کامیاب ہی ہو گے تھے ۔۔۔
لایٹ آف کرکے مرش سونے کے لیے لیٹی دونوں آنکھ بند کر کے وہ سونے کی سعی کر رہی تھی ۔۔ لیکن اس کی سوچوں کا مرکز آہل شاہ آفندی پر اٹکا ہوا تھا ۔۔
کون ہو سکتا ہے وہ ۔۔ یا اللہ وہ ہمیشہ مجھ سے ہی کیوں ٹکراتا ہے ۔۔ کیا چاہتا ہے وہ ۔ مرش کی سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی ۔۔ مجھے کیا ۔مرش فضول سوچوں کو خود سے دور جھٹکتی سو گی ۔۔
پورے گھر میں لایٹ کی چوکا چوند بہت ہی خوبصورت رونق بخش رہی تھی ۔۔ سفید لمبے فانوس ہر شے ایک سے ایک بڑھ کر رونق لگایی ہویی تھی ۔۔ ایسی پارٹیز میں ہر کویی آنے کا خواہش مند ہوتا ہے ۔۔ مہمانوں کی تعداد زیادہ تھی رنگ برنگے آنچل لہرا رہے تھے ہنسی کلکاریاں گونج رہی تھی ۔۔ جتنی مہمانوں کی تعداد تھی اس سے زیادہ بڑھ کر ویٹرز کی تعداد تھی ۔۔
آہل کی ہمت نہیں ہو رہی تھی وہ اس پارٹی میں شرکت کرے ۔۔ لیکن بریرہ سے پورا کیا گیا وعدہ بھی تو پورا کرنا تھا ۔۔
آہل کے کمرے کا دروازہ کھول کر کویی اندر آیا ۔۔
آہل نے آنکھ کھولی تو سامنے فارس کو کھڑا پایا ۔۔
تم ۔۔ تم کب آے ؟۔ آہل فارس کو دیکھ کر پوچھا ۔
آہل ماں باپ زندگی میں ہمیشہ نہیں ملتے ہے تجھے ان کی قیمت کا اندازہ تب ہوگا جب یے تیرے پاس نہیں ہونگے ۔۔ فارس غصے سے بولتا آہل کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔
مرش اگر تمہاری تیاری مکمل ہو گی ہو تو چلیں ۔۔ ثمرہ دروازہ کو کھٹکٹھاتی ہویی بولی ۔ ۔
بس پانچ منٹ ۔۔ مرش ایک بار پھر سے پانچ منٹ مانگی ۔ ۔
بلکل بھی نہیں ایک گھنٹے سے زیادہ ہو گیا ہے ہیمں آے ہوے اور تمہارا پانچ منٹ ختم ہی نہیں ہو رہا ۔۔ زارا نے بھی بولنے میں کویی کسر نہیں چھوڑی ۔۔
اچھا ٹھیک ہے آ رہی ہوں ۔۔ مرش دروازہ کھول کر باہر آیی ۔۔۔
وآو ۔۔۔ سب لوگ کا منھ کھلا کا کھلا ہی رہے گیا ۔۔
کیسی لگ رہی ہوں میں ۔۔ مرش کو ابھی مزید تعریف کروانی تھی ۔۔۔
بہت ۔۔بہت زیادہ پیاری ۔۔ جواب اریشا کی طرف سے آیا ۔۔
تھنکس ۔۔ مرش اتراتے ہوے بولی ۔۔ فایزہ بیگم دل ہی دل میں مرش کی بلایں لی ۔۔
خیریت سے جانا بیٹا ۔۔ فایزہ بیگم دورازہ بند کرتی ہوی بولی ۔۔
فارس کا لیکچر سن کر آہل مجبور ہو گیا ۔۔ ٹھیک ہے آ رہا ہوں تو نیچے جا آہل فارس سے کہتے ہوے صوفے سے اٹھا ۔۔ تیاری مکمل کرنے بعد پرفیوم اپنے اوپر اسپرے کیا ۔۔ آہل اس وقت غضب کا ڈھا رہا تھا ۔۔ پارٹی میں زیادہ تر لوگ اسی کو دیکھنے کے لیے بے چین تھے ۔۔ سڑھیوں پر قدم رکھتے ہی اس کی نظر نیچے جمی محفل پر گی جہاں پر ہر کسی کی نگاہ اسی پر ٹکی تھی ۔۔ آہل کو دیکھ کر مریم بیگم کو یقین نہیں آ رہا تھا آہل بھی آ سکتا ہے وہ حیرانگی سے آہل کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔ ایک دو لوگوں سے سلام دعا کرنے کے بعد فارس کے پاس گیا جو اس وقت اسی کو دیکھ رہا تھا ۔۔
شہزادہ لگ رہا ہے ۔۔ آہل کو پہلے سے ہی خبر تھی فارس کن لفظوں میں اس کک تعریف کرے گا ۔۔
اور تو شہزادی ۔۔ آہل دھیرے سے کہتا ہسنے لگا ۔۔ بعد میں اس کا حساب لوں گا ۔۔ فارس بھی چھوڑنے والوں میں سے نہیں تھا ۔۔
گاڑی بریرہ کے بنگلے کے سامنے جا کر رکی جہاں پر ہزاروں گاڑیاں پہلے سے ہی موجود تھی ۔۔ بریرہ نے ان لوگ کو ایڈریس دے دیا تھا تا کی آنے میں کویی مسلہ نا ہو ۔۔ گاڑی سے اترنے کے بعد ان پانچوں نے اس خوبصورت بنگلے کو دیکھا ۔۔ جس کو دیکھ کر ان لوگ کے اچھے خاصے ہوش اڑ گے تھے ۔۔
دو گاڈز اندر جانے کا راستہ بتانے کے لیے موجود تھے ۔۔
وہ سب اندر کی جانب قدم رکھی
اتنا بڑا عالیشان گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔۔ یے قول اریشا کا تھا ۔۔
بریرہ کی نظر ان لوگوں پر پڑی وہ تیزی سے ان لوگوں کی طرف لپکی ۔۔
بریرہ کی خوشی دکیھنے لایق تھی ایک دوسرے کے گلے لگ کر سلام دعا ہوا ۔۔
مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا تم لوگ آ گی ۔۔ مجھے بہت زیادہ خوشی ہو رہی ہے ۔
بریرہ کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی ۔۔ اب کر لو یقین ہم آ گے ہیں ۔۔ زارا ہنستے ہوے بولی ۔ ۔۔ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد ویٹرز جوس کا ٹرے لیے حاضر ہوا ۔۔ سب نے ایک ایک گلاس اٹھایا ۔۔ مرش نے جیسے ہی گلاس لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا اس کے بازوں سے کسی سے ٹکر ہوی جوس کی بوندیں چھلک کر مرش کے خوبصورت کپڑوں پر گر گی ۔۔
سوری میم ۔۔ ویٹرز ڈری نظروں سے مرش کا چہرا تکتا ہوا بولا ۔
اٹس اوکے ۔۔ مرش بات کو در گزر کرتی ہویی بولی ۔۔
ایک منٹ مرش میں کسی کو بھیجتی ہوں تمہاری ڈریس صاف کرنے کے لیے ۔۔
بریرہ کہتی ادھر ادھر نظریں دوڑایی ۔۔۔
نہیں رہنے دو تم مجھے اپنا روم بتا دو میں وہی پر جا کر صاف کر لوں گی ۔۔مرش بریرہ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔
میرا روم تو اوپر ہے ۔ بریرہ بولی ۔
چلو میں ساتھ چلتی ہوں ۔۔ بریرہ مرش کو اکیلے نہیں چھوڑنا چاہتی تھی ۔۔
ارے نہیں تم صرف مجھے بتا دو میں خود چلی جاوں گی تم خواہ مخواہ تقلیف کروگی ۔۔
بریرہ مرش کو اپنا روم بتاتے ہوے آگے بڑھ گیی کسی نے اس کو آواز دی تھی ۔۔مرش سڑھیاں عبور کرتی اوپر والے منزلے پر آیی ۔
۔ دایں بایں جانب گردن موڑ کر دیکھی ۔۔ اس کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔
۔ اس حویلی نما گھر میں ۔۔ دایں جانب ایک کمرے کا دروازہ کھلا تھا ۔
مرش بغیر کچھ سوچے سمجھے اس کمرے کی جانب اپنے قدم بڑھا دیے ۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی مرش کو یے محسوس ہو رہا تھا ۔۔ گویا وہ کسی جنت میں آ گی ہیں ۔۔۔ پورے کمرے کا ڈیکوریٹ اس طرح کیا گیا تھا دیکھنا والا سراہے بغیر نا رہ سکے ۔۔ دیوار گیر میں لگی کانچ کی گھڑی کی سویی پورے کمرے میں ایک اکیلی تنہا آواز بخش رہی تھی ۔۔ ایک خوبصورت بلیک ڈایری ٹیبل کی وسط پر رکھی تھی ۔۔ دوسری جانب اکیلا تن تنہا لیپٹاپ رکھا تھا ۔۔ اس کمرے ہر ایک چیز اس طرح سجایی گیی تھی ۔۔ کمرے میں رہنے والے انسان کی خوبی بیان کر رہی تھی ۔۔
مرش سوچوں کو جھٹکتی واشروم کی جانب قدم بڑھایی ۔۔ کندھے سے سلکی دوپٹا اتار کر ہینگ کیا ۔۔ اس قدر ساز و سامان کو دیکھ کر مرش کو اکتاہٹ محسوس ہو رہی تھی ۔۔
ایک سکینڈ میں اپنا سیل فون روم میں بھول آیا ہوں تو ویٹ کر میں بس لے کر آیا ۔۔۔۔
آہل فارس سے کہتا سیڑھی کی جانب قدم بڑھا دیا ۔۔۔
۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی آہل نے اپنا سیل فون ہاتھ میں لیا ۔۔ تیز پانی کا شور واشروم کی جانب سے آ رہا تھا ۔۔ جس پر آہل تھوڑا مشکوق ہوتا ہوا آگے بڑھا ۔۔
مرش پانی کا نل بند کر کے ایک نظر آینے میں اپنے عکس کو دیکھا
۔۔ دوپٹا سمبھالتی جیسے ہی وہ باہر آیی اس کی ٹکر بہت ہی مضبوط شے سے ہویی ۔۔ مرش کو گرنے سے بچانے کے لیے آہل شاہ آفندی کا ہاتھ بے ساختا مرش کی کمر میں حایل ہوا ۔۔
مرش اپنی پیشانی کو سہلاتے ہویے ڈری ڈری نظروں سے پلکیں اوپر کی جانب اٹھایی ۔۔
۔ سامنے اس شخص کو دیکھ کر اسے چار سو چالیس واٹ کا جھٹکا لگا ۔۔ آہل مرش کا چہرا لمحے کے ہزارویں حصے میں بھی پہچان سکتا تھا ۔۔۔
ت تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟
؟ ۔۔ چھوڑے مجھے ۔۔ ت ۔۔۔۔۔تت ۔۔۔ تم __۔۔۔۔ یہاں ۔۔۔۔یہاں کر کیا رہے ہو۔۔۔!! تم ہو کون ؟؟ ۔۔
یہی تو مجھے تم سے پوچھنا چاہئے!!!
۔آہل غصے سے بھری نگاہیں مرش کے چہرے پر مرکوز کرتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔
مرش آہل کی باہوں میں مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی ۔
۔ آہل کا غصہ اس وقت ساتویں آسمان پر تھا ۔۔
۔۔ آہل بنا تاخیر کیے مرش کی کلایی دبوچتا ہوا واشروم میں لے گیا ۔۔۔ دروازے کو اس قدر سختی سے بند کیا گیا ۔۔۔ مرش کچھ لمہے دروازے کو ہی دیکھتی رہ گیی ۔۔۔
یے۔۔۔۔۔۔۔ یے ک ۔۔۔۔۔ک کیا کر رہے ہو تم ؟ ۔۔چھوڑو مجھے ،،، تم میرا پیچھا کرتے کرتے یہاں بھی آ گے !!
۔مرش خود کو چھوڑانے کی کوشش کرتی ڈر سے سرخ پڑتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوے بولی ۔۔۔
بکواس بند کرو ۔۔ پیچھا ۔۔۔۔۔۔۔پیچھا ۔۔۔۔۔پیچھا ۔۔۔۔
نفرت ہے مجھے تمہارے اس الفاظ سے ۔۔۔ آہل غصے سے کہتا ہوا مرش کے تھوڑا قریب آیا ۔۔ تم اس وقت میرے گھر کے میرے بیڈروم سوری واشروم میں کھڑی ہو اور آج کے بعد اگر تم نے پیچھا ۔۔۔ لفظ اپنی زبان سے دہرایا تو زبان کاٹ کر رکھ دوگا
۔۔۔۔۔یے سنتے ہی مرش کانپ گیئ اور اسکی آنکھوں میں خوف کی لکیریں صاف نمایاں تھی ،،،،یہ ۔یہ ت۔ ۔۔تم تمہارا بیڈروم ہے ؟؟ مرش نے ہکلا تے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔آہل مرش کو بغور دیکھتے اور اس کے خوف سے محظوظ ہوتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ گردن ہاں میں ہلائی ۔۔۔۔۔۔
آہل شاہ آفندی مرش کے اب اتنا قریب تھا کی اس گرم سانسیں مرش کے چہرے کو چھو رہی تھی ۔۔۔۔۔ اس سب کے دوران مرش کا دوپٹے لڑھک کر زمین پر گر چکا تھا ۔
آہل کا ہاتھ ایک ایک بار پھر سے گستاخی کر بیٹھا ۔۔۔ !!!
۔ مرش کی کمر میں ہاتھ ڈال کر آہل جھٹکے سے مرش کو خود سے اتنا قریب کر لیا کی مرش سانس لینا بھول گی ۔۔
جو چیز مجھے اچھی لگتی ہے وہ میری بن جاتی ہے چاہے اس کی مرضی ہو یا نا ہو ۔۔۔۔”””
آہل اپنے سرخ ہونٹوں کو مرش کی کان کی طرف لے جاتے ہوے کہا ۔۔
۔ مرش اس کی باتوں کا مفہوم سمجھ نہیں پایی تھی ۔۔۔۔
آہل اپنا چہرہ دھیرے دھیرے مرش کیے اتنے قریب کرنے لگا ۔۔۔۔ اس پہلے کی کویی اور گستخایی ہوتی ۔۔ مرش نے ہاتھ کے سہارے پیچھے کی اور دھکا دیا ۔۔
گھٹیا انسان ۔۔ جانے دو مجھے ۔۔ میں سب کو چیخ چیخ کر بتاوں گی تم ہو کون ۔۔ اس سے پہلے کی آہل مرش سے کچھ کہتا ۔۔۔
چٹاخ ۔۔۔۔۔
مرش کا ہاتھ آہل شاہ آفندی کے گالوں پر پڑا ۔
۔ آہل ایک نظر مرش کو اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا ۔۔۔ بہت ہی تحمل کے ساتھ آگے بڑھتے ہوے مرش کے قریب آ کر اس کے دایں اور بایں جانب دیوار پر ہاتھ جما کر مرش کو اپنے گھیریے میں لے لیا ۔
“””””” اس
تھپڑ کا حساب بہت مہنگا چکانا پڑیگا ۔۔۔۔۔
آہل مرش کے کان میں شرگوشیاں کرتا جھٹکے سے مرش کو پیچھے کی اور ڈھکیلا ۔۔
دروازے کو تیز آواز میں کھولتا کمرے سے باہر چلا گیا ۔۔ ۔
Hii
فارس بریرہ کے قریب پہنچ کر بولا ۔۔
ہیلو !! بریرہ نے جواب دیا ۔
۔کیسی ہے آپ “”” فارس بریرہ کو جی بھر کر دیکھتا ہوا بولا ۔۔
بلکل ٹھیک ۔۔ بریرہ نے صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کیا ۔۔۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد فارس نے بات کا آغاز کرنا چاہا ۔۔
بہت پیاری لگ رہی ہے آپ ۔۔
شکریا ۔۔ بریرہ مسکرا کر شکریا بولی ۔۔۔
مرش کو نیچے اترتا دیکھ کر بریرہ فارس سے اکسکیوز کرتی اس کی طرف لپکی ۔۔
صاف ہو گیا مرش ؟؟ بریرہ اس کی ڈریس کو دیکھتی ہویی بولی ۔۔
ہاں صاف ہو گیا ہے ۔۔ مرش مسکراتی ہویی بولی ۔۔
چلو میں تمہیں اپنی مام ڈیڈ سے ملواوں ۔۔ بریرہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہویے لے گی ۔۔
مام ؟ بریرہ مریم بیگم کو بلایی ۔ ۔۔
ہاں بیٹا ۔۔ مریم بیگم مڑتے ہوے بولی ۔۔
انسے ملیے یے سب میری فرینڈز ہے ۔۔ یے اریشا ثمرہ زارا ۔۔ اور یے مرش ۔۔ بریرہ مرش کی طرف انگلی سے اشارہ کی ۔۔
ہیلو ۔۔ بیٹا ۔۔ کیسی ہے آپ سب ۔۔ مریم بیگم بہت ہی تپاک سے ان لوگوں سے ملی ۔۔ مریم بیگم کو یے لڑکیاں کافی پسند آیی تھی ۔۔
اب چلو میں تمہیں اپنے ہینڈسم سے بھایی سے ملواتی ہوں ۔۔ بریرہ ان لوگوں کو آہل کے پاس لے گی ۔۔
آہل کی نشت پیچھے کی اور تھی ۔۔
بھایی ۔۔ بریرہ نے آہل کو پکارا ۔۔
ہاں ۔۔ آہل جیسے ہی پیچھے مڑا ۔۔ مرش کی آنکھ پھٹی کی پھٹی رہ گی ۔۔
مجھے کسی سے ملوانا ہے آپ کو ۔۔
کس سے ؟
آہل مرش کے چہرے پر نظریں جماتا ہوا بولا ۔۔
اپنی فرینڈز سے ۔۔بریرہ چہکتی ہویی بولی
ہاں تو ملواوں ۔۔ آہل مسکراہٹ معنی خیز تھی ۔۔
ثمرہ اور اریشا کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔۔
ان سے ملیے یے میری فرینڈز یے ۔۔
باری باری بریرہ نے سب کا تعاروف کروایا ۔۔ آہل نے صرف ان لوگوں سے ہیلو پر ہی کام چلایا ۔۔
یے ہے مرش ۔۔۔ مرش یے ہیں میرے پیارے سے بھایی آہل ۔۔ آہل شاہ آفندی ۔۔
Hii
آہل نے اپنا ہاتھ مرش کی طرف بڑھایا ۔۔
مرش ایک بار آہل کا چہرہ ایک بار اسکے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی ۔۔
نا چاہتے ہوے بھی مرش کو آہل کا ہاتھ تھامنا پڑا ۔۔
Sang_jo_tu_hai
Episode_10
Zariya_fd
Do_not_copy_without_my_permission..
نائیس ٹو میٹ یو “””” آہل کی مسکراہٹ مرش کو کنفیوز کر رہی تھی ۔۔
مرش کا ہاتھ ابھی بھی آہل کے ہاتھوں میں تھا ۔۔ “”” مرش دھیرے دھیرے بہت کوششوں کے بعد ہاتھ چھڑانے میں کامیاب ہو گیی تھی ۔۔
تو یے ہے مرش ۔۔ ہم تو پہلے بھی مل چکے ہیں ۔۔ آہل مرش کی گھبراہٹ سے محفوظ ہوتا ہوا بولا ۔۔
اچھا کب ملیں ہے آپ دونوں ؟؟ بریرہ حیران ہوتی ہویی بولی ۔۔
یے تو تمہیں مرش ہی بتایں گی ۔۔ آہل مرش کے نام پر زور دیتا ہوا بولا ۔ ۔۔
ن۔ نہیں ۔۔ مجھے یاد نہیں ہے ۔۔ مرش جلدی سے بولی ۔۔
جب یاد آ جاے تو بتا دینا میری بہن کو نیند نہیں آے گی ۔۔ آہل مسکراتے ہوے بولا ۔۔
اکسکیوز می ۔۔ آہل اکسکیوز کرتا وہاں سے ہٹ گیا ۔۔
مرش کی اٹکی سانس بجال ہویی ۔۔ اور دل ہی دل میں شکر کیا ۔۔
پوری پارٹی میں آہل کی گھرتی نظریں مرش کو چہرے کو ڈھونڈ رہی تھی ۔۔
مرش آہل کی نظروں سے بچنے کے لیے کارنر کی سایڈ میں چھپنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے اس طرح چھپنے سے تم بچ جاو گی ۔۔ آہل نا جانے مرش کے پاس آ دھمکا ۔۔
تم ۔ ایک گھٹیا انسان ہو ۔۔ چلے جاو یہاں سے مرش دانت پر دانت سختی سے جماتی ہویی بولی ۔۔
تعریف کا شکریا ۔۔ مرش میڈم ۔۔۔”” آہل غصے سے مرش پر ایک نظر ڈالتا ہوا ہٹ گیا ۔۔
مرش کو سانس لینا مشکل ہو رہا تھا وہ تو اس وقت کوس رہی تھی جب اس نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا تھا ۔۔
اللہ اللہ کر کے پارٹی ختم ہویی ۔۔ بریرہ اب ہم چلتے ہے ٹایم بھی کافی ہو گیا ہے ۔۔ ثمرہ ریسٹ واچ پر نظریں ڈالتے ہوے بولی ۔۔ ہاں ٹایم کافی ہو گیا ہے اب ہمیں چلنا چاہیے ۔۔ مرش کی الگ بے چینی تھی گھر جانے کی ۔۔
اچھا ٹھیک ہے میں ڈرایور سے کہتی ہوں تم لوگوں کو ڈراپ کر دیں ۔۔ بریرہ مرش کا چہرہ دیکھتے ہوے بولی ۔۔
نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے ہماری گاڑی باہر آ گی ہے ہم لوگ چلیں جایں گے ۔۔ اریشا باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوے بولی ۔ ۔
چلو ٹھیک ہے خدا حافظ پہنچ کے مجھے کال کرنا بریرہ ایک ایک کر کے سب سے گلے ملتے ہوے بولی ۔۔
خدا حافظ ۔۔ مرش خدا حافظ کہہ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوے باہر آیی ۔۔ اسے گھر پہنچنے کی کچھ زیادہ ہی جلدی تھی ۔۔ زارا ثمرہ اور اریشا ابھی باہر نہیں آیی تھی ابھی ان کی سلام دعا کی رسم ہو رہی تھی ۔۔
مرش یہاں وہاں نظریں دوڑا رہی تھی گاڑی کی تلاش میں ۔۔ یوہی بے خیالی میں اس کی نظر اوپر کی جانب اٹھی ۔۔ آہل دونوں کے ہاتھوں کے سہارے ریلینگ پر جھکا ہوا تھا ۔۔ حالانکی آہل خاص طور سے کا ہی انتظار کر رہا تھا ۔۔
اپنی دو انگلیوں کو آنکھ کے پاس لے جا کر مرش کی طرف کی ۔۔ گویا وہ اس کو یقین دلانا چاہ رہا ہو وہ اب مرش کی نظروں کی قید میں ہیں ۔۔ اتنے گاڑی مرش کے قریب آ چکی تھی مرش ایک لمہہ زایا کیے بغیر گاڑی میں بیٹھ گی ۔۔ تب تک وہ تینوں بھی باہر آ چکی تھی ۔۔ ایک ایک کر سب گاڑی میں بیٹھ چکی تھی ۔۔ گاڑی اب اپنی منزل کے راستے پر چل چکی تھی ۔۔
آہل اب وہاں سے ہٹ چکا تھا ۔۔بیڈ پر تھکے ہوے انداز میں گرا اور آنکھیں بند کر کے الجھی ہوی گتھی کو سلجھانے لگا ۔۔ اس نے مجھے تھپڑ مارا زندگی میں پہلی بار کسی نے میرے اوپر ہاتھ اٹھایا وہ بھی دو ٹکے کی لڑکی ۔ ۔۔۔ تمہای بربادی کے دن شروع ہو چکے ہیں مرش ۔۔ اب میں تمہیں بتاوں گا گھٹیا انسان ہوتا کیسا ہے ۔۔ آہل کی سوچوں کا مرکز مسلسل مرش ہی تھی ۔
مرش کل تو کالج فنکشن یے تمہاری تیاری ہو گی ۔۔ اریشہ مرش کا چہرہ دیکھتے ہوے بولی ..
ہاں بس ہو ہی گیی ہے ۔۔ مرش آنکھ بند کیے جواب دی ۔۔
چلو اچھا ہے ۔۔ اریشہ خوش ہوتے ہوئے بولی ۔۔
گاڑی مرش کے دروازے پر آ کر رکی ۔۔
خدا حافظ ۔۔ مرش ان لوگوں کو خدا حافظ بولتی اندر چلی گیی ۔۔
ماما میں بہت تھک چکی ہو گڈ نائٹ ۔۔ بریرہ مریم بیگم سے گڈ نایٹ بولتی ہویی اپنے روم میں چلی گی ۔۔
موبائل ہاتھ میں لئے نا جانے اسے کس چیز کا انتظار تھا ۔۔
آج تو کوئی میسج نہیں آیا ۔۔ بریرہ بار بار میسج ان باکس کھول کر چیک کر رہی تھی ۔۔
اسلام وعلیکم !! بریرہ کے ہونٹوں پر بہت ہی خوبصورت مسکراہٹ رینگ گی ۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔ بریرہ نے جواب دینے میں ذرا بھی دیر نہیں کی ۔۔
مجھے لگا آج تم میسج نہیں کروگے ۔۔ بریرہ مسکراتے ہوئے میسج ٹائپ کرکے سینڈ کی ۔۔
فارس کو میسج کرنا اچھا بھی لگ رہا تھا ۔۔ لیکن اسے آہل کا بھی ڈر تھا نا جانے اس کا ریکشن ہوگا جب اسے پتہ چلے گا ۔۔ لیکن جب مہبت ہو جاے انسان کو نی ڈر بنا دیتی ہے ۔۔ ایسا ہی کچھ حال فارس کا بھی تھا ۔۔
کیوں تم انتظار کر رہی تھی کیا ۔۔
نہیں تو ۔۔ میں نے یو ہی کہہ دیا ۔۔ تم خوش فہمییاں کم پالا کرو ۔۔ “”” ۔ بریرہ مزاق اڑاتے ہوے میسیج سینڈ کی ۔۔
میرے خیال سے تم اپنے بھایی سے کہنے والی تھی مجھے ۔۔ “”” تو کیا بنا اس مسلے کا ؟؟ ۔ فارس کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی ۔۔
شکر کرو تم میں نے نہیں کہا ۔۔ دیکھو میں تمہاری بھالایی کے بارے میں سوچ رہی ہوں ۔۔ میرے بھایی کو پتہ چل گیا نا تو وہ تمہاری جان لے لیں گے ۔۔ بریرہ کو اس کی پرواہ تھی ۔۔ اس لیے وہ خود آہل سے نہیں کہہ پا رہی تھی ۔۔
کہیں مجھ سے محبت تو نہیں ہو گی ۔۔ جو میری بھلایی کے بارے میں سوچا جانے لگا ۔۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔۔ بریرہ اس سوال پر صاف مکر گی ۔۔
میں تمہاری آواز سننا چاہتی ہوں ۔۔ بریرہ کو اب اس کی آواز سننے کی بیچینی تھی ۔۔
اگر تم میری آواز کے سہر میں گم ہو گیی تو ۔۔۔ فارس کا ارادہ ابھی بھی بریرہ کو تنگ کرنا تھا ۔۔
وہ تو سننے کے بعد پتا چلیگا ۔۔ بریرہ غصے والی یموجی سینڈ کی ۔۔
ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی ۔۔ فارس مسکراتا ہوا کال کیا ۔۔
موبائل کی پہلی ہی رنگ پر بریرہ نے کال پک کر لیا ۔۔
کچھ بولوگے تو میں تمہاری آواز کے سہر میں گم ہونگی نا ۔۔ بریرہ چڑتے ہوئے بولی ۔۔
ہا ۔۔ہا ہا ۔۔ میری آواز اتنی خوبصورت نہیں ہے تم کھو جاو گی ۔۔
میں تمہیں دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔ بریرہ کی ایک اور ڈیمانڈ بڑھ گیی ۔۔
اتنی جلدی نہیں پہلے محبت کا آغاز تو ہو جائے پھر تو دیدار تو روز ہوگا ۔۔
مجھے تمہاری آواز جانی پہچانی سی لگ رہی ہے ۔۔ تم ۔۔!!! بریرہ ذہن پر زور دیتے ہوئے بولی ۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے تم تمہیں نیند آ رہی ہوگی ۔۔ گڈ نایٹ ۔۔ “”” فارس ہڑبڑا کر بولتا ہوا فون کال ڈیسکنیٹ کر دیا ۔۔
بریرہ کی سمجھ سے باہر تھی اس کی یے حرکت ۔۔ آج تھکن کچھ زیادہ ہی تھی ۔۔ اس لیے جلد ہی وہ بھی سو گی ۔۔
بریرہ اگر تم ریڈی ہو تو میں ویٹ کر رہا ہوں باپر جلدی آو ۔۔ آہل موبایل جیب میں ڈالتا ہوا باہر چلا گیا ۔۔
بریرہ ایک منٹ زایا کیے بغیر باہر آیی آہل پہلے سے ہی اس کے انتظار میں بیٹھا تھا ۔۔۔
سفر کے دوران آہل اور بریرہ کے بیچ چند باتیں ہویی اتنے میں گاڑی کالج پہنچ چکی تھی ۔۔
خدا حافظ بھایی ۔۔ بریرہ خدا حافظ کہتی ہویی بھیڑ میں غایب ہو گی ۔۔ آہل کے پاس اتنا وقت نہیں تھا وہ ایک نظر کالج پر ڈالتا ۔۔
مرش تم بلکل بھی نروس مت ہونا ہم سب وہاں ہونگے ۔۔ بریرہ مرش کو حوصلہ دے رہی تھی ۔۔
مرش تم ڈرنا مت ۔۔ اب ہماری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے ۔۔ زارا مرش کو گلے لگتے ہوے بولی ۔۔
تم لوگ دعا کرنا سب اچھا ہو مرش افسوس سے بولی ۔۔
آج کالج کا فنکشن تھا جس کی تیاریاں بہت دنوں سے چل رہی تھی ۔۔ سب لوگوں نے زبردستی مرش کو بھی حصہ لینے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔ مرش صرف ان لوگوں کا دل رکھنے کے لیے تیار ہو گی تھی ۔ ۔
ہیلو ؟؟ آہل اپنی روبیلی آواز کے ساتھ بولا ۔۔
ج۔۔۔جی ۔۔ سر ۔۔ مسٹر شاکر گھبراتے ہوے بولے ۔۔
آہل شاہ آفندی بات کر رہا ہوں ۔۔ آہل نے اپنا تعارف کروایا ۔۔
ج۔ ۔ج۔ ۔۔جی ۔۔ سر بولے ۔۔ مسٹر شاکر کا گھبراہٹ سے برا حال تھا ۔۔
مرش ۔۔ نام تو سنا ہوگا آپ نے ۔””” آہل نے اپنے مقصد کا بیان کچھ اس طرح کیا ۔۔
مرش نامی لڑکی کا بایو ڈیٹا مجھے ۔۔۔۔۔۔
A to Zz چاہیے .
سر میں ابھی دس منٹ کے اندر آپ کو ایمیل کرتا ہوں ۔۔
مسٹر شاکر کی سمجھ سے باہر تھا آخر مرش کا بایو ڈیٹا کیوں چاہیے ۔۔لیکن یہاں سوال کرنے کی کس کی ہمت تھی ۔۔
دس ؟؟ دس منٹ نہیں پانچ منٹ کے اندر بھیجو ۔
کالج کیسا جا رہا ہے ؟؟ آہل نا جانے کیوں آج کالج کے بارے میں پوچھ بیٹھا تھا ۔۔۔
سر کالج تو بہت اچھا جا رہا ہے اور آج فنکشن بھی ہے ۔۔ لیکن آپ تو آیں گے نہیں اس لیے آپ کو علم نہیں ہوگا ۔۔ مسٹر شاکر ایک ہی سانس میں اپنی بات ختم کر کے جواب کا انتظار کرنے لگے ۔۔
فنکشن ؟؟
جی آج فنکشن ہے ۔۔ مسٹر شاکر نے ایک بار اپنی بات پھر سے دہرایی ۔۔
کیوں نہیں میں ضرور آوں گا ۔۔ آہل ہونٹوں پر ایک ایسی مسکراہٹ تھی جیسے شکار اپنے شکاری کو قید کر چکا ہو ۔۔
۔ آہل اپنی بات ختم کر کے کال ڈیسکنیٹ کر دیا ۔۔
فارس آج ہمیں فنکشن میں جانا ہے تو ساتھ چلے گا ؟؟ آہل آفس کا دروازہ کھول کر اندر آتے ہوے پوچھا ۔۔
وآٹ ۔۔۔ تو فنکشن میں جاے گا ۔۔ مطلب کی آہل شاہ آفندی فنکشن میں جاے گا ۔۔ سچ کہہ رہا تو ؟؟ فارس کو آہل کی کہی ہویی بات یقین نہیں
آیا تھا ۔۔
ہاں جا رہا ہوں اس میں کویی حیران ہونے والی بات نہیں ہے ۔۔ ابھی کچھ دیر مے میں نکل رہا ہوں ۔۔ اتنے میں آہل کے موباہل پر مرش کا پورا بایو ڈیٹا چمک رہا تھا ۔۔ لیکن ابھی اسکے لئے سب سے ضروری کالج پہنچنا تھا ۔۔ تاکی جان مرش کا دیدار ہو سکے ۔۔
مرش واو بہت ہی زیادہ پیاری لگ رہی ہوں ۔۔ اریشہ مرش کی خوبصورت چہرے کو سراہتے ہوے بولی ۔۔
پورا اسٹاف تیار تھا آہل شاہ آفندی کا استقبال کرنے کے لیے ۔۔ لڑکوں اور لڑکیوں کا ہجوم ایک ایک گروپ کی ٹولی میں اکٹھا تھا ۔۔
فارس ٹایم ہو گیا ہے اب چلو ۔۔ آہل چیر سے اٹھتے ہوے بولا ۔۔۔
کیا تو سیریس ہے ۔۔ فارس اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا ۔۔
تو جانتا ہے میں اتنا گھٹیا مزاق نہیں کرتا چلنا ہے تو چل ورنہ میں اکیلے بھی جا سکتا ہوں ۔۔ آہل چڑے ہوے انداز میں کہتے ہوے شرٹ کی آستین فولڈ کرتا ہوا اٹھا ۔۔
چلتا ہوں غصہ تو نا کر ۔۔ فارس اب آہل کت ساتھ قدم سے قدم ملاتا ہوا چلنے لگا ۔۔
آہل گاڑی کو گیٹ کے سامنے روکتے ہوے اترا ۔۔
لوگوں کا ہجوم کافی تھا ۔۔ آہل نے پہلے سے ہی دو گاڈز کا بندوبس کیا تھا جو پہلے سے ہی وہاں پر موجود تھے ۔۔ آہل اور فارس کو دیکھتے ہی وہ ان کی پیچھے آ کھڑے ہوے ۔۔
یے تو آہل شاہ آفندی ہے میں تو اس کی بہت بڑی فین ہوں ۔۔ قریب سے ایک لڑکی کی آواز آیی ۔۔ ایسے کمینٹس ہزاروں لوگوں نے کیا ۔۔ لیکن آہل شاہ آفندی کا مقصد ہی کچھ اور تھا ۔۔ اس کے دماغ میں جو اس وقت چل رہا تھا اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی ۔۔
فنکشن اپنے زورو شور پر تھا ۔۔ آہل اور فارس ہر کویی آگے آگے لاین میں لگا ہوا تھا ۔۔
آہل یہاں پر جب سے آیا تھا مسلسل موبایل میں بزی تھا اس کا تو مقصد ہی کچھ اور تھا ۔۔ آہل کی نگاہیں مسلسل مرش کی تلاش کر رہی تھی ۔ جیسے مرش اس کے آس پاس ہی ہو ۔۔
مرش نے کچھ خاص نہیں لیا تھا ۔۔۔ ابھی وہ اندر اپنی لاینز تیار کر رہی تھی ۔۔
اور وہ پانچوں بھی مرش کو تسلی دینے میں مگن تھی ۔۔
مرش ہمارے لیے یے موقع بہت اہم ہے تمہیں ڈرنا بلکل نہیں ہے ۔۔ ثمرہ نے بھی تسلی دینے میں کویی کسر نہیں چھوڑی ۔۔۔
آہل اگر تجھے یہی کام کرنا تھا تو تو کس خوشی میں آیا ہے ۔۔۔ فارس موبایل کی طرف اشارہ کرتے ہوے بولا ۔۔
میرا یہاں آنے کا مقصد دوسرا ہے تھوڑا انتظار کر ۔ پتہ چل جاے گا ۔۔۔۔
مرش کا نام پکارا جا چکا تھا ۔۔ آہل مسلسل چلتی انگلیوں کو بریک لگ گیا ۔۔
میرا کام تو اور آسان ہو گیا ایک ایسا اتفاق تھا جس کو نا تو مرش نے سوچا تھا اور نا ہی آہل شاہ آفندی نے ۔۔
مرش بہت ہی کانفیڈینس سے ہولے ہولے قدم بڑھاتی ہویی اسٹیج پر تشریف لایی ۔۔ مرش کی ہمت نہیں ہو رہی تھی وہ اپنی پلکوں کو اٹھا سامنے دیکھے سامنے بیٹھا شخص کون ہے ۔۔۔۔
آہل کی ایک ٹک مرش کو دیکھا جا رہا تھا گویا اس کویی خزانہ مل گیا ہو ۔۔
شاید اسے ہی اتفاق کہتے ہیں جس شخص کی ہم شکل نہیں دیکھنا چاہتے وہی شخص ہماری نظروں میں بار بار کیوں آتا ہے ۔۔
مرش کو بہت دیر سے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی کی نظروں کے حصار میں ہے ۔۔ مرش نے جیسے ہی پلکیں اٹھایی اسے لگ رہا تھا جیسے ابھی زمین میں دھنس جاے گی ۔۔
آہل کی مسکراہٹ اور گہری ہو گی تھی ۔۔۔ آہل مرش کو آنکھ مارتا ہوا پھر سے موبایل میں بزی ہو گیا ۔۔ حالانکی اس کا پورا دھیان مرش کی طرف تھا ۔۔
مرش کی خاموشی سب کو پریشان کر رہی تھی ۔۔۔ مرش اپنے آگے کا سارا الفاظ بھول چکی تھی ۔۔
مرش کمان !!! کمان مرش ۔۔۔ نیچے کھڑے لوگوں کا شور مرش کے کانوں تک پہنچ تو رہا تھا ۔۔ لیکن مرش اس وقت سب سے غافل آہل کا چہرہ دیکھے جا رہی تھی ۔۔ کاش اس وقت زمین پھٹتی اور میں اس میں دفن ہو جاتی ۔۔ مرش نے دل سے دعا کر رہی تھی ۔۔۔
کیا یہاں پر ڈراما چل رہا ہے ۔۔ آہل چیر سے اٹھتے ہوے مرش کے قریب آیا ۔۔
اگر آپ الفاظوں کا چناو نہیں کر پا رہی ہے تو اسٹیج پر آنے کی ضرورت کیا تھی ۔۔
مرش خاموشی سے آہل کے الفاظ کو سن رہی تھی ۔۔۔ جب حد ہو گی تو آہل کو ایک اور موقع مل گیا جس کی تلاش اسے بہت شدت سے تھی ۔۔
۔۔۔۔کیا بکواس ہے ۔۔ اگر آپ فالتو ہے تو ضروری نہیں یہاں پر بیٹھا ہر شخص فارغ ہے ۔۔۔
منھ میں زبان ہے ؟؟ آہل اپنی سرخ آنکھیں مرش کے چہرے پر جماتے ہوے بولا ۔۔۔
میں پوچھ رہا ہوں زبان ہے یا نہیں ؟؟؟ ۔۔ آہل آج پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا حساب چکانے ۔۔
ہا ۔۔ ہاں ۔۔۔ مرش ہکلاتے ہوے ہاں میں گردن ہلایی ۔۔
مطلب کان نہیں ہے جبھی لوگوں کی آواز سنایی نہیں دے رہی ہے ۔۔
آخر اس جیسی لڑکیوں کو سلیکٹ کیوں کیا جاتا ۔۔۔ جب ہمت ہی نہیں اور ساری لڑکیاں مر گی ہے ۔۔۔ آہل کا غصے سے پورا اسٹاف تھر تھر کانپ رہا تھا ۔۔
حالانکی یے کویی اتنا غصہ کرنے والی بات نہیں تھی ۔۔۔
فارس حیرت زدہ آہل کو دیکھ رہا تھا ۔۔ ہو گیا اسے ؟؟ فارس منھ ہی منھ بڑبڑایا ۔۔۔
ایسا ہی حال نیچے کھڑے نفوس کا تھا ۔۔ بریرہ کو یقین نہیں آ رہا تھا بھایی یے سب بول رہے ہے ۔۔۔
سر مرش بہت اچھی لڑکی ۔۔۔ سر عباد ابھی کچھ بولتے آہل نے بیچ میں ہی انہیں ٹوک دیا ۔۔
اچھی ۔۔ کس لہاز سے یے اچھی ہے ۔۔ جب ہمت نہیں ہے تو اسٹیج پر خود کی نمایش کرنے سے بہتر ہے اپنے کلاس تک ہی محدود رہے ۔۔
آہل کے الفاظ مرش کی دل میں تیر کی طرح چبھ رہے تھے ۔۔۔
اس کے موٹے موٹے آنسوں گالوں پر گر رہے تھے ۔۔۔
آج کے بعد کسی بھی فنکشن میں اس جیسی لڑکی کو اگر کسی نے سلیکٹ کیا تو ایک ایک کر کے سب کو فارغ کر دوں گا ۔۔ آہل ایک ایک کو وارن کرتا ہوا نیچے اترا لوگ آنکھ پھاڑے آہل شاہ آفندی کو دیکھ رہے تھے ۔۔ لیکن وہ سب کو اگنور کرتا ہوا باہر کی جانب آیا ۔۔
مرش اپنے آنسوں پوچھتے ہوے اسٹیج سے نیچے اتری اسے آہل شاہ آفندی سے بات کرنی تھی ۔۔ مرش دوڑتے ہوے باہر کی جانب بھاگ کر آیی جہاں پر آہل ابھی گاڑی کو انلاک کر رہا تھا ۔۔
تمہاری دشمنی کیا ہے مجھ سے ۔۔ میں نے تمہارا ک۔۔ک۔ ۔کیا بگاڑا ہے ۔۔ رونے کی وجہ سے مرش کی آواز نکلنی مشکل ہو رہی تھی ۔۔
آہل مرش کی کلایی پکڑ کر کارنر کر سایڈ لے گیا ۔۔
میں میں ۔۔ نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ۔۔ تمہارا یے غرور صرف پیسے کے بل بوتے پر ہے نا ت۔ ۔۔تم بہت پچھتاو گے ۔۔ میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں ۔۔۔
آہل مرش کا ایک ایک الفاظ کو بہت غور سے سننے کے بعد مرش کی کمر میں اپنا بازوں حایل کیا مرش آہل کے اتنے قریب تھی آہل شاہ آفندی اس کے دل کی دھڑکن کو بظاہر سن سکتا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابتداے عشق ہے روتا ہے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آہل مرش کے آنسوں کو چٹکیوں میں اڑاتے ہوے یے شعر پڑھا ۔۔۔
مرش بھوری آنکھیں رونے کی وجہ سے سوج گی تھی ۔۔ مرش کے آنسوں آہل شاہ آفندی کو کمزور کر رہے تھے ۔۔ آہل نظریں چراتے ہوے مرش کے کو ایک جھٹکے سے چھوڑ دیا ۔۔۔ دونوں ہاتھوں کو جینس کی جیب میں ڈالے وہ مرش کو ایک ٹک دیکھے جا رہا تھا ۔۔ مرش ہچکیاں اس کے دل میں اتر رہی تھی ۔۔۔ خود پر قابو رکھتے ہوے آہل گاڑی میں آ کر بیٹھ چکا تھا ۔۔ اتنی ہی دیر میں فارس بھی آ چکا تھا ۔۔۔
فارس تو آفس سے گاڑی منگوالے ۔۔ اور بریرہ کو لے کر گھر پہنچ ۔۔ آہل گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا ۔۔ لیکن بیک مرر سے مرش کو ہی دیکھے جا رہا تھا ۔۔ مرش ابھی بھی اسی طرح بیٹھی ہویی تھی ۔۔ آہل کے دل کو کچھ ہونے لگا تھا ۔۔ جیسے وہ پچھتا رہا ہو ۔۔۔ لیکن اب سب بیکار تھا ۔۔۔
میرے خاموش ریڈرس آپ لوگ ۔۔۔ نایس ۔۔ زبردست ۔۔ سے ہٹ کر ناول کے بارے میں کمنٹ کرے تو میری حوصلہ افزایی ہوگی ۔۔ آپ لوگ سے میری درخواست ہے ۔۔مجھے ناول کے بیسک پر کمنٹس کرے ۔۔ مجھے خوشی ہوگی ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
£pisode_11
By_Zariya_fd
DO_NOT_COPY_WITHOUT_MY_PERMISSION
مرش اٹھو یہاں سے چلو “”” زارا ثمرہ اور اریشہ مرش کی حاکت دیکھتے ہوے بولی ۔۔ بریرہ کی ہمت نہیں ہو رہی تھی وہ مرش کا سامنہ کر سکے ۔۔ کچھ بھی تھا ۔۔ آہل شاہ آفندی اسی کا بھایی تھا ۔۔۔
پلیز چلی جاو یہاں سے تم لوگ مجھے کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دو ۔۔ مرش روتے ہوے بولی ۔۔
اس وقت مرش کو اکیلا چھوڑنا ہی بہتر تھا ۔۔ زارا نے آنکھ کے اشارے سے سب کو جانے کے لیے کہا اور خود بھی وہاں سے ہٹ گیی ۔۔
فارس بریرہ کو لے کر گھر پہنچ چکا تھا ۔۔وہ دونوں آہل کے کمرے میں داخل ہوے اس کو اچھی خاصی سنانے کے لیے ۔۔
آہل کو اتنا پرسکون دیکھ کر بریرہ کو حیرت ہویی ۔۔
بھایی آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔۔ کیوں کیا آپ نے مرش نے آپ کا کیا بگاڑا تھا “”” بریرہ آہل سے سخت غصہ تھی ۔۔
اس ٹاپک پر ہم پھر کبھی بات کریں گے ۔۔ ابھی میں بہت تھکا ہوا ہوں ۔۔
آہل ایک لمبی سانس بھرتے ہوے کھڑا ہوا ۔۔
فارس آہل کو صرف دیکھے جا رہا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ کیا بولے ۔۔
بھایی اگر کویی میرے ساتھ اس طرح کرتا تو آپ کیا کرتے ۔۔ بریرہ کا موڈ ابھی آہل کو ایک دو سنانے کا تھا ۔۔۔
زندہ زمین میں گاڑ دیتا ۔۔ آہل ایک ایک لفظ چبا کر بولا ۔۔
آہل کی باتیں سن کر فارس کا ہلک تک خشک ہو گیی ۔۔ ایک لمحے کو لگا آہل واقعی اس شخص زمین میں گاڑ ہی دیتا ۔۔
وہ بھی کسی کی بیٹی ہی ہے ۔۔ بریرہ بیٹی الفاظ پر زور دیتے ہوے کمرے سے نکل گی ….
آہل اس بیچاری کے ساتھ تیری کیا دشمنی تھی ۔۔ اگر تیری اتنی ہی خواہش تھی اس کی انسلٹ کرنے کی تو ایکلا بلا کر دیتا ۔۔ مجھے تو ترس آ رہا ہے اس لڑکی پر ۔۔ فارس آہل کو تیکھی نظروں سے گھورتے ہوے بولا ۔۔۔
ہو گیا ۔۔ اب میں جاوں سونے ۔۔ آہل فارس کو اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے فارس اتنی دیر سے کویی جوک سنا رہا ہو ۔۔
آہل تجھ سے تو کچھ کہنا ہی بیکار ہے ۔۔ فارس کو اس وقت سخت چڑ رہی ہو رہی تھی آہل کو اتنا پرسکون دیکھ کر ۔۔۔ جا رہا ہوں میں لیکن سوچنا ضرور جو تونے کیا ہے پھر تجھے احساس ہوگا کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنا کیا ہوتا ہے ۔۔ فارس دندناتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔
فارس ؟؟؟ بریرہ کافی کا مگ لیے اس کو آواز دیتے ہوے پاس آیی ۔۔۔۔ فارس کا نام آج بریرہ نے پہلی بار لیا تھا ۔۔۔۔ اپنا نام دشمن جاں کی منھ سے سن کر فارس کو اندر ہی اندر بے تحاشا خوشی ہویی ۔۔
جی !! فارس کو تو موقع مل گیا تھا بات کرنے کا جس کی شدید خواہش اس کے دل میں تھی ۔۔
آں وہ کیا بھایی نے آپ کو کچھ بتایا ؟؟ بریرہ فارس سے کچھ سن گن لینا چاہتی تھی ۔۔
نہیں ۔۔ کچھ بھی نہیں بتایا اس نے ۔۔ فارس افسوس سے بولا ۔۔
اچھا ۔۔ کافی پیںگے آپ میں بہت مزے کی کافی بناتی ہوں ۔۔۔ بریرہ کو اچھا نہیں لگ رہا تھا وہ خود کافی پی رہی ہے اور گھر آے مہمانوں کو پوچھا تک نہیں ۔۔ حالانکی فارس اس گھر کا مہمان کبھی تھا ہی نہیں جاوید شاہ آفندی مریم شاہ آفندی نے ہمیشہ اسے ایک اپنے بیٹا کی طرح ہی سمجھا ہے ۔۔۔
بلکل پیوں گا ۔۔۔ فارس نے کافی کی آفر جلدی سے ایکسیپٹ کر لیا تھا ۔۔
اس پہلے کی بریرہ کا ارادہ بدل جاے ۔۔
بس پانچ منٹ میں ابھی بنا کر لے لر آتی ہوں ۔۔ بریرہ کہتی ہویی کچن کی جانب اپنے قدم بڑھا دیے ۔۔
آپ کی فیملی میں کون کون ہے ۔۔ بریرہ کافی کا سیپ لیتے ہوے بولی ۔۔
میں اور میری مام ۔۔۔ فارس بریرہ کو جواب دے کر کافی کی طرف متوجہ ہو گیا ۔۔
چند باتوں کے دوران کافی کا مگ خالی ہو چکا تھا ۔۔۔
اب مجھے چلنا چاہیے ۔۔ فارس کا دل تو نہیں کر رہا تھا جانے کا لیکن مجبوری بھی کسی چیز کا نام ہے ۔۔
اچھا خدا حافظ ۔۔ بریرہ الودایی کلمات ادا کرتے ہوے کمرے میں آ گی ۔۔۔ فارس بھی جا چکا تھا اس کے دل کی مراد آج رب تک پہنچ ہی گی تھی دشمن جاں کا صرف دیدار ہی نہیں گپ شپ بھی تھوڑی ہو گی تھی ۔۔۔
کیوں کر رہا ہے وہ ایسا میں نے کیا بگاڑا ہے اس کا کیا چاہتا ہے وہ مجھ سے ۔۔ مرش دیوار سے ٹیک لگاے اہک ہی پواینٹ پر سوچے جا رہی تھی ۔۔ میں اب اس کے سامنے کبھی نہیں جاوں گی یا اللہ میری مدد کر مرش آنکھ بند کر کے دل ہی دل میں اپنے رب سے دعا گو تھی ۔۔۔
آہلل ناشتے کی ٹیبل پر پہنچ کر سرسری سے انداز میں ٹیبل پر بیٹھے نفوس کو سلام کیا ۔۔
مریم بیگم نے ہمیشہ کی طرح خوش دلی سے جواب دیا لیکن جاوید شاہ آفندی نے سلام کا جواب دھیرے سے دیا ۔۔
بریرہ کہاں پر ہے ؟؟ ۔۔ بریرہ ٹیبل پر غیر موجود تھی آہل نے خیال آتے ہی پوچھا ۔۔
کالج جا چکی ہے وہ ۔۔ جواب مریم بیگم کی طرف سے آیا ۔۔
ویسے تو بریرہ آہل کے ساتھ ہی کالج جاتی تھی ۔۔ لیکن آج آہل کے ساتھ نہ جانے کا مقصد اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا تھا ۔۔
اچھا ۔۔ آہل جان کو علم ہو چکا تھا ۔۔ آج اکیلے جانے کا کیا مقصد ہے ۔۔
مرش ہمیں لگا آج تم کالج نہیں آو گی زارا مرش کی سوجی ہویی آنکھیں دیکھتے ہوے بولی ۔۔ بریرہ سر جھکاے بیٹھی تھی ۔۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا اگر وہ مرش کے چہرے پر دیکھ لے گی تو زندگی میں کبھی اس کا سامنہ نہیں کر پاے گی ۔۔
کیوں لوگ میری کمزوری کا فایدہ اٹھاتے ہے لیکن اب میں کمزور نہیں ہے ۔۔ مرش اونچی آواز میں بولی ۔۔
مرش ایم ریلی سو سوری ۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں اپنے بھایی کی طرف سے میں تم معافی مانگتی ہوں ۔۔بریرہ کو واقعی شرمندگی محسوس ہو رپی تھی ۔
تمہاری کویی گلتی نہیں ہے بریرہ اٹس اوکے ۔۔ مرش بہت ہی تحمل کے ساتھ بولی ۔۔
ان سب کو چھوڑو میں تم لوگ کو ایک جوک سناتی ہوں ۔۔۔ ثمرہ ماحول کی غمگینی کم کرنا چاہ رہی تھی ۔۔
مجھے آپ سے بات کرنی ہے بابا ۔۔ آہل جاوید شاہ آفندی کو بہت کم ہی بابا کہہ کر پکارتا تھا ۔۔
جاوید شاہ آفندی اخبار سایڈ میں رکھ کر آہل کی طرف متوجہ ہوے ۔۔
آہل چل کر کمرے کے اندر آیا بیڈ کے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھا ۔۔ آہل کو دیکھ کر اس وقت ایسا لگ رہا تھا ۔۔ جاوید شاہ آفندی آہل کے باپ نہیں آہل ان کا باپ ہو ۔۔
بولو ؟ ۔۔ جاوید شاہ آفندی سوالیہ نظروں سے آہل کو دیکھتے ہوے بولے ۔۔
میں شادی کرنا چاہتا ہوں ۔!!!
۔ آہل اس وقت ایسے بات کر رہا تھا جیسے اس وقت سے زیادہ اور کویی وقت پرسکون ہو نہیں سکتا ۔۔
یے تو اچھی بات ہے میں نے تمہارے لیے نبیل کی بیٹی ۔۔۔ جاوید شاہ آفندی کی بات ادھوری ہی رہ گی کی آہل بیچ میں سے ہی ان کی بات کاٹ دیا ۔۔
یے رہا لڑکی کا ایڈریس ۔۔۔ نام مرش ہے ۔۔۔ آج ہی رشتہ لے کر جاے اس کے گھر یے کام تو میں خود کر سکتا تھا ۔ ۔ لیکن شاید آپ جایں گے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔۔ آہل اپنی بات ختم کر چکا تھا ۔۔
تم ہم سے اجازت لینے آے ہو یا ہمیں اپنا فیصلہ سنانے ۔۔ جاوید شاہ آفندی غرراتے ہوے بولے ۔۔ مریم بیگم خاموشی سے سب دیکھے جا رہی تھی ۔۔
فیصلہ سنانے ۔۔ یے کام آج ہی ہو جانا چاہیے ۔۔ آہل اپنی بات مکمل کر کے کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔
پیچھے جاوید شاہ آفندی اور مریم شاہ آفندی آہل کی نشت دیکھتے رہ گے ۔۔
اس لڑکے کو دیکھ رہی ہو کتنا بدتمیز ہو گیا ہے ۔۔ جاوید شاہ آفندہ آہل سے سخت ناراض تھے ۔۔
رہنے دے نہ آہل نے پہلی بار کچھ مانگا ہے وہ اپنی زندگی کے بارے میں ہم سے اچھا سوچ سکتا ہے ۔۔ غصہ چھوڑے ۔۔۔ چلے اٹھے ہمیں جانا بھی تو ہے ۔۔ مریم بیگم ہر طریقے سے آہل کی سایڈ ہی بولے جا رہی تھی ۔۔ جاوید شاہ آفندی مجبور تھے کیوں کی فیصلہ ان کے بیٹا کا تھا۔۔۔
رات میں میسیج نہیں کر سکا اس کے لیے دل سے معافی ۔۔ میسیج کی رنگ نے بریرہ کو اپنی جانب متوجہ کیا ۔۔
تم تو یو معافی مانگ رہے ہو جیسے میں پاگل ہو رہی تھی تمہارے میسیج کے لیے ۔۔۔ بریرہ حساب پورا کرنے میں ماہر تھی ۔۔
میں سوچتا ہوں تمہیں کب مجھ سے محبت ہوگی ۔۔۔ فارس آج وقعی بہت اداس تھا ۔۔
محبت خودبخود ہو جاتی ہے اور اگر تمہیں مجھ سے محبت ہونی ہوتی کب کی ہو چکی ہوتی ۔۔ بریرہ کا جواب فارس کو شک میں مبتلا کر رہا تھا ۔۔
تم کسی اور سے محبت کرتی ہو کیا کون ہے وہ خوش نصیب ؟؟ ۔۔
پاگل مت بنو ۔۔ میں کیوں کسی سے محبت کروں گی اور اس وقت میں کالج ہوں رات کو بات کروں گی خدا حافظ ۔۔
بریرہ کا میسیج پڑھ کر فارس کو بے انتہا خوشی ہو رہی تھی ۔۔ مطلب اسے مجھ سے بات کرنا اچھا لگتا ہے ۔۔
انتظار رہے گا جان بریرہ ۔۔ فارس نے آخری الفاظ بہت سوچ سمجھ کر لکھا تھا ۔۔
السلام علیکم ۔۔ جاوید شاہ آفندی گھر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے سلام کیا انہونے ۔۔۔
فایزہ بیگم کچن میں چاے بنانے میں مصروف تھی ۔۔ سرفراز صاحب کچھ حیران ہوتے ہوے ان کے پاس آے ۔۔
وعلیکم اسلام !! تشریف رکھیے ۔۔ جاوید شاہ آفندی اور مریم شاہ آفندی مسکراتے ہوے صوفے پر بیٹھ گے ۔۔
معاف کریے گا میں نے آپ لوگوں کو پہچانا نہیں ۔۔ سرفراز تھوڑا مشکوق ہوتے ہوے بولے ۔۔
ہم پہلی بار مل رہے ہے بھایی صاحب اس لیے آپ ہمیں پہچاننے سے قاصر ہے ۔۔ جواب مریم بیگم نے دیا ۔۔ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد جاوید شاہ آفندی اپنے پواینٹ پر آے ۔۔ دراصل ہم سے کچھ مانگنے آے ہے ۔۔ امید ہے آپ ہمیں خالی ہاتھ نہیں لوٹایےگے ۔۔ جاوید شاہ آفندی بہت پر امید تھے جیسے آج ہی وہ کویی فیصلہ کر لیں گے ۔۔
اسی اثنا میں فایزہ بیگم ہاتھ میں چاے کا کپ لیے حاضر ہویی ۔۔ یے ایک ایسی گھڑی تھی جس کو جاوید شاہ آفندی اپنے خوابوں خیالوں میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے ۔۔
فایزہ !!! ۔۔ جاوید شاہ آفندی اپنی آنکھوں پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔ یے تو فایزہ ہے ان کے دل نے دہایی دی ایسی ہی کچھ حالت مریم شاہ آفندی کی بھی تھی۔۔ یے تو وہی آنکھیں ہے یے تو نورا کی بہن ہے یے چہرہ اتنا شناشا ہے میں اس کو ہزاروں سال بعد بھی دیکھ کر پہچان سکتا ہوں ۔۔
تم تھوڑا پریشان ہو لگ رہی ہو سب ٹھیک تو ہے ۔۔ اس وقت مرش اور بریرہ کلاس میں تنہا تھی کیوں کی وہ تینوں لایبریری میں گی ہویی تھی ۔۔
مرش کویی انجان شخص آپ کو میسیج کرے آپ سے محبت کا دعوا کرے اور وہ ہمارے بارے میں ساری خبر رکھتا ہو مطلب وہ سب کچھ جانتا ہم کیا کر رہے ہے اس وقت کس کے ساتھ ہے ؟؟ بریرہ اس جواب چاہیے تھا چاہے کسی سے بھی ۔
آفکورس وہ ہمارا کویی بہت قریبی ہوگا کویی جان پہچان کا ہوگا ۔۔ کیوں تمہیں کویی میسیج کر رہا ہے کیا ۔۔ مرش کو تھوڑا عجیب لگ رہا تھا بریرہ کا یے سوال ۔۔
ارے نہیں نہیں میں تو بس یونہی پوچھ رہی تھی ۔۔۔ بریرہ مرش کسی شک میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے جلدی سے بات بنا گی ۔۔۔ کالج آف ہو چکا تھا ۔۔ بریرہ جا چکی تھی لیکن آہل کے ساتھ نہیں ڈرایور کے ساتھ مرش کی بھی وین آ چکی تھی ۔۔ گھر پہنچنے میں اسے بس تھوڑا سا وقت اور لگنا تھا ۔۔
سلام جواب کی رسم کے بعد کچھ دیگر لوازمات کے ساتھ فایزہ بیگم دوبارا سے آیی ۔۔
دراصل ہم اپنے بیٹے کے لیے آپ کی بیٹی مرش کا ہاتھ مانگنے آیے ہیں ۔۔ مریم بیگم خوش نے خوش ہوتے ہوے کہا لیکن ان کے دل میں ڈر بھی تھا اگر جواب انکار میں ملا تو آہل کا کیا ریکشن ہوگا ۔۔
ارے بہین آپ نے کچھ لیا ہی نہیں لے نا ۔۔ فایزہ بیگم مہمان کی خاطر کرنے میں کویی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی تھی ۔۔
دیکھے بھایی صاحب آپ ہماری طرف سے بلکل مطمین رہیے ۔۔ ہمیں یقین ہے آپ ہمیں خالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیں گے ۔۔ امید کی کرن بہت دور تھی ایسا جاوید شاہ آفندی کو لگ رہا ہو ۔۔ کیوں وہ بہت خوش تھے آہل کی پسند سے انجانے میں ہی لیکن اس نے ایک ایسی لڑکی کو پسند کیا تھا جس کی تلاش سے جاوید شاہ آفندی ہار چکے تھے ۔۔۔ وہ کسی بھی طرح سے اس گھر سے رشتہ جوڑنا چاہتے تھے ۔۔۔ شاید رب ایک اور موقع دیا تھا انہیں ۔۔
آپ ہمیں شرمندہ کر رہے ہے جاوید صاحب ۔۔ ہماری بیٹی کا جو فیصلہ ہوگا وہی ہمارا بھی ہوگا ۔۔ سرفراز صاحب مرش کی مرضی کے بغیر کویی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے تھے ۔۔
آنٹی انکل آپ السلام علیکم ۔۔ مرش جیسے ہی گھر میں داخل ہوی سامنے بیٹھے مہمانوں کو پہچاننے میں اسے ذرا بھی دیر نہیں لگی ۔۔
مرش تم جانتی ہو انہیں ۔۔ فایزہ بیگم نے مرش کو دیکھتے ہوے کہا ۔۔
جی یے بریرہ کی والیدین ہے ۔۔ مرش نے فایزہ کو جواب دیا ۔۔
یے یہاں پر کیوں آے ہے کیا وجہ ہو سکتی ہے ان کے آنے کی مرش سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی ۔۔ کہیں اس گھٹیا شخص کا ہی تو کوی پلان نہیں ہے ۔۔ مرش کا مارے خوف سے لرز اٹھا ۔۔
بیٹا ہم آپ کو اپنی بیٹی بنانا چاہتے ہے ۔۔ جاوید صاحب اتنے یقین سے مرش کو بتا رہے جیسے مرش اسی رشتے کے انتظار میں بیٹھی ہویی تھی ۔۔
مطلب ؟؟ مرش کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا جاوید شاہ آفندی کیا بول رہے ہے ۔۔
مرش یے لوگ آپ کا ہاتھ مانگنے آے ہیں اپنے بیٹے آہل شاہ آفندی کے لیے ۔۔۔ سرفراز صاحب ساری بات مرش کے سامنے صاف صاف رکھ دیے ۔۔ وہ بات کو گھما پھرا کر کرنے کر قایل نہیں تھے ۔۔۔
رشتہ ۔۔ مرش کو ایسا محسوس ہو رہا تھا ابھی وہ غش کھا کر زمین بوس ہو جاے گی ۔۔ میں اس رشتے کے لیے انکار کرتی ہوں ایم سوری آنٹی میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔ مرش کا جواب سن کر وہاں پر کھڑے نفوس سکتے کے عالم میں آ گے ۔۔ اتنے صاف انکار کی توقع نہیں تھی ان کو مرش سے ۔۔
مرش نے بہت ہمت کر کے اس رشتے کو انکار کیا تھا کیوں کی وہ جانتی تھی یے رشتہ کس کی مرضی سے ہو رہا ہے ۔۔۔ کس کی مرضی سے جاوید شاہ آفندی اور مریم شاہ آفندی آے ہیں ۔۔
اکسکیوز می ۔۔ مرش وہاں سے اکسکیوز کر کے کمرے میں آ گی ۔۔
کویی بات نہیں مرش ابھی چھوٹی ہے اسے سمجھ میں نہیں آ رہا ہوگا ۔۔ اگر وہ مان جاے تو ہمیں ضرور بتایے گا ۔۔ مریم بیگم ابھی آس لگاے بیٹھی تھی ہو سکتا ہے مرش کا فیصلہ بدل جاے ۔۔ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد جاوید شاہ آفندی الوداعی کلمات ادا کرنے کے بعد گھر آ گیے ۔۔۔
آہل صوفے پر بیٹھ کر اپنی دونوں ٹانگیں سانے رکھے میز پر رکھا تھا ۔۔ یے بھی ایک اسٹایل تھا اس کے بیٹھنے کا ۔۔۔
جاوید شاہ آفندی غصے سے آہل کے سامنے آ کھڑے ہوے ۔۔
جواب کیا ملا ؟؟ آہل کا سوال سن کر ان کا غصہ مزید بڑھنے لگا ۔۔
جواب !! کیا ملنا تھا انکار میں ملا ہیں جواب وہ بھی لڑکی نے خود انکار کیا ہے ۔۔
جانتا تھا میں چلیں آپ لوگ کا فرض پورا ہوا ۔۔ میں اس کیے شکر گزار ہوں آپ لوگ کا ۔۔۔ آہل پرسکون ہوتا ہوا جواب دیا ۔۔۔
شرم آنی چاہیے آہل تمہیں ایک لڑکی کا انکار سن کر تم اتنے خوش ہو ۔۔
اس نے آج انکار کیا ہے دو دن کے اندر اس کا انکار اقرار میں بدل جاے گا آپ بے فکر رہے ۔۔ آہل صوفے سے اٹھ کر جاوید شاہ آفندی کے سامنے آیا ۔۔
کیا کرنے والے ہو تم دیکھو آہل کچھ غلط مت کرنا ۔۔ میں باپ ہونے کے ناتے تمہیں سمجھا رہا ہوں ۔۔۔
بابا آپ کو لگتا ہے آپ کا یے لاڈلا بیٹا کبھی کچھ غلط کر سکتا ہے ۔۔ آہل کی مسکراہٹ جاوید شاہ آفندی کو بہت سارے خدشو میں مبتلا کر رہی تھی ۔۔۔
*“
Sang_Jo_Tu_Hae_
Episode_12
Zariya_fd
DO_Not_copy_without _my_permission
مجھے تو ڈر ہے کہیں یے لڑکا کچھ غلط نہ کر بیٹھے ۔۔ جاوید شاہ آفندی آہل کے حوالے سے بہت فکرمند ہو رہے تھے ۔۔
اب وہ بڑا ہو گیا ہے کویی چھوٹا بچہ نہیں ہے جو کچھ غلط کریں گا ۔۔ مریم بیگم نے جاوید شاہ آفندی کو تسلی دی ۔۔
کون ہو سکتا ہے یے شخص میں۔۔ میں آخر اس کے میسیج کا انتظار کیوں کر رہی ہوں ۔۔ مرش تو کہہ رہی تھی کویی اپنا بہت قریبی ہو سکتا ہے ۔۔ اب مجھے پتہ لگوانا ہوگا ۔۔
فارس !! ۔۔ کہیں فارس تو نہیں ۔۔ بریرہ کی زبان پر ایک لخت فارس کا نام آیا ۔
نہیں نہیں فارس کیوں ہوگا ۔۔ لیکن پتہ لگانے میں کیا حرج ہے ۔۔ بریرہ اب طے کر چکی تھی آگے اسے کیا کرنا ہے ۔۔
بریرہ اپنا فون دینا ۔۔ اسی وقت آہل بریرہ کے کمرے میں آیا اس سے اس کا سیل فون مانگ نے ۔۔
بریرہ کی اوپر کی سانس اوپر نیچے کی سانس نیچے ہی اٹکی رہ گی ۔۔
ک۔ ۔ک۔ ۔ کیوں بھایی ۔۔ اگر اس انجان شخص کا مسلہ نا ہوتا تو بریرہ اپنا فون دینے میں ذرا بھی دیر نا کرتی ۔۔
تمہارے چہرے کا رنگ اتنا زرد کیوں پڑ رہا ہے ۔ آہل نے بریرہ کا چہرہ دیکھتا ہوا کہا ۔۔
ن۔ ۔ نہیں تو یے لیں ۔ بریرہ کے پاس اب کویی چارہ نہیں تھا ۔۔
یے لو ہو گیا کام ۔۔ آہل بریرہ کو پکڑاتے ہقے کہا ۔۔
آہل اب جا چکا تھا ۔۔ لیکن بریرہ کی حالت اب بھی ویسی کی ویسی تھی ۔۔۔
مرش یے کون سا طریقہ تھا تمہارے انکار کرنے کا ۔۔ فایزہ بیگم مرش کی اس وقت اچھی خاصی کلاس لے رہی تھی ۔۔
کچھ غلط تو نہیں کیا تھا میں نے مجھے شادی نہیں کرنی تھی ابھی بس مجھے جو سہی لگا میں نے کر دیا ۔۔۔
چپ رہو بہت زبان چلتی ہے تمہاری گھر آے مہمانوں سے کویی اس طرح پیش آتا ہے ۔۔ فایزہ مرش سے سخت ناراض تھی ۔۔
امی چھوڑے بھی بتاے کھانے میں کیا بنا ہے مجھے شدید بھوک لگی ہے ۔کالج سے آنے کے بعد بھی کچھ نہیں کھایا تھا میں نے ۔۔ مرش منھ بناتے ہوے بولی ۔۔
جیسے ۔۔جیسے سمجھایا ہے سب ویسا ہی ہونا چاہیے اگر کچھ بھی گڑبڑ ہویی تو اپنے پیدا ہونے پر تم لوگ کو پچتاوا ہوگا ۔۔ کچھ سمجھ آیی ۔۔
آہل ایک گھنٹے سے انہیں کل کے لیے درس دے رہا تھا ۔۔
یس سر ۔۔ جو آپ کا حکم ۔۔ سبھی گاڈز نے ایک ایک کر کے ہاں میں سر ہلایا ۔۔
گڈ ۔۔ اور یاد رہے یے بات صرف ہمارے درمیان رہے گی ۔۔ اگر یہاں سے کویی بھی بات باہر نکلی ۔۔ تو اپنی موت کا سامان بھی لے کر آنا ۔۔
آہل اتنا کہہ کر واپس مڑا بلیک سن گلاسیز آنکھوں پر لگا کر گاڑی گھر کی طرف موڑ دی ۔۔۔
گڈ مارنگ بابا مرش ناشتے کی
ٹیبل پر پہنچ سرفراز صاحب کو گڈ مارنگ کہا ۔ ۔
گڈ مارنگ بیٹا ۔۔ سرفراز صاحب نے بھی مسکرا کر جواب دیا ۔۔ آج تو کالج ٹایم سے پہلے اٹھ گیی آپ ۔۔ سرفراز صاحب نے تھڑا حیرت سے کہا ۔۔
آج کالج سے میرا جلدی آنے کا ارادہ ہے آج نایبہ کی مہندی ہے اس نے خاص طور پر انوایٹ کیا ہے اس لیے جلدی جاوں گی تو جلدی آوں گی ۔۔
مرش نے آج سرفراز صاحب کو جلدی اٹھنے کا ریزن بتایا ۔۔
بابا اب چلتی ہوں خدا حافظ ۔۔ مرش سرفراز کے خدا حافظ کہہ کر باہر آ گیی ۔ آج اس نے بس کا سفر کرنا تھا کیوں کی وین اپنے ہی وقت پر آتی تھی ۔۔
کالج نہیں جاو گی کیا تم ؟؟ آہل بریرہ کا حولیہ دیکھ کر بولا ۔۔
نہیں آج موڈ نہیں ہے جانے کا ۔۔ بریرہ نے آہل کو جواب دیا ۔۔
جب موڈ نہیں ہے تو کویی ضرورت نہیں جانے کی ۔۔ آہل کرخت لہجے میں بولتا ہوا گاڑی کی طرف آیا۔ ۔
اس کا کام تو اور آسان ہو گیا تھا بریرہ کی طرف سے وہ تھوڑا ہریشان تھا لیکن اب سہی ہو گیا تھا ۔۔
میرے سارے اسایمینٹس تیار ہو گے اور آج مجھے گھر جلدی جانا ہے ۔۔ بریرہ اور زارا بھی نہیں ہے ۔۔ تم لوگ ساتھ کیوں نہیں چلتی ۔۔ مرش نے انہیں ساتھ چلنے کی آفر دی ۔۔
نہیں ہمیں تو ابھی تھوڑا ٹایم لگے گا ۔۔ تم جاو ویسے بھی تمہیں مہندی کے فنکشن میں جانا ہے ۔۔ جواب اریشہ نے دیا ۔۔
اچھا ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا خدا حافظ ۔۔ مرش ان لوگوں سے خدا حافظ کر کے کالج گیٹ باہر آیی ۔۔
سر مس مرش ابھی ابھی کالج سے باہر نکلی ہے ۔۔ کان میں بلوتوت لگاے آہل کچھ فایلز میں روز کی طرح بزی تھا ۔۔
اس کو جانے دو ہمارا ٹارگیٹ ابھی وہ نہیں ہے ۔۔ کالج آف ہونے میں بس تھوڑا وقت رہ گیا ہے ۔۔ آہل نے جواب دیا ۔۔ تین گاڈز کالج کے گیٹ کے باہر ایک بلیک چماچماتی گاڑی میں بیٹھ کر آہل کو پل پل کی خبر دے رہے تھے ۔۔ جب کام ہو جاے فوری طور پر اطلاع دینا مجھے ۔۔
اوکے سر ۔۔
آہل آفس سے باہر آ چکا تھا ۔۔ اب اسے شدت سے کام ہو جانے کا انتظار تھا ۔۔
سر کام ہو گیا ۔۔ دوسری جانب سے حد سے خوشی سے بتایا گیا ۔۔
ویل ڈن ۔۔ میں بس آ رہا ہوں ۔ ۔ اس جگہ لے کر پہنچو جہاں میں نے بتایا تھا آہل شاطرانا مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔۔
سر ہم بس پہنچنے ہی والے ہے ۔۔ گاڈز نے اپنے باس کو ایک اور لوش خبری دی
کتنی ہے ؟؟ ۔ آہل نے پھر سے سوال کیا ۔۔
سر دو ہے ! گاڈز نے جواب دیا ۔۔
کون کون سی ہے ؟ آہل ڈرایو کرتا ہوا ساتھ ساتھ سوال بھی کر رہا تھا ۔۔
سر ۔۔ آیی تھنک ۔ ایک ثمرہ ہے ایک اریشہ ہے ۔ گاڈز کو اچھے سے نہیں پتہ تھا کس والی کا کون سا نام ہے ۔۔
انہیں باحفاظت کمرے میں چھوڑ کر آو ۔۔اور میری اجازت کے بغیر کویی کمرے میں اپنی پرچھایی تک نہیں دیکھاے گا ۔۔ آہل تھوڑا سختی سے بولا ۔۔ آہل کو پہنچنے میں ابھی تھوڑا وقت لگنا تھا ۔کیوں وہ علاقہ شہر سے بہت دور تھا بہت پوشیدہ تھا ۔۔
اوکے سر ۔ ۔ آہل کے حکم کی فورن تعمیل کی گیی ۔۔
دوا کا اثر ختم ہو چکا تھا آہستہ آہستہ اریشہ نے آنکھ کھولی اسے کچھ سمجھ نہیں میں نہیں آ رہا تھا وہ کہاں پر ہے ۔۔ ثمرہ اب بھی نیم بے ہوش تھیناریشہ نے اسے جھنجھوڑ کر اٹھایا ۔۔
ثمرہ یے ہم کہاں ہے ۔۔ اریشہ نے آہستہ سے ثمرہ سے پوچھا ۔ ۔۔
یے تو ہمارا گھر نہیں ہے ہم تو کالج تو تھے ۔۔ ثمرہ کا دمازغ گھوم گیا تھا ۔۔
آیی تھنک ہمیں کیڈنیپ کیا گیا ۔۔ اریشہ کچھ سوچتے ہوے بولی ۔۔
گڈ آفٹرنون ۔۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت مسکراتی ہویی کمرے میں داخل ہویی ۔
ہم ۔۔ اس وقت ہم کہاں پر ہے ۔۔ ثمرہ نے یے سوال کرنا ضروری سمجھا ۔۔
آپ کے کیے کیا کھانے کو لے کر آوں ؟؟ ۔ اس عورت نے ان کیے گے سوال کو نظر انداز کر کے اپنی بات جاری کی ۔۔
ہم پوچھ رہے ہیں ہم ہے کہاں !! آپ ہم سے کھانے کا پوچھ رہی ہے ۔۔ ثمرہ غصے سے بولی ۔۔
آپ لوگ کو جس چیز کی ضرورت ہو ہمیں فورن اطلاع دیجیے گا کیوں کی ہمارے باس کا آڈر ہے آپ لوگ کا خاص خیال رکھا جاے ۔۔ عورت نے ایک بار پھر سے ان لوگ کی بات نظر انداز کی ۔۔۔
کون ہے تمہارے باس انہیں بلاو ہمیں ان سے بات کرنی ہے ۔۔ اریشہ نے چڑھ کر کہا ۔
وہ بس آنے ہی والے ہی والے ہے ۔۔ عورت اتنا کہہ کر خاموشی سے چلی گیی ۔۔
آہل پہنچ چکا تھا ۔۔ یے علاقہ شہر سے بہت ہی دور تھا جہاں چڑیوں کی چہچہاہٹ سننے کو انسان ترس جاے یہاں کی ہر چیز لکڑی کی بنی ہویی تھی ۔۔
سر وہ دونوں لڑکیاں جاگ چکی ہے اور مسلسل بولے جا رہی ہے ۔۔ ایک خبری نے آہل کو اطلاع دی ۔۔
اوکے اپنی اپنی جگہ سب کے سب کھڑے رہو ۔۔ میں آتا ہوں ۔ آہل اتنا کہہ کر کمرے میں کے اندر داخل ہوا ۔۔
خوشاآمدید ۔۔ آہل مسکراتا ہوا بیڈ کے سایڈ پر رکھی چیر پر بیٹھ گیا ۔۔
ت۔ ۔تم تو بریرہ کے بھایی ہو ۔۔ اریشہ حیرت سے آہل کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔
بڑی اچھی یادداشت ہے ۔۔ سو کیسا لگا یے روم آہل ان لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آ رہا تھا جیسے وہ کویی بہت خاص مہمان ہو ۔۔
تم ۔۔ تم ہمیں کیوں لے کر آے ہو ۔۔ ثمرہ نے ڈرتے ہوے پوچھا ۔۔
کسی مقصد کے لیے ۔۔ آہل کی مسکاہٹ معنی خیز تھی ۔۔
مقصد کون سا مقصد ؟؟ اریشہ اب آہل کا مقصد جاننا چاہتی تھی ۔۔
مایی ڈیریسٹ وہ بھی پتہ چل جاے گا اپنے چھوٹے سے ذہن پر اتنا زور مت دو ۔۔ آہل اریشہ کے سر پر رکھ کر کہا ۔۔
زہرہ بی بی ۔۔ آہل نے کسی عورت کا نام لے کر پکارا ۔۔
جی صاحب جی ۔۔ وہی ادھیڑ عمر عورت اندر آیی ۔۔
لگتا ہے آپ نے ہمارے مہمانوں کی خاطر داری نہیں کی ۔۔ ان کی خوب اچھے سے خاطر کیجیے ۔۔ کویی شکایت نہیں ہونی چاہیے انہیں ۔۔۔ آہل ایسا بول رہا تھا ۔۔ جیسے وہ سب اپنی یہاں پر خاطر کروانے آیی ہو ۔۔
جو حکم صاحب جی ۔۔زہرہ بی بی اسی وقت کمرے سے باہر گیی کچھ دیر بعد ضرورت سے زیادہ ہی خانے پینے کی ٹرالی لے کر اندر داخل ہویی ۔۔
جیسے انہیں دعوت پر مدعو کیا گیا ہو ۔۔
خانے سے پہلے ایک فوٹو لینا چاہتا ہوں تم لوگوں کی ۔۔۔ آہل موبایل جیب سے نکالتے ہوے بولا ۔۔
فوٹو ؟؟ لیکن کیوں ۔۔ ثمرہ نےسمجھی سے کہا ۔۔
بہت خوبصورت ہو نہ تم لوگ اس لیے ۔۔ آہل نے ان کا مزاق اڑایا ۔۔
بال آگے کرو چہرے کا اکسپریشن تھوڑا جینج کرو پاس آو ۔ آہل انہیں اسٹایل پر اسٹایل بتاتے چلا جا رہا تھا ۔۔
ثمرہ اور اریشہ کو ایک پل کے لیے بھی محوسوس نہیں ہوا وہ کسی کی قید میں ہے ۔۔۔ جس طرح ان کی خاطر توازو کی جا رہی تھی اس سے ایسا لگ رہا تھا وہ وقعی دعوت میں مدعو ہے ۔۔۔
بیوٹیفل !! آہل ان کی تصویر لے کر باہر جا چک تھا ۔۔
مرش تیار ہو گیی تم ۔۔ فایزہ بیگم کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوے پوچھی ۔۔
ہاں امی بس جا رہی ہوں ۔۔ مرش نے بالوں میں برش کرتے ہوے کہا ۔۔
اچھا احتیاط سے جانا ۔۔ میں ذرا جا رہی ہوں آرام کرنے اپنے کمرے میں ۔۔
آپ جاے آرام کرے میں بس نکل رہی ہوں ۔۔ مرش نے گرے کلر کا شوز پہنتے ہوے کہا ۔۔ اس کی تیاری مکمل ہو چکی تھی ۔۔ روز کی طرح آج بھی اس کا حسن چار چاند لگا رہا تھا ۔۔
فایزہ بیگم جا چکی تھی ۔۔
تبھی مرش کے موبایل کی میسیج رنگ نے تیزی سے آواز کرنی شروع کی ۔۔
ارے بھیی کون پے میسیج پر میسیج کیے جا رہا ہے ۔۔
مرش نے میسیج انباکس اوپین کیا ۔۔
اسکرین پر جو تصویر چمک رہی تھی ۔مرش کا ہوش کچھ پل کے لیے آڑا لے گیی ۔۔
اریشہ ثمرہ ؟؟ ۔۔ یے کیسی تصویر ہے ۔۔ مرش اس سے پہلے کی کچھ اور سوچتی ۔۔ کسی انجان نمبر سے کال آنی شروع ہو گیی ۔
ہیلو !! مرش پہلی ہی فرصت میں کال پک کی ۔۔
کیسی ہو میری ڈال ؟؟ ۔۔ آہل نہایت بے فکری سے بولا ۔۔
کون ہو تم ؟ مرش ابھی آہل کی آواز نہیں پہچان پایی تھی ۔۔
مطلب تعاروف کی ضرورت ہے اتنی جلدی مجھے بھول گیی ۔۔ تھوڑا دماغ پر زور ڈالو ۔۔ ابھی یاد آے گا کون ہوں میں ۔
۔ آہل شاہ آفندی کے اندر بدلے کی آگ اتنی بڑھ چکی تھی اسے کسی بھی طرح سے اس دو ٹکے کی لڑکی کو اس کی حیثیت نہ یاد دلا دیتا چین سے نہیں بیٹھنے والا تھا ۔۔
مرش کو ایک لمہ لگا تھا اس کی آواز پہچاننے مے ۔۔۔
تم ۔۔ تمہیں میرا نمبر کہاں سے ملا ۔۔۔ مرش بے انتہا غصے میں آ چکی تھی ۔۔
مجھے تو تم خود مل سکتی ہوں ۔۔ یے نمبر تو بہت معمولی سی چیز ہے میری جان ۔۔
پھوٹو تو تم دیکھ چکی ہو تمہاری دونوں کارٹونس اس وقت میرے قید مے ہے ۔۔
کیا ؟؟؟؟؟ ۔۔ مرش نے چلاتے ہوے کہا ۔۔
اس کی زمیدار تم خود ہو ۔۔ اب بھی سب کچھ تمہارے اوپر ہے ۔۔ آہل اب مین مقصد پر آیا ۔۔
تم کیا بول رہے ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے ۔۔ مرش پریشان سی حالت مے بولی ۔۔
سب سمجھ مے آ جاے گا ۔ ڈونٹ وری میں ہوں نہ آہل نے مرش کی حالت سے محفوظ ہوتے ہوے کہا ۔۔
دروازے سے باہر آو ۔۔ آہل مرش کو حکم دیا ۔۔
مرش باہر آ چکی تھی ۔۔
لیفٹ سایڈ دیکھو ۔! آہل مرش کو لیفٹ سایڈ دیکھنے کا حکم دیا ۔۔
بلیک گاڑی دکھ رہی ہے اس کے ساتھ ایک سیکریٹری کھڑا ہوگا ۔۔
ہاں ہے ۔۔ مرش نے ہاں میں ہامی بھری ۔۔
اب بلکل چپ چاپ گاڑی مے جا کر بیٹھ جاو یہی تمہارے لیے بہتر ہے ۔۔ سب کچھ تمہارے ہاتھ مے ہے ۔۔۔
خدا حافظ ۔۔ آہل کال کٹ کر چکا تھا ۔۔
میری ۔میری بات سنو !! مرش آہل کو پکارتی ہی رہ گی ۔۔
اس کے پاس اب کویی چارہ نہیں تھا ۔۔ یا اللہ یے شخص مجھ سے چاہتا کیا ہے ۔۔ لیکن اب یے سب سوچنا بے کار تھا ۔۔ مرش کو نہ چاہتے ہوے بھی گاڑی مے بیٹھنا پڑا ۔۔ وہ سوچ ۔سوچ کر پاگل ہو رہی تھی ۔ آخر آہل کا مقصد کیا ہے ۔۔
دور رہو مجھ سے ۔۔ گاڈز نے جیسے ہی دروازہ کھولنا چاہا مرش اس سے کوسو دور ہو گیی ۔۔
میڈم ہمیں جو آڈر دیا گیا ہے ہم وہی کر رہے ہے ۔۔ وہ گاڈز اپنی صفایی مے بولا ۔۔
میری ایک بات یاد رکھنا نہ تم بچو گے نہ تمہارا باس ۔۔ مرش گھورتی ہویی گاڑی مے بیٹھ چکی تھی ۔۔
سر میڈم بہت غصہ کر رہی ہے ۔۔ گاڈز نے فورن آہل کو خبر پہنچایی ۔۔
میں نے کہا تھا چپ چاپ بیٹھنا ۔۔ ورنہ اس کی سزا بھی طے ہے تمہارے لیے ۔۔
مرش کے موبایل اسکرین پر آہل کا میسیج چمکا ۔۔
ذلیل انسان ۔۔ مرش نے حساب چکانے مے کویی کسر نہیں چھوڑی ۔۔
ہمارے گھر والے پریشان ہو رہے ہونگے پلیز ہمیں جانے دو ۔۔ ثمرہ اداس سے لہجے میں بولی ۔۔
ابھی تمہاری ہیڈ پہنچ رہی ہے ۔۔پھر کچھ سوچتے ہے۔ ۔
ایک منٹ اپنا فون دو ؟؟ آہل اریشہ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوے بولا ۔۔
وہ بیگ میے ہیں بیگ تو تمہارے گاڈز کے پاس ہے ثمرہ نے جواب دیا ۔۔
ان لڑکیاں کے بیگز کہاں ہے ؟؟ آہل گاڈز کے چہرے پر نظریں جما کر کہا ۔۔
سر یے رہا بیگ ۔۔ تبھی زہرہ بی بی نے بیگ آہل کی طرف بڑھایا ۔۔
آہل ان دونوں کا سیل فون لے کر دوبارہ سے کمرے مے داخل ہوا ۔۔
اپنا اپنا فون اٹھاو !! ۔۔ آہل نے فون کی طرف اشارہ کیا ۔۔
کویی چالاکی نہیں ۔ ورنہ ہمیشہ کے لیے دنیا بھول جانا آہل آنکھوں میں شرارت صاف نمایاں تھی اس بہت مزا آ رہا تھا ان دو بیوکوفوں کے ساتھ ۔ اریشہ اور ثمرہ بہت زیادہ خوفزدہ تھی ۔۔ لیکن آہل کے ہاتھ مے گھومتی ریوالور کو دیکھ کر ان کی بولتی بند ہو جاتی تھی ۔۔ پہلے تم اپنے گھر فون کر ۔۔ اور ان سے بولو تم اریشہ کے گھر ہو اسایمینٹس بنا رہی ہو ۔۔ آہل ثمرہ کو ساری لاینز یاد کرا رہا تھا ۔۔
ہیلو !! ماما میں اریشہ کے گھر پر ہوں ہم اسایمینٹس تیار کر رہے ہے آپ بلکل پریشان نا ہویے گا ۔۔ ثمرہ کی آنکھ سے آنسو جاری تھے کچھ بھی تھا وہ لوگ واقعی کیڈ نیپ کی گی تھی ۔۔۔
ویل ڈن !! آہل اب اسے شاباسی دے رہا تھا ۔۔
اب تمہاری باری ۔۔ آہل اب اریشہ کو حکم دے رہا تھا ۔۔
اریشہ کی کال اس کے بابا نے ریسیو کی تھی ۔۔
بابا میں اس وقت ثمرہ کے گھر پر ہوں ہم اسایمینٹس بنا رہے ہے آپ پریشان نہ ہویے گا ۔۔۔ ایشہ نے سیم وہی لاین دہرایی جو ثمرہ نے دہرایی تھی ۔۔۔
کتنی اچھی بچی ہو تم لوگ ۔۔ آہل خوش نے خوش ہو کر کہا ۔۔
سر ہم بس پہنچ چکے ہے پانچ منٹ کے اندر مس مرش آپ کے پاس ہونگی ۔۔ آہل اس خبر کو سنتے ہی مسکرا دیا ۔۔تیر بلکل نشانے پر جا کر لگا تھا ۔۔
رمیض ۔۔ کام پر لگ جاو ۔۔ آہل ایک گاڈز کا نام لے کر پکارا ۔۔
یے یے کیا کر رہے ہو تم لوگ ۔ ہمیں باندھ کیوں رہے ہو ۔۔ اریشہ اور ثمرہ کو دوسرے روم میے شفٹ کر دیا گیا تھا ۔۔ جہاں پر ضرورت سے زیادہ اندھیرا تھا ۔۔ ان دونوں کے منھ پر کالا سیاہ کپڑا باندھ دیا گیا تھا ہاتھ پیر کو اتنی سختی سے باندھا گیا تھا ہلنا ڈلنا مشکل تھا ۔۔
آہل جیب میے ہاتھ ڈالے باہر آیا ۔۔ مرش گاڑی سے باہر آ چکی تھی ۔۔ اتنے گاڈز اتنا پوشیدہ علاقہ اس نے زندگی مے پہلی بار دیکھا تھا ۔۔
مرش کی نظر جیسے ہی آہل پر پڑی وہ دوڑتے ہوے اس کے پاس آیی ۔۔ اس کا کالر اپنی مٹھیوں مے بھینچ کر تیز آواز مے چلایی ۔۔ کہاں ہے میری دوستیں ۔۔ بولو کمنے انسان ۔۔
آرام سے اس طرح پکڑوگی تو سب ہمارے اوپر شک کر کریں گے ۔۔۔ آہل کی !سکراہٹ مرش کا دل جلا کر خاک کر رہی تھی ۔۔
میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں ۔۔ تم ایک ۔۔ مرش اس سے پہلے دو چار گالیوں سے آہل کو نوازتی آہل نے انتہایی سختی سے اس کی کلایی اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لی اور کھینچتا ہوا ایک کمرے مے لے گیا ۔۔ !! مرش اسٹیچو بنی آہل کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔ آہل نے دروازے کو اندر سے لاک کر دیا تھا ۔۔
یے ۔۔یے تم دروازہ کیوں بند کر رہے ہو ۔۔ مرش بہت ہمت کے سارھ بولی ۔۔
اتنا تیار ہو کر آو گی مجھے نہیں پتہ تھا ۔۔ ورنہ یے جگہ کبھی نہ بک کرتا ۔۔ آہل کا ارادہ تھا ابھی مرش کو تھوڑا ڈرانے کا ۔۔
میں تمہارے لیے نہیں تیار ہو کر آیی ہوں زیادہ خوشفہمیاں پالنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ درازہ کھولو مجھے باہر جانا ہے ۔ مرش بے خوفی سے بولی وہ آہل کو یے باور کرانا چاہ رہی تھی ۔۔ وہ اس سے ڈرتی نہیں ہے ۔۔
باہر بھی چلیں گے پہلے یہاں پر تھوڑا سا وقت تو گزار لے ۔۔
گھٹیا انسان دور رہنا مجھ سے ۔۔
ابھی نکھرے اٹھانے کے موڈ مے بلکل نہیں ہوں میں سو چپ چاپ میرے قریب آ جاو ۔۔ مرش کا چہرے کا رنگ زرد پڑ چکا تھا ۔۔ آہل اس کے اس خوف سے حظ اٹھا رہا تھا ۔۔
تمہیں پتا ہے مجھے عورتیں بہت پسند ہے اور جب تم جیسی ہو تو میں اپنے آپ مے نہیں ہوتا ۔۔ آہل کے الفاظ مرش کو ڈرا رہے تھے ۔۔
دیکھو میرے قریب مت آنا ۔۔ مرش ایک قدم پیچھے کرتے ہوے بولی ۔۔
میری جان !! ہماری منزل ایک ہی ہے تو پھر سفر تنہا کرنے کا کیا فایدہ ۔۔
میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔۔ پلیز مجھے اور میری دوستوں کو یہاں سے جانے دو ۔۔۔ مرش اب التجا پر اتر آیی تھی ۔۔
دل کا کنیشن جوڑ لو ۔۔ ہاتھ جوڑنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔۔ آہل نے مرش کا اپنے ہاتھوں مے لے کر کہا ۔۔
تمہاری مجھسے دشمنی ہے نا آخیر تم مجھسے چاہتے کیا ہو ؟؟؟ مرش نے غصے اسکی شرٹ کے کالر کوپکڑ کر بے خوف سی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولی۔۔۔
تم سے “”””تمسخرانا مسکراہٹ کےساتھ آہل اسکی طرف انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
آہل کی مسکراہٹ اسکا مرش کا دل جلا رہی تھی
بتاؤ کہاں ہیں میری فرینڈس مرش چینختے ہوئے اسکا کالر چھوڑ ادھر ادھر پاگلوں کی طرح دوڑ تے ہوئے پوچھنے لگی
آہل چلتے ہوئے مرش کے قریب جانے لگا۔۔۔آہل مرش کے اتنا قریب آ چکا تھا کے پیچھے جا نے کا راستہ ختم ہو چکا تھا
مرش کے ماتھے پر گرے خوبصورت بال اسکی کی پیشانی کو چھو رہے تھے ۔۔
گالوں پر رقص کرتی زلفوں کو آہل مرش کے کان کے پیچھے کرتا ہوا چہرہ اس کے اور قریب لے گیا ۔۔
تم سے تو بہت کچھ چاہتا ہوں جان من! آہل مرش کو خود سے قریب کرتے ہوئے اسکے کان میں سر گوشی کی ۔۔۔۔
کبھی فرصت مے ملو تو بتاؤنگا یوں خوںخوار شیرنی بن کر پوچھو گی تو یہ معصو م بچہ کیا خاک بتاے گا۔۔۔ آہل اپنی نگاہیں مرش کے چہرے پر مرکوز کرتے ہوئے بولا ۔۔
ویسے اب تم پوچھ ہی رہی تو اس معصوم بچے کی ایک اور خواہش ہے ۔۔
وہ کون سا شعر ہے !! آہل اپنی پیشانی پر انگلی سہلاتے ہوے یاد کرنے کی کوشس کر رہا تھا ۔۔
ہاں یاد آیا ۔۔
آہل مرش کے کان کے پاس اپنے ہونٹوں کو قریب لے گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کویی رات میرے آشنا مجھے یو بھی تو نصیب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ رہے خیال لباس کا وہ اتنا میرے قریب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرش کو بلکل توقع نہیں تھی آہل سے ایسے شعر کی ۔۔۔
تمہاری طرح تمہارا شعر بھی گھٹیا ہے ۔ ۔ مرش آہل سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی ۔۔
ہا ۔۔ ہا ۔۔ یے شعر تو تمہارے لیے تھا ۔۔
اب جو میں کہنا جا رہا ہوں میری بات بہت غور سے سنو ۔۔ آہل شاہ آفندی اپنے پرانے بھیس مے واپس آ چکا تھا ۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_13
Zariya_Fd
Do_Not_Copy_without_my_permission
انکار کرنے کی وجہ جان سکتا ہوں ۔۔ آہل پر سکون ہوتا ہو پوچھا ۔۔
کیوں کی تم انکار کے ہی قابل ہو ۔۔ مرش نے بے ساختہ کہا ۔۔
بات سنو لڑکی !! میری زندگی میں تم وہ پہلی لڑکی ہو جس نے مجھے تھپڑ مارا ہے ۔۔ تمہیں اپنی حد کا علم ہونا چاہیے ۔۔آہل مرش کا دونوں بازوں سختی سے دبوچ کر کہا ۔۔ میں اب تمہارے ساتھ وہ سلوک کروں گا جس کا تم نے اپنے خوابوں مے بھی نہیں سوچا ہوگا ۔۔ آہل کا غصہ دیکھ کر مرش کچھ پل کے لیے تھم سی گی ۔۔
مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔ پلیز میرا بازوں چھوڑو۔۔ مرش نے دکھ سے آہل کی طرف دیکھتے ہوے کہا ۔۔
تمہارے اس درد سے مجھے سکون مل رہا ہے ۔۔ آہل کی آنکھوں مے طیش صاف ظاہر ہو رہا تھا ۔۔
اگر تمہیں اپنی دوستیں عزیز ہے تو صرف میرا کہا مانو ۔۔ ورنہ پوری زندگی تمہیں پچھتانا پڑے گا ۔۔
کیا مطلب کیا کرنے والے ہو تم ۔۔۔ مرش نے آہل کا چہرہ کو بغور دیکھتے ہوے پوچھا ۔۔
جب کویی مرد بھوکا ہو اور اس کے سامنے کچھ بھی پیش کیا جاے تو اسے جھپٹنے مے ذرا بھی دیر نہیں لگاتا ۔۔ اسی طرح یہاں پر بہت سے لوگ بھوکے ہیں ۔۔ میرے خیال سے اب تمہیں میری بات سمجھ مے آ گیی ہوگی ۔۔
نہیں پلیز ت ۔ کچھ ان کے ساتھ کچھ مت کرنا ۔۔ یے ہمارا مسلہ ہے نہ تو تم ان لوگ کو کیوں گھسیٹ رہے ہو ۔۔ مرش آہل کی بات کا مفہوم سمجھ چکی تھی اس کے رونگٹے تک کانپ گے تھے ۔۔
کیا چاہتے ہو مجھسے ۔۔۔ مرش کی آنکھیں آنسوں سے لبریز تھی زندگی نے اسے ایسے موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا تھا جہاں سے اب واپسی کا راستہ نا ممکن تھا ۔۔
اگر تمہیں اپنی دوستوں کی ذرا سی بھی فکر ہے ۔۔ تو میرے کہے گیے الفاظ پر غور ضرور کرنا۔ ۔
شادی تو تمہیں مجھ سے ہی کرنی ہے ۔۔ تم خود اس انکار کو اقرار مے بدلو گی ۔
تمہیں اس رشتے کے لیے ہاں کہنا پڑے گا وہ بھی آج رات کے اندر مجھے صبح تک خوش خبری مل جانی چاہیے ۔۔ ورنہ میں تمہاری دوستوں کا وہ حشر کروں گا پوری زندگی پاتھ مسلتی رہ جاو گی تم ۔۔ آہل شاہ آفندی نے اپنا مقصد مکمل طور پر واضح کر دیا تھا ۔۔
کیوں کر رہے ہو تم ایسا نہ کرو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔۔ میری زندگی مت کرو برباد ۔۔۔ ۔مرش بے بسی اس کے قدم چوم رہی تھی ۔۔ مرش روتی روتے زمین پر بیٹھ گی ۔۔
تم نے یے راستہ خود چنا ہے میری جان ۔۔اور جب مسافر اپنا راستہ چن لے پھر اسے اسی راستے پر چلنا پڑتا ہے ۔۔
آہل نے مرش کا ہاتھ کھینچ کر کھڑا کیا ۔۔
اس کی بھوری آنکھیں جو رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھی آہل کو کچھ پل کے لیے شرمندگی مے مبتلا کر رہی تھی ۔۔ مرش کو احساس ہو رہا تھا اس کا جسم سن ہو چکا ہے ۔۔۔
یے آنسوں آیندا کے لیے بچا کر رکھو ۔۔ کام آے گے ۔۔ آہل مرش کے گرتے آنسوں کو دیکھ کر کہا ۔۔
تم انسان ہو ہی نہیں سکتے تمہارے سینے مے دل نہیں ہے تم ظالم ہو بہت بڑے ظالم ہو تم اس کا حساب تم سے میرا رب لے گا ۔۔ مرش کو آج اپنی قسمت پر افسوس ہو رہا تھا ۔۔ اسے موت قبول تھی لیکن آہل شاہ آفندی کا ساتھ نہیں ۔۔
تو کیا سوچا تم نے ۔۔ آہل مرش کی باتوں کو نظر انداز کر چکا تھا ۔۔
تم مجھ سے بدلہ لے رہے ہو نہ میں نے تمہیں جو تھپڑ مارا تھا تو ٹھیک ہے تم مجھے اس کے بدلے دو تھپڑ مار لو تمہارا بدلہ پورا ہو جاے گا ۔۔ اس کے بعد تم میرے لیے اور میں تمہارے لیے ہمیشہ کے لیے اجنبی بن جاے گے ۔۔ “”” مرش نے آہل کی آنکھوں مے آنکھیں ڈال کر بات کی ۔۔ وہ ہمیشہ کے لیے اس عذاب سے جان چھڑانا چاہتی تھی ۔۔ رونے کے باعث مرش ٹھیک سے نہیں بول پا رہی تھی ۔۔۔
تھپڑ ؟؟ ۔۔۔ چی چی چی ۔۔۔ سچ کہتے ہے لوگ خوبصورت لڑکیاں معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ بیوقوف بھی ہوتی ہے ۔۔ آہل نے مرش کی بیوقوفی بھری باتوں کا مزاق اڑایا ۔۔
تم نے مجھے تھپڑ نہیں مارا تھا ۔۔ میری انہ کو چیلینج کیا تھا اور جب مجھے کویی چیلینج کرتا ہے نا مرش میڈم ۔۔ تو میں اپنی پوری طاقت لگا دیتا ہوں اس چیلینج کو جتنے کے لیے ۔۔
تم یے مت بھولو تمہاری دوستوں کی زندگی ان کی عزت سب کچھ میرے ہاتھ مے ہیں ۔۔ آہل نے ایک بار پھر سے مرش کو اس کے حوالے سے اسے باور کرایا ۔۔
ہاں یا نہ ؟؟؟ ۔۔ بس ایک لفظ کا منتظر ہوں میں تمہارے منھ سے سننے کے لیے ۔۔ آہل نے دانت پر دانت جما کر درشت لہجے مے کہا ۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے تم بچ جاو گے میں یہاں سے جانے کے بعد سب کو چیخ چیخ کر بتاوں گی تم کتنے گھٹیا انسان ہو ۔۔ مرش اس کی آنکھوں مے آنکھں ڈال کر اپنی بات مکمل کی ۔۔۔
ہا ۔۔ ہا ۔۔ ہا ۔۔ آہل کا قہقہہ بے ساختہ تھا ۔۔ میری جان واقعی تم بہت معصوم ہو ۔۔ جب تک تم دنیا کو چیخ چیخ کر بتاو گی نہ تب تک تمہاری دوستوں کی چینخیں یہی دب کر رہ جاے گی ۔۔ آہل کی آنکھوں مے سنجیدگی صاف نمایاں تھی ۔۔
ہٹو میرے سامنے سے مرش آہل کی مضبوط گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑا کر دروازہ کھولی ۔۔ مرش کے لیے سب کچھ بہت مشکل تھا ۔۔ اس کا ذہن ماوف ہو چکا تھا ۔۔۔
ثمرہ اریشہ ۔۔ مرش چیخ کر انہیں پکار رہی تھی ۔۔۔ اتنے کمرے دیکھ کر اس کا سر چکر خا رہا تھا ۔۔۔
رایٹ سایڈ ۔۔ فرسٹ روم ۔۔پیچھے سے آہل کی آواز آیی ۔۔
مرش دوڑتے ہوے کمرے مے داخل ہویی ۔۔ سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے آنسوں خود بخود جاری ہو گیے ۔۔۔
دونوں کے سر پر سوار ایک ایک گاڈز اپنی بلیک ریوالور تانے کھڑے تھے ۔۔
ان کی آہ تک مرش نہیں سن پا رہی تھی کیوں کی ان کے لبوں کو قدرے سختی سے باندھا گیا تھا ۔۔۔
ث۔ ۔ ث۔ ثمرہ اریشہ تم ۔۔ تم لوگ بلکل پریشان نہ ہونا میں آ گی ہوں نہ سب ٹھیک ہو جاے گا ۔۔ مرش دوڑ کر ان لوگوں کے پاس آیی ۔۔ اس کے کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا ۔۔
ثمرہ اور اریشہ کی آنکھوں سے آنسوں مسلسل جاری تھے ۔۔ لیکن وہ صرف مرش کو دیکھ سکتی تھی ۔۔
مجھے معاف کر دو میں ان سب کی زمیدار ۔۔ میں یہاں سے تم لوگ کو بہت جلد آزاد کرا دوں گی میرا وعدہ ہے تم لوگوں سے ۔۔۔ مرش کی آواز دم توڑ چکی تھی وہ ہار چکی تھی اس کے الفاظ مدہم پڑ چکے تھے ۔۔
آہل کی مسکراہٹ فاتحانا قسم کی تھی آخر جیت جو اس کی ہویی تھی ۔۔ آج تک آہل شاہ آفندی نے ایسا کویی خیل نہیں تھا جس اس کی ہار ہویی ہو تو بھلا اس کھیل مے کیسے اس کی ہار ہو سکتی تھی ۔۔
ہو گیا ۔۔ آہل نے مرش کو پکار کہا ۔۔
میں تیار ہوں تم جیسا کہو گے مے ویسا کروں گی میں ۔۔ میں ۔۔۔ نکاح کے لیے تیار ہوں ۔۔۔ مرش نے آخری الفاظ بغیر کسی تہمید کے ادا کیے ۔۔ آخر مرش سرفراز احمد کی ہار ہو چکی تھی ۔۔ اس نے آہل شاہ آفندی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے ۔۔۔
ثمرہ اریشہ صرف مرش کے الفاظ سن رہی تھی ۔۔۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کس کا نکاح کون سا نکاح ۔ ۔۔
اسے کہتے ہیں گڈ گرل ۔۔ اتنی چھوٹی سی بات تھی اور تمہارا نکھرا ہی نہیں ختم نہیں ہو رہا تھا ۔۔
لیکن تمہیں مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا تم انہیں کویی نقصان نہیں پہنچاو گے ۔۔ مرش بے بسی سے آہل کی آنکھوں مے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
جب تک میرا کام مکمل نہیں ہو جاتا میں وعدہ نہیں کر سکتا ۔۔ آہل نے مرش کے کان مے شرگوشی کی ۔۔۔
میں نے کہا نہ میں تیار ہوں ۔۔ مرش نے اپنے آنسوں کو رگڑ کر کہا ۔۔
اپنے گھر جا کر یے بات کرنی ہے تم نے ۔۔ اور ہاں کل میری صبح خوش گوار ہونی چاہیے ۔۔ ورنہ ۔۔ !! تمہیں سمجھ آ گی ہو گی ورنہ آگے کیا ہوگا ۔۔
اب گھر جاو اور جلد از جلد مجھے خوش خبری سناو ۔۔۔ آہل مرش کی ناک دبا کر کہا ۔۔
مرش بھیگی بھیگی پلکیں ایک بار پھر سے اٹھایی ثمرہ اور اریشہ کو دیکھنے کے لیے ۔۔۔
تم دنیا سب بڑے ظالم انسان ہو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی ۔۔ مرش اتنا ہی الفاظ بول کر باہر کی اور جانب دوڑ کر بھاگی ۔۔
مرش جا چکی تھی ۔۔ ثمرہ اور اریشہ کے ہاتھ پیر کھول دیے گیے تھے ۔۔۔
سوری تم لوگ میرا نکاح مے تو نہیں رہو گی اس کے لیے مجھے بے حد افسوس ہے ۔ ۔ لیکن ولیمے مے تم لوگ خاص طور انوایٹیڈ رہو گی ۔۔ آہل نے مسکرا کر کہا ۔۔
تم مرش سے نکاح کرو گے ؟؟ اریشہ ابھی بھی بے یقینی کے عالم تھی ۔
ہاں ۔۔ آہل اتنا کہہ کر جانے کے لیے کھڑا ہو گیا ۔۔
اب مے چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا تم لوگ ۔۔ آہل نے ثمرہ اور اریشہ سے کہا ۔۔ آنکھوں کے ذریعے ان دونوں گاڈز کو باہر جانے کا اشارہ کیا ۔۔۔
فارس آیا ہے کیا مجھے آزمانا چاہیے ۔۔۔ بریرہ ایک ہی ٹاپک سوچے جا رہی تھی ۔۔ کیا ہو گیا میں کچھ غلط تو نہیں کروں گی ۔۔ بریرہ سوچ چکی تھی اب اسے اس شخص کو پتہ لگانے کے لیے اسے جو کچھ کرنا ہوگا وہ کرے گی ۔۔
فارس اس وقت آہل کے کمرے مے موجود تھا ۔۔
یار آج تو کہاں بزی تھا ۔۔ فارس نے آہل سے پوچھا ۔۔
ایک ضروری میٹنگ تھی اس مے تھا ۔۔ آہل نے یکدم صاف جھوٹ بولا ۔۔
میٹنگ ؟۔ ۔۔نہیں تو جہاں تک مجھے یاد ہے ایسی کویی میٹنگ نہیں تھی ۔۔ فارس نے سوچتے ہوے کہا ۔۔
آہل شاہ آفندی اگر چاہتا تو فارس کو بھی ان سب پلان مے ضرور شامل کرتا لیکن فارس کا لیکچر آہل کو بلکل سننے کا موڈ نہیں تھا ۔۔ اس لیے اس نے فارس سے اس بارے مے کچھ بھی ذکر نہیں کیا ۔۔۔
ہاں مطلب آج نہیں تھی لیکن اس کی تیاری تو چل رہی ہے نہ ۔۔ آہل نے بے فکری سے کہا ۔۔
اچھا مے اب چلتا ہوں کافی دیر ہو گیی ہے مجھے آے ہوے فارس آہل سے بغل غیر ہوتا ہوا کمرے سے باہر آیا ۔۔ اسی وقت اس کے موبایل پر آفاق صاحب کی کال آیی ۔۔ فارس کال موصول کر کے بات کرنے کے ساتھ ساتھ سڑھیاں بھی اتر رہا تھا ۔۔
بریرہ براون پردے کے پیچھے چھپی ہویی تھی وہ فارس کی جاسوسی کر رہی تھی ۔۔ میں نے تو میسیج کیا ہے لیکن یے تو پہلے سے ہی موبایل پر بزی ہے رپلایی تو نہیں دے رہا ہے ۔۔
فارس چلتا ہوا لان مے آ چکا تھا ۔۔ بریرہ اب اپنے کمرے کی کھڑی کے اوٹ مے سے فارس کو دیکھ رہی تھی ۔۔ بریرہ نے اس انجان شخص کو کال ملایی ۔۔
جی خدا حافظ ۔۔ فارس آفاق صاحب سے خدا حافظ کہتا ہوا موبایل جیب مے رکھا ۔۔۔ اور ہاتھ بڑھا کر اس خوفیاں موبایل کو باہر نکالا ۔۔
دو ۔۔ دو موبایل بریرہ کو حیرت کا جھٹکا لگا ۔۔
کال پک کر لی گی تھی ۔۔
زہنصیب ۔۔ آج آپ نے خود تکلیف کی اس غریب کو فون کرنے کی ۔۔۔
میں نے سوچا کیوں نہ آج میں تمہیں کال کرو ۔۔۔ کیسے ہو ۔۔
تمہاری دعاوں سے بلکل ٹھیک ۔۔ فارس نے خوش ہو کر جواب دیا
بریرہ فارس کو باتوں مے مصروف رکھی تھی ۔۔ وہ اب نیچے آ چکی تھی ۔۔
ہولے ہولے قدم بڑھاتی لان مے آ یی ۔۔
کہاں پر ہو اس وقت ۔۔۔ بریرہ نے پوچھا ۔۔
ایک فرینڈ کے گھر ہوں ۔۔ فارس نے جواب دیا ۔۔
مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو ۔۔۔؟؟ بریرہ کا سوال سن کر فارس کو اور خوشی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔
اپنی جان سے بھی زیادہ ۔۔ فارس نے بالوں مے ہاتھ پھیرتے ہوے کہا ۔
بریرہ فارس کے پیچھے ہی کھڑی تھی ۔۔
ذرا پیچھے ایک نظریں کرم کرنا ۔۔ بریرہ اب بھی سماتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا ۔۔
اسی اثنا مے فارس نے پیچھے کی طرف گردن گھمایی ۔۔
بریرہ پھٹی پھٹی نظروں سے سامنے کھڑے شخص کا چہرہ دیکھے جا رہی تھی ۔۔
بریرہ ۔۔ فارس کی زبان سے بہ مشکل اتنے ہی الفاظ ادا ہو پاے ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_14
Zariya_FD
Do_Not_copy_without_my_permission
Surprise Episode 😍😍😍😍
فارس تم ؟؟ بریرہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا ۔۔۔
آ۔ ۔ وہ ۔۔ فارس کے منھ سے سارے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہو رہے تھے ۔ ۔
بریرہ نے فارس کے ہاتھ سے موبایل جھپٹ لیا ۔۔
جان بریرہ ۔۔!!!! ۔ اسکرین پر چمکتا اپنا نام دیکھ کر بریرہ کی سدھ بدھ کھو گیی تھی ۔۔
میں جانتا ہوں بریرہ مجھ سے غلطی ہو گی لیکن میرا یقین کرو میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں ۔۔ میں خود پر قابو نہیں رکھ سکا ۔۔ فارس نے آج اپنی محبت کا اقرار زبانی کر ہی دیا ۔۔
فارس تم ایسا کیسے کر سکتے ہو ۔۔ بریرہ کے اوپر آسمان ٹوٹ پڑا تھا ۔۔
جانتا ہوں میں نہیں کرنا چاہیے تھا مجھے ایسا میں نے جو طریقہ اختیار کیا تھا وہ غلط تھا ۔۔ کیوں کی میں ڈرتا تھا آہل میرا دوست ہے وہ مجھ خود سے بھی زیادہ بھروسہ کرتا ہے ۔۔۔
لیکن میں اس کا بھروسا نہیں توڑنا چاہتا تھا ۔۔ فارس کی آواز افسردگی سے بھر پور تھی ۔۔
لیکن تم نے وہ بھروسہ توڑ دیا ۔۔ بریرہ نے دل شکشتہ نظروں سے فارس کو دیکھ کر کہا ۔۔
میری بات سنو بریرہ میں تم سے واقعی محبت کرتا ہوں بہت بے بس ہو گیا تھا میں تم مجھے پہلی ہی نظر میں بہت اچھی لگنے لگی تھی ۔۔ لیکن میں معافی چاہتا ہوں میں اب کبھی میسیج نہیں کروں گا ۔۔۔ فارس کی آنکھوں مے اداسی صاف نمایاں تھی ۔۔ اس نے دل تھام کر ایک ایک لفظ کہا ۔۔
تم ۔۔ بریرہ کی سمجھ مے نہیں آ رہا تھا وہ کیا بولے ۔۔ اور تیزی سے دوڑتی ہویی اند بھاگ گیی ۔۔ فارس خالی خالی آنکھوں سے بریرہ کی پشت ہی دیکھتا رہ گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسارت دل دکھانے کی کہاں سے سیکھ لی تم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روایت آزمانے کی کہاں سے سیکھ لی تم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرش گھر پہنچ چکی تھی اس کے اندر کسی کا سامنہ کرنے کی ہمت نہیں تھی دوڑتے ہوے وہ اپنے کمرے میں آ گیی تھی ۔ دروازے کو اندر سے تیز آواز میں بند کر لیا اس کی سسکیاں سسکیاں پورے کمرے میں گونج رہی۔۔ مرش کے جیسے ہاتھ پاوں پھول گیے تھے ۔۔ اسے اپنے چاروں طرف آہل شاہ آفندی کے الفاظ سنایی دے رہے تھے ۔۔ اس کا جسم بے جان سا ہو گیا تھا ۔۔
مرش ؟ باہر سے فایزہ بیگم نے مرش کو آواز لگایی ۔۔ دروازہ تو کھولو مرش !!
امی !! مرش ایسی حالت میں فایزہ بیگم کے سامنے نہیں جا سکتی تھی اسے ڈر تھا فایزہ بیگم اس کی ایسی حالت دیکھ کر کویی سوال نہ پوچھ بیٹھے ۔۔
امی بس آ رہی ہوں ۔۔ اندر سے مرش کی آواز آیی ۔۔
جلدی آو تمہارے بابا پوچھ رہے ہے تمہارا ۔۔ فایزہ بیگم واپس جا چکی تھی ۔۔
مرش نے کپڑا چینج کیا اور اپنا حولیہ درست کر کے کمرے سے باہر آیی ۔۔
اسلام علیکم بابا ۔۔ مرش نے زبردستی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوے سلام کیا ۔۔
کیسا رہا فنکشن ۔۔ جاوید صاحب نے مرش کے سلام کے سلام کا جواب دے کر سوال کیا ۔۔۔
بہت اچھا ۔۔میں نے خوب انجوے بھی کیا ۔۔ مرش نے یکدم صاف جھوٹ بولا ۔۔
کچھ دیر کی گفتگو کے بعد مرش نے بات کرنے کی تہمید باندھی ۔۔ اس کے سارے لفظ بے جوڑ تھے ۔۔
بابا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔ مرش نے زمین پر ایک ٹک دیکھتے ہوے کہا ۔۔
کیا ہو گیا ہے مرش سب ٹھیک تو ہے نہ ۔۔ فایزہ بیگم نے تفتیش سے کہا ۔۔
جی ۔۔ کیا ہونا ہے امی سب ٹھیک ہے ۔۔ مرش نے جواب دیا ۔۔
بابا میں شادی کے لیے تیار ہوں میں نے بہت سوچا اور آخر کار میں نے فیصلہ کر ہی لیا مجھے شادی کر لینی چاہیے امی سہی کہتی ہے بیٹیاں جتنی جلدی اپنے گھر کو رخصت ہو جاے اچھا ہوتا ہے ۔۔۔ مرش کا دل ہی جانتا تھا وہ کسی اذیت سے گزر رہی تھی ۔۔۔
یے تو اچھی بات ہے ۔۔ فایزہ بیگم نے خوش ہو کر کہا ۔۔
مجھے خوشی ہویی مرش آپ کا یے فیصلہ سن کر ۔۔ سرفراز صاحب کو بھی مرش کا کیا گیا فیصلہ پسند آیا تھا ۔۔
کل جس رشتے کے لیے میں نے انکار کیا تھا مجھے اب احساس ہو رہا میں نے غلط کیا تھا ۔۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا مجھے ۔۔ مرش کی آنکھوں سے آنسوں بس گرنے ہی والا تھا ۔۔ لیکن اسے یے قربانی دینی تھی اسے اپنی معصوم دوستیں بہت عزیز تھی ۔۔
ہاں میں تو سوچ رہا تھا اتنے بڑی کمپنی کے مالک اتنے بڑے بزنیس مین ہمارے گھر رشتہ لے کر آے ہماری تو خوش قسمتی ہے ۔۔۔ سرفراز صاحب جاوید شاہ آفندی کے بارے میں جان چکے تھے ان کا معیار کتنا اونچا ہے ۔۔
بابا آپ ابھی فون کر کے ان سے کہہ دے مرش تیار ہے ۔۔ میرے خیال سے انہیں زیادہ انتظار نہیں کروانا چاہیے ۔۔ مرش کے الفاظ اس کا ساتھ چھوڑ رہے تھے دل مے ایک کراہ سی اٹھی ۔۔
ٹھیک ہے صبح بات کرتا ہوں ۔۔ سرفراز صاحب نے اطمینان سے جواب دیا ۔۔
نہیں ۔۔ مرش کی زبان سے نہیں کا لفظ بے اختیار نکلا ۔۔۔
میرا مطلب ہے نہیں آپ اسی وقت بات کر لے نہ اچھا رہے گا نیک کام دیری کیسی ۔۔ آپ بات کر لیں بابا میں نہیں چاہتی میں کسی کو انتظار کراوں ۔۔ مرش نے چور نظروں سے سرفراز صاحب کی طرف دیکھتے ہوے کہا ۔۔
ہاں کر لیں نہ انہوں نے کہا بھی تھا وہ مرش کے فیصلے کے منتظر رہے گے ۔۔ فایزہ بیگم نے بھی ہاں میں ہاں ملایی ۔۔
صاحب جی کھانا لگ گیا ہے نیچے سب آپ کا انتظار کر رہے ہے ۔۔۔ کسی ملازم نے آ کر کھانا لگنے کی آہل کو اطلاع دی ۔۔
آتا ہوں ۔۔ آہل نے آستین فولڈ کرتے ہوے کہا ۔۔
جی ۔۔ ملازم واپس جا چک تھا ۔۔۔
السلام علیکم ۔۔ آہل نے نہایت دھیرے سے سلام کر کے چیر پر بیٹھ گیا ۔۔ پوری ٹیبل خانے پینے کے چیزیں بہت ہی نفاست سے لگی تھی ۔۔۔
کیسے ہو ۔۔ جاوید صاحب نے آہل سے پوچھا ۔۔
فاین ۔۔! آہل نے جواب دیا ۔۔
اب بھی ناراض ہو ۔۔ آہل نے بریرہ سے پوچھا کیوں کی اس واقعے کے بعد بریرہ نے آہل سے بول چال بند کی تھی ۔۔
نہیں ۔۔کب تک ناراض رہ سکتی ہوں آپ سے ۔۔ بریرہ نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔
خانے کے دوران ہی جاوید شاہ آفندی کے موبایل پر رنگ ہویی ۔۔
ایک پل کے لیے آہل بھی ان کی آیی ہوی کال پر اپنا دھیان خود متوجہ کیا ۔۔
اسلام علیکم جاوید صاحب کیسے ہیں آپ ؟؟ سرفراز نے سلام کرنے بعد ان کی خیریت دریافت کی ۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔ جاوید صاحب کو ایک انجانی سی خوشی ہو رہی تھی ۔۔
سلام دعا کے بعد سرفراز صاحب اپنے مقصد پر آے ۔۔
آہل کی آنکھوں مے غرور صاف دکھ رہا تھا اس کی شاطر مسکراہٹ معنی خیز تھی ۔۔
دراصل مرش شادی کے لیے تیار ہو گیی ہے اس کی مرضی مکمل طور پر ہے ۔۔ اس لیے میں نے آپ کو کال کی ہے میرے خیال سے آپ لوگ انتظار کر رہے تھے ۔۔ سرفراز صاحب نے نپے تلے انداز مے بات کی ۔۔
ہاں ۔۔ ہاں ہماری مکمل مرضی ہمیں بہت خوشی ہویی آپ کے اس فیصلے سے ۔۔ جاوید صاحب کی خوشی انگ انگ سے چھلک رہی تھی ۔۔ ہم کل ہی مل کر کویی فیصلہ کرتے ہے ۔۔۔ جاوید صاحب نے مسکراتے ہوے کہا ۔۔ تو ٹھیک ہے پھر کل بات ہوتی ہے ۔۔ کال ڈیسکنیٹ ہو چکی تھی ۔۔
کس کی کال تھی ۔۔ آہل بخوبی جانتا تھا کال کس کی ہے ۔۔ لیکن پھر بھی انجان بننا اس کا فرض تھا ۔۔
سرفراز صاحب کی بتا رہے تھے مرش تیار ہو گیی ہے شادی کے لیے ۔۔جاوید شاہ آفندی خوب جانتے تھے مرش کیوں تیار ہویی ہے ضرور ان سب مے آہل کا ہاتھ ضرور شامل ہے ۔۔ لیکن کچھ بھی تھا ۔۔ انہیں مرش کا فیصلہ بہت پسند آیا تھا ۔۔
بریرہ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا ۔۔ مرش شادی کے لیے تیار ہو گیی ہے ۔۔ بابا یہاں پر مرش کا کیا ذکر ۔۔ ؟؟ ۔۔
تمہارا بھایی تمہاری فرینڈ مرش سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔۔ اسی کے رشتے کی بات ہو رہی ہے ۔۔ جاوید نے بریرہ کو دیکھتے ہوے کہا ۔۔
کیا ؟؟؟؟؟ بھایی مرش سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔مجھے تو اس بارے مے کچھ پتہ ہی نہیں ۔۔
ابھی کل ہی تو ہمیں خود بتایا ہے اس نے ۔۔ جاوید شاہ آفندی نے آہل کر طرف اشارہ کرتے ہوے کہا ۔۔
آپ دوبارہ سے کال کرے انہیں ۔۔ آہل نے موبایل کی طرف اشارہ کرتے ہوے جاوید شاہ آفندی سے کہا ۔۔
کیوں ؟؟ جاوید شاہ آفندی نے تھوڑا حیرت سے آہل کو دیکھا ۔۔
میں نکاح کرنا چاہتا ہوں کل !! آہل نے بے فکری سے کہا ۔۔
نکاح ؟؟ ۔
اتنی جلدی تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے ۔۔ جاوید صاحب کو آہل کا اس طرح سے فیصلہ کرنا سخت زہر لگتا تھا ۔۔
میں کہہ رہا ہوں نہ آپ کال کرے نکاح میں جلد از جلد کرنا چاہتا ہوں ۔۔ آہل کو کویی فرق نہیں پڑتا تھا مقابل کا کیا رییکشن ہے ۔۔
ہر فیصلہ تمہاری مرضی سے نہیں ہوگا آہل ۔۔ جاوید شاہ آفندی نے آواز میں سختی لاتے ہوے کہا ۔۔
آپ مجھے مجبور کر رہے ہے ۔۔ آپ کال کر رہے ہے یہ میں کرو ۔۔
کریں نہ ہو سکتا ہے وہ تیار ہی ہو جاے ۔۔ مریم شاہ آفندی نے جاوید شاہ آفندی کو سمجھاتے ہوے کہا ۔
جاوید شاہ آفندی مجبور تھے انہیں ڈر تھا کی کہیں آہل کچھ اور نہ غلط کر دیں ۔۔
کرتا ہوں ۔۔ جاوید شاہ آفندی نے غرراتے ہوے کہا ۔۔
سرفراز صاحب اگر آپ کو کویی اعتراض نہ ہو تو کیا ہم کل نکاح کی رسم ادا کر لیں دراصل میں میں کچھ دنوں کے لیے بیرونی ملک جا رہا ہو ۔۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کیوں نہ اس فرض کو کل ہی ادا کر دیا جاے ۔۔ جاوید شاہ آفندی نے بہت تحمل سے بات کی ۔۔
کل ؟؟ ۔۔ ہم لڑکی والے ہے کل ساری تیاریاں کیسے ہو سکتی ہے اور اتنی بھی کیا جلدی ہے میرے خیال سے ہمیں آرام سے فیصلہ کرنا چاہیے ۔۔
بابا میں تیار ہوں ۔۔ آج نہیں تو کل آپ نے کرنا ہی میں تیار ہوں مجھے کویی اعتراض نہیں ہے ۔۔ نکاح ہی تو کرنے کے لیے کہہ رہے ہے ۔۔۔ مرش دھڑکن بہت دھیمی ہو گی تھی ۔۔ نہ چاہتے ہوے بھی اسے وہ سب کرنا پڑ رہا تھا جس مے اس کی مرضی کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا ۔۔
ہم بہت سادگی سے نکاح کرنا چاہتے ہے ۔۔ اور رخصتی ایک ہفتے بعد کر لیں گے ۔۔۔ جاوید شاہ آفندی کسی بھی طرح سے سرفراز صاحب کو قایل کرنا چاہتے تھے ۔۔۔
ٹھیک ہے ہم تیار ہیں ۔۔ سرفراز صاحب نے آخر ہاں کر ہی دی تھی ۔۔ جب سب کی مرضی شامل تھی تو انہیں سب کچھ مناسب لگ رہا تھا ۔۔
مرش کے رخسار سے دو دو موتی ٹوٹ کر گالوں کو بھگو دیے تھے . ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_15
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
Nikaah_Episode 😍😍😍😍😍😍😍😍
پوری رات مرش کے آنسوں رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔ اس کی سسکیاں اسی کمرے مے گونج کر دفن ہو جاتی تھی ۔۔ آخر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں یہ اللہ کیوں ملوایا مجھے اس شخص سے نفرت ہے مجھے ۔۔ کیوں !! رونے کی وجہ سے مرش کی آواز بیٹھ گیی تھی وہ مسلسل رب سے شکوہ کیے جا رہی تھی ۔۔ کیا قصور تھا اس کا جو اس کو اتنی بڑی سزا مل رہی ہے ۔۔
پہنچ گیی تم لوگ کویی پرابلم تو نہیں ہویی ۔۔ آہل ثمرہ اور اریشہ کی خیریت سے پہنچنے کی خبر لے رہا تھا ۔!!
ہاں کویی پرابلم نہیں ہویی ۔۔ ثمرہ نے جواب دیا !!!
شکریہ میرا ساتھ دینے کے لیے !! آہل نے مسکراتے ہوے ان کا شکریہ ادا کیا ۔۔
شکریہ کرنے کی کویی ضرورت نہیں ہے ہم اپنی دوست کو بچانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہے !! اسپیکر آن ہونے کی وجہ سے اریشہ نے جواب دیا ۔۔ لیکن ہمیں بہت برا لگ رہا ہے ہماری فرسٹ فرینڈ کی شادی ہے اور ہم رہے گے ہی نہیں !! ثمرہ نے اداس ہوتے ہوے کہا ۔!
ولیمے پر تم دونوں کو اسپیشلی انوایٹ کروں گا یار !! آہل نے ہنستے ہوے کہا ۔۔
ہم انتظار کریں گے ۔۔ ثمرہ نے منھ بناتے ہوے کہا ۔۔
بہت جلد تم لوگ کا انتظار بھی ختم ہو جاے گا ۔ اب فون رکھتا ہوں خدا حافظ !! آہل انہیں خدا حافظ بول کر کال ڈیسکنیٹ کر دیا تھا ۔۔
آہل اپنی پوری زندگی مے کبھی ایسا قدم نہ اٹھاتا جو آج اس نے مرش کے لیے اٹھایا تھا ۔۔ وہ لڑکی میرے لیے اتنی خاص کیوں بنتی جا رہی ہے ۔۔۔ میں اس کی زندگی بچا رہا ہوں لیکن کیوں بھاڑ مے جانے دیتا مجھے اس سے کیا غرض؟؟ آہل کی سوچوں کا مرکز مرش بنی تھی ۔۔ وہ مرش کا بریسلیٹ لے کر مسلسل اسی کو سوچے جا رہا تھا ۔۔
فارس کل نکاح ہونے جا رہا ہے !! آہل فارس کو کال کر کے نکاح کی خوشخبری سنا رہا تھا ۔۔
کیا ؟ وہ مان گیی ۔۔ فارس کو حیرت ہو رہی تھی ۔۔
ہاں ابھی ابھی محترما نے خود ہاں کہا ہے ۔۔ آہل کے لبوں پر ایک شریر سی مسکراہٹ تھی ۔۔ آہل نے فارس کو یے تو بتایا تھا وہ مرش سے شادی کرنے والا ہے لیکن یے نہیں بتایا تھا کس طرح سے کرے گا ۔۔
لیکن کیسے یار ؟؟ وہ لڑکی مان گیی مجھے تو یقین نہیں آ رہا ضرور تو نے کچھ کیا ہوگا ۔۔ فارس اب آہل کی تفتیش کر رہا تھا ۔۔
کچھ خاص نہیں بس اس کی دو دوستوں کو کیڈنیپ کیا تھا !! آہل نے پرسکون ہوتے ہوے کہا ۔۔
کیڈنیپ ؟؟ فارس نے کیڈنیپ لفظ پھر سے دہرایا
ہاں کیڈنیپ ۔۔ آہل نے سامنے رکھے بریسلیٹ پر ایک نظر ڈال کر کہا۔
لیکن تونے مجھ سے کیڈنیپ کا ذکر تو نہیں کیا تھا ۔۔ فارس نے ناراض ہوتے ہوے کہا ۔۔
وہ کیا ہے نہ میں تیرا لیکچر بلکل بھی سننے کے موڈ مے نہیں تھا اس لیے تجھے نہیں بتایا !! آہل نے ہنستے ہوے کہا ۔۔
بہت ہی برا یے تو !! فارس نے چڑتے ہوے کہا ۔۔
معاف کر یار ۔۔ آہل نے معافی مانگی ۔۔
مطلب کل تو دلہا بنے گا ۔۔ فارس اب شرارت پر اتر آیا تھا ۔۔
بکواس بند کر خدا حافظ ! آہل فارس کا مذاق سننے کے بلکل بھی موڈ مے نہیں تھا ۔۔
بندہ ایک میسیج ہی کر لیتا ہے ۔۔ بریرہ ایک ۔ایک منٹ پر موبایل پر میسیج انباکس کھول کر چیک کر رہی تھی ۔۔ لیکن نہ تو کویی میسیج اور نہ ہی کویی کال ۔۔
غلطی تو اسی کی تھی جھوٹ بولا تھا اس نے کم از کم میں تو معافی نہیں مانگ رہی ۔۔ بریرہ ایک لگاتار کمرے کا چکر کاٹ رہی تھی ۔۔ اس کی ییچینی حد سے زیادہ تھی۔۔ بے صبری سے اسے فارس کے میسیج کا انتظار تھا ۔۔ بریرہ شاہ آفندی بھی محبت مے پوری طرح شرابور ہو چکی تھی اس کے دل مے فارس کے لیے جو بھی فیلینگز تھی کم از کم وہ نفرت نہیں تھی ۔۔ ایک عجیب سی بیچینی تھی ۔۔اس کے دل کے ایک گوشے فارس کا نام چھپا ہوا تھا ۔۔۔رات کافی ہو چکی تھی اب اور انتظار کرنا بیوقوفی تھی ۔۔ نہ چاہتے ہوے بھی بریرہ کو آنکھ بند کرنا پڑا لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔
امی یہ سب کیا ہے نکاح سادگی سے ہوگا یہ شادی کا جوڑا کس لیے ۔۔ مرش کوبےانتہا کوفت ہو رہی تھی سامنے لال رنگ کا جوڑا دیکھ کر جس پر بے حد نفیس کڑھایی اراستہ تھی ۔۔
مرش کیا ہو گیا ہے شادی کے دن ہر لڑکی کو یہ جوڑا پہننا ہوتا ہے وہ تو شکر ہے میں نے یہ پہلے سے خرید کر رکھا تھا ۔۔ فایزہ بیگم نے خوش ہوتے ہوے کہا ۔۔
امی آپ بھی نہ اور یہ سب مٹھایی وغیرہ کیا ضرورت تھی ان سب کی ۔۔ مرش کا بس نہیں چل رہا تھا ایک ایک چیز کو آگ لگا دے ۔۔
یہ سب رسم ہوتی ہے میری جان یہ دیکھو تمہارا ہاتھ کتنا سونہ لگ رہا ہے دلہنوں کے ہاتھ یوں خالی نہیں رہتے ۔۔ پالر جا کر اچھے سے تیار ہو کر آو ۔۔
امی پلیز میں ایسے ہی سہی ہوں اور رہی مہندی کی بات نمرہ سے لگوا لیتی ہوں لیکن پالر نہیں جاوں گی میں ۔۔۔ مرش ان سب سے جلد از جلد پیچھا چھڑوانا چاہا—!!
اتنی جلدی ان لوگوں نے نکاح کرنے کے لیے کہہ دیا ۔۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کیا کروں ۔۔ فایزہ بیگم نے پریشان ہوتے ہوے کہا ۔۔
مجھے صرف آپ کی دعاییں چاہیے امی ۔۔ مرش کے آنسوں پلکوں کو بھگو رہے تھے ۔۔
میری دعایں تو صرف تمہارے لیے ہی ہے میری جان ۔۔ فایزہ بیگم نے مرش کو گلے لگاتے ہوے کہا ۔۔
یار قسم سے کیا غضب کا ڈھا رہا ہے آج نہ جانے کتنی بیچاری لڑکیوں کا دل توڑے گا تو !!! فارس ایک لگاتار دل کھول کر آہل کی تعریف کیے جا رہا تھا ۔۔
فارس صبح صبح ہی آہل کے کمرے مے آ دھمکا تھا ۔۔۔
ویسے ایک بات تو ہے تو مرش کے سامنے تو دل ہار بیٹھا تھا یے نہ ؟؟ فارس کے سوالات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہے !!! آہل نے صاف انکار کیا ۔۔
چلنا ہے یہ نہیں آہل ریسیٹ واچ ہاتھ مے ڈالتے ہوے کہا ۔۔
وہ دونوں نیچے آ چکے تھے جہاں پر جاوید شاہ آفندی مریم اور بریرہ پہلے سے ہی منتظر تھے ۔۔
ایک لمحے کے لیے فارس کی گستاخ نظر بریرہ کی جانب اٹھی جو اسی کو دیکھ رہی تھی ۔۔ فارس نے جلدی سے نظروں کا زاویہ بدلا ۔۔
آہل میری دعا ہے تم اپنی زندگی مے ہمیشہ شاد آباد رہو بیٹا ۔۔ مریم بیگم نم آنکھوں سے آہل ڈھیر ساری دعاوں سے نواز رہی تھی ۔۔
تھینکس !! آہل نے انہیں نظر انداز کرتے ہوے تھینکس لفظ ادا کیا ۔۔
بھایی آپ تو بہت پیارے لگ رہے ہے میں بہت خوش ہوں ۔۔ بریرہ نے آہل سے گلے لگتے ہوے کہا ۔۔
میری جان آپ بھی بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔ آہل نے مسکراتے ہوے کہا ۔۔
مرش آپ کی طبعیت خراب ہو جاے گی بیٹا ۔۔ اتنا کیوں رو رہی ہے ۔۔ سرفراز صاحب نے مرش کے بال کو سہلاتے ہوے کہا ۔۔
مرش ایک گھنٹے سے مسلسل روے جا رہی تھی ۔۔ اس کے دل مے لاوے اٹھ رہے تھے لیکن یے مجبوری بھی نہ انسان سے کیا کیا کرواتی ہے ۔۔
بابا ۔۔ مرش اور پھوٹ کر رو رہی تھی ۔۔
مرش روتے نہیں ہے بیٹا ایک نہ ایک دن ہر لڑکی کو جانا ہوتا ہے ۔
۔سرفراز صاحب نے مرش کے ماتھے پر ممتا بھرا بوسہ ثبت کر کے کمرے سے جا چکے تھے کیوں کی مرش کے آنسوں ان کی برداشت سے باہر تھے ۔۔
مرش بہت پیاری لگ رہی ہو کسی نظر نہ لگے تمہیں ۔۔ سدرا جو کی مرش کی پڑوسی تھی اور ایک طرف سے مرش کی فرینڈ بھی ۔۔
شکریہ سدرہ ۔۔ مرش نے زبردستی مسکراتے ہوے کہا ۔۔ آنکھوں میں اداسی صاف نمایاں تھی لب خشک ہو چکے تھے ایسا لگ رہا تھا کچھ پل مے اس کی سانس تھمنے والی ہے ۔۔ نہ چاہتے ہوے بھی مرش کو خوبصورت عروسی جوڑا زیب تن کرنا پڑا لایٹ میکپ چہرے کو چار چاند لگا رہے تھے ۔۔
آہل شاہ آفندی کا آج پہلا قدم تھا اس گھر مے اس نے کبھی سوچا تک نہیں تھا زندگی مے ایسا بھی موڑ آے گا ۔۔سرفراز صاحب نے خاطر توازو میں کویی کسر نہیں چھوڑیی تھی ۔۔ لان مے نکاح کا انتظام کیا گیا تھا ۔۔
نکاح کا وقت ہو چکا تھا ۔۔ قاضی صاحب تشریف لا چکے تھے ۔۔
آہل کے دل مے ایک عجیب سی خواہش پیدا ہو رہی تھی جان مرش کے دیدار کے لیے ۔۔
مرش نکاح کا وقت ہو گیا ہے ۔۔ فایزہ بیگم نے اندر آتے ہوے کہا ۔۔ مرش کا دل بیٹھ سا گیا تھا اس کے دل پر قیامت گزر رہی تھی ۔۔کان کی لویں تک سرخ ہو گیی تھی ۔۔ آخر وہ گھڑی آ ہی چکی تھی ۔۔ دو تین لڑکیاں مرش کو لے کر کمرے سے باہر آیی ۔۔ آہل کی نظر یکایک سامنے کی جانب اٹھی آہل شاہ آفندی نظریں پھیرنا بھول گیا تھا ۔۔ مرش کو لے جا کر آہل کے قریب بیٹھا دیا گیا تھا ؟۔ چاند سورج کی جوڑی لگ رہی تھی ان دونوں کی ہر کسی کی نظروں مے ستایش تھی ۔۔ مرش نظریں مسلسل زمین پر ٹکی ہویی تھی یہ کیا ہو گیا میرے ساتھ کیوں صرف میرے ساتھ ہی کیوں ؟؟ مرش کا دل دوہیاں مانگ رہا تھا ۔
اب قاضی صاحب سب کچھ بولنے کے بعد مرش کی جانب متوجہ ہوے ۔۔
کیا آپ کو آہل شاہ آفندی اپنے نکاح مے قبول ہے ؟؟
کیا آپ کو یے نکاح قبول ہے ؟؟
مرش کی خاموشی وہاں کھڑے نفوس کو پریشان کر رہی تھی ۔۔
قبول ہے !!!!!! ۔یے تھا قدرت کا فیصلہ شاید اسے ہی قسمت کہتے ہیں ۔۔
چند ہی لمحے مے مرش سرفراز احمد سے مرش آہل شاہ آفندی بن چکی تھی ۔۔۔
اب قاضی صاحب مکمل طور پر آہل کی جانب متوجہ ہوے ۔
۔ مرش ولد سرفراز احمد کیا آپ کو اپنے نکاح مے قبول ہے ؟
قبول ہے !! آہل نے مکمل طور پر ہاں کہہ دیا تھا ۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_16
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
نکاح کے بعد دعاوں کا سلسلہ شروع ہوا۔۔ جاوید شاہ آفندی کے دل مے ٹھنڈک سی پڑ گیی تھی ۔۔آج ان کی دلی خواہش پوری ہو گیی تھی ۔۔
مرش بہت بہت مبارک ہو میں بہت خوش ہوں آج تم میری بھابھی بن گیی ۔۔ بریرہ واقعی بہت خوش تھی لیکن اس کا دل اس بات پر راضی نہیں تھا مرش وہ بھی بھایی سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو گیی ۔۔
مرش ناکام کوشش کر رہی تھی مسکرانے کی ۔۔
سبھی بہت خوش تھے ایک دوسرے کے گلے لگ کر مبارک باد دے رہے تھے ۔۔
سدرہ میں کمرے مے جانا چاہتی ہوں پلیز مجھے لے چلو “”””” مرش کا دل کر رہا تھا اس منظر سے ہمیشہ کے لیے غایب ہو جاے وہ خود بھی جا سکتی تھی لیکن تھوڑا معیوب لگ رہا تھا اس طرح سے جانا ۔۔
آہل کا تو دل کر رہا تھا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا دے اپنی دشمن جاں کو لیکن مرش موقع پاتے ہی وہاں سے غایب ہو گیی ۔۔
سدرہ مجھے کچھ دیر کے لیے اکیلے چھوڑ دو پلیز “”” مرش نے روتے ہوے سدرہ سے کہا ۔۔ وہ اکیلے مے دل کھول کر رونا چاہتی تھی ۔۔ آہل شاہ آفندی کو دل کھول کر بددعایں دینا چاہتی تھی ۔۔
اوکے !! سدرہ کہتی ہویی کمرے سے باہر جا چکی تھی ۔۔
مرش کے آنسوں اس کے گال کو بھگو رہے تھے ۔۔ آنسوں اپنی پوری روانی کے ساتھ جاری تھے ۔۔
ساری چوڑییاں زمین پر بکھر چکی تھی گلاب کی پتیاں اپنی اصل خوبصورتی خو چکی تھی ۔۔ مرش آہل شاہ آفندی !! نہیں وہ اس کا نام میرے نام کے ساتھ نہیں جڑ سکتا ۔۔۔
یہ اللہ !! مرش نے تڑپ کر رب کو پکارا !! کیوں ہوا میرے ساتھ ایسا آخر وہ ہی شخص میرے نصیب مے کیوں لکھا گیا تھا کیوں ؟؟
مرش تڑپ تڑپ کر اپنے سے شکوہ کر رہی تھی ۔۔
بریرہ ایک ہیلپ کر دو ۔۔ آہل نے شریر مسکراہٹ کے ساتھ بریرہ سے کہا !!
کون سی ہیلپ بھایی !! بریرہ نے انجان بنتے ہوے کہا ۔۔
مرش سے ملوا دو ! آہل نے مسکراتے ہوے کہا ؟۔
ہاں ضرور ایک منٹ میں پوچھ کر آتی ہوں ۔۔ بریرہ نے فایزہ بیگم سے پوچھنا ضروری سمجھا ۔۔
ہاں کیوں نہیں بیٹا بھلا مجھ سے اجازت کی ضرورت اب دونوں ایک دوسرے کے لیے غیر تھوڑی ہے ۔۔ فایزہ بیگم بھلا کیسے انکار کر سکتی تھی ۔
۔اجازت ملتے ہی بریرہ آہل کے پاس آیی ۔۔
مبارک ہو بھایی اجازت مل ہی گیی چلے ۔۔ آہل وہاں سے اکسکیوز کرتا ہوا اٹھ گیا ۔۔
زینہ طے کر کے دونوں اوپر آے ۔۔وہ رہا مرش کا کمرہ اب آپ جاے لیکن میری دوست کو زیادہ تنگ مت کیجیے گا ۔۔ بریرہ کا موڈ ابھی شرارت کا تھا ۔۔مم
پہلے مجھے جانے تو دو ۔۔ آہل نے بریرہ کے سر پر ایک چپت دیتے ہوے کہا ۔۔
ٹھیک ہے آپ جاے میں چلتی ہوں ۔۔بریرہ جا چکی تھی ۔۔
آہل کو ساری صورت حال پتہ تھی اندر کیا ہو رہا ہوگا ۔۔
آہل قدم بڑاھتا کمرے کے اندر آیا دروازہ کو اندر سے لاک کر دیا گیا تھا کمرے کا حشر دیکھ کر آہل نے ایک ٹھنڈی سانس بھری ۔۔
مرش کی نشت آہل کی اور تھی ۔۔
مرش اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو بغور دیکھ رہی تھی آنسوں اس کی ہتھیلی کو پوری طرح سے بھگو رہے تھے ۔ جیسے سارا قصور ان لکیروں کا ہی ہے ۔۔۔۔ کسی کی آہٹ پا کر مرش نے گردن موڑی سامنے ہی اس کا مجازی خدا اس کا شریک حیات ہاتھ باندھے اسی کو دیکھ رہا تھا ۔۔
مرش کی آنکھوں مے ہزاروں شکوے گلے تھے اسے ان سب سوالوں کا جواب چاہیے تھا جو آہل شاہ آفندی نے اس کے ساتھ کیا تھا ۔۔۔
مرش اپنی جگہ سے اٹھ کر ہولے ہولے قدم بڑھا کر وہ آہل کے مقابل آ کھڑی ہویی ۔۔کالی سیاہ گھنی زلفے مرش کے گالوں پر رقص کر رہی تھی آنکھوں سے آنسوں کی لڑی مسلسل جاری تھی ۔۔۔دوپٹہ زمین بوس تھا ۔۔
مرش کو اس طرح بغیر دوپٹہ کے دیکھ کر آہل اپنے جزبات کو قابو کیے ہوے تھا ۔۔۔ حالانکی اب کچھ اس کے بس مے تھا وہ جو چاہے کر سکتا تھا ۔
بہت غلط کیا تم نے ! بہت غلط !! کیوں آہل کیوں کیا بگاڑا تھا میں نے تمہارا کیا !!
کیا بگاڑا تھا ۔۔ مرش روتے روتے زمین پر بیٹھ گیی اس مے تاب نہیں تھی وہ کھڑی ہو سکے ۔۔ اس کا سارا جسم بے جان ہو چکا تھا ۔۔
کویی اور وقت ہوتا تو آہل شاہ آفندی اس کی باتوں کو ضرور نظر انداز کرتا لیکن آہل کو جی بھر کے مرش پر ترس آیا تھا۔۔
تم کیا سمجھتے ہو تمہاری جیت ہو گیی جس طرح تم نے مجھے اپنا بنایا ہے اسی طرح طلاق بھی دو گے ۔۔۔
میں تم سے تلاق لے کر رہوں گی مرش کی آواز پورے کمرے مے گونج گیی تھی ۔۔
آہل کا بس نہیں چل رہا تھا مرش کے اس الفاظ کی دھجیاں اڑا دے ۔۔
مرش کی کلایی کو آہل نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے سختی سے پکڑ کر کھڑا کیا انگلیوں کے ذریعے اس کے جبڑو کو سختی سے دبوچ کر کہا ۔۔۔
آج تو کہہ لیا اگر آج کے بعد تم نے تلاق لفظ بھی اپنے منھ سے نکالا یہی پر دفن کر دونگا ۔۔
اب میں تمہارا شوہر ہوں اس لیے اب جیسا میں چاہوں گا ویسا ہی تمہیں کرنا ہوگا سویٹ ہارٹ ۔۔ میری بات سمجھ مے آیی ؟ نہیں نہیں اتنی جلدی کیسے آے گی تمہیں سمجھ گولڈین نایٹ کے دن سمجھا دوں گا ۔۔
تمہارا نام میرے نام کے ساتھ جڑ چکا جتنی جلدی سمجھ جاو گی بہتر ہوگا تمہارے حق مے ۔
آہل مرش کو پیچھے کی اور دھکا دے کر کمرے سے باہر جا چکا تھا ۔۔
بریرہ کو ایک آس تھی ایک امید تھی شاید فارس ایک بار ہی مخاتب کر لے ۔۔
فارس اپنے آپ کو مسلسل بزی شو کر رہا تھا ۔۔
مجھے نظر انداز کر رہا ہے خود کو سمجھتا کیا ہے ؟؟ بریرہ کو سخت غصہ آ رہا تھا اپنا ہوں نظر انداز ہونا ۔۔
آخر تھک ہار کر بریرہ نے ہی میسیج کیا ۔۔
اگنور کر رہے ہو مجھے ؟
فارس نے میسیج پڑھ کر سامنے کی اور دیکھا ۔۔ جہاں بریرہ حسرت بھری نظروں سے فارس کو دیکھ رہی تھی ۔۔
میں کون ہوتا ہوں تمہیں اگنور کرنے والا !! فارس نے ناراض نظروں سے بریرہ کو دیکھا ۔۔
تو پھر ایک بھی میسیج کیوں نہیں کیے ؟ بریرہ نے منھ پھلاتے ہوے میسیج سینڈ کیا ۔۔
ایک عجیب سا ڈر تھا میرے دل مے شاید تمہیں خو دینے کا ڈر !! فارس کو واقعی ڈر تھا کہیں بریرہ کو وہ خو نہ دے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی شام آ میرے محرما ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبھی راز ہستی بیاں کروں ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ میری روح کا جو قرب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔تیری روح پر میں عیاں کرو۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔میری خانہء دل کی وحشتیں ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔تیرے دل پہ ساری نہاں کروں ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔کبھی خود کو تسبیح سا پھیر دوں ۔۔۔
۔۔۔ کبھی تجھ کو ورد زباں کروں ۔۔۔۔۔
شاعری پڑھ کر فارس کے دل مے ایک عجیب سی خوشی پیدا ہو گیی تھی مطلب بریرہ اسی کی ہے وہ بھی اس سے محبت کرتی ہے ۔۔۔
میں نے پوری رات انتظار کیا تھا شاید تم کویی میسیج کرو !! بریرہ اداس ہو گیی تھی ۔۔
میری جان ایم ریلی سو سوری مجھے لگا اب تم مجھ سے کبھی بات نہیں کرو گی ۔۔ فارس بریرہ کی حالت سے محفوظ ہوتا ہوا میسیج کیا ۔۔
کیا تمہیں نہیں لگتا غلطی تم نے کی تھی س
معافی تمہیں مانگنی چاہیے تھی ۔۔ بریرہ نے بناوٹی غصے سے میسیج کا جواب دیا ۔۔
بہت اچھا طریقہ تم نے اپنایا تھا ۔۔فارس بریرہ کے پلان پر حیرت زدہ ہو کر رہ گیا تھا ۔۔
شکر کرو تمہاری قسمت اچھی تھی کی میں نے ایک دو تھپڑ رسید نہیں کیا ۔۔۔ بریرہ نے اتراتے ہوے فارس کے چہرے کو دیکھا ۔۔
اللہ کا شکر ہے ۔۔ فارس ہنستے ہوے جواب دیا ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_17
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
سب کچھ اللہ کی خیر سے نمٹ گیا تھا ۔۔ جاوید صاحب جانے کے لیے کھڑے ہو گیے تھے ۔۔ سب ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے ۔۔
آنٹی خدا حافظ ۔۔ آہل کو ایک عجیب سی کنفیوزن ہو رھی تھی ۔۔ ایسا لگ رہا تھا یے چہرہ کسی کی یاد اسے شدت سے دلا رہا تھا اس کے ذہن مے عجیب عجیب سے خیالات آ رہے تھے ۔۔
اپنا بہت خیال رکھنا بیٹا ۔۔ فایزہ بیگم نے آہل کو دعا دیتے ہوے کہا ۔۔
گاڑی آفندی ہاوس آ چکی تھی آہل شاہ آفندی جاوید شاہ آفندی مریم بیگم گھر کے اندر جا چکے تھے ۔۔بریرہ کچھ دیر بعد گاڑی سے اتری فارس ہاتھ باندھے گاڑی سے ٹیک لگاے بریرہ کا ہی انتظار کر رہا تھا ۔۔
فارس نے مسکراتے ہوے بریرہ کی کالایی پکڑ کر اپنی اور کھینچا بریرہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی ایک لمحے مے فارس کے سینے سے آ لگی ۔۔
فارس کیا کر رہے ہو کویی دیکھ لے گا ۔۔ بریرہ کو ڈر تھا اتفاق سے کویی دیکھ نہ لے ۔۔
کون دیکھے گا ۔۔ فارس نے بریرہ کی حالت سے محفوظ ہوتے ہوے کہا ۔۔
کویی بھی پلیز مجھے جانے دو ۔۔ بریرہ فارس کے اتنے قریب تھی اس کی کان کی لویں تک سرخ ہو گیی تھی ۔۔
پاگل لڑکی اتنی رات کو کون ہمیں دیکھنے آے گا ۔۔
فارس بھایی دیکھ لیں گے پلیز ۔۔
اچھا یار چھوڑ دیا ۔۔ فارس بریرہ کی پکڑی ہویی کلایی چھوڑ چکا تھا ۔۔
کال کروں گا ۔۔
میں انتظار کروں گی ۔۔ بریرہ ہنستی ہویی اندر چلی گیی ۔۔
آہل آج میں بہت خوش ہوں تمہارا کیا گیا فیصلہ مجھے بہت پسند آیا بھلے تم نے اپنی مرضی سے یے فیصلہ کیا تھا لیکن میں بہت خوش ہوں میرے بیٹے ۔۔ جاوید صاحب آج ضرورت سے زیادہ ہی خوش تھے ۔۔
آخر بابا کو اتنی خوشی کیوں ہو رہی ہے ۔۔ آہل کے دل مے بے اختیار خیال آیا ۔۔
اب تم جاو آرام کرو ۔۔ جاوید صاحب نے نرم مسکراہٹ کے ساتھ کے کہا ۔۔
آہل اپنے کمرے مے آ چکا تھا شاور لینے کے بعد آینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے گیلے بالوں کو ترتیب دے رہا تھا اچانک اس کے دل مے خیال آیا ۔۔
کیوں نہ جانے جاں کو ایک کال کی جاے ۔۔
مسلسل بجتی رنگ پر مرش کا دل کر رہا تھا موبایل کو شوٹ کر دے ۔۔
آہل نے ایک اور بار ٹرایی کیا ۔۔لیکن نو رسپانس ۔۔
مرش یے آخری کال ہے میری اس کے بعد اپنی سزا کے لیے تیار ہو جانا ۔۔ آہل نے اب میسیج کیا تھا ۔۔
میسیج سین ہو چکا تھا ۔۔ ہمم آیا بڑا سزا دینے والا ۔۔ مرش نے منھ مے بڑبڑاتے ہوے کہا ۔۔
ٹھیک ہے جیسے آپ راضی مرش میڈم ویسے ہم بھی راضی ۔۔ آہل شاطرانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔۔
فارس کیا تمہیں نہیں لگتا ہمیں آہل بھایی کو بتا دینا چاہیے ۔۔ بریرہ کو ڈر رہی تھی آہل سے کیوں یے بات بہت چھوٹی نہیں تھی ۔۔
کیوں میری معصوم سی جان لینے پر تلی ہو ۔۔ فارس نے ایکٹنگ کرتے ہوے کہا ۔۔
مجھے ڈر لگ رہا ہے پتہ نہیں آہل بھایی کا کیا ریکشن ہوگا ۔۔
اسی لیے میں پیچھے ہٹ گیا تھا آہل میرے لیے بہت عزیز ہے میں اسے کسی بھی دھوکے مے نہیں رکھنا چاہتا تھا ۔۔ فارس کو تھوڑی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی ۔۔
فارس مجھے تمہاری امی سے ملنا ہے ۔۔ بریرہ بیچین تھی فارس کی امی سے ملنے کے لیے ۔۔
یار کیا ہے ایک کے بعد ایک خواہش بتاتی جا رہی ہوں ۔۔
فارس پلیز نہ مجھے ملنا ہے ۔۔ بریرہ اب ضد باندھ چکی تھی ۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔ کل کالج سے پک کر لوں گا ۔۔ فارس نے ہارتے ہوے کہا ۔۔
مرش تم کالج نہیں جاو گی ۔۔ آہل کا میسیج اسکرین پر چمک رہا تھا ۔۔ میسیج پڑھ کر مرش کا غصہ ساتویں آسمان پہنچ گیا ایک منٹ مے اندر اس نے آہل کو کال ملایی ۔۔
تم ہوتے کون ہو مجھ پر اپنا حکم چلانے والے تمہارا کہنے سے میں کالج نہیں جاوں گی تمہیں یقین ہے ۔۔ مرش نے ایک ایک لفظ چباتے ہوے کہا ۔۔
میں نے ایک بار کہہ دیا نہ تم کالج نہیں جاو گی ۔۔
اور میں نے بھی کہہ بھی دیا میں جاوں گی ۔۔
ہوتے کون ہو تم مجھ پر حکم چلانے والے ؟؟ مرش نے آواز مے سختی لاتے ہوے کہا ۔۔
سویٹ ہارٹ میرے خیال نہیں تمہیں ایک ہی بات بار بار بتانے کی ضرورت ہے ۔۔ آہل نے صاف صاف لفظوں مے اسے باور کرایا ۔۔
میں کالج جاوں گی تمہیں جو کرنا ہے کر لو ۔۔ مرش نے کہتے ہوے غصے سے موبایل آف کر دیا تھا
امی میں کالج جا رہی ہوں ۔!! مرش نے شال سمبھالتے ہوے کہا ۔۔
مرش تمہارا کل نکاح ہوا ہے ایک ہفتے بعد رخصتی ہے تمہاری کالج جانے کی کیا ضرورت ہے ۔۔ فایزہ بیگم مرش کا کالج جانا اب اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔
میرے نکاح کا میرے کالج سے کیا تعلق اور امی پلیز رخصتی ابھی ایک ہفتے بعد ہے کم از کم مجھے ایک ہفتے تو کالج جانے دے ۔۔
اچھا ٹھیک ہے جاو لیکن دھیان سے جانا ۔۔ فایزہ بیگم نے آخر مرش کو جانے کی اجازت دے ہی دی ۔۔
کالج پہنچتے ہی اسے کینٹین مے ثمرہ اور اریشہ موموز سے انصاف کرتی ہویی دکھی ۔۔
کیسی ہو ثمرہ ۔۔ مرش نے دوڑتے ہوے ان کے گلے لگ کر کہا ۔۔
ہم تو بلکل ٹھیک ہے ۔۔ اریشہ نے اس طرح جواب دیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔
اس نے تم لوگ کو کویی نقصان تو نہیں پہنچایا ۔۔ مرش نے تصدیق چاہی ۔۔
کیسا نقصان یار جب اتنا ہینڈسم بندہ کیڈنیپ کرے تو کہاں یاد رہتا ہے ہم کیڈنیپ ہوے ہے ۔۔ ثمرہ نے آنکھ مارتے ہوے کہا ۔۔
بکواس بند کرو یار شکر ہے تم لوگ ٹھیک تو ہو ۔۔مرش نے ایک بار پھر سے شکر کیا ۔۔اسی دوران بریرہ بھی آ چکی تھی ۔۔ مرش نے بہت ہمت کر کے بریرہ کو مخاطب کیا تھا کچھ بھی تھا وہ آہل شاہ آفندی کی ہی بہن تھی ۔۔
کلاسیز شروع ہو چکی تھی ۔۔۔ مرش کتاب مے سر جھکاے آس پاس سے بے خبر پڑھنے مے مصروف تھی ۔۔
آہل کی گاڑی کالج کے باہر ہی کھڑی تھی ہاتھ کے اشارے سے آہل نے کالج کے ملازم کو پاس بلایا ۔۔
ج۔ ۔جی ۔سر ۔۔ ملازم کو بلکل بھی توقع نہیں تھی آہل شاہ آفندی کھڑا ہوگا ۔۔
مس مرش کو جا کر بھیجو اور ہاں ان سے کہنا ان کا ریلیٹیو آے ہیں ۔۔
جیسا آپ کا حکم صاحب ۔۔ ملازم اندر جا چکا تھا ۔۔
میڈم جی آپ سے کویی ملنے والے آے ہیں وہ آپ کو باہر بلا رہے ہے ۔۔ ملازم اب مرش کے سر پر سوار تھا ۔۔
میرے ؟؟ مجھ سے کالج مے کون ملنے آے گا ۔۔۔ مرش تھوڑا مشکوک ہویی ۔۔
وہ جی آپ کے ریلیٹیو بتا رہے ہیں ۔۔
میرا ریلیٹیو نہیں ہے جاے آپ یہاں سے۔۔ مرش نے بری طرح ڈپٹا ۔۔کیوں کی اس کے دل و دماغ پر بے زاری سوار تھی ۔۔
وہ جی ایک بار جا کر دیکھ لے ۔۔ ملازم نے ایک بار پھر سے ہمت کر کے کہا ۔۔
کون ہو سکتا ہے اچھا ٹھیک ہے جاتی ہوں ۔۔ مرش کو نہ چاہتے آنا پڑا ۔۔
وہ اپنی ہی دھن مگن ہوتی ہویی چلی آ رہی تھی نظروں کے عین سامنے آہل دونوں بازوں باندھے آنکھوں پر بلیک سن گلسیز لگاے ہوے تھا ۔۔
یے ۔۔ مرش کا دل غیر معمولی رفتار سے دھڑکنے لگا ۔۔ مرش جیسے آیی تھی اسی طرح تیز رفتاری پیچھے پلٹ کر دوڑ لگانی چاہی ۔۔
ہاے لیکن ساری کوشش ناکام ہو گیی آہل نے ہاتھ بڑھا کر اس کی ٹھنڈی پڑتی کلایی کو اپنی ہتھیلی مے دبوچتے ہوے خود سے قریب کیا ۔۔
آہل یے کیا کر رہے ہو ؟ چھوڑو مجھے یے کالج ہے تمہارا بیڈروم نہیں ۔۔ مرش نے اپنی لرزتی پلیکں اوپر کی جانب اٹھاتے ہوے کہا ۔۔
تو بنا لیتے ہے بیڈروم کیا ارادہ ہے ۔۔ آہل نے شریر مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔۔
یے۔۔ یے تم ۔۔م۔ کیا کر رہے ہو ۔۔مرش کی آواز لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھی ۔۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر آہل نے مرش کو اند کی جانب کھینچ کر بٹھایا ۔۔
یے کیا حرکت ہے تمہاری دیکھو مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔ جانے دو مجھے ؟؟ گاڑی اپنی پوری رفتاری کے ساتھ روڈ پر دوڑنے لگی تھی ۔۔
میری معصوم سی جان تم کسی غیر کے ساتھ تھوڑی ہو اپنے خوبصورت شوہر کے ساتھ ہو ۔۔ آہل نے خود کی تعریف کرنا ضروری سمجھا ۔۔
میں تمہارا گلا دبا دوں گی ۔۔ مرش نے اپنے آنسوں بہ مشکل روکا ہوا تھا ۔۔
نقصان تمہارا ہی ہوگا ۔۔ آہل نے ہنستے ہوے کہا ۔۔
لیکن ہم جا کہاں رہے ہیں ؟ مرش ایسا راستہ دیکھ کر تھوڑا ڈر سی گیی تھی دور دور تک کویی گاڑی نظر نہیں آ رہی تھی ۔۔
ہنی مون منانے !! آہل کا قہقہہ بے ساختہ تھا ۔۔
بدتمیز ! مرش نے چڑتے ہوے کہا ۔۔
آخر کار گاڑی اپنی منزل تک پہنچ ہی گیی تھی ۔۔ ایک طرف گھوڑو کا استبل تھا جس کی دیکھ ریکھ کے لیے دو تین ملازم موجود تھے ۔۔۔
یے کون سی جگہ ہے ؟ مرش کو اس جگہ سے خوف آ رہا تھا ۔۔
تمہارے شوہر کا فیوریٹ فام ہاوس ۔۔ آہل نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوے کہا ۔۔
میں نہیں جاوں گی تمہیں جانا ہے تو جاو ۔۔ مرش ایک اور سمٹ کر بیٹھ گیی جیسے آہل شاہ آفندی اس کی بات مان جاے گا ۔۔
اگر تمہاری خواہش ہے کی میں تمہیں اپنی باہوں مے لے کر جاوں تو نو پرابلم ۔۔ آہل یکدم سے مرش کے اوپر جھکا ۔۔
نہیں ۔۔میں ۔۔میں آ رہی ہوں نہ ہٹو تم ۔۔ مرش کو جیسے کرنٹ لگ گیا تھا ۔
مرش کی بے بسی حد سے زیادہ تھی اس کے آنسوں سوکھ چکے تھے ۔۔
مرش آہل کے ہمراہ چلتی ہویی ایک بہت ہی خوبصورت کمرے مے دونوں داخل ہوے ۔۔ کمرے مے اچھا خاصا اندھیرا تھا ۔۔
آہل ہم یہاں کیوں آے ہیں ؟؟ مرش نے ٹھنڈے پڑتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوے پوچھا ۔
یہاں پر آو ۔۔ آہل صوفے پر بیٹھ چکا تھا اس کے بر عکس مرش دروازے کے پاس کھڑی تھی ۔۔
آہل پلیز چلو یہاں سے !! مرش کے گال پھر سے گیلے ہونے لگے تھے ۔۔
کیوں ڈر لگ رہا ہے کیا ۔۔
تم سمجھتے کیا ہو خود کو آخر تم انسان بھی ہو کہ نہیں ظالم انسان پلیز مت کرو ایسا کتنا ظلم کرو گے ۔۔ سچ کہتے ہیں لوگ تم ایک امیر ماں باپ کے بگڑے ہوے اولاد ہو آخر کو تم بھی ایک عورت کی کوکھ سے پیدا ہوے ہو یے حیثیت ہے عورت کی تمہارے نزدیک ۔۔ تمہاری ماں تو ایسی نہیں ہیں آخر تم کس کے بیٹے ہو مجھے سمجھ مے نہیں آ رہا ۔۔ تمہیں سہی معانوں مے بتاوں تم دراصل مفاد پرست انسان ہو صرف اپنے مطلب کے ہو آخر کتنی لڑکیوں کو استعمال کیا ہے تم نے ۔۔۔ مرش ایک ہی سانس مے انگارے پر دہکتے الفاظ کہہ گیی تھی ۔۔
مرش !!!!! آہل کی چینخ سے مرش کا دل دہل گیا تھا اس نے اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔
چٹاخ ۔۔!!!!
آہل کے انگلیوں کے نشان مرش کے گال پر بلکل صاف نمایاں ہو رہے تھے ۔۔
مرش کے ہاتھ فورن اپنے گال کو چھوا ۔۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیی ۔۔ یے تھی اس کی اوقات ۔۔ آہل شاہ آفندی نے آج اسے اس کی اوقات کا اندازہ کرا دیا تھا ۔۔۔
کالج کے لیے منا کیا تھا نہ میں نے پھر کس کی اجازت سے تم نے گھر کے باہر قدم نکالا تھا ۔۔۔ آہل مرش کا دونوں بازوں سختی سے دبوچ کر دیوار مے لگا کر بولا ۔۔
مرش کی آواز کہیں دم توڑ چکی تھی ڈر کی وجہ سےوہ اپنے ہوش سے غافل پو چکی تھی ۔۔۔
آہل کی آنکھیں غصے سے لال ہو چکی تھی ۔۔
مرش اس سے پہلے کی کچھ بولتی اس کی آہیں شروع پورے کمرے مے گونج رہی تھی ۔۔۔
مرش اتنی تیز آواز مے رو رہی تھی جیسے کسی معصوم بچے کا کویی خیلونہ ٹوٹ جاتا ہے ۔۔ اور وہ رونہ شروع ہو جاتا ہے ۔
آہل کو بے انتہا شرمندگی محسوس ہو رہی تھی زندگی مے پہلی بار اس نے کسی عورت کے اوپر ہاتھ اٹھایا تھا ۔۔
اب یے رونہ دھونا بند کرو گاڑی مے چل کر بیٹھو ۔۔ آہل شاہ آفندی نے اس کی بھوری آنکھوں مے دیکھتے ہوے کہا ۔۔
مرش میں تم سے بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔ مرش جیسی کی تیسی بیٹھی تھی اس کی آنکھوں سے ایک لگاتار آنسوں جاری تھے ۔۔
اوکے فاین !! آہل مرش کو اپنے دونوں ہاتھوں کے سہارے اسے اپنی باہوں مے اٹھا لیا ۔۔ مرش یکدم خاموش تھی وہ ایک ٹک آہل کی سرخ آنکھوں مے دیکھے جا رہی تھی ۔۔
آہل کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی موم کی گڑیا اس کی باہوں مے ہیں یوں لگ رہا تھا وہ کسی معصوم گڑیا کو کو قید کیے ہوے تھا ۔۔۔ جیسے ابھی اس سے کویی چھین لے گا ۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_18
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
گاڑی کے پاس پہنچ کر آہل نے ایک ہاتھ کے سہارے سے دروازے کو کھولا اور مرش کو اندر کی جانب جیسے ہی بیٹھانے کے لیے جھکا اس کے جزبات مچلنے لگے تھے مرش کے وجود سے اٹھتی بھیی بھینی خوشبو آہل شاہ آفندی کو مدہوش کر رہی تھی ۔۔ اپنے جزبات کوقابو کر کے آہل نے ڈریونگ سیٹ سمبھال چکا تھا ۔۔
گاڑی مے مکمل خاموشی تھی آہل نے ایک بار بھی مرش کو مخاتب کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا ۔۔۔
مرش کے آنسوں خاموشی سے زارو قطار بہے رہے تھے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے لب دھیرے دھیرے کپکپا رہے تھے۔۔
آہل گاڑی کو کالج لے جانے کے بجاے گھر لے آیا تھا ۔۔ کیوں کی اسے ڈر تھا مرش کو کویی نقصان نہ پہنچے ۔۔
مرش اسی خاموشی کے ساتھ گاڑی سے اترنے لگی اچانک اس کی مخملی کلایی آہل شاہ آفندی کے مضبوط گرفت مے قید ہو چکی تھی ۔۔
ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔ مرش اپنا ہاتھ چھڑوانے کی پوری کوشش کر رہی تھی ۔
مرش ایم سوری میرا ایسا کویی مقصد نہیں تھا۔ آہل بے حد شرمندگی سے مرش کی آنکھ مے دیکھ بولا ۔۔
تم جیسے مرد کو اور آتا ہی کیا ہے عورت کے اوپر ہاتھ اٹھا کر اپنی طاقت کی نمایش کرنے کے علاوہ ۔۔۔ مرش نے بے حد مضبوطی سے کہا ۔۔
تمہارے الفاظ ہی ایسے تھے مررش کسی بھی انسان کو غصہ دلا سکتے تھے ۔۔۔
چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔ مرش نے ایک بار پھر غصے سے کہا ۔۔
مرش ۔!! آہل نے اپنا نرم کشادہ لب مرش کے ماتھے پر رکھ دیا ۔۔۔ اسی لمحے مرش نے آنکھیں بند کر لی ۔۔ کچھ پل کے بعد مرش جیسے ہوش مے آ گیی تھی ۔۔
خدا حافظ مرش کی لرزتی پلیکں اوپر کی جانب اٹھنی مشکل ہو رہی تھی ۔۔ دروازے کو ایک جھٹکے سے کھول کر اندر کی جانب اپنے قدم بڑھا دیے ۔۔
آہل کے مسکراہٹ اور بھی گہری ہو گیی تھی ۔۔
اسلام علیکم آنٹی ۔۔ بریرہ نے فارس کی امی فریحہ بیگم کو سلام کیا ۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔ فریحہ بیگم نے مسکراتے ہوے جواب دیا ۔۔
بریرہ نے دل کھول کر فریحہ بیگم سے خوب باتیں کی تھی ۔۔ فریحہ بیگم کو بریرہ شاہ آفندی بہت زیادہ اچھی لگی تھی ۔۔ کچھ دیر بعد فارس بریرہ کو روم دکھانے کے بہانےاپنے ساتھ اندر لے گیا ۔۔
یے رہا ہمارا روم ۔۔فارس نے شریر مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔۔
ہمارا نہیں صرف تمہارا ۔۔ بریرہ نے نکھرا دکھانا ضروری سمجھا ۔۔
میرا تو ہے ہی بس اب اس روم کو ایک خوبصورت لڑکی کی ضرورت ہے ۔۔
تم لے آو لڑکی !
لے آتا یار لیکن مسلہ یے ہیں کی اس لڑکی کا ملنا بہت مشکل ہے ۔
کوشش کرو ہو سکتا ہے مل جاے وہ لڑکی ۔۔
کوشش ہی تو کر رہا ہوں جان ۔۔ فارس نے بریرہ کا ہاتھ پکڑتے ہوے کہا
اف !! فارس ٹایم کافی ہو گیا ہے مجھے کالج بھی تو ڈراپ کرنا ہے تم نے ۔۔
جب بھی میں تھوڑا رومینٹک ہونے کوشش کرتا ہوں تمہیں ہزاروں بہانے مل جاتے ہے مجھ سے پیچھا چھڑوانے کے ۔۔۔ فارس نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔۔
فارس رومینس بعد مے کر لینا ۔۔ پلیز چلو ۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔ وہ دونوں اب کمرے سے اب ہار آ چکے تھے ۔۔
آنٹی اب میں چلتی ہوں خدا حافظ ۔۔ بریرہ فریحہ بیگم کے گلے لگتے ہوے بولی ۔۔
میں انتظار کروں گی بیٹا پھر آنا ۔۔ فریحہ بیگم نے خوش دلی کا مظاہرہ کیا ۔۔
جی ضرور ۔۔وہ دونوں اب گاڑی مے بیٹھ چکے تھے ۔۔
آہل مرش کو گھر ڈراپ کرنے کے بعد سیدھا آفس آ گیا تھا ۔۔لیپٹاپ پر اس کی کی انگلیاں مسلسل چل رہی تھی ۔۔ تبھی دروازے پر دستک ہویی ۔۔
یس ! آہل نے اونچی آواز مے کہا ۔۔
سر آپ سے مسڑ علی ملنے آے ہیں ۔۔ پیون نے اندر آتے ہی آہل کو خبر دی ۔۔
اچھا لیکن باہر شور کس لیے ہو رہا ۔۔ باہر سے اونچی آواز آہل کے کانوں سے بھی ٹکرایی تھی ۔۔۔
سر مسڑ علی مسلسل بدتمیزی کر رہے ہے اسٹاف سے انہوں نے فایٹینگ بھی کی ہے ۔۔ پیون نے لفظ بہ لفظ باہر ہونے والے واقعے کو اپنے باس کو بتایا ۔۔
اس کو میرے کیبین مے بھیجو ۔۔ آہل کی آنکھیں غصے کی وجہ سرخ ہو رہی تھی ۔۔
اجازت ملتے ہی پیون واپس جا چکا تھا ۔۔
کچھ لمحے انتظار کے بعد علی اپنے بیہودہ ہولیہ مے اندر داخل ہوا ۔
خوشاآمدید ۔۔۔علی شہروز ۔۔ آہل کی تنظیہ مسکراہٹ علی شہروز کا دل خاک خاک کر دی ۔۔۔
تونے بہت غلط کیا آہل شاہ آفندی تجھے اس کا حساب دینا ہوگا ۔۔ بزینس مے تو توں مجھ سے آگے تھا ہی لیکن تو تو بازی بھی لے گیا ۔۔ واہ علی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے تالی بجا کر آہل کو داد دی ۔۔۔
بازی جیتنا میری فطرت مے ہے میرے یار اب کیا کیا جا سکتا ہے سواے افسوس کے ۔۔ آہل شاہ آفندی ہولے ہولے قدم بڑھاتا علی شہباز کے مقابل آ کھڑا ہوا ۔۔۔
تو تو بہت چالاک ہے ۔۔ تو نے مرش کو بھی مجھ سے چھین لیا ۔۔ ایک ہفتے کے لیے میں پیرس کیا گیا تونے نکاح ہی کر لیا اس سے ۔۔ علی شہروز کی آنکھوں مے نشے کی لکیر صاف دکھ رہی تھی چہرے پر بدنماں نشان منھ شراب کی بدبو آہل کو مزید غصہ دلا رہی تھی ۔۔
تو بہت بھولا ہے یار چھے سال سے تیری میری دشمنی ہے لیکن تو مجھے سمجھ نہیں پایا ۔۔ چی ۔۔چی ۔۔ آہل نے افسوس بھرے لہجے مے کہا ۔۔۔
لیکن تجھے یے پتہ کیسا چلا میں کرنے کیا والا ہوں ۔۔ علی کو شدید حیرت ہو رہی تھی آخر اس کا بنا بنایا پلان کی خبر آہل شاہ آفندی کو کیسے ہو سکتی تھی ۔۔
تجھے جاننا ہے تو ٹھیک ہے سن میں بتاتا ہوں ۔۔
وہ دن یاد ہے تجھے جس دن تو نے مجھے مال مے مرش کے ساتھ دیکھ لیا تھا ۔۔ میں سمجھ گیا تھا تیرے اس دو ٹکے ذہن مے کیا چل رہا ہوگا ۔۔ تیری تو دشمنی جو بھی تھی سب میرے سے وابستہ تھی لیکن تو مجھے نیچا دکھانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا ۔۔ اس وقت تجھے لگا ہوگا میرے اور مرش کے بیچ مے کچھ ہے اور تیرا اگلا ٹارگیٹ مرش سرفراز بن چکی تھی ۔۔۔
اپنے ذہن پر زور دے تو تجھے یاد آے گا میں نے اپنے آدمی کو تیرے پیچھا لگا رکھا تھا اور تیری پل پل کی خبر مجھے مل رہی تھی ۔۔۔
آہل شاہ آفندی نے کچھ غلط نہیں کیا تھا اس نے جو بھی کیا تھا سب کچھ مرش کی حفاظت کے لیے ۔۔۔۔
کیا تو نے اپنے ایک آدمی کو میرے پیچھے لگا رکھا تھا اوہ تو جس دن میں پاپا سے مرش کی بارے بات کر رہا تھا تو مطلب تو آس پاس ہی تھا ۔۔ علی شہروز کو یقین نہیں آ رہا تھا وہ خود ایک جال مے پھنس رہا تھا ۔۔ آہل شاہ آفندی اس کی سوچ سے بھی زیادہ تیز نکلا تھا ۔۔۔
اپنے ذہن پر تھوڑا اور زور دو اور یاد کرو اس دن تو نے اپنے گھٹیا باپ سے کیا بات کی تھی ۔۔ آہل نے دل جلا دینی والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔۔
اس دن ؟ علی شہروز اپنے باپ سے ہونے والی گفتگو کے بارے سوچنے لگا ۔۔
پاپا مجھے آہل کی کمزوری مل گیی ہے جس کی مجھے شدت سے تلاش تھی مرش ۔۔ مرش نام ہے اس لڑکی کا وہ آہل کی گرل فرینڈ ہے میں اس کا استعمال کر کے آہل شاہ آفندی تک پہنچ سکتا ہوں ۔۔۔
علی پہلے تم پیرس جاو بیٹا وہاں جانا بہت ضروری ہے پھر اس کے بعد تمہارا جو دل چاہے وہ کرنا ۔۔۔ مسٹر شہروز نے علی کو سمجھاتے ہوے کہا کیوں کی بیٹے سے زیادہ ان کی خود کی آہل شاہ آفندی سے دشمنی تھی ۔۔۔ لیکن ایک اہم میٹینگ کے سلسلے مے وہ علی کو پیرس بھیجنا چاہتے تھے ۔۔۔
پاپا صرف ایک بار میں مرش کو میسر ہو جاے ایک رات اس کے ساتھ گزار کر اسے گنہگار نہ بنا دیا تو میرا نام بھی علی نہیں ۔۔۔ میں اس کی عزت دو کوڑی کی بنا کر رکھ دوں گا ۔۔ اس کی صرف اتنی غلطی ہے کی وہ آہل شاہ آفندی کے رشتے مے ہیں ۔۔۔
علی لیکن ۔۔۔ مسٹر شہروز ابھی کچھ اور بولتے علی نے درمیان مے ہی انہیں ٹوک دیا ۔۔۔
پاپا بس ۔۔ اب میں وہی کروں گا جو میرا دل چاہے گا ۔۔آہل شاہ آفندی کا سارا غرور مٹی مے ملا دوں گا اس نے جس طرح ہمیں ہماری اوقات دلایی تھی سب کے سامنے ذلیل کر کے اسی طرح میں بھی وہی کروں گا ۔۔۔ علی اپنی بات مکمل کر کے جا چکا تھا ۔۔۔
لیکن مجھے یے سمجھ نہیں آ رہا اگر تو اس سے اتنی محبت کرتا تھا تو پھر اس دن کالج مے اس اتنی انسلٹ کرنے کا کیا مقصد تھا ۔۔ علی نے تھوڑی حیرت سے کہا کیوں کی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا اگر آہل شاہ آفندی کی وہ گرل فرینڈ تھی تو اس نے اس کی اتنی انسلٹ کیوں کی تھی ۔۔۔
وہ سب اس لیے کیا تھا کیوں کی میں تجھے اس دن کالج مے دیکھ چکا تھا تو کس کے لیے آیا ہے ۔۔ میرا وہاں جا کر اس کی انسلٹ کرنے کا کویی ارادہ نہیں تھا لیکن میں صرف تیری غلط فہمی دور کرنا چاہتا تھا تجھے یقین دلانا چاہ رہا تھا میرا اور مرش کا ایسا کویی تعلق نہیں ہے ۔۔ اس لیے میں نے اس کی انسلٹ کی تھی تا کی تجھے یقین ہو جاے ۔۔۔ اور تجھے یقین ہو بھی گیا تھا میرا اور مرش کا ایسا کویی تعلق نہیں تھا ۔۔۔
علی شہروز کو یقین ہو گیا تھا کی آہل اور مرش کا ایسا کویی تعلق نہیں ہے کیوں کی اگر ہوتا تو آہل شاہ آفندی پورے کالج کے سامنے اس کی انسلٹ نہ کرتا جو اس نے کیا تھا ۔۔ اسی بنا پر وہ ایک ہفتے کے لیے پیرس چلا گیا تھا یے سوچ کر کی پیرس سے واپس آنے کے بعد ضرور کچھ کروں گا ۔۔
کیا مطلب وہ سب جھوٹ تھا ۔۔اچھا نہیں کیا تو نے آہل ۔۔۔
نکاح تو تونے کیا ہے آہل شاہ آفندی لیکن تیری بیوی کے شوہروں والے سارے حقوق میں ادا کروں گا ۔۔۔ علی نے خباثت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔۔۔
علی !!!!!! اس قسم کے الفاظ سنتے ہی غصے کی وجہ سے آہل کے ساری رگیں صاف دکھ رہی تھی ۔۔ آہل نے دونوں ہاتھوں سے علی کا گریبان جکڑ کر دیوار می طرف دھکا دیتے ہوے کہا ۔۔۔
مرش کے بارے ایک لفظ نہیں ۔۔۔ ورنہ تیری زبان کاٹ تیرے ہاتھ مے دو دوں گا ۔۔۔ آہل کی آواز مے دنیا جہاں کی سختی تھی ۔۔۔
تو خود یہاں سے جا رہا ہے یہ میں دھکے دے کر تجھے باہر پھنکوں ۔۔۔ آہل نے لفظ بہ لفظ چبا کر کہا ۔۔۔
جا رہا ہوں میں لیکن تجھے ایک بات بتاتا چلوں آہل شاہ آفندی تیری بیوی خود چل کر میرے پاس آے گی ۔۔ علی نے وارنگ دیتے ہوے انداز مے کہہ کر باہر جا چکا تھا ۔۔۔
پیچھے آہل شاہ آفندی کی آنکھیں غصے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھی ۔۔ اس نے جو کچھ کیا سب اس بیوقوف لڑکی کے لیے کیا تھا لیکن اس کی کہاں سمجھ آنے والا تھا ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_19
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
علی جا چکا تھا لیکن آہل کو سخت کوفت ہو رہی تھی آفس مے بریرہ کو کالج سے پک کرنے کے بعد وہ سیدھا گھر آ گیا تھا ۔۔
علی شہرز کے بولے گیے الفاظ ابھی بھی آہل کی تن بدن مے آگ لگا رہے تھے بیڈ پر لیٹ کر آہل مسلسل اسی کو سوچے جا رہا تھا ۔۔
شدید غصے مے سڑھیاں اتر کر آہل کھانے کی ٹیبل پر پہنچا ۔۔
بابا جا چکے ؟؟ آہل نے چییر پر بیٹھتے ہوے مریم بیگم کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے پوے پوچھا ۔۔۔
ہاں دوپہر کے وقت کی فلایٹ تھی ۔۔ مریم بیگم نے بڑے تحمل سے جواب دیا ۔۔
اچھا ۔۔ آہل نے دھیمے سے جواب دے کر کھانے مے مشغول ہو گیا ۔۔
آہل ؟ مریم بیگم نے کچھ جھجکتے ہوے آہل کو پکارا ۔۔
ہوں ! آہل ان کے چہرے پر بغیر دیکھے جواب دیا ۔۔
بیٹا میرے خیال سے تمہیں مرش کو ساتھ لے کر شاپنگ کرنے جانا چاہیے ۔۔ مریم بیگم کو تو بلکل امید نہیں تھی آہل جانے کے لیے کبھی تیار ہوگا ۔۔
آہل کے ہونٹوں کے کونے مے ایک بے حد شریر مسکراہٹ رینگ گیی ۔۔
نہیں آپ چلی جایں نہ ساتھ میرے جانے کی کیا ضرورت ہے ۔۔ آہل کی ایکٹنگ کمال کی تھی ۔
نہیں بیٹا تم جاو گے زیادہ سہی ہوگا ۔۔ مریم بیگم نے ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔۔
اوکے ۔۔ آہل نے بڑے اطمنان سے جواب دیا وہ کسی کے بھی سامنے اپنا حال دل نہیں کھولنا چاہتا تھا ۔۔
میں فایزہ سے بات کر چکی ہوں کل تم جا کر مرش کو پک کر لینا ۔۔
ہاں ضرور ۔۔ آہل اپنی بے جا !سکراہٹ کو دباتے ہوے کہا ۔۔
امی میرے جانے کی کیا ضرورت ہے آپ پلیز انہیں انکار کر دیں میں نہیں جاوں گی ۔۔۔مرش نے جب سنا تھا کل اس کو اپنے قریبی دشمن کے ساتھ جانا ہے تب سے گھر مے واویلا مچا کر رکھا تھا ۔۔
مرش زبان دراضی بند کرو آخر تم اپنے شوہر کے ساتھ جا رہی ہوں تو مسلہ کیا ہے ہاں ۔۔فایزہ بیگم کو بے حد غصہ آ رہا تھا مرش کا اس طرح سے انکار کیا جانا ۔۔
امی ! مرش لاچار ہو گیی تھی اس کی بے بسی حد سے زیادہ بڑھ گیی تھی
بس ۔۔ اب مجھے کچھ نہیں سننا آخر کو میں انہیں زبان دے چکی ہوں ۔۔ فایزہ بیگم اب کمرے سے جا چکی تھی ۔۔
کیوں آہل شاہ آفندی کیوں اتنا مجبور کرتے ہو مجھے آخر کیوں میں تمہارے سامنے ہار جاتی ہوں ۔۔ مرش کی حلق مے آنسوں کا غولہ کب کا اٹکا ہوا تھا ۔۔
میں تم سے ڈرتی نہیں ہوں تم ہوتے کون ہو میں بھی مرش ہوں بہت ہو چکی تمہاری مرضی اب نہیں ۔۔مرش خود سے عہد کر چکی تھی اب اسے مضبوط بننا ہے وہ اب آہل شاہ آفندی کے سامنے کبھی نہیں ہارے گی ۔۔۔
ناشتے کی ٹیبل پر بریرہ کے فون پر مسلسل فارس کالنگ رنگ ہو رہی تھی لیکن بریرہ بجتی رنگ ٹون کو لگاتار نظرانداز کیے جا رہی تھی ۔۔
کس کی کال ہے ؟؟ آہل نے بریرہ کی گھبرایی ہویی حالت دیکھ کر پوچھا ۔۔
وہ کالج سے ہے بھایی ۔۔ بریرہ نے صاف جھوٹ بولا ۔۔
تو پک کرو ۔۔ آہل نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوے کہا ۔۔
بعد مے کر لوں گی بھایی ۔۔ بریرہ زبردستی مسکراہٹ کے ساتھ بولی ۔۔لیکن وہ سہی معانوں مے خوفزدہ ہو گیی تھی ۔۔
اوکے میں باہر ویٹ کر رہا ہوں ۔۔ آہل اپنا فون ہاتھ مے لیتے ہوے باہر جا چکا تھا ۔۔بریرہ بھی اسی کے ہمراہ چلتی ہویی گاڑی مے آ بیٹھی ۔۔
بریرہ کو کالج ڈراپ کرنے کے بعد آہل آفس آ چکا تھا ۔۔ جہاں پر فارس پہلے سے ہی موجود تھا ۔۔
گڈ مارنگ ۔فارس آہل کو دیکھ کر مسکراتے ہوے بولا ۔۔
گڈ مارنگ ۔۔ آہل نے بھی ایک فریش مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ۔۔
آہل فارس کو کب سے نوٹ کر رہا تھا وہ مسلسل کسی کو کال ملاے جا رہا تھا۔۔
لگتا ہے بھابھی ناراض ہے ۔۔ آہل کو یقین تھا فارس اس وقت کسی کو نہیں بلکی اپنی گرل فرینڈ کو کال ملا رہا ہے ۔۔
بھابھی !! نہیں یار ۔۔ فارس نے کھسیاہٹ بھری مسکراہٹ کے ساتھ نفی مے سر ہلایا ۔۔
اب بتا بھی دے کون ہے وہ بد نصیب ۔آہل کی آنکھوں مے شرارت صاف نمایاں تھی ۔۔
ک۔ ۔کک کویی نہیں یار ۔۔فارس نے نظریں چراتے ہوے جواب دیا ۔۔
میں دیکھ رہا ہوں کچھ دن سے تو بدلہ بدلہ سہ دکھایی دے رہا ہے آہل جانچتی نظروں سے فارس کو دیکھ کر بولا ۔۔
بدلہ ؟ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہے تجھے خواہ مخواہ لگ رہا ہے ۔۔فارس صاف مکر گیا تھا ۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے مان لیتا ہوں لیکن اس معاملے مے تیرے اوپر بھروسہ کرنا مشکل ہے ۔۔
آہل نے ہنستے ہوے ایک نظر ریسٹ واچ پر نظریں ڈالی ۔۔
اب مجھے کہیں جانا ہے ۔۔ آہل نے اٹھتے ہوے کہا ۔۔
لیکن میٹینگ ہے یار تو کہاں جا رہا ہے ۔۔فارس نے حیرت سے پوچھا ۔۔
تیری بھابھی کو شاپنگ کرانی ہے ۔۔ آہل نے آنکھ مارتے ہوے کہا ۔۔
اوہ ۔۔ پھر تو جا ۔۔ فارس نے شریر لہجے مے ہنستے ہوے کہا ۔۔
مرش تیار ہو جاو ۔آہل دس منٹ مے آ رہا ہے ۔۔فایزہ بیگم مرش کے کمرے مے آتے ہوے اپنا حکم صادر کی ۔۔
میں آپ کو پہلے بھی بتا چکی ہوں میں نہیں جاوں گی ۔۔ مرش نے بھی آج ضد باندھ لی تھی نہ جانے کی ۔۔
میں کچھ نہیں سننا چاہتی آہل آ رہا ہے تیار ہو باہر آو ۔۔ فایزہ بیگم غصے سے کہتی پ
ہویی باہر جا چکی تھی ۔۔
اسلام علیکم آنٹی ۔۔ آہل نے مسکراتے ہوے فایزہ بیگم کو سلام کیا ۔۔
وعلیکم اسلام بیٹا ۔۔ فایزہ کو بے حد خوشی ہو رہی تھی اپنی بیٹی کا اتنا شریف شریک حیات دیکھ کر ۔۔
کیسے ہو بیٹا ۔۔؟؟ فایزہ بیگم نے مسرت بھرے لہجے مے پوچھا ۔۔
میں بلکل ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں ۔۔ آہل کے چہرے پر اس وقت اتنی شریف قسم کی مسکراہٹ تھی جیسے اس سے زیادہ شریف انسان اس دنیا مے ہے ہی نہیں ۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں ۔۔ فایزہ بیگم یہاں وہاں کی باتوں مے آہل کو لگاے ہویی تھی ۔۔
لیکن آہل کی نظر یہاں وہاں بھٹک رہی تھی دشمن جاں کا دور دور تک کویی اتہ پتہ ہی نہیں تھا ۔۔
تم بیٹھو بیٹا میں چاے لاتی ہوں ۔۔فایزہ بیگم باورچی خانے مے جا چکی تھی ۔۔
جی ضرور ۔۔ آہل نے خوش ہوتے ہوے جواب دیا ۔۔ فایزہ بیگم جا چکی تھی ۔۔موقع پاتے ہی آہل نے مرش کے کمرے کی راہ لی ۔۔آہل کمرے کے اندر آچکا تھا اس نے یہاں وہاں نظریں دوڑا کر مرش کو ڈھونڈنہ چاہا لیکن مرش اس کی نظروں سے اوجھل تھی ۔۔
بالکنی کی کھڑکی سے خوبصورت نیلے رنگ کا دوپٹہ لہرا رہا تھا آہل کی نظر اچانک اس خوبصورت دوپٹے پر پڑی ۔۔ ایک بہت ہی خوبصورت مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر رقص کرنے لگی ۔۔ ہولے ہولے قدم بڑھا کر آہل مرش کے عین پیچھے جا کھڑا ہوا ۔۔۔لیکن مرش آس پاس سے بے خبر ریلینگ پر دونوں ہاتھ رکھ کر اوپر اڑتے پرندے کو دیکھنے کی جوڑ توڑ کوشش کر رہی تھی ۔۔ چند لمحوں مے اسے محسوس ہوا اس کی کمر مے کسی کا مضبوط ہاتھ پوری طرح گھیرا بنایا ہوا تھا ۔۔ آہل شاہ آفندی آج خود پے کو قابو نہیں رکھ پایا تھا۔۔
دشمن جاں کا اتنا دلکش روپ دیکھ کر آہل کے جزبات مچل اٹھے تھے ۔۔
اس نے اپنے دونوں ہاتھ مرش کی کمر مے ڈال کر ایک جھٹکے سے خود سے قریب کیا ۔۔ مرش کی ہوا اڑتی زلفوں کو آہل دھیمے دھیمے کانوں کے پیچھا کرتا ہوا اس کی نرم گزار گردن پر اپنے لب رکھ دیے ۔۔
مرش کو چار سو چالیس واٹ کا کرینٹ لگا تھا ۔۔ اس نے ایک جھٹکے سے چہرہ آہل کی طرف گھومایا ۔۔۔
آہل یے کیا کر رہے ہو ؟ مرش یکدم گڑبڑا گیی تھی ۔۔
رومینس ۔ آہل کو بے حد مزا آ رہا تھا مرش کی ایسی حالت دیکھ کر ۔۔آہل نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ریلنگ پر رکھ دیا تھا جس سے مرش اس کے گھیرے مے آ چکی تھی ۔۔
دیکھو دور رہو مجھ سے ۔۔ مرش کا چہرہ مارے شرم کے لال ہو چکا تھا ۔۔
دور ہی تو نہیں رہ سکتا مایی ڈول ۔۔ آہل کی گرم سانس مرش بہ خوبی محسوس کر سکتی تھی ۔۔
اور جہاں معاملہ دل کا ہو پھر دور رہنے لی قربت کم از کم میں تو برداشت نہیں کر سکتا ۔۔ آہل مرش کی حالت دیکھ مر محفوظ ہو رہا تھا اس کا مقصد صرف مرش کو تنگ کرنا تھا ۔۔۔
آہل کے اس قسم کے الفاظ سنتے ہی مرش کی کان کی لویں تک سرخ ہو گیی تھی ۔
آہل امی آ جایں گی وہ کیا سوچیں گی ۔۔ مرش کو ڈر تھا کہیں فایزہ بیگم نہ آ جاے ۔۔
آنے دو قانونی اور شرعی طور پر تم میرے نکاح مے ہو جان آہل ۔۔ آہل نے مسکراتے ہوے ایک بار پھر سے اس کی کمر مے ہاتھ ڈال کر خود سے قریب کر لیا تھا ۔۔ جس سے مرش اس کے چوڑے سینے سے آ لگی تھی۔۔
آہل پلیز جاو یہاں سے ۔۔مرش نے گھنی پلکیں آہل کی جانب اٹھاتے ہوے کہا ۔۔
تم ساتھ چل رہی ہو یہ نہیں ؟؟ آہل نے تھوڑا سختی سے پوچھا ۔۔
نہیں بلکل نہیں میں نہیں جانا چاہتی ۔۔مرش بچوں کی طرح ضد کرتے ہوے بولی ۔۔
ٹھیک ہے پھر آج کی رات ہم ایسے ہی گزاریں گے میں تمہیں آزاد نہیں کرنے والا ویسے اچھا ہے آج پوری رات رومینس کرنے مے گزار دیں گے ۔۔ آہل کی آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھی اس نے ایسا تیر مارا تھا جو سیدھا نشانے پر جا کر لگا تھا ۔۔
ن۔ ۔۔ن۔ ۔نہیں ۔۔نہیں۔ ۔میں جاوں گی میں کیوں نہیں جاوں گی میں بلکل تیار ہوں ۔۔
مرش نے اٹک اٹک کر بہ بمشکل لفظ ادا کیے ۔۔ کیوں کی وہ جانتی تھی آہل شاہ آفندی جو کہتا ہے وہی کرتا ہے آہل کی بات سن کر مرش کو جھرجھری سی آ گیی تھی ۔۔
اسے کہتے ہے فرمابردار بیوی ۔۔ آہل مرش کا گال تھپتھپا کر کمرے سے باہر جا چکا تھا ۔۔
پیچھے مرش کے آنسوں اس کی حیثیت اس کی انہ سب دم توڑ چکی تھی ۔۔ یہ اللہ یہ شخص میرے ہی نصیب مے کیوں لکھا تھا ایسا کون سا گناہ کیا ہے میں نے جو مجھے اتنی بڑی سزا مل رہی ہے ۔۔ مرش کی سسکیاں شروع ہو چکی تھی ۔ لیکن اسے ہمت نہیں ہارنی تھی وہ اس شخص کا برابری کا مقابلہ کرے گی ۔ ۔۔ مرش طے کر چکی تھی اب وہ اس شخص کے سامنے ڈٹ کر رہے گی ۔۔ لیکن ہمیشہ ناکامی اس کا منھ چڑاتی تھی ۔۔
بلیک شال شانوں کے ارد گرد پھیلاے مردہ جسم کے ساتھ مرش کمرے سے باہر آیی ۔۔ جہاں آہل فایزہ بیگم کو پوری طرح اپنے شیشے مے اتار چکا تھا ۔۔۔ فایزہ بیگم نہ جانے آہل کو کیوں متاثر کر کر رہی تھی اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا وہ کسی کے سامنے نہیں اپنی ماں کے سامنے بیٹھا ہو فایزہ بیگم کا ایک ایک نقش اس کی ماں سے ملتا تھا ۔۔
مرش کو دیکھتی ہی فایزہ بیگم چل کر اس کے قریب آیی ۔۔ کتنا لیٹ کر دی وہ بیچارہ کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا ۔۔ فایزہ بیگم نے ڈپٹتے ہوے کہا ۔۔
آ تو گیی ہوں نہ امی ۔۔ مرش اپنے نرم نرم آنسوں کو روکتے ہوے بولی ۔۔
اب ٹھیک ہے جاو ۔۔
اچھا آنٹی اب شام مے ملاقات ہوتی ہے ۔۔آہل شاہ آفندی کے اتنے روپ دیکھ کر مرش کو شدید حیرت کا جھٹکا لگ رہا تھا ۔۔
اللہ تم دونوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے فایزہ بیگم نے دل سے دعایں دیتے ہوے کہا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ملا تو خدا کا سہارا مل گیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غم زدہ ۔۔ غم زدہ دل یے تھا غم زدہ ۔۔
گاڑی کے اندر فل میوزک چل رہی تھی ۔۔ مرش کا سر چکرانے لگا تھا اسے بے چڑ ہو رہی تھی ایسے گانوں سے ۔۔۔
آہل پلیز یے سونگ بند کرو ۔۔
کیوں تمہیں نہیں پسند کیا ؟؟
ایسے چیپ قسم کے سونگ تم جیسے لفنگے ہی سنتے ہو ۔۔۔
ہا ۔ہا ہا تم مجھے لفنگا کہہ رہی ہو یہ سونگ کو ؟؟
تم بند کر رہے ہو نہیں ۔۔
یار کیا ہو گیا اتنا رومینٹک سونگ ہے ۔۔
بدتمیز ۔
اوکے کر دیتا ہوں بند آہل نے ہاتھ بڑھا کر آف کی بٹن دبا دی ۔۔
شہر کے سب سے مہنگے ترین مال کے سامنے آہل شاہ آفندی کی بلیک چمچماتی ہویی گاڑی آ کر رکی ۔۔ وہ دونوں گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آ چکے تھے ۔۔
مال کے اندر قدم رکھتے ہی مرش کو تھوڑا عجیب سا محسوس ہو رہا تھا زندگی میں پہلی بار وہ اتنے مہنگے ترین مال میں آیی تھی ۔۔
میم آپ کو کس کلر کا لہنگا چاہیے ۔۔۔
بلیک کومبینیشن ریڈ ۔۔۔سوال مرش سے کیا گیا تھا لیکن جواب آہل کی طرف سے آیا تھا ۔۔
نہیں مجھے بلیک کلر نہیں پسند ۔۔ مرش نے آہل کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوے کہا ۔۔
میم آپ اتنی پیاری ہے آپ پر ہر کلر جچے گا ۔۔ اس لڑکے نے مرش کی تعریف دبے لفظوں میں کی ایک منٹ میں ابھی آپ کو دکھاتا ہوں ۔۔ وہ لڑکا اٹھ کر جا چکا تھا ۔۔۔
اسی لیے تو یے معصوم بچہ تمہارے اوپر دل ہار بیٹھا تھا ۔۔ آہل نے دھیرے سے مرش کے کان میں سرگوشی کی تھا ۔۔
چپ رہو سمجھے ۔۔مرش آہل سے دو کوس دور جا کر بیٹھ چکی تھی ۔۔
میم یے کلر دیکھے ۔۔ اس لڑکے نے مرش کے سامنے رنگ برنگے کلر لا کر رکھ دیے تھے ۔۔ جن کی پرایز مرش سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔
یے کلر اچھا ہے ۔۔ آہل اورینج کلر کا خوبصورت دوپٹہ دیکھتے ہوے بولا ۔۔ اسے عورتوں کی شاپنگ کا تو دور دور تک کویی آیڈیا نہیں تھا لیکن مرش کو چھیڑنے میں اسے الگ ہی مزا آتا تھا ۔۔۔
نہیں ۔۔ مجھے نہیں پسند ۔۔ مرش یکدم بول اٹھی میں آہل شاہ آفندی کے پسند کے کپڑے پہنوں گی ۔۔ کبھی نہیں ۔۔ ابھی میرے اتنے برے دن نہیں آے مرش نے ایک نظر آہل کو دیکھ کر دل ہی دل میں سوچا ۔۔
ٹھیک ہے اب میں کچھ نہیں بولتا جو تمہیں اچھا لگے وہی لو اب خوش ۔۔ آہل بے حد غصہ آ رہا تھا سایڈ میں رکھی ایک چیر پر بیٹھ کر آہل موبایل چلانے میں مصروف ہو گیا ۔۔
میم یے دیکھے یے بہت خوبصورت ہے ابھی اس کی ایک ہی پیس آیی ہے ۔۔ نیوی بلو کلر کا خوبصورت لہنگا جس پر بے حد نفیس کڑھایی بنی ہویی تھی ۔۔
ہاں یے تو بہت خوبصورت ہے ۔۔ مرش کو ایک نظر میں ہی وہ لہنگا دل و جان سے پسند آ گیا تھا ۔۔
اسے پیک کر دیں ۔۔ مرش نے لہنگے کو پیک کرنے کا آڈر دیا ۔۔
دکھاو ۔۔ آہل جن کی طرح فورن حاضر ہوا ۔۔۔ واہ دیٹیس بیوٹیفل ایسا لگتا ہے یے تمہارے لیے ہی بنا ہے ۔۔ آہل کو بھی واقعی وہ لہنگا کافی پسند آیا تھا ۔۔
نہیں ۔۔نہیں مجھے نہیں پسند اس میں ایسی کویی بات ہی نہیں جو پسند کی جاے ۔۔ مرش آہل کی پسند کو کبھی ترجیح نہیں دے سکتی تھی ۔۔
بٹ میم ابھی تو آپ کو یے کافی پسند تھا ۔۔ اس لڑکے نے تھوڑا حیرت سے منھ بناتے ہوے کہا ۔۔
ہاں تو اب نہیں پسند نہ تمہیں سمجھ میں نہیں آ رہا ۔۔ مرش نے جلدی جلدی اپنی بات مکمل کی ۔۔
آہل ایک ٹک مرش کی بے جا حرکتوں کو نوٹس کر رہا تھا ۔۔
پیک کرو اسے ہمیں یہی چاہیے ۔۔ آہل نے اس لڑکے کو آڈر دے کر مرش کے چہرے کو بغور دیکھا ۔۔
مایی لیٹل ڈول ۔۔ جو چیز تمہارے شوہر کو پسند آے گی وہی چیز تمہیں پہنی ہے یے بات اچھی طرح سمجھ جاو ۔۔ آہل نے ایک ایک لفظ چباتے ہوے ادا کیا ۔۔
کریڈیٹ کارڈ سے بل پے کرنے کے بعد آہل مرش کی کلایی دبوچتا دوسری سایڈ لے گیا ۔۔
تمہیں جو چیز چاہیے جلدی خریدو ۔۔ کیوں مجھے سخت بوریت ہو رہی ہے یہاں ۔۔
مجھے کچھ نہیں چاہیے گھر چلو ۔۔
زیادہ نکھرے دکھانے کی ضرورت نہیں ہے سمجھی ۔۔ مرش آہل کو ایک بار پھر سے غصہ دلا رہی تھی ۔۔
میں نے کہا نہ مجھے کچھ نہیں چاہیے تمہیں سمجھ میں کیوں نہیں آ رہا ۔۔مرش نے بھی اب تیز آواز میں بولنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔
مطلب تمہارے نکھرے ابھی ختم نہیں ہونے والے ۔۔
تو نہ اٹھاو نکھرے کہے تو رہی ہوں گھر پہنچا دو آخر تم خود کو سمجھتے کیا ہو میں تم سے نہیں ڈرتی آہل شاہ آفندی تم بھی اس زمین پر رہنے والے ایک عام انسان ہو کویی خدا نہیں جس سے میں ڈروں ۔۔ مرش نے حساب چکانے میں کویی کسر نہیں چھوڑی ۔۔
آسمانی خدا تو نہیں ہوں لیکن میری جان تمہارا مجازی خدا ضرور ہوں ۔۔ آہل کا غصہ اس وقت کسی بارود سے کم نہیں تھا ۔۔
زبردستی مرش کو وہ ساری چیزے خریدنی پڑی جس کی اسے ضرورت تک نہیں تھی ۔۔ اللہ اللہ کر کے شاپنگ مکمل ہویی مرش کے اوپر قیامت گزر رہی تھی دل کر تھا اس شخص چھپ کر کسی ایسی دنیا میں چلی جاے جہاں پر اس کا نام و نشان نہ ہو ۔۔
گاڑی میں بیٹھنا یہ اٹھا کر بیٹھاوں ۔۔۔ مرش کو اس طرح کھڑے دیکھ کر آہل غصے سے بولا ۔۔
ایک لمحے کے اندر مرش گاڑی میں بیٹھ چکی تھی ۔۔
تمہاری بدتمیزیاں دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے مجھے لگتا ہے اس کا علاج کرنا پڑے گا مجھے ۔۔ آہل گاڑی کو گھماتے ہوے نشتر بھی چلاے جا رہا تھا ۔۔
انسان کو پہلے اپنا آپ دیکھنا چاہیے وہ کس حد تک گر چکا ہے ۔۔ مرش شیشے کے باہر اڑتے پرندے کو دیکھتے ہوے بولی ۔۔
اپنی حد کا تمہیں اندازہ پونا چاہے لڑکی ایک بیوی کا شوہر کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے ذرا سہ بھی اندازہ ہے تمہیں ۔۔ آہل سوال جواب کرنے والی عورتیں سخت نہ پسند تھی ۔۔
شوہر کا سلوک جیسا بھی رپے وہ سہی ہے لیکن بیوی کا سلوک سب سے اچھا ہونا چاہیے ایک بات میری یاد رکھنا آہل شاہ آفندی مجھ سے اچھے کی توقع کبھی مت رکھنا تم جیسے لوگوں پر میں لعنت بھیجتی ہوں ۔۔ ایسے شوہر سے اچھا میں مر جانا زیادہ پسند کروں گی ۔۔ مرش لب و لہجا کسی تیر سے کم نہیں تھا ۔۔
اپنی بکواس بند کرو مرش میں نہیں چاہتا ایک بار پھر سے میرا ہاتھ اٹھے ۔۔۔ آہل کی آنکھیں غصے کی وجہ سے شدید لال ہو چکی تھی ۔۔
تمہاری جیسی لڑکیاں میرے قدموں کی دھول بنی رہتی ہے ۔۔ آہل نے اپنے بے قابو پوتے غصے کو کنٹرول کرتے ہوے کہا ۔۔
تو میری زندگی کیوں برباد کی تم نے آخر کو میں ہی کیوں ملی تھی تمہیں انہی لڑکیوں سے شادی کر لیتے ۔۔۔ مرش کا آنسوں ایک بار پھر سے زور شور سے رواں ہو رہے تھے ۔۔
مرش کی بات سن کر آہل کے لبوں پر ایک بے حد شریر مسکراہٹ کھیلنے لگی تھی ۔۔
یہی تو مسلہ ہے میری جان جو بات تمہارے اندر ہے جو چیز تم تم مجھے دے سکتی ہو وہ کویی دوسری لڑکی نہیں دے سکتی ۔۔تین دن بعد ہماری رخصتی ہے پھر بتاوں گا تم مجھے کیا کیا دے سکتی ہو ۔۔ کتنی محبت کتنی اپنایت سب کچھ ۔۔۔
آہل کی بات سن کر مرش نے مزید بولنے سے گریز کیا ۔۔
گاڑی گھر کے باہر آ رکی تھی مرش ایک بھی لمحہ زایا کیے بغیر گاڑی سے نیچے اتری سارے شاپر کو ہاتھ میں تھامے ایک لمحے میں غایب ہو چکی تھی ۔۔ جیسے وہ آزاد ہو گیی ہو کسی کی قید سے کسی کے پنجرے سے ۔۔
آہل نے گاڑی روڈ پر رواں دواں تھی ۔۔ بریرہ کو کالج سے پک کرنے کا آدر فارس کو دے کر آیا تھا ۔۔ اب گھر جا کر اسے دشمن جاں کو کال بھی کرنی تھی ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_20
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
بریرہ شکر ہے تمہارا دیدار تو ہوا ۔۔ فارس بریرہ کو پک کر کے مسلسل اپنی خوشی کا اظہار کر رہا تھا ۔۔
خوش تو میں بھی ہوں ویسے بھایی تم پر اندھا بھروسہ کرتے ہے فارس لیکن ہم دونوں انہیں دھوکہ دے رہے ہے ۔۔
بریرہ آہل سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا پتہ نہیں وہ مجھے کیا سمجھے گا لیکن مجھے بہت برا لگ رہا ہے پر یار محبت پر زور کس کا ہیں ۔۔ فارس نے افسوس بھرے لہجے میں کہا ۔۔
مجھ سے پہلے کتنی لڑکیوں کو محبت کا حوالہ دے چکے ہو ۔۔بریرہ اب شرارت پر اتر آیی تھی ۔۔
کسی کو نہیں یار بس ایک دو لڑکیوں کو ڈیٹ کیا تھا اور کچھ نہیں ۔۔ فارس نے ہنستے ہوے کہا ۔۔
تم مجھے چھوڑ تو نہیں دو گے نہ فارس ۔۔ بریرہ نے ایک آس بھری امید سے پوچھا ۔۔
میں سوچتا ہوں بریرہ جس دن میں نے تمہیں چھوڑنے کی بات کی اس دن میرے نصیب میں موت سے زیادہ بڑی اور کویی سزا نہیں ہوگی ۔۔ فارس کے ایک ایک لفظ میں سچایی تھی ۔۔
آیی لو یو فارس ۔۔
لو یو ٹو ۔۔ فارس نے گھر کے سامنے گاڑی روکتے ہوے کہا ۔ ۔۔۔
رات میں کال کروں گی ۔۔
میں شدت سے انتظار کروں گا ۔۔ فارس نے خوش ہوتے ہوے جواب دیا ۔۔
بریرہ گاڑی سے اتر کر گھر کے اندر جا چکی تھی ۔۔
مرش یے تو بہت ہی خوبصورت ہے بھایی آہل کی پسند تو واقعی بہت اچھی ہے ۔۔فایزہ بیگم مرش کی گیی شاپنگ کو دیکھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ آہل کی پسند کو بھی داد دے رہی تھی ۔۔
اس نے نہیں پسند کیا امی میں نے کیا ہے ۔۔ مرش نے جھٹ سارا کریڈٹ اپنے سر لیا ۔۔
بھیی تم پسند کرو یہ آہل بات تو ایک ہی ہے ۔۔ فایزہ بیگم نے ایک بار پھر سے آہل کی پسند کو ترجیح دیا ۔۔ شادی کی تیاری عروج پر تھی لڑکوں والی کی بھی طرف سے اور لڑکی والوں کی بھی طرف سے فایزہ بیگم اپنی اکلوتی بیٹی کو زندگی ساری آسایش دینا چاہتی تھی ۔۔
امی اتنی ساری تیاریوں کی کیا ضرورت ہے ۔۔ مرش کو اتنی تیاریاں دیکھ کر سخت الجھن ہو رہی تھی ۔۔
کیسی بات کر رہی ہو بیٹا ہم نے تو کچھ کیا ہی نہیں جاوید صاحب نے ایک ایک چیز کے لیے منا مر دیا تھا ۔۔ فایزہ بیگم نے بڑے تحمل سے جواب دیا ۔۔
مرش تم ٹھیک تو ہو نہ بیٹا تمہارا چہرہ اتنا بجھا بجھا سا کیوں لگ رہا ہے شادی پر لڑکیوں کی ہزاروں خواہشیں ہوتی ہے ۔۔فایزہ بیگم مرش کی حالت سمجھنے سے قاصر تھی ۔۔
میں آپ کو کیا بتاوں امی آپ کی وہ مرش تو کہیں کھو گیی تھی اس کی ہنسی اس کی خوشیاں اس کی چھوٹی خواہشیں سب کچھ ایک ظالم انسان نے چھین لیا تھا ۔۔ مرش کا دل درد کی ایک شدت سے کانپ اٹھا تھا مگر چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجانا اس کی مجبوری تھی وہ کسی کو کویی شک میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔
ایسی تو کویی بات نہیں ہے امی میں زندگی میں پہلی بار آپ لوگ سے اتنی دور چلی جاوں گی میں کیسے رہ پاوں گی آپ اور بابا کے بغیر ۔۔مرش کے آنسوں اپنی پوری روانی کے ساتھ بہے رہے تھے ۔۔
نہ میرا بچہ ہر لڑکی کو جانا ہوتا ہے وہ تو ماں باپ کے گھر مہمان ہوتی ہے ۔۔فایزہ بیگم مرش کو گلے لگا کر خود بھی رو دی ۔۔
آہل شاور لینے کے بعد کھانے کی ٹیبل پر آیا ۔۔ جہاں پر بریرہ اور مریم بیگم پہلے ہی اس کے منتظر تھے ۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔ آہل بہت مدھم آواز میں سلام کر کے چیر پر بر اجمان ہو چکا تھا ۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔ ٹیبل پر بیٹھے نفوس نے مسکراتے ہوے جواب دیا ۔۔
آہل شاپنگ ہو گیی بیٹا ۔۔ مریم بیگم نے بڑی آس سے پوچھا ۔۔
ہاں ۔۔ آہل جواب دے کر کھانے میں مصروف ہو گیا تھا ۔۔
آہل کا یے رویہ دیکھ کر مریم بیگم کو بے حد خوشی ہو رہی تھی ۔۔ کم از کم وہ ان سے سہی طریقے سے بات تو کرنے لگا تھا ۔۔۔
سمیرا پانی دو ۔۔ پاس کھڑی ملازمہ کو آہل نے حکم دیا ۔۔
رکو میں دیتی ہوں ۔۔ مریم بیگم نے ملازمہ کے بڑھتے ہاتھ کو روک کو رہا ہے ۔۔
مریم بیگم نے جیسے ہی پانی کا گلاس آہل کی طرف بڑھایا اچانک ان کا ہاتھ ڈگمگا گیا پانی آہل کی کپڑے کو پوری طرح بھگو چکا تھا ۔۔
اگر میں نے آپ سے دو چار بات کر لی ہے تو اس کا مطلب یے نہیں ہے آپ کو میں معاف کر چکا ہوں ہزار بار کہا ہے میں نے دور رہا کرے مجھ سے لیکن آپ کو سمجھ میں کیوں نہیں آتا ہے ۔۔ آہل پانی کا گلاس ٹیبل پر پٹکتے ہوے سڑھیوں کی طرف بڑھ گیا ۔۔
بریرہ حیرت زدہ آہل کو دیکھے جا رہی تھی کچھ بھی تھا وہ وہ اس کی سگی ماں تھی جس کی آہل شاہ آفندی نے ابھی ابھی اتنی عزت افزایی کی تھی ۔۔
مریم بیگم کی آنکھیں آنسوں سے نم ہو چکی تھی ۔۔
مما ۔۔ بریرہ مریم بیگم کے گلے لگتے ہوے خود بھی رو دی ۔۔
مما بھایی آپ کے ساتھ ہمیشہ ایسا کیوں کرتے ہو وہ مجھے بہنوں کی طرح مانتے ہے لیکن ان کا رویہ آپ کے ایسا کیوں ہے ۔۔ بریرہ کی بات اپنی جگہ بلکل سہی تھی آخر آہل شاہ آفندی اس کی ماں سے اتنی نفرت کیوں کرتا ہے کیا وجہ ہے !!!!
تم کیوں رو رہی میری جان وہ تمہارا بھایی ہے بس غصے کا تھوڑا تیز ہے ۔۔ مریم بیگم نے اپنے آنسوں کو چھاپاتے ہوے کہا ۔۔
وہ عورت سمجھتی کیا ہے خود کو میری ماں کی جگہ لے لی گی ۔۔۔نہیں !!!میں اپنی ماں کی جگہ کسی کو نہیں دوں گا ۔۔ آہل نے ایک معصوم بچے کی طرح نفی میں گردن ہلایا ۔۔
اپنے بگڑے ہوے موڈ کو سہی کرنے کے لیے آہل کے دل میں یکدم خیال آیا کیوں نہ جان مرش کو تھوڑا تنگ کی جاے ۔۔
مرش کا جسم بخار سے تپ رہا تھا جسم میں ٹیس اٹھ رہی تھی اپنی پیشانی کو ہولے ہولے سہلا رہی تھی ۔۔
موبایل کی رنگ اپنی زور شور پر تھی ۔۔ ایک اچٹتی نظر سے موبایل پر چمکتے نمبر کو دیکھا ۔۔۔
یے مجھے کیوں کال کر رہا ہے جاہل انسان ۔۔مرش منھ ہی منھ بڑب
ایک پوری رنگ ختم ہو چکی تھی مگر مرش نے کال پک کرنے کی زحمت نہیں کی ۔۔۔
آہل کا موڈ ایک بار پھر سے خراب ہو رہا تھا ۔۔ اس نے دوبارہ ٹرایی کیا ۔۔
دوسری رنگ پر مرش کو نہ چاہتے ہوے بھی کال پک کرنی پڑی ۔۔
کیا ہے کیا مسلہ ہے تمہیں !!! مرش نے چڑتے ہوے کہا ۔۔
اتنی لیٹ کال کیوں پک کی۔ ۔ آہل کا سوال ذومعنی تھا ۔۔
کیوں تمہیں تکلیف ہو رہی تھی کیا کس لیے کال کیے ہو وجہ بتاو گے ۔۔ مرش بحث کے موڈ میں بلکل نہیں تھی ۔۔۔
تمہیں پتہ ہونا چاہیے جان تمہیں کال کرنے کے لیے مجھے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہے ۔۔آہل نے بڑے پر سکون انداز میں جواب دیا ۔۔
تو آپ بتانا پسند کرے آہل صاحب آپ نے مجھے کال کرنے کی زحمت کیوں کی ۔۔ مرش نے ایک ایک لفظ بہ مشکل ادا کیا ۔۔
جب میں تمہیں کال کروں ایک رنگ پر کال پک ہو جانی چاہیے اور ہاں جب تک میری بات ختم نہ ہو کال ڈیسکنیٹ نہیں ہونی چاہیے ۔۔ آہل کا حکم دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا تھا ۔۔
نہیں کروں گی پک کیا کر لو گے تم آہل شاہ آفندی تم نے مجھ سے صرف نکاح کیا ہے خرید نہیں لیا ہے تم نے جو میں تمہارا سارے حکم پر لببیک کہتی جاوں ہہہ ۔مرش کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا وہ آہل آفندی کو ذلیل کرنے کا ایک بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی ۔۔
نکاح کا مطلب خریدنا ہی ہوتا ہے میری جان ۔۔۔ آہل نے شریر مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔۔
میں کال رکھ رہی ہوں مجھے نیند آ رہی ہے ۔۔ مرش نے پیچھا چھڑوانے کے لیے بہانہ بنایا ۔۔
تمہاری عادت ہیں نہ کسی بھی بات کو سیدھے طریقے سے نہیں ماننا اور تم مجھے مجبور کرتی ہوں دوسرا طریقہ اختیار کرنے پر ۔۔ اور اگر تم نے کال ڈیسکنیٹ کی تو مجھے دوسرا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا ۔۔
تمہیں جو کرنا ہے کرو مجھے کویی فرق نہیں پڑتا ۔۔مرش نے غصے سے کہتے ہوے کال کٹ کر دی ۔۔ لیکن دل میں ایک عجیب سا خوف تھا نہ جانے آہل شاہ آفندی کون سا طریقہ اختیار کرنے کی بات کر رہا تھا ۔۔۔
بخار کی وجہ سے نیند اس کی سرخ آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔
جیسا تم چاہو جان آہل ۔۔ آہل دل ہی دل میں کچھ عہد کر کے کمرے سے باہر آیا رات کے اس پہر سب اپنی میٹھی میٹھی نیند میں مدہوش تھے ۔۔
کچھ دیر بعد مرش کے موبایل پر میسیج دھڑ دھڑ آنا شروع ہو گیا تھا ۔۔
ایک بار پھر سے مرش کو موبایل اٹھانا پڑا اسکرین پر چمکتے میسجیس اس کے دماغ کو گھما ڈالا تھا ۔ ۔
کھڑی کھولو مایی لیٹل ہرٹ ۔۔ میسیج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا ۔۔
مرش لحاف سے نکل کر دوڑتے ہوے کھڑکی کے پاس آیی اپنی آنکھوں پر یقین کرنا اسے مشکل ہو رھا تھا ۔۔
نیچے آہل سینے پر ہاتھ باندھے گاڑی سے ٹیک لگا کر ہولے ہولے ہاتھ لہرا کر ہاے کا پیغام دیا رہا تھا ۔۔
مرش نے اپنی زندگی اس زیادہ بڑا بلیک میلر شخص کبھی نہیں دیکھا تھا ۔۔
آہل اپنی خوبصورت چمکتی آنکھوں سے کھڑی پر مرش کا چہرا دیکھے جا رہا تھا زندگی میں اسے اتنا مزا کبھی نہیں آیا تھا جتنا آج مرش کے ہواییاں اڑتے چہرے کو دیکھ کر آ رہا تھا ۔۔
تین منٹ کے اندر نیچے آو ورنہ پھر سے مجھے دوسرا طریقہ اختیار کرنا ہوگا ۔۔
یے یا اللہ یے یہاں پر کیوں آیا ہے اگر کویی دیکھ لیا تو ۔۔ مرش کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔اس نے فورن آہل کے نمبر پر کال ملایی ۔۔
تم پاگل ہو گیے ہو کیا پلیز چلے جاو یہاں سے ۔۔مرش نے التجاییہ انداز میں بولا ۔۔
اب بچا دو منٹ ۔۔ آہل اس کی باتوں کو نظر انداز کر کے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر ایک نظر ڈال کر مسکراتے ہوے کہا ۔۔
اچھا ٹھیک ہیں م۔۔م۔ ۔میں آ رہی ہوں پلیز تم اندر نہ آنا ۔۔ مرش نے روتے ہوے کہا یے شخص نہ تو اسے دن میں چین لینے دیتا تھا نہ ہی رات میں ۔۔
مرش اپنے گلابی دوپٹے کو کاندھے پر ڈالے آہستہ آہستہ دروازہ کھول کر باہر آیی ۔۔
سامنے آہل شاہ آفندی کا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھ کر قتل کرنے کا مرش کا دل نے شدت چاہا ۔۔۔
کیوں آے ہو یہاں تم پاگل ہو گیے ہو کیا ۔۔ ڈر کی وجہ سے مرش کا ہاتھ پاوں ٹھنڈا پڑ گیا تھا اسے ڈر تھا کہیں کویی دیکھ ہی نہ لیں ۔۔
تمہیں دیکھنے آیا ہوں جنگلی بلی ۔۔ آہل کی آنکھوں کی چمک اور بڑھ گیی تھی ۔۔
آہل پلیز چلے جاو یہاں سے کویی دیکھ لے گا ۔۔مرش کا دل مارے خوف سے لرز اٹھا تھا ۔۔
سویٹ ہارٹ میں اپنی بیوی سے ملنا آیا ہوں کسی غیر سے تو نہیں ۔۔ آہل نے مسکراتے ہوے بڑے تحمل سے جواب دیا ہر ہر قسم کے خوف سے آزاد ۔۔
رات کافی ہو گیی ہے یار اور رات کے اس پہر یے معصوم بچہ ڈر رہا ہے گھر جاتے ہوے اگر تم آج تم اپنی باہوں میں پناہ دے دو تو ۔۔۔ آہل نے باقی کا جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا ۔۔
پلیز جاو یہاں سے ۔۔۔ مرش نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوے ایک بار پھر سے اپنا جملہ دہرایا ۔۔
کال کسی خوش میں کٹ کی گیی تھی ۔۔ آہل نے اب پواینٹ کی بات کی ۔۔
میری مرضی مرش نے اکڑتے ہوے کہا ۔۔
اب تمہاری مرضی کویی معنی نہیں رکھتی جان آہل ویسے رات کے پہر تمہارا روپ کچھ زیادہ ہی خوبصورت ہو جاتا ہے ۔۔ آہل نے مسکرا کر کہتے ہوے مرش کی کمر میں ہاتھ ڈال کر خود سے قریب کیا ۔مرش اپنا توازو برقرار نہیں رکھ پایی ایک لمحے میں آہل کے مضبوط چوڑے سینے سے جا لگی ۔۔۔
تم ٹھیک تو ہو ۔۔ مرش کا تپتا جسم آہل محسوس کر چکا تھا ۔۔
میں بکل ٹھیک ہوں پلیز تم جاو یہاں سے ۔۔ مرش نے گھبراتے ہوے کہا ۔۔۔
لیکن تمہیں تو بخار ہے !! مرش کے خوبصورت کٹیلے ہونٹوں پر آہل اپنی مضبوط انگلیاں پھیرتے ہوے کہا ۔۔۔۔
میں نے کہا نہ میں ٹھیک ہوں ۔۔ مرش کو ضرورت سے زیادہ غصہ آ رہا تھا اپنی بات یوں نظر انداز کیے جانا وہ کیا کہہ رہی تھی اور آہل شاہ آفندی کیا بات کہہ رہا تھا ۔۔
ڈاکٹر کے پاس چلو ۔۔ آہل کا اب نیا حکم سن کر مرش کے تن بدن میں آگ لگ گیی ۔۔
میں نے کہا نہ میں ٹھیک ہوں پلیز چلے جاو آہل پلیز ۔۔ مرش اب بلکل ہار چکی تھی ہاتھ جوڑ کر اس نے ایک بار پھر سے التجا کیا ۔۔۔۔
لیکن ۔۔مرش !! آہل نے ابھی کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا لیکن مرش کے جڑے ہاتھ دیکھ کر خاموش ہو گیا ۔۔
پلیز چلے جو آہل پلیز میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں پلیز ۔۔
اوکے۔۔ آہل کے دل میں شاید خدا نے تھوڑا رحم ڈال دیا تھا یہ شاید وہ مرش کو کویی تقلیف نہیں دینا چاہتا تھا ۔۔
گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے آہل نے مرش کے پیشانی پر محبت بھرا ثبت کیا ۔۔۔
خدا حافظ ۔۔ آہل جا چکا تھا ۔مرش بھی دوڑتی ہویی گھر کے اندر جا چکی تھی ۔۔
فارس ایک بات بتاو گے ۔۔ بریرہ لان میں ٹہلتے ہوے مسلسل فارس سے بات کرنے میں مصروف تھی اس کا خیال تھا سب سو چکے ہے ۔ آس پاس سے بے خبر وہ بات کرنے میں مگن تھی ۔۔
میرا اداس دل اور سونہ سونہ کمرہ مجھ سے پوچھتا ہے اس کمرے کو دونق بخشنے والی کب آے گی ۔۔فارس مسلسل بریرہ کو تنگ کر رہا تھا ۔۔
اپنے کمرے سے کہہ دو جب وقت آے گا تب ۔۔ بریرہ نے ہنستے ہوے کہا ۔۔
فارس ایک بات پوچھو ؟ بریرہ ایک سوال کو لے کر کیی دنوں سے الجھن کا شکار تھی ۔۔۔
ہاں پوچھو یار تم تو ڈرا رہی ہو مجھے ۔۔ فارس نے تھوڑا ڈرنے کی ایکٹینگ کی ۔۔
مجھے ایسا کیوں لگ رہا مرش کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے مطلب بھایی نے پورے کالج کے سامنے اس کی انسلٹ کی تھی اور پھر شادی کے لیے ایک اچانک سے تیار ہو گیی مرش تو بھایی سے بے انتہا نفرت کر رہی تھی پھر سہ کیسے تیار ہو گیی ۔۔
یار تمہارا بھایی انکار کرنے کے قابل ہے اور چھوڑو یے بتاو شادی کی تیاری کیسی چل رہی ہے ۔۔ فارس نے بات ٹالنی چاہی کیوں یے راز صرف ان دونوں کے ہی بیچ تھا وہ کسی تیسرے کو بتا کر رسک نہیں لینا چاہتے تھے ۔۔
لیکن فارس پہلے ۔۔ بریرہ نے ایک بار پھر سے پوچھنا چاہا ۔۔
بریرہ میں سوچ رہا ہوں ہماری شادی کب ہوگی کب کب میں تمہارے گھر بارات لے کر آوں گا ۔۔ فارس نے شرارت سے کہا ۔۔
جب تمہارا دل چاہے لے آو میں تو انتظار میں بیٹھی ہوں ۔۔بریرہ نے قہقہ لگاتے ہوے کہا ۔۔
تم صبح میں میری کال کیوں نہیں پک کر رہی تھی کم از کم ایک میسیج ہی کر دیتی ۔۔ فارس نے یاد کرتے ہوے صبح جو کال پک نہیں کی گیی تھی ۔۔
بھایی تھے میرے ساتھ یار کیسے پک کرتی ۔۔۔ بریرہ نے ایک لمبی سانس لیتے ہوے کہا ۔۔
مطلب بھایی بہن اب دونوں سے مجھ معصوم کو ڈرنا پڑے گا ۔۔ فارس نے خود کو تھوڑا معصوم بیان کرنا چاہا ۔۔۔
معصوم ہا ہا ہا ۔۔ فارس ایک منٹ ۔۔بریرہ کے قہقہ کو بریک لگ گیا تھا جب پورچ میں آتی گاڑی پر اس کی نظر پڑی ۔۔
آہل گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے اترا ۔۔ لان کے بیچو بیچ کھڑی بریرہ کو کھڑا دیکھ کر آہل کو تھوڑا حیرت ہویی ۔۔
اس ٹایم تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔ آہل نے بریرہ کا چہرہ بغور دیکھتے ہوے پوچھا ۔۔
وہ بھایی مجھے نیند نہیں آ رہی تھی تو میں نے سوچا کیوں نہ تھوڑا لان میں واک کر لوں طبعیت فریش ہو جاے گی ۔۔ بریرہ نے مسکراتے ہوے صاف جھوٹ بولا ۔۔
ٹایم کافی ہو گیا ہے جا کر سو جاو ۔۔ آہل نے ایک نظر بریرہ پر ڈال کر اندر جا چکا تھا ۔۔۔
شکر ہے آج تو بال بال بچ گیے ۔۔ بریرہ نے دوپٹے کی اوٹ میں سے موبایل نکالا جو آہل کے آتے ہی چھپا لیا گیا تھا ۔۔
یار بھایی آ گیے تھے پتہ نہیں مجھے لگا تھا یے سو گیے ہے لیکن یے تو کہیں گیے ہوے تھے ۔۔بریرہ نے سکون بھرا سانس لیتے ہوے کہا ۔۔
اس ٹایم آہل کہاں گیا تھا ۔۔ فارس نے بریرہ سے آہل کے متعلق استفار کیا ۔۔
مجھے کیا پتہ اچھا اب میں فون رکھتی ہوں خدا حافظ اینڈ آیی لو یو ۔۔بریرہ نے کال کٹ کر کے گھر کے اندر آ گیی تھی ۔۔ اس سے پہلے کی آہل آ جاتا ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_21
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
آخر وہ دن آ ہی گیا جس کا سب کو شدت سے انتظار تھا ۔۔
ثمرہ ایک گلاس پانی دے دو پلیز ۔۔ سامنے بیٹھی ثمرہ کو مرش نے دیکھتے ہوے کہا ۔۔
ایک منٹ میں لے کر آتی ہوں ۔۔ ثمرہ کمرے سے جا چکی تھی ۔۔
واو مرش کیا روپ آیا ہے بیٹیفل ۔۔ زارا دل کھول کی مرش کی تعریف کی ۔۔
تھینکس ۔مرش نے زبردستی مسکراتے ہوے کہا ۔۔ ایک عجیب سے بے چینی تھی اس کے دل اس کی دلی کیفیت کو کویی نہیں سمجھ سکتا تھا ۔۔ زندگی نے ایک الگ راستہ اختیار کر لیا تھا ایک ایسے امتحان میں ڈال دیا تھا جس کے بارے میں اس نے کبھی تصور ہی نہیں کیا تھا ۔۔
مرش پالر جانے سے صاف انکار کر رہی تھی وہ آخر کس لیے سجتی سنورتی اس شخص کے لیے جس سے اسے پوری کاینات میں سب سے زیادہ نفرت تھی ۔۔
مرش کو مکممل طور پر تیار کر دیا گیا تھا ۔۔ لایٹ میکپ اس نے اپنی ضد کی وجہ سے کروایا تھا ۔۔
یے لو پانی ۔۔ ثمرہ پانی کا گلاس لے کر حاضر تھی ۔۔
شکریہ ۔۔ مرش کا حلق تک خشک ہو گیا تھا پانی کا گلاس اس نے اپنے لبوں سے لگا لیا تھا ۔۔ جیسے آج کے بعد اسے کبھی نصیب نہیں ہوگا ۔۔
آج تو آہل شاہ آفندی کی خیر نہیں تمہارا حسن دیکھ کر تو اس نے ویسے بھی اپنے ہوش و ہواس کھو دینا ہے ۔۔ اریشہ نے شرارت بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔
اللہ کرے مر ہی جاے ۔۔۔ مرش کے دل نے شدت سے دعا کی ۔۔
یار تم دونوں کی جوڑی کمال کی میں تو سچ کہہ رہی کتنے لوگوں نے دیکھ کر جل کر راکھ ہو جانا ہے ۔۔ ثمرہ نے تککہ لگایا ۔۔
اللہ کرے تم دونوں کی جوڑی ہمیشہ سلامت رہے ۔۔ زارا نے مسکراتے ہوے مرش کو دل سے دعا کی تھی ۔۔۔
ارے لڑکیوں اب جلدی نیچے مرش کو لے کر نیچے آو ۔۔
آفندی ہاوس سے مہمان کب کے آ چکے ہیں ۔۔فایزہ بیگم خوشی کی کویی انتہا نہیں تھی آج وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہو جایں گی ۔۔
آنٹی بس آ رہے ہے پانچ منٹ ۔۔ جواب اریشہ کی طرف آیا ۔۔
جلدی کرو بیٹا سارے مہمان آ چکے ہیں ۔۔۔ فایزہ بیگم جا چکی تھی ۔۔
مرش کے آنسوں اپنی پوری روانی کے ساتھ نکل رہے تھے یے تھی اس کی زندگی اتنا بے بس کر دیا گیا تھا اسے اپنے حق کے لیے بھی آواز نہیں اٹھا سکتی تھی اتنی مجبور کر دیا گیا تھا ۔۔۔
بہت ہی خوبصورت انتظام لان میں کیا گیا تھا روشنی کا چوکا چوند رنگ برنگے آنچل مہمانوں کی گج مج قہقہوں کا شور آج کی رات چاند بھی آپنی پوری آبتاب سے چمک رہا تھا ۔۔ آہل کی نظر مسلسل سامنے اٹھ رہی تھی دشمن جاں کے دیدار کے لیے لیکن ابھی اس کی خواہش پورے ہونے تھوڑا اور وقت لگنا تھا ۔۔
میں سوچ رہا ہوں میں کب دلہا بنوں گا کب آیں گے میرے اچھے دن ۔۔ فارس آہل کو چیھڑنے کے لیے مسکراتا ہوا بولا ۔۔۔
کوشش میں لگا رہے ہو سکتا ہے تیرے بھی دن قریب ہی ہو ۔۔ آہل نے بھی دو بدو جواب دیا ۔۔
ہماری ایسی قسمت کہاں ہے ۔۔ فارس نے افسوس بھرے لہجے میں کہا ۔۔
اپنی خیر سوچ کر رکھے رکھنا میری جان مرش بھابھی نے آج تیرا وہ حشر کرنا ہے کی بس ۔۔۔ فارس کی آنکھوں میں شرارت کی چمک تھی ۔۔
بس دعا کر تو باقی سب اللہ مالک ہے ۔۔ آہل نے بِھی جواب دینے میں کویی کسر نہیں چھوڑی ۔۔
مرش گردن نیچے جھکاے ہولے ہولے سڑھیاں اتر رہی تھی ۔۔ خوبصورت آنچل اس کے اوپر پھیلاے زارا ثمرہ اریشہ اور سدرہ جو خود بھی بہت پر کشش دکھ رہی تھی ہولے سڑھیاں اتر رہی تھی ۔۔۔
یکا یک آہل شاہ آفندی کی نظر اس حسن کے پیکر پر پڑی تو پلٹنا بھول گیی ۔۔
کمال ۔۔ فارس نے بھی مرش کی تعریف اپنے لفظوں میں کی ۔۔
مرش اسٹیج پر لا کر آہل کے پاس بیٹھا دیا گیا تھا ۔۔
بیٹیفل ۔۔وہاں پر موجود لوگ اپنی نظریں پھیرنا بھول گیے تھی واقعی رب نے ان دونوں کی جوڑی ہی کچھ ایسی بنایی تھی جس کی تعریف کیے بغیر کویی نہیں رہ سکتا تھا ۔۔ ایسا لگ رہا تھا ایک شہزادے کو جنت کی کویی حور مل گیی ہو ۔۔
مرش بہت بہت بہت مبارک ہو ۔۔بریرہ اسٹیج پر چھڑتے ہوے مرش کو گلے لگا کر خوب مبارک باد دی ۔۔۔ آج وہ بھی بہت خوش تھی اس کے اکلوتے بھایی کی شادی تھی وہ بھی اس کی اپنی سہیلی کے ساتھ ۔ ۔۔
مرش نے صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کیا ۔۔
باری باری سب نے دل کھول کی مبارک باد دی ۔۔۔ چاروں طرف لڑکیوں نے ان دو معصوم جوڑو کی گھیر کر رکھا تھا ہنسی مزاق قہقہے سن سن کر مرش کو ابکایی آنے لگی تھی دل کر سب کچھ تہس نہس کر دے اپنے پاس بیٹھے شخص کو جان سے مار دے مرش آہل ۔۔ یے وہ نام تھے جس کو سن کر مرش اپنے کان پر ہاتھ کر انسونہ کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔
ہمیشہ خوش رہو بیٹا ہنستی مسکراتی رہو سدا سہاگن رہو ۔۔مریم بیگم نے بھی دل کھول کر مرش کو دعاوں سے نوازا ۔۔
آہل شاہ آفندی کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کسی ریاست کا شہزاہ بیٹھا ہو ۔۔ لڑکیوں نے آہل کی تعریف کر کے تھکنے والی نہیں تھی ۔۔
مرش نے ایک بار بھی زحمت نہیں کی آہل شاہ آفندی پر نظر ڈالنے کی ۔۔خالی خالی نظروں سے ان ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھ رہی تھی کبھی وہ بھی یوں ہی ہنسا کرتی تھی لیکن اس ظالم شخص نے اس کی مسکراہٹ تک چھین لیا تھا کچھ نہیں بچا تھا اس کے پاس اپنا آپ تو کب کا مر چکا تھا ۔۔
فارس کیا کر رہے ہو اتنے مہمان ہے یہاں پر ۔۔۔ بریرہ نے گھبراتے ہوے کہا ۔۔
موقع ملتے ہی فارس نے بریرہ کو آڑے ہاتھوں لیا اس کی کلایی پکڑ کر ایک سایڈ لے گیا ۔۔ جہاں سے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا ۔۔۔
آج تو تم مجھے پہچان ہی نہیں رہی ہو میں کب سے دیکھ رہا ہوں تم مجھے مسلسل اگنور کیے جا رہی ہو ۔۔۔ فارس نے اپنا دھکڑا سنایا ۔۔
اب میں سب کے سامنے آپ کو مسکرا مسکرا کر دیکھنے سے رہی فارس صاحب وقت کی نزاکت کو سمجھا کریں آپ ۔۔ بریرہ نے بڑی سہولت سے مسکراتے ہوے جواب دیا ۔۔
بریرہ میڈم محبت کرنے نڈر ہوتے ہے میری طرح ۔۔ فارس نے کالر جھاڑ کر خود کی تعریف کی ۔۔۔۔
اچھا جی آپ نڈر ہے ۔۔ بریرہ نے معصومیت بھرا سوال کیا ۔۔۔
بلکل ۔۔ فارس نے فورن ہاں میں گردن ہلایی ۔۔
فارس بھایی فارس وہ ہمیں ہی دیکھ رہے ہو وہ آ رہے ہے ۔۔۔بریرہ نے ہڑبڑاتے ہوے کہا سنجیدگی کا عکس صاف نمایاں تھا ۔۔
کیا !!!!! ماتھے پر پسینے کی بوندیں صاف چمک رہی تھی ۔۔ اب تو میں جان سے گیا ۔۔ فارس نے ڈرتے ڈرتے گردن پیچھے کی طرف گھمایی ۔۔
بریرہ کو اپنی ہنسی پر قابو کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔
دور دور تک آہل کی پرچھایی کا بھی نام و نشان نہیں تھا ۔۔ مطلب میں بیوقوف بنایا گیا ہوں ۔۔ فارس کے ذہن میں فورن خیال آیا ۔۔
ہا ۔۔ہا ۔۔۔۔۔ فارس صاحب آپ ڈر گیے کیا ۔۔ بریرہ کا قہقہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔۔
ایسی کویی بات نہیں ہیں ۔۔ اپنی بے عزتی برداشت کرنا تھوڑا مشکل ہو رہا تھا فارس کو ۔۔
مان لو تم ڈر گیے اب یوں ایکٹینگ کرنے سے تمہاری عزت تو واپس نہیں آ جانی ۔۔ہا۔۔۔ہا ہا! ۔۔
اچھا جی چلیں مان لیتا ہوں ڈر گیا میں اب ٹھیک ۔۔ فارس نے تھوڑا کھسیاتے ہوے کہا ۔۔
فارس اب مجھے جانے دو ۔۔ بریرہ نے التجا کیا ۔۔
اوکے جاو لیکن یاد رکھنا میں یہی پر ہوں اگنور کرنے کی کوشش بھی مت کرنا ۔۔ فارس نے تھوڑا پتھریلے انداز میں کہا ۔۔
اچھا بابا نہیں کرتی اگنور ۔۔ بریرہ مسکرا کی کہتی ہویی پھر سے ایک بار محفل کا حصہ بن گیی تھی ۔۔
رخصتی کا وقت ہو چکا تھا ۔۔ مرش کی آنسوں رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔سرفراز صاحب کی آنکھوں سے بھی بیٹی کے لیے آنسوں نکل رہے تھے ۔۔ سب کی آنکھیں نم ہو گیی تھی ۔۔ مرش نہ تو گھر کی ہی لاڈلی تھی بلکی اپنے محلے کی بھی لاڈلی تھی ۔۔
بابا ۔۔۔ سرفراز صاحب کے گلے لگ کر اس کا پھوٹ پھوٹ کر رونا سب کی آنکھوں میں آنسوں لے آیا تھا ۔۔
بابا کی جان ہمیشہ خوش رہو ۔۔ سرفراز صاحب کی اب برداشت سے باہر تھا لیکن دنیا ک یہی دستور ہے بیٹیاں کتنی بھی لاڈلی ہو ایک نہ ایک دن تو انہیں پیا دیس جانا ہوتا ہے ۔۔۔
امی ۔۔۔ فایزہ بیگم بھی بیٹی کے ساتھ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی ۔۔ اپنی لاڈلی کو غیروں کے ساتھ رخصت کرنا آسان بات نہیں ہوتی ۔۔۔۔
آہل چپ چاپ مرش مرش کے گرتے آنسوں دیکھ رہا تھا ۔۔اس وقت اسے شدت سے محسوس ہوا جیسے ان آنسوں کا زمیدار وہ خود ہے ۔۔
چلو میری جان ۔۔ مریم بیگم مرش کو اپنے ساتھ سمبھالتی ہویی گاڑی میں بیٹھایی اس سے پہلے کی وہ اور رو رو کر اپنی طبعیت خراب کر لیں ۔۔۔
آہل ہماری مرش کا بہت خیال رکھنا بیٹا ۔۔سرفراز صاحب آہل کے گلے لگتے ہوے بولے ۔۔۔
جی ضرور آج سے وہ میری زمیداری ہے آپ بے فکر رہے ۔۔۔ آہل نے تسلی بھرا جواب دیا ۔۔۔
باری باری سب کے گلے لگتے ہوے آہل بھی گاڑی کے اندر آ کر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔
ڈرایو فارس کر رہا تھا ۔۔فرنٹ سیٹ پر آہل شاہ آفندی بیٹھا تھا ۔۔۔ پیچھے مرش اور اس کے ساتھ بریرہ بیٹھی تھی ۔۔۔
گاڑی آفندی ہاوس کے گیٹ کے سامنے آ کر رکی تھی ۔۔۔
مرش کا دل دھڑکنا بند گیا تھا جیسے اب وہ یہاں پر ہمیشہ کے لیے قید ہو جاے گی ۔۔
فوری طور پر دو ملازمایں حاضر ہویی آخر کو ان کے چھوٹے صاحب کی شادی تھی ۔۔ وہ دونوں مرش کا لہنگا نیچے سے پکڑی ہویی تھی بریرہ مرش کو اپنے ساتھ لیے اندر داخل ہویی ۔۔
آفندی ہاوس کی در و دیوار سے خوشیاں رقص کر رہی تھی ۔۔ جاوید صاحب کی خوشی سب سے بڑی تھی ۔۔ زندگی میں انہیں اتنی خوشی محسوس نہیں ہویی تھی جتنی آج ہو رہی تھی ۔۔
آج تمہارا اس گھر میں پہلا قدم ہے میری دعا ہے تم ہمہشہ شاد و آباد رہو بیٹا خود کو اجنبی کبھی محسوس مت کرنا یہاں پر سب تمہارے اپنے ہے تم اس گھر میں بہو کی حیثیت سے نہیں بلکی بیٹی کی حیثیت سے رہو گی ۔۔جاوید صاحب مرش کے سر پر ہاتھ رکھ دعایں دے رہے تھے۔ ۔۔
آفندی ہاوس میں مرش کا اتنا شاندار استقبال کیا گیا تھا سب عش عش کر رہے تھے ۔۔ آج کے دن جاوید صاحب کے بہت خاص خاص لوگ آے تھے کچھ دیر بعد ایک ایک کر کے سارے مہمان جا چکے تھے ۔۔
تھک ہار کر اپنے کمرے میں کچھ دیر ریسٹ کرنے کے لیے آے ۔۔ جبھی مریم بیگم بھی کمرے میں داخل ہویی جاوید صاحب کسی تصویر کسی تصویر کو لے ایک ٹک دیکھنے میں محو تھے انہیں مریم بیگم کی آمد کی خبر تک نہیں ہویی تھی ۔۔۔
مریم بیگم اسی خاموشی کے ساتھ کمرے سے باہر چلی گیی تھی ۔۔
نورا آج ہمارے لاڈلے بیٹے کی شادی ہو گیی نورا تم کہتی تھی نہ میں آہل کی شادی بہت دھول دھام سے کروں گی ۔۔ نورا میں نے تمہاری یے خواہش ضرور پوری کر دی وہ لڑکی کویی اور نہیں نورا تمہاری بہن فایزہ کی بیٹی ہے ۔۔جاوید صاحب کی آواز دکھوں سے گھری ہویی تھی وہ تصویر کو دیکھ کر اپنے ان گزرے لمحوں کو یاد کرنے لگے جو انہوں نے نورا بیگم کے ساتھ گزارے تھے ۔۔
“”””””””””””””””””””””””””””””””” کل رات اڑ رہے تھے _ ستارے ہوا کے ساتھ “”””””””””””””””””””””””””
“””””””””””””””””””””””””””””””””اور میں اداس بیٹھا تھا —– اپنے خدا کے ساتھ “””””””””””””””””””””””””
“”””””””””””””””””””””””””””””” کی یا تو قبولیت کے طریقے سکھا مجھے “”””””””””””””””””””””””””””””””””
“”””””””””””””””””””””””””””””” یا مجھ کو باندھ دے اپنی رضا کے ساتھ “”””””””””””””””””””””””””””””””””
۔ جاوید شاہ آفندی کو خود پر کتنا غرور تھا ان کے نام کی کتنی شہرت تھی ہر چیز سے مکمل !! نورا بیگم آہل شاہ آفندی کی ماں ۔۔۔ اس گھر کی مالکن اس گھر پر راج کرنے والی ۔۔۔ آج مٹی کے ڈھیر میں دفن تھی !!! جاوید شاہ آفندی اپنے باپ کے اکلوتے سپوت تھے کالج کے زمانے سے ہی لڑکیاں ان پر قربان تھی ۔۔۔۔۔ انہی لڑکیوں میں سے ایک نازک سی لڑکی بھی تھی نورا ہاشم !!!! ۔۔۔ نورا ہاشم نے بھی جاوید شاہ آفندی کی مہبت میں خود کو مبتلا کر لیا تھا ۔۔۔
جاوید شاہ آفندی کو یے معصوم سی دلربا سی لڑکی بہت اچھی لگنے لگی تھی ۔۔ جاوید شاہ آفندی خود کو روک نا پاے نورا ہاشم کی مہبت میں خود کو مبتلا کرنے سے ۔۔۔۔۔
نورا ہاشم کا رشتہ طے تھا ۔۔۔ طاہا خان سے ۔۔ لیکن وہ اس شادی کے لیے راضی نہیں تھی !!
۔۔۔ جب اولاد کی مرضی نہ ہو تو والیدین کو زبردستی نہیں کرنی چاہیے کیوں کی اس کے بعد اولاد جو قدم اٹھاتی ہے ماں باپ پوری زندگی ہاتھ مسلتے رہ جاتے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نورا ہاشم نے رو رو کر باپ کے سامنے شادی سے انکار کیا تھا ۔۔۔ لیکن ہاشم صاحب اپنی ضد کے آگے کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں تھے ۔۔۔ فایزہ بیگم کی پیدایش کے دوران ہی زہرا بیگم جاں بحق ہو گی تھی ۔۔۔ اس وقت نورا صرف دو سال کی تھی ۔۔۔ ہاشم صاحب نے اپنی بیٹیوں کے لیے دوسری شادی نہیں کی تھی ۔۔۔۔ وقت دھیرے دھیرے پروان چڑھتا گیا ۔۔۔ نورا ہاشم نے بچپن سے فایزہ کا بہت خیال رکھا تھا ۔۔فایزہ نورا کو ہی ماں کی جگہ سمجھتی تھی ۔۔۔
شادی کا گھر تھا ۔۔۔ ہر طرف رنگ بکھرے تھے روشنی ڈھولک کی تھاپ سب کو اپنی لیپیٹ میں لے رہی تھی ۔۔۔ مہندی کے دن رنگوں کا سماں تھا ہر کسی کے چہرے پر مسکراہٹ نے گھیر رکھا تھا ۔۔۔ رات کی تنہایی میں نورا ہاشم نے جو قدم اٹھایا وہ سب کے لیے نا قابل اعتبار تھا ۔۔۔ ہر طرف یہی شور نورا گھر سے بھاگ گی ۔۔۔ نورا ہاشم نے بھاگ کر جاوید شاہ آفندی سے کورٹ میرج کر لیا تھا ۔۔ جاوید شاہ آفندی کے باپ ہمایوں آفندی شاہ بیٹے کے ساتھ ہر وقت کھڑے رہے ہر اچھے برے میں برابر کے شریک رہے ۔۔۔۔۔
اس طرح نورا ہاشم سے نورا شاہ آفندی ہو گی جاوید شاہ آفندی نورا شاہ آفندی کو اپنی عزت بنا کر اپنے گھر لے آے ۔۔۔۔۔۔۔
ہاشم صاحب کا عزت خاک خاک ہو گی ۔۔۔۔۔۔
۔۔ کہیں سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا نورا شاہ آفندی نے ہاشم صاحب ڈر گے تھے جب پانچ اولادوں میں سے کویی ایک اولاد بے غیرت نکل جاے تو ماں باپ کا بھوروسہ مان ختم ہو جاتا ہے باقی اولادوں پر سے ۔۔۔۔۔۔
اپنے دوست کے آگے جھولی پھیلا کر اپنی بیٹی کے مستقبل کے لیے ان سے بھیک مانگی اور ان عزیز دوست نے بھی ان کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹایا ۔۔۔۔۔
۔۔۔ اس طرح فایزہ بیگم بہت جلد سرفراز احمد کے نام سے جڑ گی !!! ۔۔۔۔
فایزہ بیگم کی شادی کے کچھ عرصے بعد ہاشم صاحب مالک حقیقی سے جا ملے ۔۔۔
کسی طرح یے خبر نورا شاہ آفندی کے کانوں تک پہہنچ تی ہے صدمے کی وجہ سے ان کی طبیعت بھی خراب ہو گی تھی باپ کی موت کا زمیدار وہ خود کو مانتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ عرصے بعد ان کی کوکھ میں آہل شاہ آفندی نے جنم لیا ۔۔۔ نورا بیگم اور فایزہ بیگم کا ایک دوسرے سے تعلق ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا تھا ۔۔
وہ دونوں اس دنیا میں الگ الگ گلیوں میں گم ہو چکی تھی ۔۔۔۔
آہل کی پیدایش کے پانچ عرصے بعد نورا بیگم کا انتقال ہو گیا نورا بیگم کو پتہ تھا ان کے جانے کے بعد آہل اکیلا رہ جاے گا وہ اپنے ہوش و ہواس میں اپنے لاڈلے سپوت کی زمیداری کسی کو سوپنا چاہتی تھی کیوں کی آہل کو اس وقت ایک ماں کی اشد ضرورت تھی نورا بیگم نے اپنی موت کے ایک دن پہلے جاوید شاہ آفندی اور مریم بیگم کا نکاح کروا دیا تھا اور آہل شاہ آفندی کی زمیداری مریم بیگم کو سونپ دی تھی ۔۔۔
نکاح کے دوسرے دن ہی نورا بیگم مالک حقیقی کو جا ملی ۔۔۔ ننھا آہل شاہ آفندی طابوت میں سویی اپنی ماں خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہ گیا ۔۔ نورا بیگم کے انتقال کے بعد ہمیشہ اس کو یہی بتایا گیا تھا ۔ کرایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ مریم بیگم اس کی ماں ہے ۔۔
آہل کو . سخت نفرت تھی اپنے باپ سے اس کی ماں کے جاتے ہی جاوید شاہ آفندی نے اس کی ماں کی جگا کسی دوسری عورت کو دے دی ۔۔۔ میری ماں کو گیے ابھی دو دن بھی نہیں ہوے تھے دوسری عورت کو میری ماں کی جگہ دی اسی سوچ نے آہل کو کبھی مریم بیگم سے محبت نہیں ہونے دی
۔۔۔۔ مریم بیگم وقت کی ماری ہویی تھی ان کے گھر والوں نے زبردستی ایک گھٹیا انسان کے ساتھ انہیں باندھ دیا تھا ۔۔۔۔ لیکن مریم بیگم وہاں سے خود کو بچاتی تلاق لے لی ۔۔۔۔۔وہ شخص ان پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ۔۔۔ طلاق لینے کے بعد مریم بیگم یہاں وہاں کی ٹھوکریں کھاتی پھر رہی تھی ایک دن ان کی ٹکر نورا بیگم کی گاڑی سے ہویی ۔۔۔۔۔ نورا بیگم انہیں اٹھاتی ہویی اپنی گاڑی میں لایی ۔۔۔ مریم بیگم کی زبانی ان کی زندگی کے بارے میں جان کر نورا بیگم انہیں گھر لے آیی تھی آہل کا اس طرح سے خیال رکھنا جیسے وہ ہی اس کی سگی ماں ہو نورا بیگم کو مریم بیگم کو جان چکی تھی آہل کا خیال اس زیدا کویی نہیں رکھ سکتا ۔۔۔یے بھی ایک وجہ تھی نورا بیگم نے مریم بیگم کا جاوید شاہ آفندی سے نکاح کروا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
جو بھی ہوا تھا سب تکدیر کا لکھا ہوا تھا لیکن آہل شاہ آفندی نے انہیں ماں کا درجہ کبھی نہیں دیا تھا اس کے دل میں نفرت کی آگ تھی ۔۔ شادی کے آٹھ سال بعد ننھی بریرہ نے جنم لیا آہل کو وہ کیوٹ سی بریرہ بہت اچھی لگتی تھی ایک اچھے بھایی کی طرح اس کی کییر کرنا اسے بہت پسند تھا لیکن اس کی ہی ماں سے آہل کو شدید نفرت تھی ۔۔۔۔۔
آہل اب تو جا تیری خونخار شیرنی تیرا انتظار کر رہی ہوگی ۔۔ فارس نے کھلکھلا کر ہنستے ہوے کہا ۔۔
بہت بدتمیز ہے تو ۔۔۔ آہل نے گھورتے ہوے کہا ۔۔
اب میں چلتا ہوں کل صبح ملیں گے خدا حافظ اور میری پیاری بھابھی کو زیادہ تنگ مت کرنا ۔۔ فارس ایک بار پھر سے پٹری سے اترنے لگا ۔۔
تو جا رہا یہ نہیں ۔۔ آہل نے دانت پر دانت جماتے ہوے کہا ۔۔
اچھا جا رہا ہوں ۔۔ فارس آہل سے بغلغیر ہوتا ہوا جا چکا تھا ۔۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد آہل نے قدم کمرے کی طرف بڑھایا ۔۔ اسے تو پہلے سے ہی اندازہ تھا اندر کون سا توفان برپا ہوگا ۔۔۔۔ مہاز جنگ شروع ہو چکی ہوگی ۔۔
دھیرے دھیرے کمرے کا دروازہ کھول کر آہل نے اپنے مضبوط قدم کمرے میں رکھا سامنے کا منظر دیکھ کر بہت ہی لمبی ٹھنڈی سانس لے کر خود کو پر سکون کیا ۔۔۔
درازے کو اندر سے لاک کرنے کے بعد بیڈ کے سامنے رکھے صوفے پر بہت ہی پرسکون انداز میں بیٹھ گیا اور اپنی سرخ آنکھوں سے مرش کی ایک ایک کارنامے کو جی بھر کے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
میں کس کے لیے یے چوڑیاں پہنو تمہارے لیے ہاں کبھی نہیں یے ۔۔آہل شاہ آفندی کبھی نہیں ۔۔ مرش نے اپنی کلایی میں رقص کرتی چوڑیوں کو بہت ہی بے دردی سے نکالا نرم سفید کلایی زخمی زخمی ہو چکی تھی گلے میں پڑا خوبصورت نیکلیس کو بے رحمی سے نکال کر بیڈ کو دوسری سایڈ اچھال دیا گیا ۔۔
میں تم اے نفرت کرتی ہوں آہل شاہ آفندی نفرت اتنی نفرت کرتی ہوں ایک دن تمہیں بھی پچھتاوا پوگا مجھ سے شادی کر کے ۔۔۔ رونے کی وجہ سے مرش کی آواز مدہم پڑ پڑ گیی تھی اس کی آواز اسی کمرے میں دب کر رہ جاتی تھی ۔۔۔
اپنے لیے اتنا شدید نفرت نامہ سن کر آہل کے لبوں پر بے حد خوبصورت مسکراہٹ مچل گیی ۔۔۔
مرش نے اپنا سارا حولیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا چوڑیاں ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گیی تھی پورے بیڈ پر اس کی کنھکتی چوڑیاں پازیب نیکلیس ہر چیز بے ترتیب پھینکی گیی تھی ۔ جیسے آہل شاہ آفندی سے زیادہ یے چیزیں اس کی بربادی کی زمیدار ہو ۔۔۔
تم کیا سمجھتے ہو تم نے مجھے حاصل کر لیا نہیں تم غلط ہو تم نے صرف میرا وجود حاصل کیا ہے مجھے نہیں ۔۔۔ میں تم سے ایک ایک چیز کا حساب لوں گی ۔۔۔۔ مرش کا لفظ بہ لفظ انگارے پر دہک رہا تھا ۔۔۔
قیامت لگ رہی ہو یار قسم سے ۔۔۔ آہل کی آنکھیں شرارت سے صاف واضح تھی مرش کی ساری باتوں نظر انداز کر کے مسکراتے ہوے تعریف کیا ۔۔۔
میں تمہیں جان سے مار دوں گی تم نے میرے ساتھ زبردستی کی ہے تم ۔۔۔تم ۔۔دنیا کے واحد انسان ہو جس میں سب سے زیادہ نفرت کرتی ہوں ۔۔۔ مرش آج اپنی بے بسی پر قابو نہیں رکھ پایی تھی آج دل کی ساری بھڑاس نکال دینا چاہتی تھی ۔۔۔
آہل اب صوفے سے اٹھ کر چل کر بیڈ پر بیٹھی مرش کے قریب آیا ۔۔۔ اور اپنے ہونٹوں کو آہستہ آہستہ مرش کے کان کی طرف لے جا کر سرگوشی کیا ۔۔
شادی مبارک ہو میسیز آہل شاہ آفندی ۔۔۔
دور رہو مجھ سے میرے قریب آنے کی کوشش مت کرنا ورنہ میں تمہارا وہ حشر کروں گی تم سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔۔ مرش ایک لمحے کے اندر آہل سے کوسوں دور ہویی جیسے ابھی اگر وہ چھو دے گا تو وہ کھاک کھاک ہو جاے گی ۔۔۔۔۔
کیوں کیا تم نے ایسا کیوں ۔۔۔۔کیوں ۔۔۔ مجھے جواب دو اس کا مجھے جواب چاہیے جواب دو مجھے ۔۔۔مرش کی چینخ پورے کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔
یوں سمجھ لو یے ہمارا نصیب تھا اور کچھ نہیں ۔۔۔ نکاح ہو چکا ہے ہمارا بہتر ہوگا اب تم اپنے رشتے کو سمجھ جاو ۔۔۔۔
آہل کا سکون دیکھ کر مرش کا دل نے شدت چاہ کی کاش میرے ہاتھ اس وقت گن ہوتی میں اس کو شوٹ کر دیتی ۔۔۔
میں نہیں مانتی اس نکاح کو جس میں میری مرضی ہی شامل نہ ہو یے صرف چند دنوں کا کاغزی رشتہ ہے میں اس کو ختم کر دوں گی تم دیکھتے ہی رہ جاو گے ۔۔۔ مرش نے پھر سے تیز آواز میں بولنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔
جو کرنہ ہوگا کر لینا فلحال تو یے سب ہٹاو مجھے سونا ہے ۔۔ آہل بیڈ پر بکھرے سامان کو دیکھ کر اپنی پیشانی پر ہاتھ سہلاتے ہوے کہا ۔۔۔
میں بیڈ پر نہیں سوں گی ۔ مرش نے بیڈ لفظ پر زور دیتے ہوے کہا ۔۔۔
تو کیا میری باہوں میں سونے کی خواہش ہے کیا ۔۔۔ آہل کا ارادہ مرش کو تھوڑا اور تنگ کرنے کا تھا ۔۔
تم ۔۔بہت ظالم آہل بہت ظالم صرف ظلم کرتے ہوے ہو کتنی لڑکیوں کو اپنی حوس کا شکار بنا کر چھوڑ چکے ہو ۔۔۔ مرش کا ارادہ ابھی چپ رہنے کا نہیں تھا ۔۔۔
مرش !!!!!!!! آہل کی آنکھوں میں غصے کا شدید اشتعال تھا اس نے ایک ہی چیخ میں مرش کا دل دہلا کر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔
اپنی حد میں رہو مرش گھٹیا باتیں نہ تو مجھے پسند ہے اور نہ ہی ۔ میں برداشت کرتا ہوں ۔۔۔ آہل مرش کے قریب ہوتے ہوے اس دونوں جبڑوں کو سختی سے دبوچتا ہوا کہا ۔۔۔
آج کے اگر اس قسم کے الفاظ تمہارے منھ سے میں دوبارہ نہ سنوں ورنہ بولنے کے قابل نہیں رہو گی تم میری بات سمجھ آیی اور اگر نہیں سمجھ آیی تو اچھے سے سمجھ لو ۔۔ آہل مرش کا سر جھٹکتا چینج کرنے کی نیت سے واشروم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔
اتنی دیر میں مرش کا رو رو کر برا حال چکا تھا سر درد سے پھٹے جا رہا تھا ۔۔۔ لیکن یے درد تو بہت معمولی سا تھا اس درد کا کیا جو اس کی زندگی میں لکھ دیا گیا تھا ۔۔۔
تم اب تک ایسے ہی بیٹھی ہو جا کر چینج کرو ۔۔۔ آہل مرش کو حکم دے کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔
میں نے کہا نہ میں بیڈ پر نہیں سوں گی ۔۔مرش بچوں کی طرح ضد کر رہی تھی ۔۔۔
تو پھر تمہیں کیا لگتا ہے میں عام ناولوں کے رومینٹک ہیرو کی طرح زمین پر سو جاوں گا اپنے محبوبہ کو تقلیف سے بچانے کے لیے خود کو تقلیف دوں گا تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے بیکار کی سوچ ہے تمہاری ۔۔۔ آہل کا انداز مزاق اڑانے والا تھا ۔۔۔۔
میں صوفے پر سووں گی ۔۔۔ مرش آخر فیصلہ کر ہی چکی تھی اسے کہاں سونا ہے ۔۔۔
شوق سے ۔۔ آہل بے فکری سے بولا ۔۔۔
ایک منٹ یے رہا تمہارا منھ دکھایی تحفہ میں نہیں چاہتا کسی کے سامنے میری بیوی کو شرمندگی اٹھانی پڑے ۔۔ آہل نے ایک بڑا گفٹ کا پیک اس کی طرف بڑھایا جس کو مرش نے مسکراتے ہوے تھام تو لیا تھا لیکن اتنی ہی تیزی سے اس ڈبے کو زمین پر پٹکا تھا کی وہ پھسلتے ہوے صوفے کے اندر چلا گیا تھا ۔۔۔
میں تمہاری گفٹس پر لعنت بھیجتی ہوں ۔۔۔ مرش نے ایک ایک لفظ سختی سے ادا کیا ۔۔
میں سونے جا رہی ہوں مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی مت کرنا ۔۔مرش نے اس طرح جتایا تھا جیسے آہل شاہ آفندی ترس رہا ہو اس سے بات کرنے کے لیے ۔۔۔
مرش کا لہنگا اتنا وزندار تھا کی صوفے پر سونہ کافی مشکل ہو رہا تھا اور نہ اس نے چینج کیا تھا کیوں کی آہل شاہ آفندی کا نے حکم دیا تھا تو وہ کیسے مان لیتی ۔۔۔۔ مر کر بھی نہیں ۔۔۔
آہل بیڈ پر بے فکری انداز سے لیٹا ہوا تھا نیند تو اس کی آنکھوں سے بھی غایب تھی اگر مرش مشکل میں تھی تو آہل بھی کچھ کم نہیں تھا ۔۔۔
صوفے پر سونا وہ بھی اپنی ضد پر مرش کو بہت بھاری پڑ گیا تھا ۔۔۔ ایک طرف اس سایڈ کروٹ تو دوسری طرف اس سایڈ کروٹ لے لے کر مرش تھک گیی تھی ۔۔۔ تھکن کی وجہ سے اور شاید سر درد کی بھی وجہ سے بہت جلد ہی غنودگی میں چلی گیی تھی ۔۔
آہل بیڈ پر بیٹھ کر ایک ٹک اس ضدی لڑکی کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ کسی دن اپنا بہت بڑا نقصان کرواے گی اپنی ضد کی وجہ سے ۔۔۔ آہل کی سوچوں کا مرکز سواے مرش کے اور کویی نہیں تھا ۔۔۔
آہل نے جیسے اپنی آنکھیں بند کی اچانک اس کے کان میں ایک بہت تیز آواز گونجی ۔۔۔ آہل نے فورن اپنی آنکھیں کھولی سامنے کا منظر دیکھ کر اپنی ہسنی ضبط کرنا اس سے بہت مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔
مرش نیند کی ہی حالت میں صوفے سے زمین بوس ہو چکی تھی ۔۔ صوفہ تھا تو بہت بڑا لیکن مرش کے بھاری لہنگے سے ایڈجیسٹ نہیں ہو پایا تھا ۔۔۔۔
مرش کی آنکھ فورن کھلی سامنے آہل شاہ آفندی کا ہنستا مسکراتا چہرہ زہر سے بھی زیادہ کڑوا لگا تھا مرش کو فورن اپنی عزت افزایی کا خیال آیا ۔۔۔ آہل پر ایک گھورتی نظر ڈال کر پھر سے صوفے پر سونے کے لیے چڑھی مطلب وہ بھی اپنی ضد کی پککی تھی ۔۔۔۔
آ جاو بیڈ پر اس سے پہلے کی ایک بار پھر سے زمین تمارا بوجھ سہے ۔۔ آہل کی مسکراہٹ اور گہری ہو گیی تھی ۔۔۔۔
مجھ سے زیادہ پھری ہونے کی ضرورت نہیں ہے مرش نے اکڑتے ہوے کہا اور پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔
اچانک اسے اپنی کمر میں کسی کا ہاتھ محسوس ہوا ۔۔۔ مرش نے آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا آہل پوری طرح اس پر جھکا ہوا تھا ۔۔۔
کیا کر رہے ہو چھوڑو مجھے ۔۔۔ مرش آہل کی باہوں میں بن پانی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی ۔۔
آہل مرش کو پوری طرح اپنے باہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لا کر پٹک دیا تھا ۔۔ ۔
میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں سوں گی ۔۔۔ مرش نے چلاتے ہوے کہا ۔۔۔
چپ یکدم چپ آہل مرش کی لبوں پر اپنی شہادت کی انگلیاں رکھ کر کہا ۔۔
مجھے نیند آ رہی ہے بہتر ہوگا چپ چاپ سو جاو ۔۔۔ آہل مرش پر ایک اچٹتی نگاہ ڈال کر پھر سے سونے کے لیے جا چکا تھا ۔۔۔
یا اللہ مرش نے تڑپ کر اپنے رب کو پکارا لیکن اب سارے گلے شکوے دم توڑ چکے تھے ۔۔ ہاتھ بڑھا کر لایٹ آف کر کے مرش بھی چپ چاپ سو گیی تھی لیکن بیڈ کے اتنے کنارے تھی کی اگر ایک بار پھر سے گر جاتی تو کویی شک نہیں تھا ۔۔۔
پھر سے گرنے کا ارادہ ہے کیا ۔۔۔ آہل کی غنودگی میں ڈوبی آواز آیی ۔۔۔
نہیں ۔۔ تم اپنے کام سے کام رکھا کرو ۔۔۔ مرش نے بھی جواب دینے ذرا بھی دیر نہیں کی ۔۔۔
کچھ دیر بعد ان دونوں پر نیند کا غلبہ طاری تھا وہ دونوں اب اپنے اپنے خوابوں میں سیر کر رہے تھے ۔۔۔
❤❤❤❤
Sang_Jo_tu_hae
Episode_22
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
آہل آج وقت سے پہلے اٹھ گیا تھا ۔۔ اس کے بر عکس مرش دنیا سے غافل بے خبر سو رہی تھی ۔۔
پاگل لڑکی ۔۔ مرش کا چہرہ دیکھ کر آہل نے ایک نظر ڈال کر مسکراتے پوے کہا ۔۔
فریش ہونے کے بعد آہل کمرے سے جا چکا تھا مرش کو اکیلا چھوڑ کر اس کا بلکل ارادہ نہیں تھا اس کی صبح کا آغاز جان لیوا ہو ۔۔
گڈ مارنگ مرش بھابھی ۔۔ بریرہ شرارت سے مسکراتی ہویی دھپ سے مرش کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیی ۔۔۔
گڈ مارنگ ۔۔ مرش نے تھوڑا دھیمے انداز میں جواب دیا ۔۔۔
پہلے یے بتاو بھایی نے کیا گفٹ دیا ہے مجھے بہت بے چینی ہو رہی دیکھنے کی جلدی دکھاو ۔۔۔ بریرہ نے بیچین ہوتے ہوے کہا ۔۔
گفٹ ؟؟ مرش ہونق بنی بریرہ کو دیکھ رہی تھی ۔۔
ہاں گفٹ یار ۔۔ اب مجھ سے کیا شرمانا جلدی سے دکھاو ۔۔ بریرہ نے پھر سے اپنی بات دہرایی۔ ۔۔
مرش نے کن اکھیوں سے صوفے کی طرف دیکھا اب اسے بے حد پچھتاوا ہو رہا تھا پھینک کر ۔۔
آں بریرہ پلیز مجھے ایک گلاس پانی لے آو میرا گلا خشک ہو رہا ہے ۔۔۔ مرش نے بڑی حمت کر کے بات بنایی ۔۔۔
اوکے میں لے آتی ہوں ۔۔ بریرہ ایک لمحے میں وہاں سے غایب ہو چکی تھی ۔۔۔
مرش نے ایک سکون بھرا سانس لیا اس کا بولا گیا جھوٹ جو ۔ کامیاب ہو گیا تھا ۔۔۔
زمین پر بیٹھ کر مرش نے اپنا ہاتھ بڑاھایا صوفے کے نیچے گرا پیک آخر اس کے ہاتھوں لگ ہی گیا ۔۔۔ گفٹ لے کر وہ تیزی سے بیڈ پر آکر بیٹھ گیی ۔۔۔
اتنی ہی دیر میں بریرہ پانی کا گلاس لیے حاضر ہو چکی تھی ۔۔
یے لو پانی ۔۔بریرہ نے ہاتھ بڑھا کر مرش کو پانی کا گلاس تھمایا ۔۔۔۔
بہت شکریہ ۔۔مرش نے مسکراتے گلاس تھام لیا ۔
یے رہا گفٹ ۔۔ مرش نے آنکھ کے اشارے سے گفٹ کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔
یے کیا یے تو پیک ہے تم نے کھول کر دیکھا نہیں تھا کیا ۔۔۔ بریرہ نے گفٹ کو دیکھ کر حیرت سے کہا ۔۔
آں وہ آہل نے صبح ہی دیا ہے تو کیسے کھولتی ۔۔۔ مرش نے مسکراتے ہوے سارا الزام آہل پر ڈال دیا ۔۔۔
بھایی بھی نہ ۔۔۔ یے لو چلو کھولو تم ۔۔۔ بریرہ گفٹ کو مرش کی طرف بڑھاتے ہوے کہا ۔۔
م۔۔مم میں تم کھولو نہ ۔۔۔مرش نے گڑبڑاتے ہوے کہا ۔۔۔
یے تمہارا پہلا گفٹ ہے اس لیے تم ہی کھولو ۔۔ بریرہ نے گفٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا ۔۔۔
مرش نے دل پر پتھر رکھتے ہوے گفٹ کھولا ۔۔۔
واو دیٹیس بیوٹیفل ۔۔۔ بریرہ نے دل کھول کر تعریف کی ۔۔۔
ڈایمنڈ کا چمکتا پینڈین سیٹ پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا ۔۔۔
مرش نے ایک اچٹتی نگاہ اس سیٹ پر ڈالی ۔۔
مرش تمہیں نہیں پسند آیا کیا ۔۔۔ مرش کو یوں خاموش دیکھ کر بریرہ نے کہا ۔۔
نہیں اچھا ہے بہت اچھا ہے ۔۔۔ مرش نے زبردستی مسکراتے ہوے کہا ۔۔
مرش مام نے کہا ہے شام کے وقت تمہیں پالر لے کر جانا ہے ۔۔ بریرہ نے یاد آتے ہی مرش کو بتایا ۔۔
لیکن بریرہ !! مرش نے ابھی آگے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کی بریرہ بول پڑی ۔۔
مام نے کہا ہے بھایی کے ساتھ جانا ہے ہمیں رات کے فنکشن کے لیے ۔۔۔مرش میں ابھی آتی ہوں تم کچھ دیر ویٹ کرو اوکے ۔۔ بریرہ کہتی ہویی کمرے سے جا چکی تھی ۔۔۔
میں پالر جاوں گی مر کر بھی نہیں اس ذلیل انسان کے لیے کبھی نہیں کتنا مجبور کرو گے تم مجھے آہل شاہ افندی ۔۔ مرش کا دماغ کھول گیا تھا ۔۔وہ اپنی ہی سوچوں میں گم آہل کو ایک سے ایک گالیوں سے نواز رہی تھی ۔۔۔
اسی اثنا میں آہل کمرے کے اندر آیا ۔۔ مرش کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ چکا تھا ۔۔۔
آہل اپنی واڈروب کے سامنے کھڑا ہو کر کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔
میں پالر نہیں جاوں گی !!! مرش کی غصے سے بارود آواز آہل کے کان سے ٹکرایی ۔۔
آہل مرش کی باتوں کو نظر انداز کرتا اپنے کام میں مصروف تھا ۔۔۔
تم نے سنا نہیں میں کیا کہہ رہی ہوں ۔ ۔۔ مرش نے آہل کو یوں اپنے کام میں مصروف دیکھ کر تھوڑا مشکوک ہوتے ہوے کہا ۔۔۔۔
سن لیا اور کچھ ۔۔ آہل اب پوری طرح مرش کی طرف گھوم چکا تھا ۔۔۔
میں نے کہا میں پالر نہیں جاوں گی ۔۔۔ مرش نے بھنوے اچکاتے ہوے کہا ۔۔
کیوں وجہ جان سکتا ہوں نہ جانے کی ۔۔۔ آہل نے آواز میں تھوڑا سختی لاتے ہوے کہا ۔۔۔
وجہ یے ہے مسٹر آہل کی میری مرضی نہیں اور میں اپنی مرضی کے بغیر کویی کام نہیں کرتی ۔۔۔ مرش نے آواز اونچی کرتے کہا ۔۔۔
ہا ۔۔ہا ۔۔ تم اپنی مرضی کے بغیر کویی کام نہیں کرتی واٹ اے جوک سویٹ ہارٹ ۔۔۔ اگر تمہیں یاد ہو تو تم نے اپنے مرضی کے بغیر ہی اس خوبصورت لڑکے سے شادی کی ہے ۔۔ آہل کا قہقہہ بے ساختہ تھا ۔۔۔
اس کا حساب بھی میں تم سے لے لوں گی ۔۔۔ اپنا یوں مزاق اڑایا جانا مرش کو سخت زہر لگا تھا ۔۔۔
لے لینا یار لیکن اس کپڑے میں بہت کیوٹ لگ رہی ہو ۔۔۔ آہل مرش کو نظروں کے حصار میں لے کر مسکراتے ہوے کہا ۔۔۔
اس وقت مرش نے اورینج کلر کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا ۔۔
اپنی بکواس بند کرو دیکھو میں پالر نہیں جاوں گی یے میرا آخری فیصلہ ہے ۔۔۔
تو یے بات جا کر ان سے کہو جنہوں نے حکم دیا ہے ۔۔ آہل نے مرش کو دو بدو جواب دے کر ہولے ہولے قدم بڑھا کر مرش کے قریب آیا ۔۔۔
مرش ایک دم خود میں سمٹ کر رہ گیی ۔۔۔
آہل آہستہ آہستہ اس کے چہرے پر تھوڑا جھکا ۔۔۔
مرش نے سختی سے اپنی دونوں آنکھ بھینچ لیی ۔۔۔۔
آہل نے ہاتھ بڑھا کر اپنا سیل فون اٹھایا ۔۔۔
آنکھیں کھول لو سویٹ ہارٹ تمہارا شوہر اتنا بھی بد تمیز نہیں ہے ۔۔ آہل اپنا سیل فون ہاتھ میں لے کر سیدھے کھڑا ہو گیا تھا ۔۔۔
مرش نے ڈرتے ڈرتے پلکیں اوپر کی جانب اٹھایی ۔۔۔
تمہیں کیا لگا تھا میں کیا کرنے والا ہوں ۔۔ آہل کا ارادہ اب مرش کو تنگ کرنے کا تھا ۔۔۔
مجھے کچھ بھی نہیں لگا تھا سمجھے ۔۔۔ مرش نے نظریں چراتے ہوے کہا ۔۔۔
ہا ۔ہا ۔ہا ۔۔ رییلی مجھے لگا تم نے کچھ غلط سوچا۔۔۔ آہل کی آنکھیں شرارت سے صاف واضح ہو رہی تھی ۔۔۔
تم ۔۔۔۔ میری بات سنو تم جیسے مردوں کو میں اچھی طرح جانتی ہوں ۔۔ مرش نے شہادت کی انگلی آہل کی جانب کرتے ہوے غصے سے کہا ۔۔۔
تم میرے جیسے مردوں کو جانتی ہو نہ مجھے تو نہیں جس دن مجھے جان جاو گی اس دن میرے جیسے مردوں کو جاننے کی کویی ضرورت بھی نہیں پڑے گی ۔۔۔ آہل ایک آخری نظر مرش پر ڈال کر باہر جا چکا تھا ۔۔۔
ناشتہ میں مرش نے صرف دو تین لقمہ بہ مشکل خایا تھا خانہ اس کی حلف سے نیچے نہیں جا رہا تھا اپنی زندگی کی اتنی بڑی بربادی کے بعد خانہ کس کو یاد رہتا ہے ۔۔۔ مرش کے آنسوں ایک بار پھر سے بن بتاے شروع ہو چکے تھے۔۔۔
مرش ہم پالر نہیں جایں گے ایکچولی بھایی نے منا کر دیا ۔۔ بریرہ مرش کے سر پر سوار کھڑی تھی ۔۔
مرش تم رو رہی ہو ۔۔ بریرہ مرش کے گرتے آنسوں کو دیکھ چکی تھی ۔۔۔
نہیں بس امی بابا کی یاد آ رہی تھی ۔۔ مرش نے گال پر گرتے آنسوں کو رگڑتے ہوے کہا ۔۔
مرش رونہ کس بات کا وہ تم سے ملنے آیں گے نہ بریرہ مرش کو گلے لگاتے ہوے تسلی دینے میں مگن تھی ۔۔۔ ارے یار میں تو بھول ہی گیی وہ بیوٹینشن گھر پر ہی آ رہی ہے ابھی کچھ دیر میں ۔۔۔ بریرہ نے یاد آتے ہی مرش کو بتایا ۔۔
میم اب آپ مکمل طور پر تیار ہے ۔۔ مرش کے حسن کو چار چاند لگانے کے لیے پانچ لڑکیاں پالر سے بہ خوشی آیی تھی شہر کی مہنگے پالر سے انہیں بلایا گیا تھا ۔۔۔
نیوی بلو کلر کا خوبصورت لہنگا جس پر ایک ایک ورک بہت صفایی سے کیا گیا تھا اسی کلر کی میچینگ جیولری بھی پہنایا گیا تھا ۔۔۔۔
مرش کا حسن آج سب سے الگ لگ رہا تھا ہر چیز سے مکمل اللہ تعالی نے مرش کو بنایا تھا ۔۔۔
کیا آپ لوگ مجھے کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ سکتی ہے پلیز ۔۔۔ مرش کو اکتاہٹ ہو رہی تھی اپنا اتنا سجا سنورا روپ دیکھ کر ۔۔
جی ضرور وہ پانچوں ایک ایک کر کے کمرے سے جا چکی تھی ۔۔۔
آینے کے سامنے کھڑے ہو کر مرش نے اپنا سنگار دیکھا ۔۔۔ میں کس لیے تیار ہویی ہوں ۔۔ اس شخص کے لیے جس کو میں نے قبول ہی نہیں کیا کتنی ظالم ہے نہ یے دنیا کویی میرا درد نہیں سمجھ سکتا ۔۔۔ مرش کی آنکھ سے ایک موتی ٹوٹ کر گال پر رقص کر رہا تھا اس نے اپنی دونوں آنکھیں سختی سے بند کر لی ایسا لگ رہا تھا اگر وہ اپنی آنکھیں کھول دے گی تو قیامت آ جاے گی ۔۔۔۔
آہل فون کان سے لگاے مصروف سے انداز میں کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔ آینے کے سامنے مرش کو اس طرح دیکھ کر آہل لبوں پر بہت ہی خوبصورت مسکراہٹ رینگ گیی ۔۔۔
ویسے تو سب مکمل ہے لییکن صرف ایک چیز کی کمی ہے ۔۔ آہل مرش کی کمر میں ہاتھ ڈال کر خود سے قریب کرتے ہوے اس کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔
ایک منٹ آہل مرش کو اپنی قید سے آزاد کرتے ہوے آگے بڑھ گیا ۔۔
مرش نہ سمجھی سے گا ہے بگا ہے آہل کو دیکھ رہی تھی ۔۔
آینے کے سامنے کھڑے وہ دونوں کسی چاند سے کم نہیں لگ رہے تھے ۔۔
آہل مرش کی گردن میں ہاتھ ڈال کر ہیرے کا چمکتا پینڈین سیٹ اس کے گلے میں پہنا دیا ۔۔۔
پرفیکٹ ۔۔ آہل نے آینے میں مرش لال ٹماٹر جیسا تمتماتا چہرہ دیکھ کر بولا ۔۔۔
ایک سیلفی کیوں نہ لیں اپنی شادی کی یادگار تصویر کیوں کی جب تم مجھے چھوڑ کر جاو گی میں بے چارا انہی تصویروں سے اپنا دل بہلا لیا کروں گا ۔۔۔ آہل نے معصومیت سے منھ بناتے ہوے کہا ۔۔
مجھے کویی تصویر نہیں لینی اور میں اسے نہیں پہنوں گی ۔۔ مرش جیسے ہوش میں آ گیی تھی ۔۔۔
اگر تم نے یے لاکیٹ اتارا تو تمہارا تو پھر انجام بھی سوچ کر رکھے رہنا ۔۔ آہل نے سرد آواز میں دھمکی دی۔۔۔
چپ چاپ کیمرے کی طرف دیکھو ۔۔۔
ایک بے حد خوبصورت تصویر آہل کے فون میں قید ہو چکی تھی ۔۔۔
ہمم ہمم ۔۔۔ بریرہ نے گلا کھنکارتے ہوے آنکھ بند کر لی ۔۔۔
ارے میری گڑیا وہاں کیوں کھڑی ہے اندر آو ۔۔ آہل بریرہ کی حرکت دیکھ کر مسکراتے ہوے کہا ۔۔۔
مجھے لگتا ہے میں غلط وقت پر آ گیی ۔۔۔ بریرہ نے اندر آتے ہوے کہا ۔۔
بلکل صحیی وقت پر آیی ہو ۔۔ جواب مرش کی طرف سے آیا ۔۔
بھایی آپ کتنے ڈیشینگ لگ رہے ہے یور لوکینگ سو اسمارٹ ۔۔ بریرہ آہل کی تعریف کیے بنا نہیں رہ سکی ۔۔۔
تھیک یو ۔۔۔ آپ بھی کسی سے کم نہیں لگ رہی ہے ۔۔ آہل نے بریرہ کی ناک دبا کر تعریفی جملہ ادا کیا ۔۔۔
لیکن مرش سے کم ۔۔ بریرہ نے منھ پھلاتے ہوے کہا ۔۔
ارے مرش تو کچھ بھی نہیں ہے تمہارے آگے ۔۔ آہل نے صاف لفظوں میں مرش کے بے عزتی کی تھی ۔۔ جو کی مرش کو سمجھ میں نہ آ سکے ۔۔۔
سچی ۔۔ بریرہ نے بھایی کا ساتھ دینے میں ذرا کسر چھوڑی ۔۔
مچی ۔۔ آہل نے مسکراتی آنکھوں سے کہا ۔۔
میں چلتا ہوں آپ اپنی بھابھی کو جلدی سے باہر لے کر آو ۔۔ آہل نے مرش کا دل جلانے میں کویی کمی نہیں باقی رہنے دی ۔۔۔
مرش میں کیسی لگ رہی ہوں ۔۔ آہل کے جاتے ہی بریرہ کا پہلا سوال تھا ۔۔
بہت بہت بہت پیاری ۔۔ مرش نے سچے دل سے بریرہ کی تعریف کی ۔۔
بریرہ نے سی گرین کلر کا خوبصورت لہنگا پہنا ہوا تھا ۔۔۔چمکتے بالوں کو کھلا ہی چھوڑ دیا تھا ۔۔ نفاست سے کیا گیا میکپ بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔
آفندی ولا ۔۔ کی درو دیوار پر خوشیاں رقص کر رہی تھی ۔۔ آج آہل شاہ آفندی کا ولیمے کا فنکشن تھا ۔۔۔ ڈیکوریش دیکھ کر ہر کویی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا ۔۔ لایٹس کی چوکاچوند پورے آفندی ولا کو چمکا رہی تھی ایک سے بڑھ کر ایک لوگ آج اس فنکشن پر انوایٹیڈ تھے ہر کویی حسین و جمیل دکھنے کی جوڑ توڑ کوشش کر کے آیا تھا ۔۔ جاوید شاہ آفندی کے اکلوتے سپوت کی شادی اٹینڈ کرنے کے لیے بیرونی ملک سے ہزار لوگ آے تھے ۔۔۔۔ ایسی شادی انجوے کرنے کے لیے بچہ بچہ آیا تھا شہر کے بہترین کامیاب بزنیسمین کے بیٹے کی شادی تھی جس کی شہرت ملک ملک تھی ۔۔
بریرہ مرش کو اپنے ساتھ لیے اسٹیج پر چھڑی دلہن کو ودیکھ کر زور و شور تالیوں کی آواز گونج رہی تھی ۔۔
گفٹس کی گنتیاں کرنا بہت مشکل تھا ۔۔ ویٹرز کی لاین لگی ہویی تھی ۔۔۔ اتنا شاندار فنکشن دیکھ کر سبھی حیرت زدہ دیکھ تھے ۔۔۔
مرش کو آہل کے بہت ہی قریب لا کر بیٹھا دیا گیا تھا ہزاروں کیمرے میں تصویرے سب قید کر رہے تھے ۔۔۔ہلکے ہلکے سروں میں گانہ اپنی دھن میں بج رہا تھا ۔۔۔
اریشہ زارا اور ثمرہ بھی تشریف لا چکی تھی ۔۔۔
بہت بہت مبارک ہو مسٹر آہل ۔۔ ثمرہ نے مرش کو مکمل طور پر نظر اندز کیے آہل سے مخاتب تھی ۔۔۔
تھینک یو مس ثمرہ ۔۔ آہل نے بھی مسکرا کر مبارک باد قبول کی۔۔
مرش شدید حیرت سے اپنی ان دوستوں کے چہرے کو دیکھے جا رہی تھی جیسے وہ سب اس کو پہچان ہی نہیں رہی ہو ۔۔۔
مجھے بہت خوشی ہویی آپ لوگ کو یہاں دیکھ کر ۔۔۔ بات کا آغاز آہل نے شروع کیا ۔۔۔
آنا پڑا ہمیں آخر کو آپ نے خود ہمیں انوایٹ کیا تھا ۔۔ اریشہ نے اتراتے ہوے جواب دیا ۔۔۔
اس کے لیے تو میں آپ سب کا دل سے شکر گزار ہوں ۔۔ آہل کا اتنا رنگ روپ دیکھ کر مرش کو چار سو چالیس واٹ کا کرینٹ پھر سے لگا تھا یے وہی شخص تھا جس نے ان دونوں کو قید کیا تھا وہی ظالم شخص جس نے ان لوگوں کو زبان پر بھی تالا لگا دیا تھا اتنی تکلیف دی تھی اس نے دو دن اپنے پاس رکھ کر ان پر ظلم و ستم کیا تھا ۔۔ اور یے لوگ کیسے بانچھے پھیلا پھیلا کر اس سے مل رہی ہے کیا انہیں سب بھول گیا تھا ۔۔۔ مرش اب اریشہ کا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
آہل شاہ آفندی ان لوگوں سے ایسے باتیں کر رہا تھا جیسے ان لوگوں سے کتنی پرانی دوستی ہو ۔۔۔
ایک منٹ ہم اپنی دوست سے بھی مل لیں ۔۔ ثمرہ اریشہ اب مرش کی جانب مبذول ہویی ۔۔۔
بہت پیاری لگ رہی ہو مرش ۔۔ ثمرہ نے مرش کا حسن دیکھ کر تعریف کی ۔۔
تم لوگ یہاں کیوں آیی ہو پاگل ہو گیی تھی کیا ۔۔ مرش نے بہت ہی برداشت کے ساتھ دھیمے انداز میں ان دونوں کی کلاس لے رہی تھی ۔۔۔
وہ ہمیں آہل بھایی نے انوایٹ کیا تھا ۔۔ اریشہ نے آہل کی جانب اشارہ کرتے ہوے کہا جو اس وقت مکمل طور پر فارس سے بزی تھا ۔۔
بھایی !!!! مرش نے بھایی لفظ بہ مشکل دہرایا ۔۔
تم لوگ پاگل ہو گیی ہو کیا ۔۔ آخر تم لوگ کو اس ذلیل انسان کی شادی میں آنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔ مرش جیسے کسی اور کے بارے میں بات کر رہی تھی ۔۔
یار اب وہ سب بھول بھی جاو مرش آہل بھایی تو بہت اچھے ہے ۔۔ ثمرہ نے بے فکری سے کہا ۔۔۔
مرش پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی ان کے بولے گیے الفاظ کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔ تم لوگ واقعی پاگل ہو گیی ہو یے مت بھولو آج میں یہاں صرف تم لوگوں کی وجہ سے بیٹھی ہوں ۔۔ مرش کی آواز غمگین ہو گیی تھی جیسے ابھی وہ رو دے گی ۔۔
مرش کیا ہو گیا ہے اب رو مت دینا سب کی نظر ادھر ہی ہے ۔۔وہ دونوں مسکراتے ہوے کہہ کر وہ اسٹیج سے نیچے اتر چکی تھی ۔۔
مرش کو حیرت زدہ چھوڑ کر ۔۔۔
بریرہ بہت ہی گرم جوشی سے زارا اریشہ اور ثمرہ سے ملی تھی وہ سب ایک جھنڈ بناے اسٹیج کے تھوڑا فاصلے پر کھڑی باتوں میں مگن تھی ۔۔۔
آہل تیری تو قسمت اچھی تھی مرش بھابھی نے تیرے سر کے بال نہیں نوچے ۔۔۔ فارس مسلسل آہل کا مزاق اڑاے جا رہا تھا وہ زندہ اور سہی سلامت کیسے ہے ۔۔۔
بس اللہ کا شکر ہے یار ۔۔ آہل بھی مزے سے بولا ۔۔
آہل اور فارس کی باتوں کے دوران فارس کی نظر لمحہ بہ لمحہ بھٹک کر بریرہ کی طرف اٹھ رہی تھی ۔۔ آنکھوں میں محبت کے دیپ سجاے وہ بریرہ کو بڑی ستایش نظروں سے دیکھ رہا تھا اس بات سے بے خبر کی سامنے آہل شاہ آفندی اس کا بھایی بیٹھا ہے ۔۔
آہل فارس کی یے ایک لگاتار حرکت دیکھ رہا تھا ۔۔ فارس کی ہی نظروں سے آہل نے اپنی نظریں دوڑایی سامنے اس کی بہن کا ہنستا مسکراتا چہرہ تھا ۔۔
بریرہ !! آہل نے بریرہ کا نام زیرلب دہرایا ۔۔
فارس کی آنکھوں کی چمک آہل شاہ آفندی سے پوشیدہ نہیں تھی جو کھیل فارس کھیل رہا تھا فلحل وہی کھیل آہل شاہ آفندی بھی کھیل رہا تھا ۔۔
فارس ؟؟ آہل نے جانچتی نظروں سے فارس کو دیکھ کر پکارا ۔۔
ہاں !! فارس نے اپنی توجہ آہل کی جانب مبذول کی ۔۔
کچھ نہیں ۔۔ آہل نے مسکرانے پر ہی اکتفا کیا ۔۔۔
آہل میں پانچ منٹ میں آیا مام کی کال آ رہی ہے ۔۔ فارس فون ہاتھ میں لیے اسٹیج سے نیچے اتر کر بریرہ کو گھر کے اندر آنے کا اشارہ کر کے آگے بڑھ گیا ۔۔۔
میری بیوی نے میری تعریف کی ہی نہیں کیسا دکھ رہا ہوں میں ۔۔موقع پاتے ہی آہل نے مرش کو تنگ کرنا شروع کر دیا تھا ۔ ۔۔
ہمیشہ کی طرح بہت ہی گھٹیا ۔۔ مرش نے گھٹیا الفاظ پر زور دیتے ہوے کہا ۔۔۔
صدقے اس تعریف پر ۔۔ آہل نے دھمیے سروں میں سرگوشی کرتے ہوے سامنے کی جانب دیکھا ۔۔۔
علی شہروز ہاتھ گفٹ لیے اسی جانب آ رہا تھا ۔۔
یے کمینہ انسان یہاں پر کیا کر رہا ہے ۔۔ آہل نے بدنماں چہرہ دیکھ کر سوچا ۔۔
ہیلو مسڑ آہل شاہ آفندی شادی کی بہت بہت مبارک ہو یے ایک چھوٹا سا تحفہ آپ کے لیے ۔۔۔ علی کی مسکراہٹ ایک بدترین انسان سے کم نہیں تھی ۔۔۔
تو یہاں کس لیے آیا ہے ایک لمحے کے اندر یہاں سے چلا جا علی ورنہ یہاں سے تیری لاش جاے گی ۔۔۔ آہل کی برداشت اب جواب دینے لگی تھی ۔۔۔
کنٹرول مایی فرینڈ “”””””ویسے تیری بیوی بہت خوبصورت ہے اندر سے بھی باہر بھی “””” علی نے اپنی خباثت بھری مسکراہٹ کے ساتھ آہل کے کان میں سرگوشی کی ۔۔
مرش جو کسی سے بات کرنے میں محو تھی ایک نسوانی آواز پر ان سامنے کی اور دیکھا ۔۔۔
یے ۔۔۔ یے ۔۔ مرش کی سانس تھم چکی تھی ایسا لگتا تھا وہ ابھی گشی کھا کر گر جاے گی ۔۔ یے بے ہودہ انسان یہاں پر کیا کر رہا ہے ۔۔ اس کی سمجھ سے سب باہر تھا ۔۔۔
ڈر اور خوف کی وجہ سے اس نے آہل کا ہاتھ زندگی میں پہلی بار بہت سختی سے پکڑا تھا ۔۔
اچھا میں چلتا ہوں اپنا خیال رکھیے گا بھابھی ۔۔۔ علی واپس پلٹ کر جا چکا تھا لیکن مرش کا ہاتھ اب بھی آہل کے ہاتھوں میں ہی تھا ۔۔
مرش تم یہی پر بیٹھو میں آ رہا ہوں ۔۔ آہل مرش سے اپنا ہاتھ چھڑواتا علی کے پیچھے پیچھے جانے لگا ۔۔
گریبان سے آہل علی کو پکڑ کر باہر کی طرف لے گیا ۔۔۔
کس نے تجھے انوایٹ کیا تھا بتا ۔۔ آہل کی آنکھیں غصے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھی ۔۔
انوایٹ تو کسی نے نہیں کیا تھا بس تیری بیوی کو بڑا دل چاہ رہا تھا دیکھنے کا ۔۔۔
اپنی بکواس بند کر علی آہل نے ایک زور دار پنچ سے اس کا چہرے کا حولیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا ۔۔
یے مار تجھے بہت مہنگی پڑنے والی ہے آہل ۔۔۔ علی نے اپنے رستے خون کو چھوتے ہوے کہا ۔۔
تو جا رہا ہے یا نہیں ۔۔ آہل نے سرد آواز میں چلاتے ہوے کہا ۔۔
جا رہا ہوں ۔۔ علی اپنا گریبان چھڑا کر جا چکا تھا ۔۔
فارس تمہیں پتہ بھی ہے میں کتنی مشکلوں سے آیی ہوں ۔۔ بریرہ نے ناراض ہوتے ہوے کہا ۔۔۔
محبت میں اتنا تو رسک لینا پڑتا ہے جان ۔۔ فارس بریرہ کا ہاتھ پکڑ کر خود سے قریب کرتے ہوے کہا ۔۔۔
فارس مجھے ڈر لگ رہا ہے کہیں کویی آ نہ جاے ۔۔ بریرہ نے ڈرتے ہوے کہا ۔۔
یار فنکشن باہر ہے گھر میں نہیں کون آ سکتا ہے ۔۔ فارس بے فکری سے بولا ۔۔
آج تو بہت پیارے لگ رہے ہو ۔۔ فارس کے کورٹ کی بٹن سے کھیلتے ہوے بریرہ نے کہا ۔۔۔
چلیں آپ نے اس غریب کی تعریف تو کی ۔۔ فارس نے خود کو غریب باور کرایا ۔۔
بریرہ میرا دل کر رہا ہے یہاں سے تمہیں اٹھا کر اپنے روم میں لے کر چلا جاوں ۔۔
بدتمیز ۔۔ بریرہ پوری طرح بلش کر گیی ۔۔
میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں آہل سے بات کروں گا کیوں کی میں اور نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر ۔۔
فارس ابھی نہیں وقت آے گا تب کرنا پلیز ابھی نہیں ۔۔ بریرہ نے گھبراتے ہوے کہا ۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے نہیں کرتا فارس بریرہ کو خود اے اور قریب کرتے ہوے کہا ۔۔۔
فارس اب چلو پلیز کویی آ جاے گا ۔۔۔
کویی نہیں آتا بے فکر رہو ۔۔ فارس نے بے فکر ہوتے کہا ۔۔۔ فارس جو اس وقت بریرہ کے کمرے میں تھا لیکن پردے کے پیچھے کھڑا تھا ۔۔
بریرہ ؟؟؟ دروازے پر کویی کھڑا تھا جو بریرہ تیز آواز میں پکارا تھا ۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_23
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
بریرہ بیٹا آپ یہاں کیا کر رہی آپ کی فرینڈس مجھ پوچھ رہی تھی آپ کا ۔۔۔مریم بیگم دروازے پر کھڑی بریرہ سے کہہ رہی تھی ۔۔
ج۔ ۔ج۔ ۔جی امی میں بس آ ہی رہی تھی آپ چلیں میں آتی ہوں ۔۔ بریرہ نے گلے میں اٹکی سانس کو بجال کرتے ہوے کہا ۔۔
جلدی آ جایں ۔۔مریم بیگم اٹلے قدموں واپس جا چکی تھی ۔۔
فارس اب پلیز اب مجھے جانے دو ۔۔ بریرہ نے اپنی کلایی چھڑاتے ہوے کہا ۔۔
اچھا ٹھیک ہے جاو ۔۔فارس کو آخر ترس آ ہی گیا تھا بریرہ کی بگڑتی حالت دیکھ کر ۔۔۔
بریرہ دوڑتے ہوے کمرے میں سے لمحے میں غایب ہو گیی ۔۔ فارس کچھ دیر بعد کمرے سے نکلا کہیں کسی دیکھنے والے کو شک نہ ہو جاے۔۔۔
رات کا پرگرام بہت ہی شاندار گزرا ایک ایک کر کے سارے مہمان چلے گیے ۔۔
مرش کی کمر اکڑ گیی تھی بیٹھے بیٹھے اس کا دل کر رہا تھا اڑ کر کمرے میں چلی جاے ۔۔۔ آخر اس کی خواہش کچھ دیر بعد پوری ہو ہی گیی تھی ۔۔
آینے کے سامنے کھڑے ہو وہ اپنے خوبصورت بالوں سے جھومر نکالنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔ اس کے برعکس آہل لیپٹاپ پر نظریں جماے مسلسل کچھ ٹایپ کر رہا تھا جیسے اس سے ضروری اور کویی کام ہی نہیں ۔۔۔۔
آہل ۔۔ مرش آج زندگی میں پہلی بار اس کا نام پکار رہی تھی شاید مجبوری یہ کویی اور وجہ تھی ۔۔
ہمم ۔۔ آہل مصروف سے انداز میں بولا نظریں ابھی بھی لیپٹاپ پر جمی تھی ۔۔
وہ ایک بات پوچھنی تھی !! مرش کو نہ چاہتے ہوے بھی اچھے بننے کی ایکٹنگ کرنی پڑ رہی تھی ۔۔
ایک نہیں ہزاروں بات پوچھو ۔۔آہل لیپٹاپ بند کر کے سایڈ میں رکھ کر شرارت سے بولا ۔۔
وہ ۔۔وہ جو لڑکا آیا تھا جو تمہیں گفٹس دے رہا تھا ۔۔ اس کے بارے میں پوچھنا تھا ۔۔
لڑکے تو ہزاروں تھے گفٹس کی تعداد بھی کم نہیں تھی تمہیں کس کے بارے میں جاننا ہے وہ بتاو ۔۔ آہل کو بہ خوبی معلوم تھا مرش کس لڑکے کے بارے میں پوچھنا چاہ رہی تھی ۔۔
وہی جو تمہیں گفٹس دے رہا تھا تم یاد کرو اس کے چہرے پر کچھ نشانات تھے ۔۔مرش نے ذہن پر زور دیتے ہوے کہا وہ چاہتی تو علی کا نام بھی لے سکتی تھی لیکن پتہ نہیں کیوں اس کا نام لینا اسے تھوڑا معیوب لگ رہا تھا ۔۔
اوہ !! تو تم اس کے بارے میں پوچھ رہی ہو پوچھو کیا پوچھنا ہے !! آہل مرش کا چہرہ بغور دیکھ رہا تھا ۔۔
وہ کون تھا ؟؟؟ مرش کے منھ سے بے ساختہ الفاظ ادا ہوے ۔۔
تم ان سب سے دور ہی رہو تو بہتر ہے ہوگا ۔۔ آہل نے ناگواری سے جواب دیا تھا۔۔
میں صرف پوچھ رہی تھی سمجھے ۔۔مرش آہل کی نگاہوں سے بے حد کنفیوز ہو رہی تھی نظریں چرا کر اس نے منھ بناتے ہوے کہا ۔ ۔۔
آہل ٹایی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوے بیڈ سے اٹھا ہی تھا کی مرش کا کارنامہ دیکھ کر اسے تنگ کرنے کے لیے رک گیا ۔۔۔۔
آج اپنی ہڈییاں توڑوانے کا ارادہ ہے کیا صوفے سے گر کر ۔۔ مرش کو صوفے پر سوتا دیکھ کر آہل اپنی ابھرنے والی مسکراہٹ کو ضبط کرتے ہوے کہا ۔۔۔
تم سے مطلب میں آج کی تاریخ سے بیڈ پر نہیں سووں گی ۔۔ مرش اپنی خونخار نظروں سے آہل کو اپنا حکم سنا رہی تھی ۔۔لیکن اس کے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا صوفے پر سونہ زندگی میں کبھی بھی وہ صوفے پر سونہ تو دور بیٹھا بھی نہیں کرتی تھی لیکن یہاں پر تو مسلہ ہی انہ کا تھا ۔۔
اب تم چاہتی ہو میں ہر روز تمہاری ضد کے آگے ہار کر اپنی باہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لے جا کر سلاوں ۔۔ آہل نے ہنس کر مرش کی ضد کی دھجیاں اڑا دی ۔۔۔
گھٹیا سوچ صرف تمہاری ہو سکتی ہے میری نہیں ۔۔ آہل کی بات سن کر مرش کا منھ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا تھا لیکن جلدی سمبھلتے ہوے اس نے حساب برابر کیا ۔۔
تو ٹھیک مرضی تمہاری ۔۔ آہل بے فکری سے بولتا چینج کرنے چلا گیا ۔۔
ہا ۔۔کتنا بدتمیز انسان ایک بار نہیں کہا بیڈ پر آ جاو میں خود سے تو نہیں جا سکتی مان لو ابھی میں چلی بھی گیی تو ہزاروں خوشفہمیوں میں مبتلا ہو جاے گا ۔۔۔ نہیں نہیں میں خود سے نہیں جاوں گی کبھی نہیں ۔۔۔ مرش خود سے ہمکلام ہوتی ہویی فورن گردن نفی میں ہلایی ۔۔
آہل چینج کرنے کے بعد آینے کے سامنے کھڑا اپنے بالوں کو پیچھے کی اور گنگناتے ہوے ترتیب دے رہا تھا ۔۔۔۔
مرش اسی اثنا میں بیٹھی آہل کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوے سوچ رہی تھی شاید ہی یے کھڑوس بندہ کہہ دے آ جاو بیڈ پر ۔۔۔
کہیں پیار تو نہیں آ رہا ہے مجھ پر جو اتنا دیکھا جا رہا ہے مجھے ۔۔ آہل کو ایک موقع مل گیا تھا مرش کو تنگ کرنے کا ۔۔۔
پیار ان کے اوپر آتا ہے جو پیار کے قابل ہوتے ہے ۔۔ اپنی چوری پکڑ جانے مرش نے فورن دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیا ۔۔۔
ہا۔ ۔ہا ۔۔ہا ایسا ہے تو پھر میں اب پوری کوشش کروں گا خود کو پیار کے قابل بنانے کے لیے ۔۔ آہل مسکرا کر کہتا بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔
تم بیٹھی کیوں ہو سونہ نہیں ہے کیا ۔۔ آہل کے لہجے میں کوٹ کوٹ کر شرارت بھری تھی اس کو تو پہلے سے ہی علم تھا مرش میڈم چاہتی کیا ہے ۔
آہل میں بہت تھک گیی ہوں ! مرش کو اب یقین تھا اب آہل شاہ آفندی کہے گا آ جاو بیڈ پر ۔
تو میں کون سا تمہیں جنگ لڑنے کے لیے کہہ رہا ہوں ۔۔ آہل نے حیرانگی ظاہر کرتے ہوے کہا ۔۔
وہ ۔۔آ ۔۔میں وہ میں ۔۔ وہ میں چاہتی تھی کی تم صوفے پر جاو میں بیڈ پر ! مرش نے ہکالتے ہوے آخر اپنا جملہ جیسے تیسے پورا کر ہی لیا تھا ۔۔
کیا ۔۔ تمہیں لگتا ہے میں اتنا شریف ہوں اور رہی بات صوفے کی تو تمہارے لیے پرفیکٹ ہے آرام سے سو جاو میں بھی تھکا ہوا ہوں ۔۔۔ آہل کا جواب مرش کی سوچ سے یکدم الٹ تھا ۔۔ وہ کیا سوچ رہی تھی آہل شاہ آفندی کیا کہہ گیا تھا ۔۔۔
اپنے بازوں کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر آہل شاہ آفندی سونے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔لیکن مرش منھ کھولے اس ظالم شخص کو دیکھ رہی تھی خود تو کتنے مزے سے سویا تھا دوسروں کا ذرا بھی خیال نہیں تھا ۔۔۔
اب گھورنا بند کرو چپ چاپ آ کر سو جاو ورنہ تمہاری مرضی ۔۔ غنودگی میں ڈوبی آہل کی آواز مرش کے کانوں تک بہ مشکل پہنچی تھی ۔۔۔ ایک لمحہ ظایا کیے بغیر وہ بیڈ پر آ گیی ۔۔ تھکن کی وجہ سے اسے سخت نیند آ رہی تھی۔۔
میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں مرش نے اپنے لمبے سیاہ بال سلجھاتے ہوے آہل سے کہا ۔۔
نہیں جانے کی کویی ضرورت نہیں ہے آہل نے اپنی روبیلی آواز کے ساتھ صاف منا کر دیا تھا ۔۔
لیکن کیوں ؟؟؟؟ مرش کو شدید حیرت کا جھٹکا لگا تھا ۔۔
کیوں کی میری مرضی نہیں ہے !! خود کے اوپر فرفیوم اسپرےکرتے ہوے آہل نے جانے کی وجہ صاف بتا دی ۔۔
لیکن امی نے ہمیں بلایا ہے !! مرش نے تیز آواز میں کہا ۔۔
میں آج پھری نہیں ہوں پھر کسی دن چلے گے ۔۔ بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے آہل اس کی طرف بنا دیکھے بول رہا تھا ۔۔۔
تم بزی ہو میں تو نہیں میں جاوں گی بس !!! مرش نے فیصلہ کر لیا تھا وہ جا کر رہے گی آخر یے شخص ہوتا کون ہے اسے روکنے والا اس کے اپنے ماں باپ کے گھر جانے سے ۔
میں بات دہرانے کا قایل نہیں ہوں اس لیے کان کھول کر اچھی طرح سن لو نہیں جانا تو بس نہیں جانا ۔۔ آہل کو اب غصہ آ رہا تھا مرش کی بے جا ضد پر ۔۔
میں انکل سے اجازت لوں گی تم سے نہیں ہوتے کون ہو تم مجھ پر اپنا حکم چلانے والا ۔۔ مرش نے چلاتے ہوے کہا ۔۔
مرش کا جبڑا سختی سے دبوچتے ہوے آہل اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوے ایک ایک لفظ چباتے ہوے بولا اپنی لیمیٹ کراس مت کرو مرش اور اگر تم نیچے جا کر ڈیڈ سے کویی بھی بات کی تو پھر اس کا انجام بھی سوچ کر رکھنا ۔۔۔ آہل نے غصے سے کہتے ہوے اس چہرہ دوسری طرف جھٹک دیا ۔۔
مرش کی آنکھیں آنسوں سے ڈبڈبا گیی چمکتے موتی اس کی گالوں پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہے تھے ۔۔
میں نیچے جا رہا ہوں پانچ منٹ کے اندر ناشتے پر پہنچو ۔۔۔ آہل حکم دیتا کمرے سے جا چکا تھا ۔۔۔پیچھے مرش اس کی سسکیاں رہ گیی تھی ۔۔
کیا یے شخص اب مجھے میرے والدین سے بھی نہیں ملنے دے گا یا اللہ اس شخص کے کتنے روپ ہے ۔۔
اسلام علیکم !! وایٹ کلر کی شرٹ بلیک پینٹ جس کی آستین تھوڑا اوپر تک فولڈ کی گیی تھی ایک ہاتھ میں کورٹ دوسرے ہاتھ میں فون پکڑے آہل شاہ آفندی بلا شبہ کا حسین تھا ۔۔
و علیکم اسلام ٹیبل پر بیٹھے سبھی نفوس نے خوش ہوتے ہوے جواب دیا ۔۔ جیتے رہو خوش رہو ۔۔ مریم بیگم نے ڈھیر ساری دعاوں سے آہل کو نوازا ۔۔ لیکن آہل انہیں نظر انداز کرتا پانی گلاس لبوں لیا ۔۔
کچھ ہی منٹ بعد مرش ناشتے کی ٹیبل پر پہنچی سلام کر کے آہل کے بازوں میں رکھی خالی چییر پر مجبورن اسے بیٹھنا پڑا ۔۔
کیسی ہے آپ بیٹا ؟ جاوید صاحب نے فریش مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا ۔۔
میں بلکل ٹھیک ہوں انکل ۔۔ مرش نے بھی مسکرا کر جواب دیا ۔۔
انکل !! بیٹا آپ مجھے ڈیڈ کہہ سکتی ہے ۔۔ جاوید صاحب نے مرش کی طرف سیکھتا ہوے کہا ۔۔
جی ڈیڈ ! مرش نے مسکراتے ڈیڈ لفظ دہرایا ۔۔
مرش نے بہت ہمت کر کے بات کرنے کی سعی باندھی ۔۔
ڈیڈ ؟ مرش نے ایک نظر آہل پر ڈالی اور جاوید صاحب سے مخاتب ہویی ۔۔
ہاں بولو بیٹا ۔۔ جاوید صاحب پوری طرح مرش کی جانب متوجہ ہوے تھے ۔
امی اور بابا نے ہمیں بلایا ہے لیکن آہل تو مصروف ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو کیا میں چلی جاوں ۔۔ مرش نے ایک ایک سانس میں اپنی بات ختم کی تھی ۔۔
ارے اس میں پوچھنے والی کیا بات تم ضرور جاو ۔۔۔ جاوید صاجب نے خوش ہوتے ہوے کہا وہ بھلا مرش کی خواہش کیسے رد کر سکتے تھے ۔۔
میں نے جب ایک بار منہ کر دیا یے تو تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آیی تھی ۔۔ کب سے خاموشی سے بیٹھ کر ساری باتیں سن رہا تھا لیکن بات اب اس کی برداشت سے باہر تھی ۔۔
کیوں نہیں جاے گی اس کے ماں باپ نے اسے بلایا ہے اس کو روکنے کی کیا وجہ ہے بھلا مرش تم جاو گی ۔۔ جاوید صاحب نے بڑے تحمل کے ساتھ جواب دیا انہیں ڈر تھا سرفراز احمد کے سامنے شرمندگی کا سامنہ کہیں نہ کرنا پڑے ۔۔
میں نے کہہ دیا نہیں جاے گی ایک بات میری کان کھول کر سن لیں “”” میں اپنے رشتے میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کروں گا “””” آپ سب سمجھ جاے تو بہتر ہے ۔۔ آہل کی آواز سن کر مرش نے اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ لیا ۔۔
اور تم میری اجازت کے بغیر ایک قدم بھی باہر نکالی تو مجھ سے برا کویی نہیں ہوگا ۔۔۔ آہل شہادت کی انگلی سے وارن کر کے غصے سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا گیا ۔۔۔
انکل امی بابا نے اتنے پیار سے بلایا تھا مجھے میں ان سے کیا کہوں گی میں نے تو یے بھی کہہ دیا تھا ہم آیں گے ۔۔ مرش نے بے حد دکھے دل سے کہا لہجے میں افسردگی صاف نمایاں تھی ۔۔۔
آپ جایں گی بیٹا ضرور جایں گی آہل تو آفس گیا ایک ضروری میٹنگ بھی تھی آج آپ ڈرایور کے ساتھ شام ہونے سے پہلے میں گاڑی بھیج دوں گا آپ تیاری کرے جانے کی ۔۔ جاوید صاحب آہل کی پرواہ کیے بغیر مرش کو جانے کی اجازت دے دیے تھے وہ مرش کو کویی دکھ نہیں پہنچانا چاہتے تھے ۔۔
تھینک یو سو مچ انکل ۔۔ مرش بے حد خوش تھی آخر اسے اجازت مل ہی گیی تھی جانے کی لیکن ایک بات اس کے خیال سے بلکل نکل گیی تھی انسان جب غلطی کرتا ہے تو اس کے لیے سزا بھی مقرر کی گیی تھی ۔۔۔
یے ڈریس تو تم پر بہت جچ رہی ہے ۔۔ بریرہ مرش کی تیاریاں دیکھ کر بولی ۔۔
بریرہ آہل کو پتہ تو نہیں چلے گا نہ ۔۔ مرش نے چاہتے ہوے بھی پوچھ لیا تھا نہ جانے اس کے دل میں خوفی بھی تھی لیکن دل کے ایک کونے میں آہل شاہ آفندی کے غصے کا ڈر بھی تھا ۔۔
بھایی کچھ نہیں کہتے مرش تم خواہمخواہ ڈر رہی ہو آرام سے جاو ویسے بھی بھایی تم سے محبت کرتے ہیں پھر وہ تمہیں کیوں ڈاٹیں گے ۔۔بریرہ نے شرارتی انداز میں کہا ۔
چپ کرو ۔۔ مرش نے بریرہ کو ڈپٹنے والے انداز میں کہا ۔
بی بی جی گاڑی تیار ہے بڑے صاحب آپ کو بلا رہے ہیں ۔۔ ملازمہ سمیرا دروازے پر نظریں جھکاے کھڑی پیغام دے رہی تھی ۔۔
بس میں آتی تم چلو ۔۔مرش نے شال اپنے ارد گرد پھیلاتے ہوے کہا ۔۔۔
گاڑی اچھے سے چلانا ۔۔جاوید صاحب برسوں پرانے ملازم کو آج پہلی بار ہدایت دے رہے تھے ۔۔
جی صاحب ! ملازم نے نظریں جھکا کر اپنے صاحب کے حکم کی تعمیل کی ۔۔
یے لو آ گیی ہماری بیٹی ۔۔ جاوید مرش کو آتا دیکھ کر بولے ۔۔
مرش گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے جاوید صاحب کے اوپر ایک نظر نہ ڈالنا نہ بھولی ۔۔۔
گاڑی گیٹ سے باہر نکل چکی تھی ۔۔ واچمین نے دروازہ بند کرتے ہی فورن کسی کو کال ملایی ۔۔۔
بولو ۔۔صاحب جی بی بی جی ابھی ابھی گھر سے باہر نکلی ہے ۔۔
اوکے ۔۔۔ فون بند ہو چکا تھا ۔۔ آہل کچھ دیر بند فون پر نظریں جماے کسی پواینٹ کو سوچ رہا تھا ۔۔
سر میٹیگ کا ٹایم ہو گیا ہے چلیں ۔۔ میسیز آفاق اپنے باس کو میٹینگ بتا کر ادب سے کھڑی تھی ۔۔
میٹینگ از کینسل ۔۔ آہل نے دانت پر دانت جما کر سرد آواز میں کہا ۔۔
بٹ سر وہ انتظار کر رہے ہے !! میسیز آفاق کی سمجھ سے باہر تھی اپنے اس کھڑوس باس کی بات جس میٹنگ کے لیے اتنے دنوں سے تیاری جاری تھی وہ ایک لمحے میں کیسے کینسل ہو سکتی ہے ۔۔
میں نے کہا میٹنگ کینسل مطلب کویی میٹنگ نہیں ہوگی ۔۔ آہل غصے سے کہتا آفس کے باہر آیا گاڑی اسٹارٹ کر کے زن دے روڈ پر دوڑانے لگا ۔۔۔
بی بی جی آ گیی آپ کی منزل ۔۔ڈرایور نے گاڑی روکتے ہوے مرش سے کہا ۔۔
ہاں بہت شکریہ آپ کا میری بات سنے اگر آہل آپ سے بھی کچھ میرے بارے میں پوچھے تو نہ بتایے گا پلیز ۔۔۔ مرش کو پورا یقین تھا آہل شاہ آفندی اسے پاتال میں سے بھی ڈونڈ سکتا ہے ۔۔
بی بی جی ہم اپنے صاحب سے کیسے جھوٹ بولیں گے ۔۔ڈرایور کو خوف آ رہا تھا ۔۔
آپ پلیز نہ کہیے گا میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔۔مرش اب منت پر اتر آیی تھی ۔۔
ٹھیک ہے بی بی جی جیسا آپ کا حکم ۔۔ ڈرایور نے آخر ہار کر سر تسلیم خم کر دیا ۔۔۔
بہت شکریہ ۔۔مرش مسکرا کر گاڑی سے نیچے اتری جیسے وہ کسی قید سے ابھی ابھی آزاد ہویی تھی ۔۔
اپنی ہی دھن میں چلتے ہوے وہ اندر آیی ۔۔
اسلام علیکم امی ۔۔خوشی سے چہکتے ہوے اس نے سب سے پہلے فایزہ بیگم کو سلام جھاڑا ۔۔۔
لیکن یے کیا سامنے کا منظر دیکھ کر مرش کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیی نہیں یے نہیں ہو سکتا یا اللہ آہل شاہ آفندی مجھے یہاں پر بھی نظر آ رہا ہے ۔۔مرش نے جلدی سے آنکھیں رگڑ کر کھولی لیکن حقیقت کو کون بدل سکتا تھا ۔۔۔
ہاے میرا بچہ آیا ہے یہاں پر کیوں کھڑی ہو اندر چلو۔۔ فایزہ بیگم نے اسے گلے لگاتے ہوے کہا ۔۔
مرش منھ کھولے سامنے بیٹھے شخص کو ایک ٹک دیکھ رہی تھی ۔۔ جو اس وقت بڑے مزے سے آس پاس سے بے خبر چاے پینے میں مگن تھا ۔۔۔
آہل تو کب آیا مجھے لگا تم نہیں آو گی لیکن آہل نے کہا بس تم پہنچ رہی ہو بیٹا ۔۔۔
جی ۔۔ میں بس پہنچ ہی رہی تھی ۔۔
مرش آنٹی کو بتاو نہ ہم اکٹھے کیوں نہیں آ سکے ؟ آہل مسکراہٹ میں ایک عجیب سے چمک تھی یے آہل شاہ آفندی وہ آہل شاہ آفندی میں کتنا فرک تھا ۔۔۔
ہاں ام۔ ۔م۔ ۔می وہ آہل آفس چلا گیا تھا تو میں تھوڑا لیٹ ہو گیی ۔۔۔ مرش نے بہ مشکل تھوک نگلتے ہوے کہا ۔۔۔
مرش ہمیں بہت خوشی ہویی آپ کو یہاں دیکھ کر دل اب تھوڑا پرسکون ہو گیا ہے آپ کو دیکھ کر ۔۔۔
بابا میں کیسے نہ آتی آپ نے اتنے پیار سے جو بلایا تھا مرش سرفراز صاحب کے گلے لگ گیی تھی ۔۔
آپ لوگ بیٹھے میں آتی ہوں ؟فایزہ بیگم باورچی خانے میں جا چکی تھی ۔۔۔
مرش بھی ان کے پیچھے پیچھے آ گیی ۔۔
ارے مرش تم باورچی خانے میں کیوں آیی ہو بیٹا چلو جاو تم ۔۔ فایزہ بیگم مرش کو باورچی خانے میں دیکھ ناراضگی سے بولی ۔۔
امی کیا ہو گیا ہے میں وہی مرش ہوں آپ نے تو مجھے بلکل اجنبی ہی سمجھ لیا ہے ۔۔۔مرش نے افسوس بھرے لہجے میں کہا ۔۔
مرش ؟ فایزہ بیگم بیٹی کا چہرہ دیکھ کر پکاری ۔۔
بیٹا تم آہل کو (تم ) کیوں کہتی ہو وہ شوہر ہے تمہارا اور تم بیوی ہو اس کی عزت کیا کرو بیٹا اس کی ۔۔فایزہ بیگم اب نصحیت پر اتر آیی تھی ۔۔
اچھا ٹھیک ہے امی اب ” آپ ” ہی کہوں گی ۔۔ مرش نے مسکرا کر انہیں تسلی دے تو دی تھی مگر ذہن میں تو کچھ اور ہی تھا ۔۔۔
خانہ خوشگوار موڈ میں کھایا گیا تھا ۔۔۔ مرش نے فایزہ بیگم سے خوب باتیں کی تھی ۔۔۔
انکل اب ہمیں جانا چاہیے ٹایم کافی ہو گیا ہے ۔۔ آہل نے اٹھتے ہوے کہا ۔۔۔
بیٹا میں سوچ رہی تھی کیوں نہ آج آپ لوگ یہی پر رک جاے ۔۔فایزہ بیگم نے دل کی بات کہی ۔۔۔
نہیں نہیں آنٹی پھر کبھی فلحال تو جانا ہوگا چلیں مرش ۔۔ آہل مرش کو نظروں کے حصار میں لیتے ہوے کہا ۔۔
جب امی کہہ رہی ہے تو آج رک جاتے ہیں نہ ۔۔۔ مرش نے معصوم بنتے ہوے کہا ۔۔
پھر کبھی آج نہیں ویسے بھی مرش ڈیڈ ہمارا انتظار کر رہیں ہونگے ۔۔۔ آہل نے بہت ہی ضبط کے ساتھ ڈیڈ لفظ پر زور دیتے ہوے کہا۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔ مرش نے منھ بناتے ہوے کہا ۔۔۔
الواداعی کلمات لیتے ہوے وہ دونوں گاڑی میں آ کر بیٹھ گیے ۔۔
آہل بلکل خاموشی سے ڈرایونگ کرنے میں محو تھا ۔۔۔
کچھ بول کیوں نہیں رہا ۔۔۔ آہل کی خاموشی کو پریشانی میں مبتلا کر رہی تھی ۔۔
آہل پلیز گاڑی کی اسپیڈ کم کرو مجھے ڈر لگ رہا ہے !! اتنی ہایی اسپیڈ پر مرش کبھی گاڑی میں سفر نہیں کی تھی ۔۔۔
اسپیڈ پہلے سے بھی زیادہ تیز ہو گیی تھی ۔۔۔
واچمین نے دوڑتے ہوے گیٹ کھولا ۔۔
آہل گاڑی پورچ میں روک نیچے اترا دوسری سایڈ سے مرش کا ہاتھ پکڑ کر بے دردی سے لے گھسیٹتا لے کر جا رہا تھا ۔۔
آہل پلیز میرا ہاتھ چھوڑو مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔ مرش درد کے مارے کراہ رہی تھی ۔۔
کس کی مرضی سے گیی تھی ۔۔۔ صوفے پر پٹکنے والے انداز میں مرش کو دھکا دے کر بیٹھایا ۔۔
وہ ۔۔۔میں مجھے اپنے ماں باپ کے گھر جانے کے لیے کسی کی مرضی درکار نہیں ہیں ۔۔۔ مرش بھی میدان میں اتر چکی تھی ۔۔۔
میں نے پوچھا کس کی مرضی سے گیی تھی !!!!!!! آہل کی چینخ سے سارا گھر دہل گیا تھا ۔۔خوف کے مارے مرش کا دل بیٹھ رہا تھا ۔۔
میری مرضی سے گیی تھی ۔۔جاوید صاحب شور کی آواز سنتے ہی دوڑے آے ۔۔
اوہ تو یے آپ کی دی ہویی شے تھی ۔۔ آہل اب جاوید شاہ آفندی کے مقابل آ کھڑا ہوا تھا ۔۔
ہاں میں نے ہی جانے کی اجازت دی تھی آخر ہم اسے کس لیے نہیں جانے دیتے وہ اس کے ماں باپ کا گھر ہے کسی غیر کا نہیں ۔۔۔ جاوید صاحب کو سخت غصہ آ رہا تھا یے ان کی تربیت کا تو اثر نہیں تھا ۔۔
مرش آنکھ پھاڑے دونوں باپ بیٹے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
۔””” بیوی میری ہے آپ کی نہیں اس کا ہر فیصلہ کرنے کا اختیار صرف مجھے ہے اس لیے اچھا ہوگا آپ دور رہے ورنہ میں بھی بھول جاوں گا آپ میرے باپ ہیں ۔۔ آہل کا الفاظ تھا کہ ہتھوڑا جاوید صاحب کا دل چھلنی چھلنی ہو گیا تھا ۔۔
ایک خونخار نظر مرش پر ڈال کر آہل سڑھیاں عبور کرتا اوپر چلا گیا تھا ۔۔
مرش کے آنسوں روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔ مرش برا نہیں منانا بیٹا آہل غصے کا تھوڑا تیز ہے لیکن دل کا بہت اچھا ہے ۔۔جاوید صاحب مرش کو بیٹھ کر سمجھا رہے تھے ۔۔
انکل لیکن اس نے آپ کے ساتھ ۔۔مرش کا بولنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔
وہ بس ایسا ہی ہے بیٹا چلیں آپ اپنے کمرے میں جاے جا کر آرام کریں ۔۔۔ جاوید صاحب اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر جا چکے تھے ۔۔
مرش آہستہ آہستہ دروازہ کھول کر کمرے میں آیی ۔۔
آہل صوفے پر بیٹھ کر سامنے رکھے میز پر اپنی دونوں ٹانگیں ایک دوسرے پر رکھے سگریٹ کے کش لینے میں مصروف تھا ۔۔۔
مرش ڈرتے ڈرتے بیڈ کے کونے میں ٹک گیی ۔۔ اس ڈر کی وجہ کیا ہے وہ خود نہیں جانتی تھی ۔
یہاں پر آو ۔۔ آہل سگریٹ باول میں رکھ کر مرش کا چہرہ بغور دیکھ کر بولا ۔
مرش نے ڈرتے ڈرتے لرزتے قدم اس کی جانب بڑھاے ۔۔
ببیٹھو !! ایک نیا حکم صادر کیا گیا ۔
مرش جھٹ صوفے پر بیٹھ گیی ۔۔
منا کیا تھا نہ میں نے ! آہل نے سرد آواز میں کہا ۔۔
وہ ڈیڈ نے کہا تھا ۔۔مرش سوختے لبوں پر زبان پھیرتے ہوے کچھ بولنے کے لیے جیسے ہی منھ کھولا آہل نے درمیان میں ہی اس کی بات کاٹ دی ۔۔
میری اجازت ضروری ہے یہ ڈیڈ کی ۔!! آہل کا کیا گیا سوال مرش کو لاجواب کر رہا تھا ۔۔
وہ میں ۔۔ بس
آج کی تاریخ سے اگر تم میری اجازت کے گھر سے باہر اپنے قدم نکالی پھر میں تمہیں بتا دے رہا ہوں دنیا کی رنگینیوں کس بھول جانا ۔۔ آہل کے ایک ایک لفظ میں سچایی تھی ۔۔
آہل کی بات سن کر مرش کی نظر بے ساختہ اس کی جانب اٹھی ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_24
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
آہل ایک بات پوچھو ؟؟ مرش نے آہل چہرہ ایک ٹک دیکھتے ہوے پوچھا !
تمہیں مجھ سے اجازت لینے کی کویی ضرورت نہیں جو پوچھنا ہے پوچھو ۔۔ آہل نے ایک ٹھنڈی پرسکون سانس لیتے ہوے کہا ۔
تمہارا رویہ ڈیڈ کے ساتھ ایسا کیوں ہے ۔۔ ساری ہمت مجتمع کر کے ذین میں کب سے گج مج کرتے سوال کو مرش نے پوچھ لیا ۔
کیوں کی مجھے ان سے نفرت ہے ۔۔ آہل نے بے حد عام سے انداز میں جواب دیا۔
دیکھو آہل وہ بہت اچھے ہیں اب تم انہیں کچھ نہیں کہوں گے “” تمہیں جو کہنا ہے مجھے کہنا جو کرنا میرے ساتھ کر لینا “” لیکن پلیز اپنا رویہ ان کے ساتھ دروست رکھو ۔۔۔ انجانے میں ہی مرش نے بہت کچھ بول دیا تھا ۔
ایک بے خود خوبصورت مسکراہٹ آہل شاہ آفندی کے لبوں پر رقص کرنے لگی ۔۔
جو کرنا ہوگا تمہارے ساتھ کر لوں ۔۔ مرش کا ہاتھ پکڑ کر آہل نے اسے اپنی طرف کھینچا جس سے وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی آہل کے کسرتی سینے سے آ لگی ۔۔
میرا وہ مطلب نہیں تھا ۔۔ مرش نے اپنی لرزتی پلکیں اوپر کی جانب اٹھاتے ہوے کہا ۔۔
تو کیا مطلب تھا ! آہل کا پورا ارادہ اب مرش کو تنگ کرنا تھا ۔۔
آہل پلیز جانے دو ! مرش نے آہل شاہ آفندی کی باہوں میں کسمساتے ہوے کہا ۔
جانے دوں گا پہلے “مطلب “تو بتا دو۔ مرش کے گالوں پر رقص کرتی زلفوں کو آہل نے پیچھے کرتے ہوے کہا ۔۔
تم جیسا سوچ رہے ہو میرا وہ والا مطلب نہیں تھا ۔۔ مرش کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اب کس طرح پیچھا چھڑواے ۔ اپنے بولے گیے الفاظ مرش کو ہی مہنگے پڑ گیے تھے ۔۔
ٹھیک ہے میں بتا دیتا ہوں مطلب ۔۔ مرش کو خود سے اور قریب کرتے ہوے آہل نے بے حد شرارتی انداز میں کہا ۔۔
کیا بتاوگے !! مرش نے پھٹی پھٹی نظروں سے آہل کو دیکھتے ہوے کہا ۔۔
یے آہل شاہ آفندی نے اپنے سرخ لب مرش کے ڈمپل پڑتے گال پر رکھ دیا ۔۔
لمحہ بھر کو مرش کی سانس تھم سی گیی زندگی میں پہلی بار وہ کسی شخص کے اتنا قریب ہویی تھی لیکن آہل شاہ آفندی کویی نہیں اس کا شوہر تھا اس کا مجازی خدا تھا ۔۔۔
آہل !! مرش نے آہستہ آہل کو پکارا !
بولو جان آہل ۔۔ آہل کا خوشی سے دمکتا چہرہ دیکھ کر ایسا لگتا تھا آج سے پہلے اسے اتنی خوشی محسوس ہی نہیں ہویی تھی ۔۔
یے کیا کر رپے ہو ؟ مرش کا سوال بے معنی تھا ۔
رومینس ! جواب حاضر تھا ۔
پلیز جانے دو مجھے ۔۔مرش نے جھجکتے ہوے کہا کیا تھا مرش کے چہرے پر شرم حیا محبت نفرت کچھ بھی تو نہیں وہ خود سمجھنے سے قاصر تھی آہل شاہ آفندی سے دور کیوں نہیں ہو پا رہی ۔۔
آہستہ آہستہ اپنے سرخ لبوں کو آہل مرش کے لرزتے لبوں کے پاس لے گیا آج وہ آہل شاہ آفندی کہیں گم ہو گیا تھا کھڑوس سا خودسر سا لیکن یے آہل شاہ آفندی تو کویی اور ہی تھا ۔۔
چھوڑو مجھے مرش یکدم سے دور ہویی اپنے ارد گرد نظرویں دوڑایی تو ایک حیرت کا شدید جھٹکا لگا اس کا دوپٹہ تو تھا ہی نہیں اچانک اس کی نظر زمین پر رقص کرتے اپنے دوپٹے پر پڑی مرش نے فورن جھک کر اپنا دوپٹہ اٹھانا چاہا ۔۔
آرام سے ویسے تمہارے جسم کا باقی حصہ بھی خوبصورت ہے !! آہل کے زبان سے نکلے الفاظ مرش کے چہرہ کا رنگ اڑانے کے لیے کافی تھے ۔۔
بکواس بند کرو ۔۔ مرش فورن سیدھی ہویی لال لیکن شرم و حیا کی وجہ سے کان کی لویں تک سرخ ہو گیی تھی ۔۔
سویٹ ہارٹ ایسا کیا دیکھ رہی ہو تعریف کر رہا ہوں تمہاری کچھ غلط کہا کیا میں نے ۔۔ آہل نے معصوم بننے کی ساری حدیں پار کر دی تھی ۔۔
مرش کی نظر بے ساختہ آہل کے چہرہ پر اٹھی اس کی نگاہیں آہل شاہ آفندی کے چہرہ کا یوں طواف کر رہی تھی جیسے اس سے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا ۔۔
گھٹیا انسان میں جا رہی ہوں !! مرش صوفے سے اٹھ کر فورن کمرے سے نو دو گیارہ ہو گیی ۔۔
بات تو سنو ۔آہل نے اس کو روکنا چاہا ۔
لیکن مرش تو کب کی جا چکی تھی ۔۔
یا اللہ یے مجھے کیا ہو گیا ہے میں اس کے اتنے قریب کیسے جا سکتی ہوں اس شخص کے سامنے میں ہار کیوں جاتی ہوں ۔ ۔۔مرش نرم گزار گھاس پر ننگے پاوں آہستہ آپستہ چل رہی تھی دونوں بازوں سینے پر باندھے وہ مسلسل آہل شاہ آفندی کے بارے میں سوچے جا رہی تھی اس کی تپیش دیتی نگاہیں اس کا غصہ پھر ایک پل میں اس کا محبت بھرا لہجہ یے شخص تو بلکل دھوپ چھاو کی طرح ہے ۔۔۔
مرش تم اس وقت یہاں ؟ بریرہ فون ہاتھ میں لیے باہر لان میں ٹہلتی مرش کو دیکھ وہاں آ گیی ۔۔
ہاں وہ واک کرنے آیی تھی ۔۔ مرش نے مسکراتے ہوے بڑی صفایی سے جھوٹ بولا تھا ۔۔
چلو بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں ۔۔بریرہ مرش کا ہاتھ پکڑے لان میں رکھی کرسیوں کے پاس لے آیی ۔۔۔
مرش بھایی کا غصہ اب کیسا ہے ؟ بریرہ نے تھوڑا خفیف سے انداز میں آہل کے متعلق پوچھا ۔۔
غصہ وصہ کچھ بھی نہیں وہ صرف ایکٹینگ کرتا ہے میرے سامنے تو بھیگی بلی بن کر بیٹھ جاتا ہے ۔۔ مرش نے اتراتے ایک ایک لفظ حرف زبانی بیان کر دیا جس کو وہ ذہن پر کب سے نقش کیے بیٹھی تھی ۔۔۔۔
سچی !!! بریرہ کا منھ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا ۔۔
ہاں تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں ابھی آج ہی کی بات ہے معافی مانگ رہا تھا مجھ سے ویسے تمہیں تو پتہ ہی ہے میں کہاں کسی کو اتنی اسانی سے معاف کرتی ہوں لیکن بے چارا ہاتھ جوڑ جوڑ کر اتنی منتیں کر رہا تھا میں نے کہا چلو ٹھیک ہے معاف کیا ۔۔ مرش نے آنکھ پٹپٹاتے ہوے آہل کا وہ اسکیچ کھینچا جس شاید خوابوں میں بھی نہیں سوچا جا سکتا تھا ۔۔
لیکن بھایی نے تو کبھی کسی سے معافی نہیں مانگی !! بریرہ نے ایک بار پھر سے بے یقینی ظاہر کی ۔۔
مجھ سے مانگ لیا نہ دراصل تمہارا بھایی ایک نمبر کا ڈرپوک انسان ہے کہہ رہا تھا مرش مجھے معاف کر دو ورنہ میں پوری زندگی خود کو معاف نہیں کر پاوں گا ۔۔
مرش !! بریرہ نے مرش آہستہ سے پکارا لیکن مجال ہے جو مرش کو زبان کو بریک لگ جاے ۔۔
اور تمہیں ایک مزے کی بات بتاوں بے چارا زمین پر سوتا ہے کہتا ہے میں تمہارے لیے ہر تکلیف برداشت کر سکتا ہوں ۔۔ مرش اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی اس بات سے بے خبر کی کویی اس کے پیچھے کھڑا ہو کر بڑے مزے اس کی باتوں کو انجواے کر رہا تھا ۔۔
مرش بھایی !! بریرہ نے ڈرتے ڈرتے مرش کو پھر سے کچھ بتانا چاہا لیکن مرش جیسے ہوا میں اڑ رہی تھی آج اسے ایسا موقع ملا تھا جس کی تلاش اسے شدت سے تھی ۔۔
بریرہ ایک سکریٹ کی بات بتاوں تمہارے بھایی کا تو ہزاروں لڑکیوں سے افیر بھی ہے آدھی رات کو کالز پے کالز آتی رہتی ہے پوری رات لڑکیوں سے باتیں کرنے میں گزار دیتا ہے لیکن پلیز کسی سے مت کہنا یے سکریٹ میں نے صرف تمہیں ہی بتایا ہے ۔۔
اچھا ٹھیک ہے نہیں کہوں گی لیکن پلیز اب چپ ہو جاو ۔۔ بریرہ نے اب آواز میں تیزی لاتے ہوے کہا مرش کی چلتی زبان کو ایک لمحے میں بریک لگا تھا ۔۔
مرش پیچھے پیچھے بھایی !! بریرہ اس سے پہلے کچھ کہتی مرش نے فورن گردن گھما کر دیکھا جہاں آہل شاہ آفندی کا نام و نشان نہیں تھا ۔۔
تمہارا کہنا ہے تمہارا بھایی میرے پیچھے کھڑا تھا ۔۔ مرش نے ہنستے ہوے بریرہ کا مزاق اڑایا ۔۔
مرش میں جھوٹ نہیں بول رہی یار وہ تھے ابھی ابھی گیے ہے ۔۔بریرہ نے گھبراتے ہوے مرش کو یقین دلانا چاہا ۔۔
ہا ۔۔ہا۔ ۔ہا ۔۔مجھے لگتا ہے تمہیں نیند آ رہی ہے پتہ نہیں کیا کیا بولے جا ہی ہو چلو جا کر سو جاو میں بھی جا رہی ہوں سونے ۔۔ مرش نے اٹھتے ہوے کہا ۔۔
گڈ نایٹ مرش ۔۔ بریرہ بے چاری کے پاس الفاظ نہیں تھے وہ کیا بولے اس کے لیے سو جانا ہی بہتر تھا ۔۔۔
گڈنایٹ ۔۔مرش کی مسکراہٹ میں ایک عجیب سی چمک تھی انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی آج اس نے آہل شاہ آفندی کو دل کھول کی ذلیل کیا تھا دل کو تھوڑا سکون محسوس ہو رہا تھا ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Eposode_25
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
صبح میں پرندوں کی چہچہاہٹ شروع ہو چکی تھی ہلکی دھوپ کی کرن آہل شاہ آفندی کے کمرے کا طواف کر رہی تھی ۔۔
آہل کی آنکھ اپنے مقرر وقت کے مطابق کھلی تھی اپنے بازوں پر اسے کسی نرم ملایم ہاتھ کی تپش محسوس ہویی اس ذرا ترچھی نظر کر کے دیکھا تو مرش اس سے بس کچھ فاصلے پر تھی دوپٹہ آدھا سینے پر آدھا زمین پر رقص کر رہا تھا ۔۔ ایک ہاتھ سینے کے نیچے رکھا تھا دوسرا آہل کے کاندھے پر تھا ۔۔
صدقے !! آہل کے لبوں پر بے حد خوبصورت مسکراہٹ مچل گیی اس نے ہاتھ بڑھا کر مرش کا ہاتھ ہٹانا چاہا ۔۔ مرش کو اپنے ہاتھ پر کسی کی کے انگلیوں کے لمس محسوس ہوے اس نے فورن آنکھ کھول کر دیکھا آہل اس کے اوپر تھوڑا سا جھکا ہوا تھا ۔۔
گھٹیا انسان کیا کر رہے ہو تم میرے سونے کا فایدہ اٹھا رہے ہو ۔۔ مرش ایک لمحہ لگا تھا سب کچھ سمجھنے میں ۔۔
گڈ مارنگ میسیز آہل ! آہل اب بھی اس کے اوپر یوں ہی جھکا ہوا تھا ۔۔۔
دیکھو دور رہو مجھ سے ۔ مرش اپنے دونوں ہاتھوں سے آہل کو پیچھے کی اور دھکا دینے کی جوڑ توڑ کوشش کر رہی تھی لیکن آہل مجال ہے جو ٹس سے مس بھی ہو ۔۔
ویسے مجھے نہیں پتہ تم راتوں رات مجھ سے رومینس بھی کرتی ہو ۔۔ آہل اس کی زلفوں کو کان کے پیچھے لے جا کر مسکرا کر کہا ۔۔
کیا مطلب تمہارا ؟مرش کی دماغ میں فورن خطرے کی گھنٹی بجی تھی ۔۔
اب جھوٹ نہ بولو تمہارا ہاتھ میرے کاندھے پر کیا کر رہا تھا میرے خیال سے تم رومینس کرتے کرتے سو گیی تھی ۔۔ آہل نے لفظ رومینس پر زور دیتے ہوے کہا۔
تمہیں لگتا ہے میں نے جان بوجھ کر تمہارے اوپر ہاتھ رکھا تھا ۔۔ مرش ابھی بات کی تحقیق کر رہی تھی کیوں کی اس کی سمجھ سے باہر تھا آہل اس وقت کہہ کیا رہا ہے ۔
آف کورس ۔۔ آہل اس کے اوپر سے ہٹتا ہوا بے فکری سے بولا ۔۔
مجھے تو لگتا ہے تم نے زبردستی میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے اوپر رکھا ہوگا ویسے بھی تم تو ہو ہی گھٹیا ۔۔ مرش نے نظریں چراتے ہوے سارا الزام آہل کے سپرد کر دیا ۔۔
ہا ہا ہا ۔۔ الزام تراشی کرنا کویی تم سے سیکھے ۔۔ آہل مرش کا مزاق یوں اڑا رہا تھا جیسے اس سے زیادہ آج سے فنی بات کبھی ہویی ہی نہیں ۔۔
ہاں تو غلطی سے گیا ہوگا میرا ہاتھ تمہیں زیادہ خوشفہمی پالنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ مرش نے آخر اپنا جھوٹ قبول کر ہی لیا تھا ۔۔
کاش ایسی گستخای ہر روز ہوجان مزا ہی آ جاے گا ۔۔ آہل دل پر ہاتھ رکھ کر مزے سے بول رہا تھا ۔۔
اپنی بکواس بند کرو ۔۔ مرش نے کھا جانے والی نظروں سے آہل کو دیکھا ۔۔
ٹھیک ہے جیسا تم کہو ۔۔۔۔ آہل شریر مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھ گیا واڈروب کھول کر ابھی وہ ٹاول ہاتھ میں لیے اندر کطچھ کھنگال رہا تھا عین اسی وقت مرش پر سے کودنے والے انداز میں نیچے اتری ۔آہل حیرت زدہ نظروں سے مرش کی بیوقوفی دیکھ رہا تھا آخر یے کر کیا رہی ہے ۔۔
مرش کی ہاتھ تیزی سے کام کر رہے تھے اس کا ارادہ تھا آج وہ پہلے شاور لے گی ہمیشہ آہل شاہ آفندی لیتا ہے لیکن آج وہ اس کی جیت ہوگی ۔۔
یے کیا سمجھتا ہر کام میں یے سب سے پہلے رہے گا ہمم ۔۔مرش ایک اچڑتی نگاہ آہل پر ڈال کر سوچ رہی تھی ۔۔
تم ٹھیک تو ہو ۔۔ آہل اس کے آنکھوں کے سامنے اپنا ہاتھ لہرا کر پوچھ رہا تھا ۔۔
مجھے کیا ہونا ہے میں بلکل ٹھیک ہوں ۔۔ مرش سرسری سا جواب دے کر جلدی جلدی اپنی ضرورت کی چیز ہاتھ میں لے رہی تھی ۔۔
اس پہلے کی مرش واشروم کی جانب اپنے قدم بڑھاتی آہل اس کا ارادہ بھانپ چکا تھا ۔۔ اوہ تو یے معاملہ ہے ۔۔ آہل کی مسکراہٹ اور بھی گہری ہو گیی تھی ۔۔
آہل نے فورن اپنے قدم واشروم کی جانب بڑھاے لیکن اس سے پہلے آہل اندر جاتا مرش اس کے راستے میں آ کر کھڑی ہو گیی ۔۔
آگے سے ہٹو مجھے شاور لینا ہے ۔۔ آہل نے تھوڑی سختی دکھانی چاہی ۔۔
آج میں پہلے شاور لوں گی سمجھے ۔۔ مرش دونوں بازوں سینے پر باندھے دو ٹوک لہجے میں بولی ۔۔
میں پہلے لوں گا شاور مجھے آفس کے لیے لیٹ ہو رہا ہے ۔۔ آہل ایک ایک چباتے ہوے کہا ۔۔
پہلے میں لوں گی ۔۔
پہلے میں لوں گا ۔۔
اوہ بریرہ دروازے پر کیوں کھڑی اندر آو ۔۔مرش سایڈ سے گردن نکال کر آنکھیں پٹپٹا کر ایکٹنگ کرنے میں مگن تھی ۔۔
بریرہ ۔۔آہل بغیر کچھ سوچے سمجھے پیچھے کی اور مڑا جہاں بریرہ تو دور بریرہ کا نام و نشان نہیں تھا ۔۔
ہا ہا ہا ۔دیکھا آج میں جیت گیی مسٹر آہل ۔۔ مرش قہقہ مار کر ہنستے ہوے فورن واشروم میں گھس گیی ۔۔
ایک لمحے میں آہل کو سمجھ آ گیا تھا مطلب وہ فول بنایا گیا ہے ۔کویی بات نہیں مرش میڈم جیت کس کی ہویی ہے یے اندازہ نہیں ہے تمہیں ۔۔ آہل نے ایک نظر بند دروازے پر ڈالی اور واپس صافے پر آ کر بیٹھ گیا ۔۔
آہل ۔۔۔ اندر سے مرش تیز تیز آواز میں آہل کو پکار رہی تھی اس لیے کی دیکھوں ہے کی نہیں بے چارہ کہیں چلا ہی نہ گیا ہو ۔۔
آہل ۔۔ اپنا نام آہل کو بہ خوبی سنایی دے رہا تھا لیکن اس کا تو ارادہ ہی کچھ اور تھا ۔۔ بنا کچھ بولے وہ اسی طرح بیٹھا ہوا تھا ۔۔
شکر ہے چلا گیا بے چارہ آج اسے پتہ چل گیا ہوگا آخر مرش بھی کویی چیز ہے ۔۔ اتنی ہی دیر میں مرش اپنی تعریف کے حوالے سے ایک سو ایک ناموں سے نواز چکی تھی خود کو ۔۔
براون کلر کا کپڑا زیب تن کیے وہ حد سے زیادہ پیاری لگ رہی تھی ۔بالوں سے گرتی ننھی ننھی بوندیں اس کے حسن کو چار چاند لگا رہی تھی ۔۔
آہستہ آہستہ دروازہ کھول کر تھوڑی سے گردن باہر نکال کر دیکھا ایک بار خود کو تسلی بھی تو دینی تھی آہل شاہ آفندی واقعی روم سے باہر چلا گیا ۔۔۔
یہ اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے چلا گیا ۔۔ مرش کے لبوں سے شریر مسکراہٹ ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔
لیکن یے کیا یے تو آہل شاہ آفندی تھا جو جن کی طرح اس کے سامنے حاضر ہوا تھا وہ بھی بغیر شرٹ کے اس کا کسرتی مضبوط سینہ صاف نظر آ رہا تھا ۔۔
مرش کی سانس اوپر کی اوپر نیچے کی نیچے ہی اٹکی رہ گیی ۔۔ آنکھیں پھاڑے وہ اپنے سامنے کھڑے شخص کو ایک ٹک دیکھ رہی تھی ۔ ۔
ت۔۔ت۔ ۔تم گیے نہیں تھے کیا ۔۔ مرش نے خشک پڑتے گلے کو تر کرتے ہوے پوچھا ۔۔
ہششش۔ ۔ آہل مرش کے کپکپاتے لبوں پر اپنی شہادت کی انگلی رکھ کر تھوڑا اور آگے بڑھا ۔۔
آ۔ ۔ آ۔ ۔آہل وہ میں تو بس مرش نے فورن آہل سے دو قدم پیچھے ہویی ۔۔
بیوٹیفل ۔۔ آہل کی انگلی ابھی بھی مرش کے لبوں پر تھی ۔آہل دھیرے دھیرے مرش کی اور اپنا قدم بڑھا رہا تھا ۔۔ اس کے بر عکس مرش اپنے قدم پیچھے کی اور لے جا رہی تھی ۔۔
آہل پلیز جانے دو ۔۔ مرش آہل شاہ آفندی اتنے قریب تھی کی اس کے لو دیتے اشاروں کو بہ خوبی سمجھ رہی تھی ۔۔
پیچھے جانے کا راستہ ختم ہو چکا تھا مرش کا دیوار سے جا لگا اس نے فورن اس جگہ کو آنکھیں گھما گھما کر دیکھا یے کویی اور جگہ نہیں بلکی یے تو وہی واشروم تھا ۔۔
آہل پلیز مجھے جانے دو ۔۔ مرش کا ہاتھ بے ساختہ آہل شاہ آفندی کے مضبوط چوڑے سینے سے جا لگا ۔۔
جیت اس کی ہوتی ہے جس کو انجام کا خوف نہ ہو لیکن تم تو بہت ڈر رہی ہو ۔۔ آہل اس کی کمر میں اپنا بازوں حایل کرتا خود سے اور بھی قریب کر لیا ۔۔
وہ ۔۔وہ م۔۔میں نے صرف مزاق کیا تھا ۔۔ مرش بہ مشکل اپنا جملہ مکمل کر رہی تھی ۔۔
مجھے مزاق پسند نہیں ہے جان ۔۔ آہل نے اس کے کانوں میں دھیرے سرگوشی کی۔۔
وہ دونوں عین شاور کے نیچے کھڑے تھے ۔۔ آہل نے ایک ہاتھ بڑھا کر ٹیپ کو گھمایا ۔۔۔ اچانک ٹھنڈا یخ پانی زورو شور سے نیچے گر کر ان دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔ سانسوں کو جینے کا اشارہ مل گیا
۔۔۔۔ڈوبا میں تجھ میں تو کنارہ مل گیا
۔۔۔ تو ملا تو خدا کا سہارا مل گیا
۔۔۔۔ غم زدہ ” غم زدہ ” دل یے تھا غم زدہ
مرش کا پورا وجود پانی سے گیلا ہو چکا تھا ۔۔اس کے جسم کے باقی حصے صاف نمایاں ہو رہے تھے ۔۔۔ آہل نے ہاتھ بڑھا کر ٹیپ بند کر دیا سایڈ میں ہینگ کیا ٹاول مرش کی جانب اوچھال دیا ۔۔ مرش نے اپنی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولی جہاں آہل شاہ آفندی ٹاول کے ذریعے ہلکے ہلکے اپنے بالوں کو سکھا رہا تھا ۔۔
تم میری سوچ سے بھی زیادہ خوبوصورت ہو سویٹ ہارٹ ۔۔ آہل اس کو اوپر سے نیچے تک اپنی جازب نظروں کے حصار میں لیا ۔۔
بکواس بند کرو ذلیل انسان ۔۔۔ مرش کی آنکھوں میں آنسوں آ گیے تھے شاید اپنی بے بسی پر ۔۔
سو بیو ٹیفل ۔۔ آہل ایک آخر فقرہ مرش کی جانب اچھال کر واشروم سے باہر چلا گیا ۔۔
کچھ دیر بعد مرش واشروم سے باہر نکلی لیکن آہل کب کا جا چکا تھا ۔۔ آینے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ اپنے گیلے بالوں کو سلجھا رہی تھی جبھی اس کے موبایل کی میسیج رنگ ہویی ۔۔
مرش نے برش رکھ کر موبایل ہاتھ میں اٹھایا سامنے نیو نمبر سے میسیج پوری آبوتاب سے چمک رہا تھا ۔۔
گڈ مارنگ ۔۔ مرش نے میسیج دہرایا ۔۔
کون ؟ مرش نے ذہن میں آتے سوال کو موبایل پر تحریر کر کے سینڈ کیا ۔۔
جان من تمہارا بہت قریبی !! جواب فورن موصول ہوا ۔۔
گھٹیا انسان کون ہو تم ۔۔مرش نے غصے سے ٹایپ کر کے پوچھا ۔۔
لیکن اب جواب ندارد تھا ۔۔ مقابل آف لاین ہو چکا تھا ۔۔
مرش نظر انداز کر کے پھر سے
گڈ مارنگ ۔۔ آہل تیار ہو کر ہر روز کے مطابق آج بھی آہستہ سے گڈ مارنگ کرتا چییر پر بیٹھ گیا ۔۔
گڈ مارنگ ۔۔ سب نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔
کالج جانا ہے تمہیں ؟؟ آہل اب بریرہ کی جانب متوجہ ہوا ۔۔
جی بھایی جانا ہے ۔۔ بریرہ نے ہاں میں گردن ہلایی ۔۔
اوکے ۔۔ آہل پھر سے ناشتے کی طرف متوجہ ہو گیا ۔۔
اسلام علیکم مام ڈیڈ اینڈ مایی بیسٹ فرینڈ ۔۔مرش بریرہ کے گلے کر خوشی سے چہکی ۔۔
وعلیکم اسلام بیٹا ۔۔ مریم بیگم جاوید صاحب نے خوشی خوشی جواب دیا ۔۔
مرش نے ایک اچٹتی نظر آہل پر ڈالی جو بغیر کسی کی طرف دیکھے ناشتے میں مصروف تھا ۔۔
ڈیڈ ؟؟ مرش نے جاوید صاحب کو مخاتب کیا ۔۔
جی بیٹا ۔۔
میں کالج جانا چاہتی ہوں ۔۔ مر۔ش نے آخر وہ بات اپنی زبان پر لے ہی لایی جس کو کیی روز سے سوچے بیٹھی تھی ۔۔
ہاں تو مسلہ کیا ہے ! آپ جاو ضرور ۔۔ جاوید صاحب نے اپنی طرف سے پوری اجازت دے دی تھی اس کو سوچے بغیر آہل کا کیا رییکشن ہوگا ۔۔
آہل کا گلاس کی طرف بڑھتا ہاتھ فورن رک گیا ۔۔ دل کر رہا تھا مرش کے گال پر ایک دو تھپڑ رسید کر دے ۔۔
جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا اب چپ چاپ گھر بیٹھو ۔۔ آہل نے مرش کو گھور کر اپنے اپنے ہونے کا یقین دلایا ۔۔
لیکن میں پڑھنا چاہتی ہوں ڈیڈ ۔۔مرش آہل کو یکسر نظر انداز کر کے جاوید صاحب سے مخاتب ہویی ۔۔
اس کی پڑھایی مکمل تو ہو جانے دو آہل بیچ میں پڑھایی چھوڑ کر کیا فایدہ ۔۔ جاوید صاحب مرش کی حمایت میں بولے ۔۔
اور پڑھ کر کیا فایدہ ہے جب ایک بار کہہ دیا نہیں پڑھنا تو نہیں پڑھنا میں بحث کرنے کا قایل نہیں ہوں ۔۔ آہل نے اپنی سرد آواز کے ساتھ مرش کو ایک ایک لفظ سے باور کرایا ۔۔
آہل تم آفس چلے جاتے ہو بریرہ کالج آخر مرش گھر میں بیٹھ کر کیا کرے گی بور ہو جاتی ہے میں چاہتا ہوں تم دونوں ہنی مون پر جاو مرش کو اپنا وقت دو تھوڑا ۔۔ جاوید صاحب نے بڑے تحمل کے ساتھ آہل سے کہا ۔۔
ہنی مون پر ہمیں کب جانا ہے یے میں خود ڈیسایڈ کر لوں گا فلحال میرا کویی موڈ نہیں ہے جانے کا اور تم اپنی فضول کی خواہشات کو قابو میں رکھا کرو ۔۔ آہل چییر سے اٹھ کر مرش کو کھا جانی والی نظروں سے گھورا ۔۔
چلو بریرہ ۔۔ آہل باہر جا چکا تھا پیچھے اس کے اپنے کن نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے اسے اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں تھی ۔۔
ارے واہ آج تو عید کا چاند نظر آیا ہے ۔۔فارس آہل کو پورے دو دن بعد دیکھ رہا تھا ۔۔
سدھرے گا نہیں تو ۔۔ آہل اس کے پیٹھ پر ایک زور دار کک مارتا چییر پر بیٹھ گیا ۔۔
آج کیسے آفس آ گیا مجھے تو لگا تھا آج بھی تو نظر نہیں آنے والا ۔۔ فارس نے مسکراتے ہوے اس کا مزاق اڑایا ۔۔
بریرہ کو کالج ڈراپ کر کے سیدھا یہی پر آ گیا ہوں اگر تجھے پتہ ہو تو میں کل بھی آیا تھا لیکن تو دو دن سے عید کا چاند بن کر بیٹھا ہے ۔۔ آہل ایک ایک کر کے سارا حساب کلییر کیا ۔۔
یار بھابھی کی کیا حال ہے تیرے تو مزے ہی مزے ہونگے ۔۔ فارس نے آنکھ مار کر آہل کو تنگ کرنا شروع کر دیا تھا ۔۔
بس ٹھیک ہی ہے تیری بھابھی ۔۔ آہل کی آنکھوں کے سامنے مرش کا غصہ کرتا چہرہ لہرایا ۔۔ اچانک اس کے لبوں پر مسکراہٹ نے احاطا کیا ۔۔
یار مجھے بھابھی سے ملوا اسپیشلی مجھ سے اکیلے میں ملوا آخر میں بھی تیرا کچھ لگتا ہوں ۔۔فارس نے منھ پھلاتے ہوے ایکٹنگ کی ۔۔
اچھا بابا ملوا دونگا پہلے کام تو کر لیں ۔۔ آہل فارس کو تسلی دے کر کام میں مصروف ہو گیا ۔
امی میرا آنے کا دل کر رہا ہے ۔۔ مرش فون پر فایزہ بیگم سے اپنے روم میں بیٹھ کر باتیں کرنے میں مصروف تھی ۔۔
بیٹا آہل کہہ رہا تھا وہ کام سے پھری ہو جاے گا تو تمہیں ساتھ لے کر آے گا ۔۔
کیا اس نے ایسا کہا ہے ۔۔ مرش نے حیرت سے پوچھا ۔۔
مرش یہ ” اس ” کیا ہوتا ہے ۔۔ میں نے تمہیں سمجھایا تھا نہ اس کی عزت کیا کرو شوہر ہے تمہارا ۔۔ فایزہ نے مرش کو تنقید کی ۔۔
اچھا امی سوری ۔۔مرش نے منھ بناتے ہوے معافی مانگی ۔۔
ایک تو تمہیں اتنی دنوں بعد اپنی ماں کی یاد آیی ہے تم سے زیادہ تو آہل میرا خیریت پوچھ لیتا ہے ہر روز فون کرتا ہے اللہ میرے بچے کو صحت دے ۔۔ فایزہ بیگم نے آہل کو دل سے دعا دی ۔۔
کیا ۔۔!! یے شخص کتنا رنگ بدلتہ ہے پہلے تو مجھے میرے ہی ماں باپ سے نہیں ملنے دیتا اور ان کی اتنی فکر بھی کرتا ہے ۔۔مرش کو سوچ سوچ کر حیرت ہو رہی تھی ۔۔
اچھا امی میں فون رکھتی ہوں اپنا خیال رکھیے گا بابا کو میرا سلام کہیے گا ۔۔ مرش فایزہ بیگم سے الوداعی کلمات لیتے ہوے فون بند کر دی ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_26
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
مام آپ یہاں کیا کر رہی ہے ؟ فایزہ بیگم سے بات کرنے کے بعد مرش سیدھا بارچی خانے میں آ گیی تھی اپنے لیے اپنے ہاتھوں سے اسپیشل کافی بنانے کے لیے لیکن مریم کو بیگم کو وہاں کھڑا دیکھ کر پوچھ بیٹھی ۔۔
بیٹا میں تمہارے بابا کے لیے چاے بنا رہی ہوں انہیں میرے ہاتھ کی چاے بہت پسند ہے ۔ مریم بیگم نے مسکرا کر جواب دیا ۔
آپ ہٹیں میں بنا دیتی ہوں ۔ مرش نے آگے بڑھتے ہوے کہا ۔۔
ارے نہیں نہیں میں لیتی ہوں بیٹا آپ جا کر آرام کرے ۔۔ مریم نے محبت بھری شفقت سے کہا ۔۔
مام آپ اتنی اچھی ہے اتنی محبت کرنے والی مجھے رو بلکل اپنی امی کی طرح لگتی ہے ۔۔ مرش کو اس پورے گھر میں مریم بیگم سب سے زیادہ اچھی لگتی تھی ۔۔
مایں اپنے بچوں سے اسی طرح پیار کرتی ہے بیٹا ۔۔ مریم بیگم نے چولہے پر چاے کا پانی چھڑاتے ہوے کہا ۔
تو پھر بچے کیوں نہیں کرتے آہل بھی تو آپ ہی کا بچہ ہے اس کا رویہ آپ کے ساتھ ایسا کیوں ہے ؟ مرش اتنے دنوں میں جان چکی تھی آہل شاہ آفندی کا رویہ اپنی ماں کے ساتھ کیسا تھا لیکن کیوں ؟؟
آہل بہت اچھا ہے مرش بس غصہ کا تھوڑا تیز ہے ورنہ مجھے تو لگتا ہے وہ مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے !! مریم بیگم نے نظریں چراتے ہوے بڑی صفایی سے جھوٹ بولا تھا ۔۔
تم یے سب چھوڑو کیا باتیں لے کر بیٹھ گیی ہو چلو ۔۔مریم بیگم ٹرے ہاتھ میں باورچی خانے سے باہر نکل چکی تھی ۔۔
مرش کال پک کرو !! یے تیسری بیل جا رہی تھی مرش کے فون پر آہل کی کال لیکن اس بار بھی آہل کو ناکامی کا سامنہ کرنا پڑا ۔۔
کال کیوں نہیں پک کر رہی ؟ آہل میٹنگ سے پھری ہونے کے بعد مرش کو تنگ کرنے کے حوالے سے کال ملا رہا تھا لیکن جواب ندارد !
مرش مجھے معاف کر دینا میں جانتا ہوں تم مجھ ناراض ہو تمہارا حق ہے مجھ پر غصہ کرنا لیکن میں نے سب تمہارے لیے کیا تھا تمہیں میں اپنی وجہ سے کویی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا لیکن میں مجبور ہوں مرش میں یے سب کچھ صرف تمہارے لیے کر رہا ہوں کیوں کی میں تمہیں اپنی وجہ کویی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تمہارے اوپر سختی کرنا بھی میری ایک مجبوری ہے لیکن شاید تم کبھی نہیں سمجھو گی ۔۔ مرش کا نام موبایل اسکرین پر پوری آبوتاب سے چمک رہا تھا آہل ایک ٹک اس کے نام پر نظریں جماے اپنی ان خطاوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جو شاید اس نے کیا ہی نہیں تھا ۔۔
مرش کس کی کال ہے بیٹا پک کر لو ۔۔ مریم بیگم نے مرش کا موبایل دیکھ کر کہا ۔۔مرش اپنے ارد گرد سے بے خبر میگزین میں منھ گھساے کچھ پڑھنے میں مگن تھی حالانکی رنگ کی آواز اس کے کان با آسانی سن رہے تھے لیکن آہل شاہ آفندی کا نام پڑھ کر اس نے فورن نظرانداز کرنا شروع کر دیا تھا ۔۔
کسی کی نہیں مام رانگ نمبر ہے ۔۔ مرش نے بناوٹی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر مریم بیگم کو یقین دلایا ۔۔
اچھا یے لو کافی پیو تمہارے ڈیڈ بھی بس آ رہے ہیں ۔۔ کافی کا ایک مگ مرش کو پکڑا کر مریم بیگم صوفے کی ایک وسط میں بیٹھ گیی اتنی ہی دیر میں جاوید صاحب بھی تشریف لے آے ۔۔ اب وہ تینوں گپ شپ کرنے میں مگن تھے ۔۔۔۔
آہل آج آفس سے جلدی آ گیے ؟ آہل شاہ آفندی ایک ہاتھ میں موبایل دوسرے ہاتھ میں کوٹ پکڑے آنکھوں پر بلیک سن گلاسیز ٹکاے وہ بلا کا خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔
بس یوہی آج میں سوچ رہا تھا مرش کو ڈنر پر ساتھ لے کر جاوں ۔۔ جاوید صاحب کے پوچھے گیے سوال پر آہل نے ایک نظر سامنے بیٹھی دشمن جاں کو دیکھ سرسری سا جواب دیا ۔۔
مرش کیا ہو گیا ہے ٹھیک تو ہو تم مرش ایک اچانک س شروع ہونے والی کھانسی سب کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی بریرہ ہاتھ پکڑے بیگ کو صوفے پر اچھالتی مرش کی جانب دوڑی ۔۔
ہا ہاں ۔ ۔۔ میں ٹھیک ہوں بہت شکریہ ۔۔ پانی کا گلاس تھامتے ہوے اس نے گٹ گٹ پانی کا گھونٹ گلے کے نیچے اتارا ۔۔
مجھے لگتا ہے میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے ۔۔ مرش نے اپنا سر پکڑ کر ایک نیا ہھتیار استعمال کیا ۔۔
پین کلر کھاو سہی ہو جاے گا آج رات میں تیار رہنا ۔۔ آہل ایک سرد نظر مرش کی ایکٹنگ پر ڈال کر رہا ۔۔
میں کیسے جاوں گی میرے سر میں درد ہے ۔ ۔۔ مرش کو بے حد غصہ آ رہا تھا اگر وہ نہیں جانا چاہتی پھر کیوں جاے ۔۔
پہلے ڈاکٹر کے پاس چلیں گے اس کے بعد ڈنر پر ۔۔ آہل نے فورن مسلہ کا حل نکالا ۔۔
ڈاکٹر کے پاس کیوں ؟؟ مرش کی زبان یک لخت پھسلی ۔۔
کیوں کی تمہارے سر میں درد ہے ۔۔ آہل نے اسے جتاتی ہوی نظروں سے دیکھا ۔
اچھا ہاں سر میں درد ہے ۔۔ اپنے بولے گیے جھوٹ شکر ہے مرش کو فورن یاد آ گیے ۔
یے تو بہت اچھی بات ہے مرش اس سے تمہاری بوریت بھی ختم ہو جاے گی ۔۔ بریرہ نے خوش ہوتے ہوے کہا۔۔
آ۔ ۔ م۔ میں ایک شرط پر جاوں گی ۔۔مرش معصوم بنتے ہوے مریم بیگم سے مخاتب ہویی ۔۔
آہل نے مشکوک کن نظروں سے مرش کو دیکھا ۔۔
وہ شرط یے ہے کی اگر بریرہ بھی میرے ساتھ جاے گی تو میں جاوں گی ویسے ڈیڈ مام میں تو کہتی ہوں آپ لوگ بھی چلیں ہمیں بہت خوشی ہوگی ہے نہ آہل ؟؟ آنکھیں پٹپٹا کر مرش نے اپنے بنے بناے منصوبے میں آہل کو بھی شامل کرنا چاہا ۔۔
آ۔ ۔ جی ۔۔ آہل کی زبان سے الفاظ بہ مشکل نکل رہے تھے یے لڑکی تو اس کی سوچ سے زیادہ چالاک نکلی ۔۔
نہیں مرش میں ؟ میں کیسے جا سکتی ہوں آیی مین کباب میں ہڈی بن کر میں پھر کبھی چلی جاوں گی فلحال تو تم لوگ جاو ۔۔ بریرہ فورن مرش کی آفر ٹھکرا دی ۔۔
کیسی باتیں کر رہی ہو بریرہ پاگل ہو دیکھو تم جاو گی تو ہی میں جاوں گی ۔۔مرش نے منھ پھلاتے ہوے کہا ۔۔
لیکن میں کیسے ؟؟؟؟ بریرہ بے چاری پھنس چکی تھی ۔۔
ہاں ضرور کیوں نہیں بریرہ ساتھ چلو تم بھی ۔۔ آہل نے خوشی خوشی اپنی پیاری بہن کو بھی شرکت کے کیے مدعو کر چکا تھا اب ظاہر ہے مرش نے اسے اتن مجبور جو کر دیا تھا وہ انکار تو نہیں کر سکتا تھا ۔۔
لیکن میں ؟؟ بریرہ ابھی بھی وہی پر اٹکی ہویی تھی وہ کیسے دو لوگوں کے بیچ ہڈی بن کر ڈسٹرب کرے گی ۔۔
لیکن ویکن کچھ نہیں تمہیں ساتھ چلنا ہے ۔مرش نے ڈپٹتے ہوے کہا ۔۔
اوکے ڈن میں چلوں گی تمہارے ساتھ اب خوش !
بہت بہت بہت زیادہ خوش ۔۔مرش نے فورن بریرہ کے گلے لگ کر خوشی سے جھوم اٹھی ۔۔
آہل نے ایک نظر اس چالاک لومڑی پر ڈالی جس کی آنکھوں میں فتح کی چمک تھی۔ ۔
آو بیٹھو چاے پیو ہمارے ساتھ ۔۔ جاوید صاحب آج بہت اچھے موڈ میں تھے شاید مرش کی وجہ سے اس لیے آج اپنے شہزادے کی ساری بدتمیزیاں بھلا کر چاے پینے کی آفر کر دیے ۔۔
نو تھینکس ۔۔ آہل بے فکری سے جواب دے کر سڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔
ہا ہا ہا سچی زارا وہی تو کچھ لوگ سوچتے ہیں وہ جو کہے گے وہی ہوگا جیسا چاہیں گے ویسا ہوگا لیکن بے چارے کبھی کبھی الٹے منھ زمین پر ایسے پھسلتے ہے کی بس ہا ہا ہا ۔۔ مرش موبایل کان سے لگاے قہقہے مار مار کر زارا سے باتیں کر رہی تھی جبکی سچ تو یے ہے کی زارا کی کال کا نام و نمود نہیں تھا۔۔ بس آہل کا مزاق اڑانے کے لیے اس کو نیچا دکھانے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی تھی ۔۔
آہل صوفے پر ٹانگ پھیلاے سگریٹ ہاتھ میں لیے مرش کی ایک ایک جملے کو بڑی دلچسپی سے سن رہا تھا ۔۔
کیا ۔۔۔ ہاہا ہا ایسے لوگوں کو لگتا ہے وہ خدا ہے وہ کویی دیوتا ہے جو ان کی پوجا کی جاے لیکن سچ تو یے ہے کی ان کی اتنی سے بھی حیثیت نہیں ہوتی ۔۔ مرش آہل کو کن اکھیوں سے ایک ایک منٹ پر دیکھ لیتی تھی ۔۔ اور پھر پھر نیی نیی لاینز سوچ لیتی تھی اس کے آگے کیا بولنا ہے ۔۔
اچھا ٹھیک ہے زارا میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں اپنا خیال رکھنا اللہ حافظ ۔۔مرش موبایل بیڈ پر رکھ کر واڈروب سے کپڑے نکالنے لگی ۔۔
تمہارا فون کہاں تھا ۔۔ آہل نے سرد آواز میں پوچھا ۔۔
میرا فون کہاں ہونا میرے پاس ہی تھا ۔۔ مرش نے عام سے انداز میں جواب دیا ۔۔۔
تو کالز کیوں نہیں پک کر رہی تھی ۔۔ آہل اب سیدھا پواینٹ کی بات کر رہا تھا۔
کس کی کالز ؟ مرش نے انجان بن کر پوچھا ۔
ظاہر ہے میری ۔۔ آہل کو اب غصہ آ رہا تھا ۔۔
کیوں میں تمہاری غلام ہوں جو کالز پک کرو اتنا فالتو وقت نہیں ہوتا میرے پاس اور یے جو تم کر رہے ہو نہ بہت غلط کر رہے ہو آہل بہت غلط تم مجھے تکلیف دینا چاہتے ہو بات سنو میری یے سب چونچلے مجھ سے نہیں ہوتے برداشت بہتر یہی ہوگا آج کے بعد تم اپنی فضول کی خواہشات میرے سپرد مت کرنا ۔۔مرش کے ایک ایک لفظ میں کڑواہٹ گھلی تھی ۔۔
ہو گیا جا کر کپڑے چینج کرو ۔۔ آہل مرش کی باتوں کو یوں نظرانداز کر رہا تھا جیسے اس نے کسی اور سے کہا ہو ۔۔
تم ۔۔۔تم میری بات مرش نے چلا کر کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اس پہلے آہل اس کے منھ پر سختی سے اپنے ہاتھوں سے دبا کر دیوار کے پاس لے گیا ۔۔۔
چینج کر رہی ہو یہ پھر میں کچھ ہیلپ کرواں ۔۔ آہل نے اپنا ایک ہاتھ دیوار پر رکھ کر مرش کے ارد گرد گھیرا بنایا ہوا تھا جہاں سے اسے آزادی ملنی تھوڑی مشکل تھی ۔۔
دور رہو مجھ سے مرش نے ہمت کر کے بس اتنا ہی الفاظ بہ مشکل ادا کیا تھا ۔
ہو گیا دور اب خوش دس منٹ کے اندر اپنا حولیہ دورست کر کے آو ۔۔ آہل نے اپنا ہاتھ پیچھا کھینچ لیا تھا جس مرش فورن اس سے تھوڑا فاصلے پر ہو گیی تھی ۔۔
براون کلر کے سوٹ میں مرش آج ضرورت سے زیادہ ہی اچھی لگ رہی تھی ریڈ کلر کا دوپٹہ اپنے ارد گرد پھیلاے کسی معصوم گڑیا سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔۔ آنکھوں میں کاجل کی ہلکی لکیر لبوں پر تھوڑا سرخی سجاے ہایی ہیل پیر میں ڈالے نک سک سے تیار ہو کر مرش بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔
اس کے بر عکس آہل شاہ آفندی ٹوٹل بلیک تھریپی سوٹ میں ملبوث تھا کیوں کی بلیک کلر اس کا موسٹ فیوریٹ کلر تھا ۔۔
آینے کے سامنے کھڑے ہو کر مرش اپنے سلیقے سے کیے گیے میک اپ کو آخری ٹچ دے رہی تھی جبھی اس کے موبایل پر تین بار میسیج رنگ ہویی ۔۔
آہل کی نظر اچانک بیڈ پر رکھے موبایل پڑی اس سے پہلے کی وہ ہاتھ بڑھا کر موبایل کو ہاتھ میں لیتا مرش نے فورن جھپٹ لیا ۔۔
میری چیزوں کو ہاتھ لگانے کی کوشش بھی مت کرنا ۔۔ کھا جانے والی نظروں سے مرش نے آہل کو دیکھا ۔۔
جان تمہارے دانتوں کے نشان اب بھی میرے ان گنہگار ہاتھوں پر نشان چھوڑ گیے ہے ویسے میں نے اپنا تعاروف نہیں کروایا ۔۔میں علی ! علی شہروز نام تو سنا ہی ہوگا یار قسم سے اس دن کیا غضب کی ڈھا رہی تھی دل کر رہا تھا تمہیں اپنے سنگ اڑا لے جاوں ۔۔ آج کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے باقی کی باتیں بعد میں کریں گے ۔۔ لفظ بہ لفظ مرش نے ایک ایک لفظ پڑھا ویسے ویسے اس کی سانسیں دم توڑنے لگی تھی چہرے پر بارہ بج رہے تھے ۔۔
آیی یو اوکے ! مرش کو اس طرح حواس باختہ دیکھ کر آہل نے پوچھا ۔۔
ی۔ ۔ی۔ یس ایی ایم فاین ۔۔ مرش نے ہکلاتے ہوے بات بنایی ۔۔ لیکن مرش کے چہرے کے تاثرات سے کویی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کویی نہ کویی بات ضرور ہے ۔۔ اوکے میں باہر ویٹ کر رہا ہوں ۔آہل کمرے سے جا چکا تھا پیچھے مرش دم سادھے کھڑی تھی یا اللہ اب یے کون سی نیی آزمایش ہے مجھے بچا میرے مولا ۔۔ مرش کے لرزتے لب فورن اللہ سے دعا گو ہوے ۔۔۔
کہاں پر ہے تو آہل ایک ہاتھ سے ڈرایونگ کرنے کرنے کے ساتھ ساتھ فارس سے کال پر بات بھی کر رہا تھا ۔۔
آج میری طرف سے ٹریٹ لے لے آ جا ۔۔ آہل نے ہنستے ہوے اپنے عزیز دوست کو مدعو کیا ۔۔
اوے ہوے آج تو بڑا خوش لگ رہا ہے ٹھیک ہے آتا ہوں بھابھی سے ملنے ۔۔ فارس نے چہکتے ہوے کہا ۔۔
گاڑی شہر کے مہنگے ترین ریسٹورینٹ کے سامنے جا کر رکی تھی ۔۔
وہ تینوں گاڑی میں سے نیچے اترے مرش مسلسل آہل کو نظر انداز کیے بریرہ سے باتوں میں مگن تھی وہ آہل کو مکمل طور پر فراموش کر چکی تھی ۔۔
واو بریرہ نے ریسٹورینٹ کی تعریف کی یے ایک ایسا ریسٹورینٹ تھا جہاں شاید صرف پیسے والے ہی جا سکتے تھے اندر بلا کی خاموشی تھی ۔۔ دو تین ٹیبلس پر شاید کپلس بیٹھے ہوے تھے ۔۔ اتنی ہی دیر میں فارس بھی آ چکا تھا ۔۔
ہیلو ایوری بڈی !! فارس نے چہکتے ہوے سب کو سلامی کی اچانک اس کی نظر نروس سی بیٹھی بریرہ پر پڑی یے اتفاق تھا شاید آج اتنے دنوں بعد ان کا دیدار عشق ہوا تھا ۔۔
مجھے پتہ تھا تو ضرور آے گا ۔۔ آہل نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ فارس کا مزہ لیا ۔
کیسا نہ آتا ویسے بھی میرے خیال سے اتنی شاندار ٹریٹ کویی پاگل ہی ٹھکراے گا ۔۔ فارس نے کورٹ کی بٹن بند کرتے ہوے کہا ۔۔
مرش یے ہے فارس میرا عزیز دوست ۔۔ آہل نے مسکرا کر فارس کا تعاروف کروایا ۔۔
اسلام علیکم فارس کیسے ہے آپ ؟؟ مرش نے آہل کو یسکر نظر انداز کر کے فارس کو مخاتب کیا ۔۔
وعلیکم اسلام مرش بھابھی بس اللہ کا شکر ہے ۔۔ فارس نے خوشدلی کا مظاہرہ کیا ۔۔
وہ دونوں باتوں میں یوں مگن تھے جیسے ان کے علاوہ اور کویی ہے ہی نہیں ۔۔
ہیلو بریرہ !! خاموش بیٹھی بریرہ کو فارس نے مخاتب کیا ۔۔
ہاے ! بریرہ نے بس مسکرانے پر ہی اکتفا کیا حالانکی گا ہے بگا ہے ایک نظر فارس پر ڈال لیتی تھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ۔۔
فارس آپ اتنے اچھے ہے پھر آپ نے ایسے ایسے لوگوں کو کیوں دوست بنایا ہے ۔۔ مرش نے ایک نظر آہل پر ڈال کر منھ کا زاویہ بگاڑ کر پوچھا ۔۔
میرے خیال سے آپ آہل کی بات کر رہی ہے اگر ایسا ہے تو آپ کی سوچ غلط ہے میرا یار تو بہت ہی دلدار ہے ۔۔فارس نے آہل کو ایک آنکھ مار کر اپنے لفظوں میں تعریف کی ۔۔
اتنی ہی دیر میں سب کی پسند کی ڈشیز آ چکی تھی ویٹر نے ایک ایک چیز کیفایت سے ٹیبل پر رکھا ۔۔
سر اور کچھ ؟ ویٹر دونوں ہاتھ سلیقے سے باندھے نظریں نیچے جھکاے کھڑا تھا ۔۔
نہیں بہت شکریہ ۔۔ آہل نے سرسری سا جواب دیا ۔
اوکے سر ! ویٹر واپس جا چکا تھا ۔
ٹیبل پر بیٹھے سبھی نفوس کھانے میں مصروف ہو چکے تھے ۔۔ ایک چییر پر آہل اس کے سامنے والی چییر پر مرش بیٹھی ہویی تھی اسی طرح فارس کے عین سامنے بریرہ بیٹھی ہویی تھی ۔۔
اوہ ۔۔ مرش کی زبان سے ہلکی سی چینخ برامد ہویی کسی بہت مضبوط جوتے کی نوک اس کے پیروں پر پڑی تھی ۔۔ اب یے شخص مجھے یہاں پر بھی سکون نہیں لینے دے گا ابھی بتاتی ہوں اسے ۔۔۔
مرش نے اپنی ہایی ہیل سے ایک زوردار گھوسا آہل کے پیروں جڑا ۔۔
آہم آہم آہل ابھی اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا بہ مشکل اس نے کھانسا درد کی ایک شدید لہر اس کے پیروں میں اٹھی تھی آخر مرش نے اپنی پینسل جیسی ہیل سے حملہ بولا تھا ۔۔
تو ٹھیک ہے !! فارس نے آہل کو بغور دیکھ کر پوچھا ۔۔
یس ایم فاین ! ایک تیز نظر سامنے بیٹھی مرش پر تیکھی نظر ڈال کر آہل نے کہا ۔
بریرہ کو یوں کھانے میں مگن دیکھ کر فارس نے ایک اور کک مارنا چاہا ۔۔ اس کی سمجھ سے باہر تھا بریرہ کویی رسپانس کیوں نہیں دے رہی لیکن اسے نہیں پتہ تھا وہ گھونسا بد قسمتی سے مرش کو جا لگا تھا ۔۔
فارس نے پھر سے ایک زوردار کک بریرہ سمجھ کر مرش کو جڑ دیا ۔۔
اف !! یا اللہ اس کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہا لگتا ہے ایک گھونسے کی اور ضرورت ہے اسے تو یے لو ۔۔ مرش نے فورن پہلے سے بھی زیادہ تیز کک آہل کے پیروں پر جڑنا چاہا ہاے اس سے پہلے کی آہل کے پیر پھر سے زخمی ہوتے اس نے فورن پیر پیچھے کر لیا ۔۔مرش کا پیر یکدم کسی لوہے سے ٹکرایا درد کی ایک شدید لہر اس کے معصوم پیروں پر گزر رہی تھی ۔۔
مرش کیا ہوا ؟؟ آہل نے اپنی شریر مسکراہٹ دبا کر پوچھا ۔۔
کچھ نہیں ۔۔مرش نے اپنے لب کچلتے ہوے کہا ۔۔
اچھے سے کھانا کھاو ۔۔ آہل نے کھانے کی طرف اشارہ کیا ۔۔
ہمم ۔۔ فارس نے گلا کھنکھار کر بریرہ کو متوجہ کرنا چاہا ۔۔
بریرہ نے فورن نظریں اٹھا کر دیکھا ۔۔
فارس نے نیچے کی جانب اشارہ کیا ۔۔
بریرہ نے نا سمجھی سے گردن ہلایی ۔۔
فارس نے پھر سے ایک کک مارنی چاہی لیکن اس سے پہلے مرش نے فورن نیچے جھک کر دیکھا ۔۔
یا اللہ یے تو فارس ہے لیکن یے مجھے کک کیوں مار رہا ہے ۔۔مرش نے اٹھتے ہوے سوچا ۔۔
میں میں ہوں یار ۔۔ مرش نے شہادت کی انگلی اپنی جانب کر کے فارس کو اشارہ کیا ۔۔
اوہ نو ۔۔ فارس ایک لمحے کے لیے ہل ڈول نہیں سکا ۔۔۔
آہل ہر چیز سے بے خبر ٹشو سے اپنی پوروں کو صاف کر رہا تھا جبھی اس کی نظر لاسٹ ٹیبل پر بیٹھے شخص پر پڑی جو بڑی دلچسپ نگاہوں سے انہی کو دیکھ رہا تھا ۔۔
یے گھٹیا انسان یہاں پر کیا کر رہا ہے ۔۔ آہل نے سوچ کن نظروں سے علی شہروز کو دیکھا ۔۔۔
یاے آہل !! علی بنا تاخیر کیے چل کر آہل کے ٹیبل پر آ دھمکا ۔۔
مرش نے نظریں اوپر کی جانب اٹھا کر دیکھا ایک لمحے کو لگا تھا آج اس کا آخری دن ہے مرش کی ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمک رہی تھی ۔۔ اوہ میرا خدایا یے کمینہ انسان یہاں پر کیا کر رہا ہے کہیں یے میرے لیے تو نہیں آیا اس کے میسیج ۔۔ مرش کا ڈرنا بلاوجہ نہیں تھا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا یہاں پر علی بھی ہو سکتا ہے ۔۔
یہاں پر کیا کر رہا ہے تو ۔۔ آہل دبے لفظوں میں غرراتے ہوے پوچھا ۔۔
جو تو کرنے آیا ہے ہاں یے الگ بات ہے کی میرے ساتھ کویی حسینہ نہیں ہے ۔ علی نے اپنی خباثت سے بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔۔
اپنی بکواس بند کر ۔۔ آہل کو اب طیش آ رہا تھا ۔۔
جتنے ملین لینے ہے لے لیں صرف آج کی رات اپنی خوبصورت بیوی کو میرے حوالے کر دے قسم سے صرف آج کی رات میں بھی تھوڑے مزے کر لوں ۔۔ علی شہروز کے ایک ایک لفظ سے اس کی بغیرتی ظاہر ہو رہی تھی ۔۔
علی !!! آہل نے شدید غصے کے عالم میں علی کا گریبان جکڑ کر ایک گھونسا اس کے منھ پر دے مارا جس سے وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا سیدھا زمین پر جا گرا ۔۔
ایک لفظ بھی اپنے منھ سے نکالا زبان کاٹ دوں گا تیری ۔۔ آہل کی آنکھیں غصے کی وجہ سے لال ہو چکی تھی ۔۔
مرش منھ پر ہاتھ رکھ کر پھٹی پھٹی نظروں سے کبھی آہل کو کبھی علی کو دیکھ رہی تھی ۔۔ اس کا دل دھڑکنا بند ہو چکا تھا ۔۔
تو نے مجھ پر پھر سے ہاتھ اٹھایا علی نے بھی ایک زوردار کک آہل کو ماری جس سے آہل کا پیشانی مرش کی چییر سے جا لگی ۔۔
تیری اتنی ہمت فارس نے ایک زوردار گھونسا علی کے پیٹ میں جڑ دیا جس سے وہ پھر سے زمین پر جا گرا تھا ۔۔ لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہو چکا تھا سب حیرت زدہ اس فایٹنگ کو آنکھ پھاڑے دیکھ رہے تھے ۔۔
تو نے بیچ میں آ کر اچھا نہیں فارس یاد رکھنا میرا نام علی ہے تجھ سے بھی میرے کیی حساب باقی ہے یے جو تو آج کل رنگرلیاں منا رہا ہے نہ اچھے سے جانتا ہوں میں اپنی خیریت سوچ کر رکھنا بیٹا ۔۔۔ علی فارس کے کان میں پھسپھسا کر نہ جانے اسے کیا باور کرا گیا تھا ۔۔
ایم سو سوری سر ایم ریلی سو سوری ۔۔ مینیجر دوڑ کر آہل کی ٹیبل کے پاس آیا بھر پور شرمندگی کے ساتھ اس نے معافی مانگی ۔۔
اٹس اوکے آہل اپنی پیشانی پر رومال رکھ کر بولا ۔۔
آہل تمہیں تو خون بہہ رہا ہے پلیز اسے روکو ۔۔ مرش کی آنکھیں کب کیسے اپنے آپ آنسوں سے لبریز ہو چکی تھی ۔۔
؟میرے اتنے چھوٹے سے زخم پر اتنے آنسوں بہا رہی ہو جس دن میں مر گیا اس دن کیا کرو گی۔۔ آہل نے مسکرا کر مرش کو چھیڑا ۔۔
آہل پلیز یے وقت ایسی باتوں کا نہیں ہے تمہیں تو بہت خون بہہ رہا ہے پلیز ڈاکٹر کے پاس چلو ۔۔ مرش نے روتے ہوے کہا ۔۔
ہاں یار پہلے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہے ۔۔فارس نے بھی ہاں میں ہاں ملایی ۔۔
نو نیڈیڈ ۔۔ گھر چلو ۔۔ آہل نے بے فکری سے جواب دیا ۔۔
لیکن ؟ فارس نے ابھی کچھ بولنا چاہا درمیان میں ہی فارس نے اس کی بات کاٹ دی ۔۔
پلیز گھر چلو یار ۔۔ آہل نے بے زاریت سے جواب دیا ۔۔
ڈرایونگ سیٹ فارس نے سمبھال لی تھی آہل فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا ۔۔ مرش اور بریرہ پیچھے کی سیٹ پر بر اجمان تھی ۔۔
گاڑی زور شور سے روڈ پر رواں دواں تھی ۔۔ وہ چاروں خاموشی سے بیٹھے تھے اس ہونے والے واقع کو سوچ سوچ کر مرش کا ذہن ماوف ہو چکا تھا ۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_27
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
گاڑی آفندی ہاوس کے سامنے آ کر رکی تھی ۔۔
وہ چاروں ایک ایک کر کے گاڑی سے نیچے اترے ۔
فارس تو اندر نہیں آے گا ؟ فارس کو جاتا دیکھ کر آہل نے پوچھا !
نہیں کافی لیٹ ہو گیا ہے اب میں چلتا ہوں اور بھابھی بہت اچھے سے مرہم پٹی کیجیے گا میرے دوست کی بڑا کمزور دل کا ہے !! فارس نے مسکرا کر مرش کو چھیڑا تھا ۔ ۔۔
تو نہیں سدھرے گا !! آہل نے اپنی گھورتی نگاہوں سے فارس کو دیکھتے ہوے کہا ۔۔
کیا کروں تیرا ہی دوست ہوں اچھا اب میں چلتا ہوں خدا حافظ ۔۔ فارس گاڑی میں بیٹھ کر زن سے گاڑی اڑا لے گیا اس کا ذہن بہت ڈسٹرب ہو گیا تھا ابھی اسے الجھی ہویی گھتھی بھی تو سلجھانی تھی کی آخر علی شہروز نےکس بارے میں کہا تھا۔۔
بریرہ بھی اپنے کمرے میں چلی گیی تھی چینج کرنے کے حوالے سے اور مریم بیگم جاوید صاحب اپنے کمرے میں تھے اتفاق سے ۔۔
تم بیٹھو میں تمہاری ڈریسنگ کر دیتی ہوں ۔۔مرش کی آواز یک لخت مدہم پڑ گیی تھی آنکھیں پھر سے جل تھل ہونے لگی تھی ۔۔ اپنا دوپٹہ اتار کر بیڈ پر پھینکے والے انداز میں رکھ کر وہ ایک ایک ڈراں کھول کر فرسٹ ایڈ باکس ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔
اس کے برعکس آہل تکیے سے ٹیک لگاے مرش کو بڑی دلچسپ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔
کہاں پر ہے ؟؟ مل نہیں رہا !! مرش نے جھنجھلاتے ہوے کہا ۔
آرام سے ڈھونڈو مل جاے گا ! آہل نے مسکرا کر کہا ۔ ۔۔
تمہیں اس سے فایٹنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی دیکھو کتنا خون بہہ رہا ہے تمہارا اپنے آپ کو تو نہ جانے کیا چیز سمجھتے ہو !!! مرش کی آنکھوں سے ایک لگاتار آنسوں جاری تھے پتہ نہیں کیوں یا پھر شاید آہل شاہ آفندی کے لیے تھے ۔۔
شکر ہے مل گیا ۔ ۔۔ لاسٹ ڈراں کھول کر دیکھا تو فرسٹ ایڈ باکس اس میں موجود تھا مرش نے شکر کا سانس لیا ۔۔
آہل کے مقابل بیڈ پر بیٹھ کر مرش گردن جھکاے فرسٹ اید باکس میں کچھ ڈوھنڈنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن بار بار اس کی سنہری زلفیں اسے تنگ کر رہی تھی ایک ہاتھ سے بار بار اپنی لٹوں کو کان کے پیچھے کر رہی تھی ۔۔
“”” تم نے مجھے جواب نہیں دیا تھا جس دن میں مر گیا اس دن کیا ہوگا “””
میں اب تمہیں مرنے کی بددعایں نہیں دے سکتی آہل شاہ آفندی کیونکی اب میری بھی مجبوری ہے ۔۔ مرش ایک ٹک آہل کی سرخ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کر رہی تھی ۔۔
میرے ان زخموں سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے ؟؟ آہل نے بے حد سنجیدگی سے پوچھا تھا !!
ہاں ۔۔ مرش منھ سے بغیر بولے آیستہ سے گردن ہاں میں ہلا دی ۔۔
میں خود نہیں جانتی آہل شاہ آفندی تمہارے زخموں سے مجھے اتنی تقلیف کیوں ہو رہی ہے جب کی مجھے تو خوش ہونا چاہیے لیکن دیکھو میں خوش نہیں ہوں میں رو رہی ہوں ۔۔ مرش آہل کے زخموں کو دیکھ کر بنا پلک جھپکے ایک ٹک سوچ رہی تھی ۔۔
کہیں محبت تو نہیں ہو گیی مجھ سے ؟؟؟؟ آہل مرش کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں لے کر پوچھ رہا تھا ۔۔
پلیز آہل ڈریسنگ کرنے دو ۔۔ مرش اپنا چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔
میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے مرش بے پناہ اسی دن سے جس دن میں نے کالج میں تمہاری انسلٹ کی تھی اور تم روتے ہوے میرے پاس آیی تھی میں بہت شرمندہ ہوں آج بھی لیکن میں نے فیصلہ کر لیا تھا اسی دن تمہیں ہر حال میں اپنا بنا کر رہوں گا چاہے وہ کسی بھی صورت میں ۔۔۔ آہل شاہ آفندی نے آج اپنی محبت کا اقرار کر ہی دیا تھا آج اس نے خود تسلیم کر لیا تھا وہ صرف مرش کا ہے صرف اپنی مرش کا ۔۔
مرش خاموشی سے ایک ایک لفظ سن رہی تھی آج اس ظالم انسان کے زخموں پر جھک کر مرہم لگا رہی تھی جس نے اسے بے تحاشہ تقلیف دی تھی جس کا انداہ شاید آہل شاہ آفندی بھی نہیں لگا سکتا تھا ۔۔
آہل شاہ آفندی کے لفظوں کو سن کر اس کر مرش کی آنکھیں آنسوں سے بھر گیی تھی لب کپکپا رہے تھے اس کے ضبط کا بندھن ٹوٹنے لگا تھا ۔۔
آہل کے زخموں پر پٹی لگاتے ہوے مرش کب اس کے اتنے قریب آ چکی تھی اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوا تھا ۔۔ آہل شاہ آفندی کے آج وہ آہل کے اتنے قریب تھی کی اس دھڑکن کو با آسانی سن سکتی تھی بغیر دوپٹے کے اس کے جسم کے کچھ حصے کافی خوبصورت لگ رہے تھے ۔۔۔ کھلے بالوں کی زلفیں آہل کے گال سے بار بر مس ہو رہی تھی ۔۔
جس دن میں اس دنیا میں نہیں رہوں گا اس دن تمہیں میری محبت کا اندازہ ہوگا میں تمہارا محافظ ہوں مرش تمہاری حفاظت کرنے والا ایک شوہر ہی اپنی بیوی کا محافظ ہوتا ہے لیکن ہمہاری سوچ بہت مختلف ہے آج ہم ایک ایسے راستے پر کھڑے ہیں جس کی کویی منزل نہیں ہے ۔۔ آہل شاہ آفندی کے ایک ایک لفظ میں سچایی تھی ۔۔
ہشش !! مرش نے اپنی شہادت کی انگلی بے ساختہ آہل کے لبوں پر رکھ دیا ۔۔۔
آہل شاہ آفندی اپنا ہوش اپنا آپ کھو چکا تھا آج اسے خود پر قابو رکھنا مشکل ہی نہ ممکن تھا اس نے دہکتے چہرے کو مرش کے قریب لے گیا اور اپنے سرخ ہونٹ مرش کے شربتی ہونٹوں پر رکھ دیا ۔۔۔
مرش نے سختی سے دونوں ہاتھوں سے بیڈ شیٹ کو اپنی مٹھی میں دبوچ کر اپنی بھوری آنکھیں بند کر لی تھی جیسے ابھی ان آنکھوں کو کھول دے گی تو ایک معصوم سا خواب ٹوٹ جاے گا ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_28
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
شرم و حیا کی وجہ مرش کا چہرہ گلال ہو گیا تھا ۔۔
آہستہ آہستہ اس نے اپنی آنکھیں کھولی تھی ۔۔
آہل اب اس کو اپنی گرفت سے آزاد کر چکا تھا ۔۔
آہل ؟؟ مرش نے بے ساختہ پکارا ۔
جی جان آہل ۔۔ آہل اب اس کی طرف متوجہ تھا ۔۔
محبت کرتے ہو مجھ سے ۔۔ مرش نے کپکپاتے لب سے پوچھا ۔۔
بے پناہ !! آہل نے ہاں میں گردن ہلایی ۔۔
محبت کرنے والے تکلیف تو نہیں دیتے ۔۔ مرش نے لب کچلتے ہوے کہا ۔
آہل اس کی بات سن کر بے ساختہ مسکرا دیا ۔۔
ایک دن اس کا ازالہ بھی کروں گا میری جان ۔۔ اس نے مرش کا ہاتھ اپنی گرفت لے کر کہا ۔۔
تم بہت ظالم ہو آہل ۔۔ مرش نے ایک ٹک بے خوفی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔
صرف تمہارے معاملے کیوں کی اس میں خود کو بہت بے بس پاتا ہوں ۔۔
مرش نے کچھ کہنے کے لیے جیسے اپنا منھ کھولا تبھی دروازے پر دستک ہویی مرش کرنٹ کی طرح بیڈ سے اٹھ کر جلدی سے اپنا دوپٹہ اٹھا کر اپنے گرد اچھے پھیلا کر سیدھے کھڑی ہو گیی۔ ۔
یس !! آہل بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر پرسکون انداز میں بولا ۔۔
جاوید صاحب مریم بیگم ساتھ ساتھ کمرے میں داخل ہوے تھے ۔۔
ڈیڈ آپ ۔۔ آہل سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا ۔۔
بھیی ہمیں بریرہ نے ابھی ابھی بتایا کیسے کر رہے تھے ڈرایو ہزار بار کہا ڈرایور کو ساتھ لے کر جایا کرو لیکن نہیں تمہیں تو اپنے آگے کسی کی سننی ہی نہیں ۔۔ جاوید صاحب نے اچھی خاصی آہل کو ڈپٹ لگایی تھی ۔۔
آہل نے سکون کا سانس لیا تھا شکر ہےبریرہ نے یے نہیں بتایا تھا یے سب فایٹنگ کی وجہ سے ہوا تھا ورنہ جاوید صاحب کے سوال در سوال آہل کو بور کرنے کے لیے کافی تھے ۔۔
آہل یے میں تمہارے لیے ہلدی والا دودھ لےکر آیی تھی دیکھو کیسا مرجھا گیا ہے چہرہ ۔۔ مریم بیگم کی اتنی غلط بیانی پر مرش کا منھ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا ۔۔
مام !!! دودھ کی ضرورت مجھے نہیں مرش کو ہے چوٹ مجھے لگی ہے درد اسے ہو رہا ہے ۔۔ آہل شوخی سے بولتا ہوا غلطی سے ہی سہی لیکن زندگی میں پہلی بار اس نے مریم بیگم سے ماں کہہ کر مخاتب ہوا تھا ۔۔
مریم بیگم جیسے بت کی بن کر رہ گیی تھی پورے جسم میں ایک عجیب سی خوشی کی لہر دوڑ گیی تھی ۔۔
آہل کو فورن احساس ہوا تھا کیا سے کیا بول گیا تھا وہ ۔۔
آ۔ ۔ نو تھینکس آپ جانتی ہے مجھے دودھ نہیں پسند ۔۔ اس نے فورن خود کو کمپوز کیا تھا ۔۔
آہل تمہاری صحت کے لیے اچھا رہے گا ۔ جاوید صاحب نے کہا ۔۔
لیکن !! آہل اس سے پہلے ایک بار پھر سے انکار کرتا مرش نے آنکھ اشارے سے التجایہ انداز میں دودھ کی طرف اشارہ کیا تھا ۔۔ مطلب صاف تھا پلیز آہل دودھ کا گلاس لے لو ۔۔
لاے دیں۔ ۔ آہل شاہ آفندی آج مجبور ہو گیا تھا صرف ایک لڑکی وجہ سے ۔۔
مرش مسکرا دی کم از کم آہل نے اس کی بات کا بھرم تو رکھا تھا ۔
مرش پین کلر ضرور دینا بہت لاپرواہ یے آہل ۔۔ جاوید صاحب نے مسکرا کر مرش سے کہا ۔۔
جی ڈیڈ ۔۔ مرش نے ہاں میں سر ہلا دیا تھا ۔
اچھا اب ہم چلتے ہیں تم لوگ بھی کافی تھکے ہوگے ۔۔ مریم بیگم اور جاوید صاحب جا چکے تھے ۔۔
مجھے دودھ نہیں پسند ۔۔ آہل نے دودھ کا گلاس دیکھتے ہوے کہا ۔۔
پسند ہو یا نہیں پینا تو پڑے گا ۔۔ مرش آج زندگی میں پہلی بار اس کے لیے مسکرایی تھی ۔۔
ضروری ہے ؟؟ آہل نے خفگی سے پوچھا ۔۔
بے حد ۔۔ مرش نے کچھ بگڑ کر جواب دیا ۔۔
ایک کام کرو تم پی لو ۔۔ آہل نے مرش کو مسکرا کر آفر کی تھی ۔۔
بلکل نہیں چپ چاپ فینش کرو تم ۔۔ مرش نے خوشمگیں نظروں سے آہل کو گھور کر کہا تھا ۔۔
مرش میری جان پلیز تم پی لو ویسے بھی آگے چل کر تمہیں کیلشیم کی کافی ضرورت پڑے گی ۔۔ آہل نے ایک مار کر مرش کو چھیڑا تھا ۔۔
کیوں مجھےکیوں کیلشیم کی ضرورت پڑنےلگی ۔۔ مرش نے تنک کر پوچھا ۔۔
بہت معصوم ہو تم اب تمہیں یے بھی بتاوں کیوں ضرورت پڑے گی ۔۔ آہل نے چونکتے ہوے کہا ۔۔
ہاں بتاو ۔۔ مرش انجانے میں بول گیی تھی اس کے دل و دماغ میں نہیں تھا آہل کا ذہن کیا سوچ رہا ہے ۔۔
یار آگے چل کر میری بچوں کی مما تو تم نے ہی بننا ہے اس دنیا میں میرے بچوں کو تم نے ہی لانا ۔۔ اب بتاو سب زیادہ ضرورت کسے ہے ۔۔ آہل نے مرش کا چہرہ بغور دیکھتے ہوے سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔
وآآٹ ؟؟ مرش کو شدید حیرت کا جھٹکا لگا تھا ۔۔
کچھ غلط کہا کیا میں نے ۔۔ اس نے معصومیت سے پوچھا ۔
تم یے سب بھی سوچتے ہو ۔۔مرش نے حیرت کا اظہار کیا ۔
آف کورس کیوں غلط ہے کیا میں تو اس کے آگے بھی بہت کچھ سوچتا ہوں لیکن فلحال اتنا ہی کافی ہے تمہیں بتانے کے لیے ۔۔ اس نے بے حد پرسکون انداز میں جواب دیا ۔۔
نہ پیو میری بلا سے ۔مرش پیر پٹخ کر واشروم میں گھس گیی تھی ۔۔
آہل بنا چینج کیے نہ جانے کب غنودگی میں چلا تھا ۔۔
آہل ؟؟ مرش نے بالوں میں پھیرتے ہییر برش کو رکھ کر آہل کو پکارا ۔۔
کویی جواب نہ ملنے پر مرش نے سکون کا سانس لیا تھا ۔۔
جبھی اس کے موبایل کی پر زور زور اننون نمبر سے کال رنگ ہونے لگی تھی ۔۔
مرش نے چونک کر فون ہاتھ میں لیے بالکنی میں آ گیی تھی ۔۔
ہیلو ؟ مرش نے آہستگی سے کہا ۔۔
ہلیو مایی پرینسیز ہاو آر یو ۔۔۔ علی نے خیریت دریافت کرنی چاہی ۔۔
اپنی بکواس بند کرو میں تمہیں بتا رہی ہوں اپنی حد رہو علی ۔۔ مارے خوف سے مرش کا جسم لرز رہا تھا لیکن اسے ہمت کرنی تھی وہ اپنا کردار کسے سامنے مشکوک ہوتا نہیں دیکھ سکتی تھی خاص طور پر آہل شاہ آفندی کے سامنے ۔۔
آج کیا لگ رہی تھی یار ۔۔الفاظ ہی نہیں ہے میرے پاس تمہاری تعریف کے لیے ۔۔ دوسری جانب سے بڑی ڈھٹایی کا مظاہرہ کیا گیا تھا ۔۔
کیوں کر رہے ہو تم ایسا ؟؟ مرش کے ذہن میں چلتا سوال آخر زبان پر آ ہی گیا تھا ۔۔
تمہارے اس نام و نہاد شوہر کے لیے جس مجھے بڑی شدید قسم کی نفرت ہے میں اسے جب بھی مارنا چاہتا ہوں وہ بچ جاتا ہے بڑا ہی کویی خوشنصیب انسان ہے لیکن صرف وقتی طور پر ۔۔ علی نے اپنی مٹھی کو سختی سے بند کرتے ہوے کہا ۔۔
تمہاری آہل کے ساتھ کیا دشمنی ہے ؟؟ مرش نے بے اختیار پوچھا ۔۔
ایک بات ہو تو بتاوں نہ اس نے مجھے ہمیں سکشت دی ہے میری ہر چال چلنے سے پہلے مجھ پر ہی وار کر دیتا تھا ایک میٹنگ تھی ہماری امریکہ کے مانے جانے بزنیس مین کے ساتھ ان لوگ کی ڈیل تھی ہماری کمپنی کے ساتھ طے ہویی تھی مجھے آٹھ کروڑ کا فایدہ ہونے والا تھا لیکن افسوس آہل شاہ آفندی میرے راستے میں آ کر مجھے آٹھ کروڑ سے محروم کر دیا تھا اور اس کے بعد بھی بہت کچھ ہوا لیکن اس بار نہ صرف اس نے مجھے نیچا نہیں دکھایا ہے بلکہ میری عزت نفس کو کھاک میں ملا دیا تمہیں مجھ سے چھین کر اگر تم چاہو تو ہم اب بھی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں میں تمہیں بہت چاہتا ہوں مرش تم ۔۔ تم اگر چاہو تو آہل سے خلاء لے سکتی ہوں ۔۔ علی اپنی ہی دھن میں روانی سے بولے چلا جا رہا تھا ۔۔
شٹ اپ میری طرف تم جہنم میں جاو ۔۔ مرش نے دانت پر دانت جماتے ہوے سختی کہہ کر فون کو آف کر دیا تھا ۔۔
آہل اسی طرح بے خبر سویا ہوا تھا جس طرح مرش اسے چھوڑ کر گیی تھی ۔۔
وہ موبایل سایڈ میں رکھ کر ہولے سے بیڈ پر بیٹھ گیی تھی بے وجہ نہ جانے آنسوں کی لڑی کب سے اس کے گالوں کو بگھو رہی تھی اس نے گردن گھما کر آہل کا چہرہ دیکھا جو ہر قسم کے داغوں سے بے نیاز نور چشم کی طرح پھوٹ رہا تھا کویی دیکھ کر یے اندازہ نہیں لگا سکتا تھا یے وہی کھڑوس سا آہل شاہ آفندی ہے جس کے اندر بے حد غرور ہے لیکن اس وقت وہ کسی ننھے بچے کی طرح سو رہا تھا اس کے سانسوں کی ہلکی سے ارتعاش پورے کمرے کو جکڑ رہی تھی ۔۔
مرش اپنے آپ سے بے خبر یک ٹک آہل کے چہرے کا جایزہ لے رہی تھی جیسے کچھ ڈھنڈنے کی کوشش ہو ۔۔
کیا تھا یے شخص کبھی دھوپ کبھی چھاو اس کا شوہر اس کا مجازی خدا اس کا سرتاج کتنا مضبوط رشتہ تھا ان کا ۔۔
آہل کیا ہو تم آہل کا علی سے کیا تعلق ہو سکتا ہے ایسا کیا ہے جو میں نہیں جانتی آہل شاہ آفندی کیا چھپا رہے ہو تم مجھ سے آخر کیا ۔۔ ثمرہ اریشہ ان دونوں کی باتیں کویی لڑکی اغوا ہونے کے بعد اس شخص کی تعریف کیسے کر سکتی جس نے ان کی عزت کا جنازہ نکالنا چاہا ۔۔ مرش آہل کے ستایشی چہرے پر نظریں جماے اسے ایک ٹک دیکھ کر سوچنے میں محو تھی ۔۔
سویی نہیں تم ؟؟ غنودگی میں ڈوبی آہل کی آواز مرش کے کانوں تک بہ مشکل پہنچی تھی ۔۔
تم جاگ رہے ہو ۔۔ مرش کو یکا یک شرمندگی نے آن گھیرا تھا ۔۔
نہیں میں سو رہا تھا لکین اس طرح دیکھو گی تو ظاہر ہے نیند کھلے گی ہی ۔ جواب صاف تھا ۔۔
لیکن تم تو بے خبر سو رہے تھے ۔!! مرش کی سویی اب بھی وہی اٹکی تھی ۔۔
ایک بات بتاو گی ؟؟ آہل نے مسکرا کر پوچھا ۔۔
پوچھو !! مرش نے نظریں چراتے ہوے کہا ظاہر ہے اس کی چوری پکڑی گیی تھی ۔۔
راتوں رات جاگ کر مجھے دیکھنے کا سلسلہ کب سے شروع کی ہو ؟؟ سوال بے حد معصوم سا تھا ۔۔
کیوں کیا میں نہیں دیکھ سکتی میرے دیکھنے پر کویی پابندی ہے کیا ؟؟ جواب دینے کے بجاے الٹا سوال کیا گیا تھا ۔۔
دیکھ سکتی ہو سویٹ ہارٹ بلکہ دیکھنا تو بہت چھوٹی بات ہے تم جو چاہے کر سکتی بے فکر رہو پورا کا پورا تمہارا ہی ہوں جب چاہے جو چاہے کر سکتی ہو ۔۔ آہل نے پوری آنکھ کھول کر بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر مسکراتے ہوے کہا تھا ۔۔
بہت شکریہ آپ نے مجھے یے اعجاز بخشا آہل صاحب ۔۔ مرش نے چڑھانے والے انداز میں کہا ۔۔
ایک بات میں پوچھو ؟؟ مرش نے لب کچلتے ہوے اجازت طلب کی ۔
پوچھیے ۔۔ رات کے اس پہر یے بندہ آپ کو جواب دینے کے لیے راضی ہے ۔۔
تمہیں کیسے پتہ چلا میں تمہیں دیکھ رہی تھی ۔۔ مرش نے مشکوک ہو کر پوچھا ۔۔
تمہاری چوڑیوں کی کھنک سے ۔۔ آہل نے صاف گویی جواب دیا ۔۔
مرش کی نظر بے ساختہ اپنی چوڑیوں پر گیی تھی ۔۔ اوہ میں تو بھول ہی گیی تھی اتارنا ۔۔ مرش اب اپنی چوڑیاں ایک ایک کر کے اتارنے میں مگن تھی ۔۔
ایسا کیا دیکھ رہے ہو ۔۔ آہل کی تپش دیتی نظروں سے مرش نے گھبرا کر آخر پوچھ ہی لیا تھا ۔۔
یوہیں ۔۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔
اب سو جاو ۔۔ آہل کو حکم دے کر مرش پوری طرح کمبل خود پر تان چکی تھی۔۔
مرش ؟ آہل نے ایک بار پھر اسے ڈسٹرب کیا تھا ۔
اب کیا ہے ؟؟ مرش نے چہرے سے کمبل ہٹا کر اس کو دیکھا تھا ۔۔
آیی لو یو ۔۔ مرش کی گرم پیشانی پر آہل نے اپنے لب رکھ کر محبت بھری مہر ثبت کی تھی ۔۔
گڈ نایٹ ۔۔ آہل نے مسکرا کر کہا ۔
مرش کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا بہ مشکل اس نے اپنی آنکھیں بند کی تھی لیکن یہاں نیند کس کو آ رہی تھی ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_29
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
صبح ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ کر ہر فرد ناشتے میں مصروف تھا ۔۔
آہل ۔۔ جاوید صاحب نے پکارا ۔۔
جی ۔۔ آہل نے ان کی طرف دیکھ کر جواب دیا ۔۔
کیا ضرورت ہے آفس جانے کی اپنا زخم دیکھو ۔۔ باپ ہونے کے ناتے جاوید صاحب کا فکرمند ہونا لازمی تھا ۔۔
کیا ؟؟ آہل نے چونک کر انہیں دیکھا ۔۔
آپ چاہتے ہیں اس معمولی سی چوٹ پر میں گھر کی زینت بن کر بیٹھ جاوں تو ایم سوری میرا آفس جانا ضروری ہے ۔۔ آہل کوٹ ہاتھ میں پکڑ کر چییر سے اٹھ گیا تھا ۔۔
بریرہ چلیں ۔۔ اس نے بریرہ سے پوچھا ۔۔
جی بھایی ۔۔ بریرہ اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر باہر آ گیی تھی ۔۔
آہل زن سے گاڑی اڑا لے گیا تھا ۔۔
فارس مجھے ڈر لگ رہا ہے آج ہم پہلی بار یوں کسی ریسٹورینٹ میں ملیں گے ۔۔ بریرہ کی آواز میں خوف کا عکس صاف تھا ۔۔
پھر سے تم ڈرنے لگی ابھی رات کو ہی سمجھایا تھا بریرہ ملنا ضروری ہے ہمارا اور خود سوچو کتنا دن ہو گیا ہمیں ملیں ہوے ۔۔ فارس نے ناراض ہوتے ہوے کہا ۔۔
اچھا ٹھیک ہے تم مجھے کالج سے پک کر لو ۔۔ بریرہ نے ہار مانتے ہوے کہا ۔۔
تمہیں آفس میں بھی چین نہیں ملتا کیا ۔۔ مرش لاونج میں بیٹھ کر مسلسل آہل سے بے وجہ کی گفتگو میں سر پھوڑ رہی تھی ۔۔
نہیں ملتا یار دل کرتا ہے کب تمہارے پاس آ جاوں ۔۔ آہل نے بڑے سکون سے جواب دیا اس کی شرارتی آنکھوں کے سامنے مرش کا غصے سے لال چہرہ لہرایا تھا یقینن وہ اندر ہی اندر جل کر خاست ہو رہی تھی ۔۔
آفس میں کویی کام نہیں ہوتا کیا ۔۔ مرش نے سوال کیا ۔۔
تمہیں لگتا ہے میں اتنا فارغ ہوں تمہارے علاوہ بھی بہت سے کام ہوتے ہیں مجھے لیکن میں ان سب کاموں میں سب سے زیادہ تمہیں ترجیح دیتا ہوں ۔۔ بات میں سچایی سو فیصد تھی ۔۔
آہل ؟؟ مرش کی آواز یک لخت بھاری ہو گیی تھی ۔۔
کیا ہوا ۔۔ آہل نے بے چینی سے پوچھا ۔۔
مرش یار کیا ہو گیا ہے ۔۔ آہل نے جھنجھلاتے ہوے کہا بات اس کی سمجھ دے باہر تھی ۔۔
مرش پلیز چپ ہو جاو اس طرح تو بچے بھی نہیں روتے جس طرح تم رو رہی ہو ۔۔ آہل کو حیرت اس بات پے تھی یے آنسوں کس غم میں بہاے جا رہے تھے لیکن پھر بھی وہ مرش کو تسلی دے رہا تھا ۔۔
مرش کے رونے میں پہلے سے زیادہ شدت آ گیی تھی ۔۔
مرش میری جان پلیز اب رونا بند کر دو ۔۔ آہل اب اپنا سر پکڑ چکا تھا ۔۔
تم ۔۔ تم ایسا کیوں کر رہے ہو ۔۔ رونے کی وجہ سے مرش ہچکیاں شروع ہو گیی تھی بہ مشکل روکتے ہوے اس نے کچھ الفاظ ادا کیے تھے ۔۔
کیا ۔۔۔ کیا ہے میں نے ؟؟ حیران ہونے کی باری اب آہل کی تھی ۔۔
مجھے پڑھنا ہے آہل پلیز مجھے پڑھنے دو ۔۔ گالوں پر گرتے آنسوں کو بڑی رحمی سے پونچھ کر اپنے رونے کا مقصد بیان کیا گیا تھا ۔۔
اوہ تو یے ہے وجہ جس کے لیے بے شمار ندیاں آراستہ کی جا رہی تھی ۔۔ آہل نے مسکرا کر مرش کا دبے لفظوں میں مزاق اڑایا تھا ۔۔
تم مجھے نہیں پڑھنے دوگے ۔۔ مرش نے ایک بار پھر سے اپنی بات دہرایی تھی ۔۔
میں نے بہت سوچا تھا اور تب جا کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کی تمہیں کلاسیز تو نہیں کرنے دے سکتا ہاں لیکن ایگزامز دے سکتی ہو تم میں نہیں چاہتا تمہاری سال برباد ہو ۔۔ آہل بہت سوچنے کے بعد اس فیصلے پر پہنچا تھا اسے بہ خوبی احساس تھا وہ مرش کے ساتھ کیا زیادتی کر رہا تھا لیکن مجبوری بھی کسی چیز کا نام ہے ۔۔
سچی ۔۔!!! مرش کو ایک لمحہ لگا تھا مسکرانے میں ۔۔
تمہاری قسم ۔۔ آہل نے مسکرا کر کہا ۔۔
تھینکس ۔۔ مرش نے چہک کر فورن تھینکس کیا تھا ۔۔
یے تو بہت چھوٹا ہے بس اویں ہی تھینکس ۔۔ آہل نے منھ بناتے ہوے کہا ۔۔
تو پھر کیا چاہیے تمہیں ۔۔ مرش نے اس کی خواہش پوچھی ۔۔
جو مانگوگا دوگی ؟؟ آہل نے جیسے یقین دہانی کروانی چاہی ۔۔
ہاں مانگو !! مرش کو کہاں یاد تھا وہ اپنی خوشی میں کون کون سے وعدے باندھ رہی تھی ۔۔
رات کو بتاوں گا ۔۔ آہل نے تیر سیدھا نشانے پر مارا تھا ۔۔
اوکے پھر رات کو ہی بتانا خدا حافظ۔۔۔ مرش کو بے جلدی تھی یے خبر سب کو بتانے کی ۔۔
خدا حافظ ۔۔ آہل فون رکھ چکا تھا ۔۔
تم ان چڑیلوں کو کیوں دیکھ رہے ہو ۔۔ بریرہ نے منھ پھلا کر ایک بے حد غیر معمولی سا الزام فارس کے اوپر لگایا تھا ۔۔
وآٹ ۔۔ تمہارا کہنے کا مطلب یے ہے میں ان آنٹی ٹایپ لڑکیوں کو دیکھ رہا ہوں ۔۔ فارس نے حیرت سے آتی جاتی لڑکیوں کو دیکھ کہا تھا ۔۔
ہاں دیکھ تو رہے ہو ۔۔ بریرہ نے اب پہلے سے زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا تھا ۔۔
اچھا بابا اب نہیں دیکھتا ۔۔ فارس نے شرارت سے کہا ۔۔
وہ دونوں کافی دنوں بعد ایک دوسرے کے سامنے کافی کیفے کے اندر بیٹھے ہوے تھے ۔۔
فارس کل جس فایٹنگ ہویی تھی وہ لڑکا کون تھا ؟
تم اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہی ہو ؟
کیوں میرا پوچھنا گناہ ہے کیا ؟
نہیں یار میں نہیں چاہتا تم فضول کی سوچوں میں اپنا وقت برباد کرو ۔۔
لیکن وہ تھا کون ؟
گھٹیا آدمی ہے وہ چھوڑو یہ سب کویی اور بات کرتے ہیں ۔۔
فارس اگر کویی ہمیں دیکھ لے گا تو ؟
کیسے کویی دیکھ لے گا یار بریرہ مجھ پر بھروسہ رکھو ۔۔
آیی لو یو ۔۔ بریرہ کا موڈ سہی کرنے کے لیے یے الفاظ ضروری تھے ۔۔
بریرہ مجھے بھی یوں اس طرح اچھا نہیں لگتا یار ایک طریقے سے ہم دونوں آہل کو دھوکہ دے رہے ہیں بریرہ میری بات سنو ہم آہل کو بتا دیتے ہیں کم از کم میں اس شرمندگی سے تو باہر آ جاوں گا نہ میں اس کو دھوکہ دے رہا وہ مجھ پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ کرتا ہے میں نہیں چاہتا اسے کسی اور سے معلوم ہو ۔۔ بریرہ کا ہاتھ تھام کر فارس نے بڑی سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔
ن۔۔ن۔ نہیں فارس پلیز نہیں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے بھایی پتہ نہیں میرے بارے میں کیا سوچیں گے ابھی نہیں ہم بتا دیں گے لیکن ابھی نہیں ۔۔ بریرہ نے ڈرتے ہوے کہا ظاہر ہے ڈرنا تو لازمی تھا آہل شاہ آفندی جس شخص کے اوپر سب سے زیادہ بھروسہ کیا تھا وہی شخص اس کی اپنی بہن کے ساتھ کون سا کھیل کھیلا جا رہا تھا اس کی پیٹ پیچھے ۔۔
بریرہ کیوں یار کیا تم یے چاہتی ہو اسے کسی اور سے پتہ چلے ۔۔ فارس کو اب غصہ آ رہا تھا ۔۔
میں نے یہ کب کہا جب وقت آے گا تب بتا دینا فلحال کے لیے نہیں پلیز ۔۔ بریرہ نے جیسے التجا کی تھی ۔۔
بریرہ دیکھنا تم کسی دن ہماری دوستی لے ڈوبوگی ۔۔ فارس کافی کا سیپ لے کر بڑی طمانیت سے کہا تھا ۔۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا ۔۔بریرہ نے جیسے خود کو یقین دلایا تھا ۔۔
زندگی بھی کبھی کبھی کیسے کھیل کھیلتی ہے نہ جس کا ہمیں خود علم نہیں ہو پاتا فارس بریرہ اپنی محبت کے سمندر میں غرق تھے یے کون سوچتا ہے کب کس کی زندگی میں طوفان آ جاے اسی طرح وہ دونوں بھی بے خبر اپنی محبت میں پروان چڑھ رہے تھے لیکن انہیں کہاں خبر تھی ان کی زندگی بھی دوسرا رخ موڑ چکی تھی آج ان کی ایک ایک تصویر کیمرے کے اندر قید ہو رہی تھی نہ جانے آگے کیا طوفان آنے والا تھا اس کی خبر کس کو تھی ۔۔۔
آفس ٹایمنگ ختم ہونے کے بعد آہل بریرہ کو مقرر وقت پر گھر پہنچ گیے تھے ۔۔
ڈراینگ روم سے آتے شور کو سن کر آہل اوپر جانے کے وہیں پر آ گیا تھا سامنے فایزہ بیگم اور سرفراز صاحب کو سامنے بیٹھا دیکھ کر اسے تھوڑی حیرانگی ضرور ہویی تھی ۔۔
اسلام علیکم انکل آنٹی آپ لوگ کب آے ۔۔ آہل نے بے حد خوشدلی کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔
وعلیکم اسلام بیٹا ۔۔۔ بس یونہی پلان بن گیا تھا ۔۔ سرفراز صاحب نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔
مرش آہل کو مسلسل نظر انداز کیے فایزہ بیگم سے چپک کر بیٹھی تھی جیسے ان کے علاوہ یہاں پر اور کویی ہے ہی نہیں ۔۔
امی کھانا کھا کر جانا ہے آپ لوگ کو ۔۔
۔۔نہیں۔۔ نہیں پھر کبھی سہی مرش کافی دیر ہو گیی ہمیں آے ہوے ۔۔۔
نہیں پلیز میں آپ لوگ کو ایسے نہیں جانے دونگی دیکھو نہ آہل امی بابا پہلی بار ہمارے گھر آے ہوے ہیں اور کھانا بھی نہیں کھا کر جایں گے ۔۔ اپنے مطلب کے لیے مرش کو فورن آہل کی یاد آیی تھی ۔۔
بلکل آنٹی ۔۔ آہل نے بھی ہاں میں ہاں ملایی ۔۔
سب لوگوں کے اصرار پر نا چاہتے ہوے بھی فایزہ بیگم اور سرفراز صاحب کو کھانا پڑا تھا کھانا بے حد خوشگورا ماحول میں کھایا گیا تھا ۔۔ کچھ دیر بعد فایزہ بیگم اور سرفراز صاحب رخصت ہو گیے تھے ۔۔
ماں باپ بھی کتنی عظیم چیز ہیں نہ ۔۔فایزہ بیگم اور سرفراز صاحب کو رخصت کرنے کے بعد وہ دونوں بھی اپنے کمرے میں آ گیے تھے بیڈ پر بیٹھتے ہوے مرش نے مسکرا کر کہا ۔۔
ہاں شاید !کلایی پر بندھی بلیک سوبر مردانہ واچ آہل نے اتارتے ہوے اس کی بات سے اتفاق کیا تھا ۔۔
شاید کیوں تمہیں نہیں لگتا کیا ؟ مرش نے حیرت سے پوچھا ۔۔
نو آنسر ۔۔ آہل اب جھک کر اپنے جوتے کے تسمیے کھول رہا تھا ۔۔
ہاں تمہیں کیسے پتہ ہوگا تم تو اپنے ماں باپ کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ہو ۔۔ مرش کے الفاظ بے حد سخت تھے ۔۔
ایک پل کے لیے آہل کا ہاتھ کو بریک لگ گیا تھا اسے مرش سے ایسی باتوں کی توقع نہیں تھی ۔۔
کچھ بول کیوں نہیں رہے ؟؟ اس کی خاموشی مرش خل رہی تھی ۔۔
سب کچھ تو تم نے بول دیا میں کیا بولوں ۔۔۔ وہ اب آینے کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا ۔۔
ایک بات کہوں ۔۔۔ مرش نے نظریں اٹھا کر جیسے اجازت مانگی تھی وہ بھی بلا وجہ ۔۔۔
کہوں !! وہ اب پوری طرح اس کی طرف گھوم چکا تھا ۔۔
تمہیں اپنے ماں باپ کی ذرا قدر نہیں ہے کیوں ؟؟ پہلے سے زیادہ سلگتے الفاظ تھے ۔۔
میری زندگی میں کس کی کتنی قدر ہے کون میرے نزدیک کیا حیثیت رکھتا آیی تھنک مجھے یے بات تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ آہل کو سخت غصہ آ رہا تھا لیکن وہ ضبط کر گیا تھا کیوں کی وہ ضبط کرنا جانتا تھا ۔۔
تو پھر تمہارا رویہ ان کے ۔۔۔۔
مرش پلیز مجھے اس بے وجہ کی گفتگو میں ذررا برابر دلچسپی نہیں ہے کیا اس ٹاپک کے علاوہ ہم کویی اور بات نہیں کر سکتے ہیں ۔۔۔ اس سے پہلے کی وہ اپنی بات مکمل کرتی آہل نے درمیان میں ہی اس کی بات کاٹ دی ۔۔
ٹھیک ہے نہیں کرتی اس ٹاپک پر بات ۔۔ اس نے ہار مان لی تھی ۔۔
تمہارا زخم کیسا ہے ؟ شکر ہے مرش کو یاد آ گیا تھا ۔۔
تمہارے سامنے ہے دیکھ لو ۔۔ آہل نے بے فکری سے جواب دیا ۔۔
مجھے کیسے پتہ چلے گا تمہارے زخموں میں تکلیف کتنی ہے ۔۔۔ اب کی بار وہ قدرے جھنجھلایی تھی ۔۔۔
ہاں یے بھی ہے تمہیں میری تکلف کے بارے میں کیسے پتہ ہوگا یے تو تکلیف میری ہے ۔۔ آہل نے ایک تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا نہ جانے وہ اسے کیا باور کرانا چاہتا تھا ۔۔
چھوڑو یار مسلسل ہم بے وجہ کی باتوں پر بحث کر رہے ہیں ۔۔ آہل ٹاول کاندھے پر ڈالے واشروم میں چلا گیا تھا ۔۔
اسے کیا ہوا آج اتنا بجھا بجھا سا کیوں ہے مرش کو تھوڑا تفتیش ہو رہی تھی آہل کا رویے سے کتنا عجیب ہوتا ہے نہ بعض دفعہ ہم ہی لوگوں کو دکھ دے کر سوچتے ہیں اسے دکھ کیا ہے ۔۔۔
کیا سوچ رہی ہو ؟؟ آینے کے سامنے کھڑے ہو کر گیلے بالوں کو تولیہ سے ہلکا ہلکا رگڑ کر آہل نے مصروف سے انداز میں پوچھا ۔۔
کچھ بھی نہیں ۔۔ ایک لمحے کے لیے مرش کی گویا سانسیں ہی تھم گیی تھی آہل شاہ آفندی کا چوڑا کسرتی سینہ دیکھ کر لیکن اگلے ہی پل اس نے نظریں چرا لی تھی کہیں اس کی چوری پکڑی نہ جاے ۔۔۔
افف یار ۔۔۔ صدمے سے چور آہل کی آواز مرش کے کانوں تک پہنچی تھی ۔۔
کیا ہوا ؟ اس نے بے ساختہ پوچھا ۔۔
بٹن ٹوٹ گیی ۔۔ آہل نے افسوس سے کہا ۔۔
کیسے ؟؟ سوال بے جد احکمانا تھا ۔۔
اب مجھے کیا پتہ کیسے ٹوٹ گیی اس نے مجھے بتایا تھوڑی ہے ۔۔ آہل نے ہلکے پھلکے انداز میں مرش کا مزاق اڑایا تھا جس کو سمجھ پانا کم از کم مرش کے لیے مشکل تھا ۔۔
اب کیا کروں ؟؟ آہل نے خفگی سے مرش سے پوچھا جیسے سارا قصور مرش کا ہی ہو ۔۔
دوسری پہن لو ۔۔جواب صاف تھا ۔۔
لیکن دوسری کیسے پہنوں ۔۔ آہل نے مصنوعی غصہ دکھانا چاہا ۔۔
جیسے پہنی جاتی ہے ۔۔ مرش نے کچھ نوگواری سے جواب دیا تھا ۔۔
اگر تمہیں یاد ہو تو تم نے ایک وعدہ کیا تھا مجھ سے ۔۔ آہل کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھ گیی تھی ۔۔
کون سا وعدہ ؟؟ مرش نے ذہن پر تھوڑا زور دیا تھا ۔۔
یاد کرو ۔۔ آہل اب واقعی غصہ آ رہا تھا ۔۔
اوہ ہاں یاد آیا ۔۔ تو پھر ؟؟؟ مرش کو اپنا کیا گیا وعدہ یاد تو آ گیا تھا لیکن اب جی بھر کے پچھتاوا ہو رہا تھا ۔۔
تو اس وعدے کو پورا بھی کرو ۔۔ آہل نے جیسے ہری جھنڈی دکھایی تھی ۔۔
کیسے ؟؟ مرش نے نا سمجھی کے عالم میں پوچھا تھا ۔۔۔
یار میری اس بٹن کو پھر سے لگا دو بڑی مہربانی ہوگی تمہاری ۔۔۔ آہل نے جیسے التجا کی تھی ۔۔
مجھے نہیں آتا یے سب کام ۔۔ مرش فورن ایک قدم پیچھے ہویی ۔۔
تم وعدہ خلافی کر رہی ہو مرش ۔۔ آہل نے مسکرا کر کہا ۔۔
کیسی وعدہ خلافی ؟؟ مرش نے اکتا کر جواب دیا ۔۔
مطلب تم یے کام نہیں کرنے والی ۔۔ آہل نے جیسے پوچھا تھا ۔۔
نہیں بلکل بھی نہیں ۔۔مرش نے فورن گردن نفی میں ہلایا ۔۔
تو دوسرا آپشن بھی ہے ۔۔ آہل نے شرارت سے آنکھ مار کر ایک آپشن اسے قدموں میں رکھ دیا ۔۔
کون سا ؟؟؟ مرش نے بے چینی سے پوچھا ۔۔
سیمپل میرے یے شرٹ اتار کر دوسری پہنا دو تم ۔۔ آہل اس اس طرح راے دے رہا تھا جیسے وہ جھٹ سے قبول کر لے گی ۔۔
بلکل نہیں میں یے نہیں کروں گی ۔۔ مرش نے دو بدو جواب دیا ۔۔
سوچ لو تمہارے اوپر ڈیپنڈ ہے ورنہ پھر مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا ۔۔ آہل جواب دے کر صوفے پر قدرے آرام سے ٹانگ پر ٹانگ جما کر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔
مرش اس کشمکش میں بیچ و تاب کھا کر رہ گیی تھی ۔۔
اچھا ٹھیک ہے میں پہلی والی مان لیتی ہوں ۔۔ مرش منھ پھلاتے ہوے مان ہی لیا تھا اس ڈر سے کہیں اس کا دماغ پھر سے کہیں خراب ہو گیا تو مجھے ایگزامز بھی نہیں دینے دے گا ۔۔
گڈ گرل ۔۔ آہل مسکرا دیا تھا ۔۔
نیچے جاو کسی بھی ملازمہ سے سویی دھاگہ مانگ کر لاو ۔۔ آہل نے ایک اور حکم صادر کیا ۔۔
اوکے ۔۔مرش جا چکی تھی ۔۔۔
پانچ منٹ بعد اس کے ہاتھ میں سویی دھاگہ دیکھ کر آہل کو ایک پل کے لیے بہت تیز ہنسی آیی تھی لیکن ہنس کر اسے اپنا نقصان نہیں کروانا تھا ۔۔۔
اب تم بیٹھے رہو گے تو میں کیسے بٹن لگاوں گی ۔۔ مرش کھا جانے والی نظروں سے آہل کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
نہیں میری ٹانگ میں بہت درد ہے تم بیٹھ کر لگا دو ۔۔ آہل نے مزے سے جواب دیا ۔۔
لیکن میں ۔۔۔
جلدی کرو مجھے سونا بھی ہے ۔۔ آہل نے ایک گھورتی نظر اس کے چہرے پر ڈالی تھی ۔۔
مرش پوری توجہ سے سویی میں دھاگہ ڈال رہی تھی اس کے برعکس آہل بے حد مزے اس کے خفا خفا سے چہرے سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔۔
دیکھو ہلنا نہیں ورنہ تمہارا ہی نقصان ہوگا ۔۔ مرش نے شہادت کی انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا تھا ۔۔
اوکے ۔۔آہل نے بے حد اچھے بچے کی طرح گردن ہاں میں ہلا دی تھا ۔۔
مرش پوری توجہ سے بٹن لگا رہی تھی لیکن آہل کے وجود سے اٹھتی بھینی بھینی فرفیوم کی مہک اسے ہوش کی دنیا سے غافل کر رہی تھی ۔۔
آہل یک ٹک اس کے چہرے کے اتار چڑھاو کے رنگ کو دیکھ رہا تھا آج وہ دونوں بے حد قریب تھے اتنے قریب کی ان کی اپنی سانسیں ایک دوسرے میں پیوست ہو رہی تھی ۔۔ آہل اب اپنے ارادے پر اتر چکا تھا اس نے مرش کی کمر میں اپنا بازو حایل کر کے خود سے اور قریب کر لیا تھا ۔۔
آہل آہستہ سویی تمہیں چھب جاے گی ۔۔مرش اس آفتاد کے لیے تیار نہیں تھی لیکن پھر بھی اسے آہل کا خیال تھا ۔۔
ہاٹ ۔۔آہل نے مدہم سروں میں اس کے کانوں سرگوشی کی تھی ۔۔
کیا ؟؟ مرش نے نظریں اٹھا کر اس سے پوچھا ۔؟
تم ۔۔ آہل نے پھر سے اس کے کان میں سوگوشی کی تھی ۔۔
ایسے الفاظ سنتے ہی مرش کی کان کی لویں تک سرخ ہو گیی تھی چہرہ مزید بلش کر گیا تھا ۔۔
کیا خیال ہے آج رات اسے صوفے پر گزار دی جاے ۔۔۔ آہل کی آنکھوں میں محبت کا خمار ہی خمار تھا لیکن کچھ غلط بھی نہیں تھا آخر وہ اس کی بیوی تھی اس کی عزت تھی اس کے ساتھ نکاح جیسے مضبوط رشتے میں تھی ۔۔
آہل پلیز ہلنا نہیں میں دھاگہ توڑ دوں ۔۔ مرش نے التجایہ نظروں سے آہل کو دیکھا تھا اور پوری طرح اس کے سینے پر جھک کر دھاگہ دانتوں سے توڑنے کی کوشش کر رہی تھی دھاگہ تو ٹوٹ گیا تھا لیکن اچانک اس کے نرمی ہونٹ آہل کے سینے کو چھو گیے تھے ۔۔
آ۔ ۔ ایم سوری ۔۔ مرش نے ہکلاتے ہوے سوری بولا غلطی سے ہی سہی لیکن سوری بولنا اس کا فرض تھا ۔۔۔
اشش ۔۔ آہل اس کے ہاتھوں سے سویی دھاگہ لے کر میز پر رکھ چکا تھا ۔۔
مرش کی آنکھوں میں بھی ایک عجیب سی چمک تھی اسے بھی آہل شاہ آفندی کی قربت کی پیاس تھی بار بار اس کی پناہ میں آنا اس کی ایک عجیب سی خواہش تھی ۔۔
آہل اب اس کے اوپر مزید جھک گیا تھا مرش آہستہ آہستہ پیچھے کی اور سرک رہی تھی لیکن اچانک سے وہ صوفے پر بلکل سونے والے انداز میں گر سی گیی تھی رات آہستہ آہستہ پراون چڑھ رہی تھی ان دونوں کی محبت دور کھڑی اپنی آمد کا علان کر رہی تھی ۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_30
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
گڈ مارننگ !! آہل نے بیٹھتے ہوے خشگوار لہجے میں کہا تھا ۔۔
گڈ مارننگ !! بالوں کو جوڑے کی شکل دیتے ہوے اس نے مسکرا کر جواب دیا تھا ۔۔
سوچ رہا ہوں آج آفس نہ جاوں ۔۔ آہل نے بے زاریت سے کہا تھا ۔۔
کیوں ؟؟ مرش نے چونکتے ہوے پوچھا ۔
تم وہاں میری نظروں کے سامنے نہیں ہوتی ہو نہ اس لیے ۔۔ افسردگی سے بھرپور جواب تھا ۔۔
کچھ زیادہ ہی چیپ نہیں ہوتے جا رہے ہو تم ۔۔ مرش نے واڈروب سے کپڑے نکال کر اس کی طرف دیکھتی ہویی شرارت سے بولی تھی ۔۔
عورت چیز ہی ایسی ہوتی ہے اچھے اچھے مردوں کو چیپ بنا دیتی ہے ۔۔ آہل نے بڑی ڈھٹایی کے ساتھ جواب دیا تھا ۔۔
چپ چاپ آفس جاو ۔۔ مرش نے اسے ڈپٹا تھا ۔۔
بہت ظالم ہو تم ۔۔ اس نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
وہ تو میں ہوں ۔۔ مرش اکڑتے ہوے کہا ۔۔
اچھا بابا چلا جاتا ہوں آفس ۔۔ آہل نے جیسے ہار مان لی تھی ۔۔
گڈ بواے ۔۔ مرش موڈ آج اچھا تھا اس لیے انداز و اطوار تھوڑا مختلف لگ رہے تھے ۔۔
آہل مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے !! جاوید صاحب نے آہل کو دیکھتے ہوے کہا تھا ۔۔
جی کہیں میں سن رہا ہوں ۔۔ آہل نے مصروف سے انداز میں جواب دیا حالانکہ اس کی پوری توجہ جاوید صاحب کی طرف تھی ۔۔
کچھ اکیلے میں بات کرنی یے ۔۔ جاوید صاحب ایک گہری نظر اس پر ڈال کر کہا ۔۔
لیکن میں تو آفس جا رہا ہوں واپسی پر آپ کی باتیں ضرور سنوں گا ۔۔آہل نے کچھ کر پر سکون سے انداز میں جواب دیا تھا ۔۔
ٹھیک ہے !! جاوید صاحب نے اطمینان سے جواب دیا تھا ۔۔۔
بریرہ جلدی کرو لیٹ ہو رہا ہے ۔۔آہل نے ایک نظر ریسٹ واچ پر نظر ڈال کر کہا تھا ۔۔
بھایی آج میں کالج نہیں جاوں گی ۔۔بریرہ نے بتایا اورینج جوس کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوے طماننیت سے جواب دیا تھا ۔
کیوں خیریت ! آہل کو تھوڑا حیرت ہو رہی تھی اس سال میں پہلا ایسا دن تھا بریرہ نے کالج سے آف لیا تھا ۔۔
بس یونہی موڈ نہیں ہو رہا تھا ۔۔ بریرہ نے مسکرا کر جواب دیا تھا ۔۔
اوکے ۔۔ آہل نے ایک طایرانہ نظر سب پر ڈالی تھی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا تھا ۔۔۔
آج تو بڑا فریش لگ رہا ہے ۔۔ فارس نے مسکرا کر نظر ثانی کی تھی ۔۔
کیوں روز نہیں لگتا تھا کیا ۔۔ آہل نے شرارت سے جواب دیا تھا ۔۔
لگتا تھا لیکن اس طرح نہیں ۔ فارس عورتوں کی طرح آہل کی جانچ کرنے میں مصروف تھا ۔۔
تو میری چھوڑ یہ بتا ہوتا کہاں ہے تو ۔۔آہل نے اسے مسکرا کر چھیڑا تھا ۔۔
ہم نے کہاں ہونا اسی سر زمین پر ۔۔فارس نے نہایت بےچارگی سے جواب دیا تھا ۔۔
لیکن میرے یار تیرے انداز تھوڑا بدلے بدلے سے ہے سب ٹھیک تو ہے ۔۔آہل اوپر سے نیچے تک فارس کا جایزہ لیا تھا ۔۔
سب ٹھیک ہے یار تو خواہمخواہ شک کر رہا ہے ۔۔۔ فارس نے منھ پھلاتے ہوے کہا تھا ۔۔
فارس ایک اچھا سا مشورہ دوں تجھے ؟؟ آہل نے اجازت لی تھی ۔۔
ہاں دیں ۔۔فارس کے کان فورن کھڑے ہوے تھے ۔۔
شادی کر لیں تیری تنہایی بھی دور ہو جاے گی ۔۔ مشورہ نہایت دلچسپی سے دیا گیا تھا ۔۔
کر لوں گا میری جان ۔۔فارس نے آنکھ ماری تھی مطلب صاف تھا مشورہ کچھ برا نہیں ہے ۔۔
کویی پسند ہے ؟؟ آہل کا سوال بے حد عام سا تھا لیکن فارس چہرے کا رنگ یکلخت غایب ہوا تھا ۔۔
نہیں یار کویی پسند نہیں ہے جب ہوگی تجھے بتا دوں گا ۔۔فارس نے بھرپور مسکرانے کی کوشش کی تھی ۔۔
اوکے انتظار رہے گا ۔۔ آہل بھی مسکرا دیا تھا ۔۔
بریرہ کیا دیکھ رہی ہو ؟؟ لاونج میں بیٹھی بریرہ کو دیکھ کر مرش نے مسکرا کر پوچھا تھا ۔۔
کچھ بھی بس بور ہو رہی تھی تو ٹی وی دیکھنے لگی تم آو ۔۔بریرہ نے اسے اپنے سایڈ میں بیٹھنے کی جگہ دی تھی ۔۔
مرش تم خوش تو ہو نہ ۔۔بریرہ نے نہ جانے کن خدشہ کے تحت پوچھا تھا ۔۔
بریرہ میری زندگی میں جو لکھ دیا گیا ہے اسے میں خوشی خوشی قبول کر چکی ہوں کیوں کی میرے پاس اس کے علاوہ اور کویی راستہ نہیں ہے ۔۔مرش نے نپے تلے لفظوں میں اسے یقین دلایا تھا ۔۔
مرش بھایی بہت اچھے ہے اینڈ میجھے لگتا ہے وہ تم سے بہت پیار کرتے ہے ۔۔۔بریرہ نے مسکرا کر اپنے بھایی کی سایڈ لی تھی ۔۔
ہاں شاید ۔۔۔ مرش نے کہا کچھ بھی نہیں تھا لیکن تھوڑا بہت دل ہی دل میں مسرور ہونے لگی تھی ۔۔
تم بتاو کیا چل رہا ہے ۔۔مرش نے کچھ جانچتی نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
کچھ خاص نہیں صرف اسٹڈی ۔۔بریرہ نے نظریں چراتے ہوے جواب دیا تھا ۔۔
اچھا ۔۔۔ مرش نے تھوڑا لمبا کھینچا تھا ۔۔
وہ دونوں اپنی اپنی بے جا گفتگو کرنے میں مگن تھی ۔۔۔
سر میٹنگ میں صرف پندرہ منٹ رہ گیے ہے ۔۔ ایک کم عمر سانولی رنگت والی لڑکی اپنے باس کو میٹنگ کے ٹایم سے اگاہ کر رہی تھی ۔۔
اوکے ہم آتے ہے ۔۔ آہل نے ایک سرسری سی نگاہ اس پر ڈال کر جواب دیا تھا ۔۔
اوکے سر وہ لڑکی جا چکی تھی ۔۔
کیا ڈھونڈ رہا ہے ۔۔آہل دراز کی سایڈ کچھ فایلوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا نہ جانے اسے کس چیز کی تلاش تھی ۔۔
یار میں وہ اکاوینٹیڈ فایل ڈیڈ سے لینا بھول گیا تھا شٹ !!! آہل اپنی کوتاہی پر سخت غصہ آ رہا تھا وہ فایل حد سے زیادہ ضروری تھی کم از کم آج کے دن ۔۔
اب کیا ہوگا !! فارس نے بھی حیرانگی ظاہر کی تھی ۔۔
ایک کام تو گھر جا کر وہ فایل لے آ پلیز ! آہل نے التجا کی تھی ۔۔
یار تو بہت ان سب کاموں کے لیے میں ہی تجھے دکھتا ہوں ۔۔فارس نے منھ پھلا کر ہلکی پھلکی ناراضگی ظاہر کی تھی ۔۔
میری جان پلیز !! آہل کی آنکھوں میں امید کی ایک لہر تھی ۔۔
اوکے ٹھیک ہے لیکن آج آخری بار ہے ۔۔ فارس نے شہادت کی انگلی اس کی جانب کر کے وارننگ دی تھی لیکن کس کو خبر تھی آج شاید یے آخری ہی ہے ۔۔
اوکے یار آخری بار ۔۔آہل مسکرا دیا تھا ۔۔
فارس آپ !! لاونج میں بیٹھی کافی سے لطف اندوز ہوتی مرش نے حیرانگی سے پوچھا تھا ۔۔
جی بھابھی السلام علیکم ۔۔فارس نے سعادت مندی سے سلام کیا تھا ۔۔
وعلیکم السلام ۔۔مرش نے مسکرا کر جواب دیا تھا ۔۔
دراصل میں انکل سے ایک فایل لینے آیا تھا ۔۔ فارس نے مسکرا کر اپنی آنے کی وجہ بتایی تھی ۔۔
اچھا لیکن ڈیڈ تو اپنے کسی فرینڈ کے یہاں گیے ہوے ہیں ۔۔۔مرش نے اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوے کہا تھا ۔۔
اچھا ۔۔فارس نے غایب دماغی سے جواب دیا تھا یوں لگ رہا تھا وہ یہاں ہے ہی نہیں ۔۔
کسی کو ڈھونڈ رہے ہیں کیا آپ ؟؟ مرش نے بہ مشکل اپنی مسکراہٹ دبا لی تھی ۔۔
آ۔ ۔نن نہیں تو کسی کو بھی تو نہیں ۔۔فارس خود کو کمپوز کرتے ہوے بہ مشکل جواب دیا تھا ۔۔
مجھے لگا کسی کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔مرش اب اسے چھیڑنے پر آمادہ تھی ۔۔
ارے بھابھی میں نے کس کو ڈھونڈنا ہے !! فارس صاف مکر گیا تھا ۔۔اس بات سے بے خبر کی وہ جس راز کو راز رکھنا چاہتے ہے مقابل اس سے پہلے سے با خبر تھا ۔۔
اوپر ہے ۔۔۔مرش نے اوپر کی طرف اشارہ کیا تھا ۔۔
کیا ؟؟ فارس نے نا سمجھی سے پوچھا ۔۔
بریرہ !! مرش نے کافی کا سیپ لے کر ایک بم دھماکہ کیا تھا ۔۔
ب۔ ب۔ بریرہ بھابھی میں آ ۔۔۔مرش کی آواز اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ایک ایسا انکشاف ہوا تھا جس کا اسے سرے سے علم ہی نہیں تھا ۔۔
میں جانتی ہوں ۔مرش اب اٹھ کر کھڑی ہو چکی تھی ۔۔
کیا ؟؟ فارس نے حیرت سے پوچھا ۔۔
یہی کی آپ کو میری پیاری سی نند بہت پسند ہے ۔۔ مرش نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ اسے چھیڑا تھا ۔۔
میں فایل ڈھونڈ کر لاتی ہوں آپ تب تک اوپر جا کر اس سے مل لیں دیکھ لیں ایسی بھابھی آپ کو کہاں ملیں گی ۔۔مرش نے خود کی تعریف کرنا ضروری سمجھا تھا ۔۔
تھینکس ۔۔لیکن پلیز آپ آہل سے کچھ نہ کہیے گا میں ریکویسٹ کرتا ہوں آپ سے ۔۔فارس نے بے امید کے ساتھ مرش سے کہا تھا ۔۔
پاگل ہیں کیا آپ اتنا بیوقوف سمجھ رکھا ہے مجھے ۔۔مرش نے اسے آنکھیں دکھایی تھی ۔۔
بہت بہت بہت شکریہ مرش بھابھی ۔۔فارس کی آنکھوں کی چمک اور بڑھ گیی تھی اب اس محبت کے رازداں دو نہیں تین افراد ہو چکے تھے ۔۔
یور ویلکم میں فایل ڈھونڈ کر لاتی ہوں ۔۔مرش وہاں سے جا چکی تھی ۔۔
ہاے ۔۔فارس عین بریرہ کے پیچھے کھڑے ہو کر اس کے کان میں سرگوشی سی کی تھی ۔۔
فارس تم ۔۔تم یہاں تم پاگل ہو گیے ہو کیا کسی نے دیکھ لیا تو ۔۔۔بریرہ کی گھبراہٹ عروج پر تھی ۔۔۔
کون دیکھے گا میری جان بولو ۔۔فارس اپنی نرم ملایم مخروطی انگلیوں سے اس کی لٹوں کو کان کے پیچھے کر رہا تھا جو بار بار اسے ڈسٹرب کر رہی تھی ۔۔
فارس پلیز ہزاروں ملازم ہیں یہاں کسی نے غلطی سے بھی دیکھ لیا تو بہت بڑا طوفان آ جاے گا ۔۔
یار تمہارا بیڈروم تو بہت ہی خوبصورت ہے ۔۔فارس اب اس کے بیڈ پر پھیل کر بیٹھ چکا تھا ۔۔
فارس میں کہہ رہی ہو یہاں سے جاو پلیز !! بریرہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچ رہی تھی ۔۔
پہلی بار آیا ہوں کم از کم ایک کپ چاے کا ہی پوچھ لو ۔۔فارس نے منھ پھلاتے ہوے کہا ۔۔
فارس پلیز جاو یہاں سے ۔۔کویی بھی دیکھ سکتا ہے مرش ۔۔مرش بھی دیکھ سکتی ہے وہ کیا سوچے گی پلیز ۔۔بریرہ کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی ۔۔
فکر کی کویی بات نہیں بریرہ جان مرش بھابھی نے ہی تو مجھے آفر کی تھی ۔۔فارس کا اطمینان حد درجے کا تھا ۔۔۔
کیا !!!! بریرہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرے چھانے لگا تھا ۔۔
ہاں مرش جانتی ہے میرے خیال اس دن ریسٹورینٹ میں دیکھ لیا تھا شاید ۔۔
فارس یے تم کیا کہہ رہے ہو ۔۔بریرہ کے اعصاب ڈھیلے پڑنے لگے تھے ۔۔۔
سچ کہہ رہا ہوں میں دیکھو بریرہ ایک نہ ایک دن سب کو پتہ چلنا ہی ہے تم پلیز پریشان نہ ہو ۔۔فارس اسے تسلی دے رہا تھا ۔۔۔
فارس لیکن ۔۔۔
بریرہ پلیز کول ڈاون یے موقع ہمیں بار بار نہیں ملنے والا پلیز انجواے کرتے ہیں ۔۔۔
بریرہ اب خاموش ہو چکی تھی سارے الفاظ بے مقصد لگنے لگے تھے ۔۔
کون سی فایل ہے ۔۔ مرش ایک ایک کر کے دراز چیک کر رہی تھی ۔۔
افف اللہ کہاں پر ہے یے فایل ۔۔مرش Almirah کے اندر منھ گھساے سب کچھ الٹ پلٹ کر کے دیکھنے میں مگن تھی ۔۔۔
اچانک ایک فایل سے بڑے سایز والا فوٹو زمین پر جا گرا تھا ۔۔
یے کیا ہے !! مرش گھٹنے کے بل زمین پر بیٹھ کر فوٹو کو اٹھا کر دیکھ رہی تھی ۔۔
اس کو شدید جھٹکا لگا تھا ۔۔۔
یے فوٹو ۔۔یے تو امی کے پاس بھی ہے لیکن یے ڈیڈ کے پاس کیا کر رہی ہے ۔۔۔
اففف مرش کیا لے کر بیٹھ گیی ہو۔۔مرش نے خود کو ڈپٹا تھا جلدی جلدی فوٹو اس نے اندر رکھ دیا تھا ۔۔ذہن اس وقت کافی الجھا ہوا تھا ۔
اف اللہ یہاں ہے فایل میں بھی کہاں کہاں ڈھونڈ رہی ہوں ۔۔سامنے ہی رکھی فایل کو دیکھ کر مرش منھ ہی منھ بڑبڑایی تھی ۔۔۔
فایل لے کر وہ سیدھا باہر لاونج میں آ گیی تھی جہاں فارس پہلے سے ہی موجود تھا ۔۔
یے لیں ۔۔مرش نے فایل اس کی جانب بڑھایا تھا ۔۔
شکریہ ۔۔فارس نے مسکرا کر شکرایہ ادا کیا تھا ۔۔
دیکھو مسڑر ہم آپ کو اندر نہیں جانے دے سکتے اس سے پہلے بھی آپ نے کافی بدتمیزی کی تھی ہمیں سخت آڈر ملیں ہیں ہم آپ کو اندر جانے کی پرمیشن نہیں دے سکتے ۔۔
سیکیورٹی اسے دونوں بازوں سے دبوچے ہوے تھا ۔۔
مجھے اندر جانے دو ورنہ میں تم لوگوں کو جان سے مار دوں گا ۔۔۔علی شہروز کا انداز اب دھمکی دینے والا تھا ۔۔۔
نہیں بہتر یہی ہوگا آپ خاموشی سے باہر نکل جاے ورنہ ہمیں آپ کو اٹھا کر باہر پھیکنے میں ایک لمحہ نہیں لگے گا ۔۔۔مقابل نے بھی بڑی ڈھٹایی کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔
کیا ہو رہا ہے یہاں پر ۔۔آہل شاہ آفندی طیش میں کھڑا پوچھ رہا تھا ۔۔
ایم سوری سر لیکن یے مسٹر بدضد ہو رہے ہیں آپ سے ملنے کے لیے ۔۔۔
سیکورٹی نے بڑی ایمانداری سے بتایا تھا ۔۔
ایک منٹ کے اندر گھسیٹتے ہوے باہر لے جاو ۔۔آہل کی آنکھیں اب غصے سے لال ہو رہی تھی ۔۔
آہل شاہ آفندی آج اپنے قیمتی وقت میں سے دو منٹ مجھے بھی دے دو کیا غضب کی خوشخبری دینی ہے تمہیں بتا نہیں سکتا ۔۔۔علی شہروز نے شاطرانہ مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی تھی ۔۔
آیی سیڈ ۔۔۔ لے جاو اسے ۔۔ْآہل نے اب دھاڑا تھا ۔۔جس کافی لوگ کانپ اٹھے تھے ۔۔
سیکورٹی اس کا بازوں گھسیٹتے ہوے باہر کی طرف قدم بڑھاے تھے ۔۔۔
آہل ۔۔آہل میری بات سن لو ورنہ بہت پچھتاوگے میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں نہیں بلکہ کچھ دکھانا چاہتا ہوں ایک بار میری بات سن لو ۔۔۔علی سیکورٹی کے ہاتھوں خود سے آزاد کر کے اس کے مقابل آ کھڑا ہوا تھا ۔۔
علی اگر تم زندہ ہو تو اس کی صرف ایک وجہ ہے میں قاتل نہیں بننا چاہتا دفعہ ہو جاو یہاں سے ۔۔آہل نے غرارتے ہوے اس کا گریبان اپنے ہاتھوں سے جکڑ لیا تھا ۔۔۔
چلا جاوں گا لیکن میری بات سن لو تمہاری لیے بڑی کام کی چیز لایا ہوں ۔۔علی شہروز کی آنکھوں کی آنکھوں بلا کی بہودگی تھی ۔۔۔
بولو ۔۔آہل نے بڑی برداشت سے کہا تھا ۔۔
اندر چلو تمہیں کچھ دکھانا ہے یار ۔۔۔علی راہداری میں چل کر اس کے کیبین میں جا کر چییر پر بڑے اطمینان کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔۔
اب بولو بہت جلدی ورنہ تمہیں شوٹ کرنے میں ایک پل نہیں لگاوں گا ۔۔۔آہل میز کی سطح پر سختی سے ہاتھ جماے اس کی طرف جھکا تھا ۔۔۔
آگے کے الفاظ نہ جانے کیا راز افشاں کرنے والے تھے ۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_31
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
آہل شاہ آفندی یہی نام ہے نہ تمہارا ہا ہا ہا ۔۔ علی شہروز کی ہنسی بے وجہ تھی ۔۔
اگر تم اتنے ہی فارغ تھے تو کسی قلب میں چلے جاتے کیوں کی میں تمہاری طرح فارغ نہیں ہوں ۔۔۔آہل کو اب مزید غصہ آ رہا تھا ۔۔
بیٹھ جاو پہلے ۔۔چییر کی طرف اشارہ کیا گیا تھا ۔۔
تم یہاں آنے کا مقصد بتاو ۔۔۔ آہل شاہ آفندی نے قدرے رسان سے کہا تھا ۔۔
تمہارا عزیز دوست نظر نہیں آ رہا کہاں ہیں ؟؟ علی یہاں وہاں گردن کا رخ کر کے دریافت کر رہا تھا ۔۔
اس سے تمہیں کویی غرض نہیں ہونا چاہیے مطلب کی بات کرو تم ۔۔آہل کو بے تحاشہ غصہ آ رہا تھا اس گھٹیا انسان کو مزید برداشت کرنا اس سے باہر تھا ۔۔
اسی سے تو غرض ہے سمجھ میں نہیں آ رہا بات کا آغاز کہاں سے کیا جاے ۔۔علی شہروز نے نہایت پرسکون سے جواب دیا تھا ۔۔
کون سی بات ؟؟ آہل نے پوچھا تھا ۔۔
چی چی چی بہت افسوس ہوا مجھے لیکن اب کیا کر سکتے ہیں ایک راز کی بات بتاوں تمہارا دوست اصل میں اول درجے کا گھٹیا انسان ہے !! علی شہروز نہایت اطمینان سے جنگل میں آگ لگا رہا تھا ۔۔
جو کہنا ہے کھل کر کہو پہلیاں بجھوانے کا میرے پاس وقت نہیں ہے ۔۔اس کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر آہل نے بڑے سکوت سے کہا تھا ۔۔
تو مجھ سے بہت آگے تھا نہ بزنیس میں پیسے میں شہرت میں لیکن افسوس تیرا نام میں ایک لمحے کے اندر مٹی میں ملانے کی طاقت رکھتا ہوں اب آہل شاہ آفندی واہ بلا کا غرور تھا نہ تجھے لیکن تو اب مجھ سے ڈر ۔۔ علی اپنی جگہ سے اٹھ ہو کر آہل کے مقابل آ کھڑا ہو گیا تھا الفاظ کی چنگاریاں دہک رہی تھی آگ لگنے کو تھی شکاری جال میں آہستہ آہستہ پھنس رہا تھا ۔۔۔
مطلب کیا ہے تیرا !! آہل کی آنکھوں میں لال سرخی اتر آیی تھی لیکن آفس میں کویی تماشہ نہیں بنانا چاہتا تھا اس لیے بڑے تحمل کے ساتھ اسے برداشت کر رہا تھا ۔۔
تیری ایک بہن ہے نہ کیا نام ہے اس کا۔۔۔ بریرہ ہاں بریرہ نام تو سہی ہے نہ ۔۔خباثت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اپنے لگاے گیے اندازے کو دروست کرنے کے لیے اس نے آہل کی طرف دیکھا تھا ۔۔
علی !!! آہل کی برداشت اب جواب دے رہی تھی اس نے سختی سے اس کا گریبان پکڑا تھا ۔۔۔
غصہ نہیں اس دن ریسٹورینٹ میں دیکھا تھا اسے بڑی پیاری تھی اور بھولی بھی لکین گل تو بڑے بڑے کھلا رہی ہے اس کو دیکھ کر کویی اندازہ نہیں لگا سکتا میڈم کے اندر اتنی بیہودگی بھری ہے تیرا دوست فارس ویسے سچ میں کیا لمبا ہاتھ مارا ہے جس شخص کے اوپر تو اتنا بھروسہ کرتا ہے چی چی وہی تیری عزت پر ہاتھ ڈال رہا ہے مزا کر رہا ہے ۔۔۔۔ علی نے بھر پور مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بات کا آغاز مین پواینٹ سے کیا تھا ۔۔۔
اپنی بکواس بند کر علی ورنہ جان سے مار دوں گا تجھے ایک لفظ نہیں ۔۔۔ ایک ایک لفظ چبا چبا کر آہل نے طیش میں کہا تھا اس کی آنکھیں لال ہو رہی تھی ظاہر کویی بھی بھایی اپنی بہن کے بارے میں اس طرح کی باتیں تو سن کر خوش ہونے سے رہا ۔۔۔
مجھے پتہ تھا تو یقین نہیں کرے گا اس لیے میں ثبوت کے ساتھ تمہارے سامنے کھڑا ہوں تا کہ بعد میں مجھے کویی الزام نہ دینا ۔۔علی نے اب سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔۔
کیسا ثبوت ؟؟؟ آہل کے اندر ایک جھماکا سا ہوا تھا وہ کمزور سا شخص بلکل بھی نہیں تھا وہ تو بہت مضبوط تھا لیکن حالات کبھی کبھی کسی مضبوط سے مضبوط انسان کو بھی کمزور کر کے ہی چھوڑتے ہیں ۔۔۔
ایک منٹ ۔۔سب سے پہلے جیکٹ کی زیپ اوپر سے نیچے کی گیی تھی اندر ہاتھ ڈال کر ایک لمبا چوڑا لفافہ باہر نکالا گیا تھا جس کو بہت ہی حفاظت کے ساتھ اندر رکھا گیا تھا ۔۔۔
میں چاہتا ہوں اندر موجودہ چیز کو تم اپنے پاک صاف ہاتھوں سے نکالو ظاہر ہے یے تمہارا حق ہے اور میں کسی کا حق نہیں مارتا ۔۔۔علی نے ایک لمبی سانس لے کر لفافہ اس کی طرف بڑھا دیا تھا جسے آہل بنا چوں چاں کیے تھام لیا تھا ۔۔
سر گھوم گیا تھا ایک چکر سا آنے لگا تھا پلکیں جھپکنا بھول گیی تھی سامنے رکھی پانچ چھ تصویرں کو دیکھ کر اس کی شاید ایسی حالت کا تصور کیا جا سکتا تھا ۔۔
آہل شاہ آفندی بیوی کو تو بڑے قرینے سے سمبھال کر رکھا تھا لیکن بہن کو یوں سر بازار چھوڑ دیا اور سب سے بڑی خوشخبری کی بات تو یے ہے کی فارس تیرا دوست تیری ْنکھوں دھول جھونک رہا تھا تیری بہن تیرے یار کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی ہے اور تجھے خبر ہی نہیں یے دیکھ کتنے قریب بیٹھے ہیں ایک دوسرے کے سوچ تیری عزت کا کیا ہوگا جب میں یے فوٹو پوری دنیا میں دکھاوں گا لوگ تھو تھو کریں گے آہل شاہ آفندی کی بہن اس کے دوست کے ساتھ گل چھررے اڑا رہی ہے ہا ہا ہا کتنا مزا آے گا نہ تجھے آے نہ آے مجھے بڑا مزا آے گا ۔۔ علی قہقہے مار کر اپنی بے جا لفظوں کو املی جامہ پہنانے میں مگن تھا ۔۔
گیٹ آوٹ ۔۔۔ آنکھوں کو سختی سے ایک دوسرے میں بھینچ کر آہل نے اس کو جانے کو کہا تھا ۔۔۔
میری ایک بات یاد رکھنا آہل شاہ آفندی تیری بہت قیمتی چیز میرے ہاتھوں میں ہے مجھ سے تمیز سے بات کرنا تمہارا رازداں ہوں میں اب میں چلتا ہوں لیکن پھر ملیں گے جلد ہی ایک اچھی ملاقات کے ساتھ ۔۔ علی جاتے جاتے اسے بہت کچھ باور کرا گیا تھا اب آہل شاہ آفندی اس کے پورے دباو میں ہے اس کی عزت اس کا وقار سب کچھ اس شخص کے ہاتھوں میں ہے ۔۔۔
یے یہاں ؟؟ علی کو گیٹ عبور کرتا دیکھ فارس منھ ہی منھ بڑبڑایا تھا ۔۔
ایک عجیب بے حد عجیب سی فاتحانہ مسکراہٹ علی شہروز نے اس کی طرف اچھالی تھی ۔۔
بدتمیز !! فارس اس پر ایک کھونکھار نظر اس پر ڈال کر اندر چلا گیا تھا ۔۔
آہل یے رہی فایل قسم سے بہت خوار کرایا ہے تونے مجھے ۔۔فارس نے اس کے کیبین میں قدم رکھتے ہی شکوہ شکایت کرنا شروع ہو گیا تھا ۔۔۔
آہل ؟؟ کویی جواب نہ ملنے پر فارس نے اسے پھر سے پکارا تھا ۔۔
آہل تو ٹھیک تو ہے میں فایل لے آیا یار چل !! فارس اس سے ذرا فاصلے پر تھا اس لیے میز پر رکھی تصویر نہیں دیکھ سکا تھا ۔۔۔
غصے کی شدید لہر آہل شاہ آفندی کے اوپر سوار ہو چکی تھی طوفان بے تابی سے امڈ رہا تھا مٹھیاں سختی سے بند تھی ہاتھ اور پیشانی کی رگیں تن گیی تھی ۔۔۔
آہل ؟ فارس اب اس کے عین سامنے کھڑا تھا لیکن الفاظ یک لخت کمزور بے حد کمزور پڑ گیے تھے جب نظریں میز پر رکھی تصویروں پر گیی تھی اور پلٹنا بھول گیی تھی تو کیا آج آہل شاہ آفندی کی دوستی خاموشی سے بہتے سمندر میں کہیں ڈوب رہی تھی کیا اب وہ وقت آ گیا تھا جس سے فارس خوف کھاتا تھا کیا اب ان کی دوستی اپنی قیمت کھو رہی تھی ۔۔
فارس ایک لفظ جھوٹ نہیں کیا یے سچ ہے ؟؟ آہل نے بہ مشکل اپنی خون جیسی آنکھیں کھولی تھی ۔۔
آ۔ ۔۔آ۔ ۔۔ہل ۔۔فارس کی آواز کہیں گم ہو رہی تھی یوں لگ رہا تھا آج کے بعد وہ کبھی بول نہیں پاے گا ۔۔
دل کر رہا ہے تجھے جان سے مار دوں!!
کیوں کیوں ؟؟؟؟؟؟ کیوں کیا تو نے ایسا کیوں فارس جواب دے ۔۔۔
آہل ۔۔م۔ م۔ میں تجھے !! الفاظ ساتھ چھوڑ رہے تھے ۔۔
جواب دے فارس ۔۔۔ اب کی بار آہل نے صرف کہا نہیں بلکہ دھاڑا تھا ۔۔
آہل میں تجھے بتانے ہی والا تھا م۔ م۔ میں تجھے بتانا چاہتا تھا لیکن ۔۔ فارس ایک پھر اپنی صفایی کے لیے الفاظ کا چناو کر رہا تھا ۔۔
بتانے والا تھا لیکن بتایا تو نہیں نہ ۔۔نہیں بتایا نہ تونے تجھے پتہ اس دو ٹکے کا گھٹیا انسان آج مجھے میری اوقات بتا کر گیا ہے میری عزت دو کوڑی کر گیا خاک میں ملا دیا سب کچھ جس شخص سے اپنی عزت بچانے کی خاطر میں نے مرش کو اپنا بنایا تھا اگر میں چاہتا اس سے زبردستی بھی نکاح کر سکتا تھا لیکن صرف اور صرف اپنے گھر کی عزت بچانے کے لیے میں نے اس سے نکاح کا یے طریقہ اپنایا تھا لیکن آج اس کے ہاتھوں میں ذلیل ہو گیا اسے میری کمزوری مل گیی ہے جس کے بل بوتے پر اب وہ مجھے بلیک میل کر رہا ہے ۔۔۔۔ آہل شاہ آفندی ہار گیا تھا ایک ہارے ہوے جوواری کی طرح اپنی ہار تسلیم کر رہا تھا ۔۔۔
آہل میں تجھے بتانے والا تھا میرا یقین کر میں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا اس کے ساتھ میں محبت کرتا ہوں اس سے ۔۔۔ فارس نے جیسے خود کو پرسکون کرنا چاہا تھا ۔۔۔
کیا بولا تو آہل شاہ آفندی کے مضبوط ہاتھوں سے ایک زوردار پنچ فارس کے منھ پر پڑا تھا غصے کی آگ آہل کو اندھا کر رہی تھی اپنے حواس کھونے لگا تھا ۔۔۔
آہ ۔۔ایک درد ناک ہلکی سی چینخ فارس کے منھ سے برامد ہویی تھی ماتھے سے خون کی ننھی ننھی بوندیں زمین پر گر رہی تھی ۔۔
پہلے مجھے لگتا تھا تیرے یے بدلے بدلے انداز مجھے کھٹکا رہے تھے مجھے شک ہونے لگا تھا لیکن میں نے خود کو غلط ثابت کیا خود کو غلط ٹہرایا کیوں ؟ کیوں کی میں تجھ پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرتا تھا تونے کاش ایک بار مجھے خود بتایا ہوتا تو آج مجھے اس قدر شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا دراصل تجھ جیسے لوگوں کو اتنا سر نہیں چھڑانا چاہیے ایک نہ ایک دن اپنی اوقات دکھا ہی دیتے ہیں تونے مجھے دھوکہ دیا ہے میری پیٹھ پیچھے مجھ پر وار کیا ہے میں تجھے کبھی معاف نہیں کروں گا فارس کبھی نہیں کاش مجھے ذرا سا علم ہوتا تو اتنا غلیظ ہے تو کبھی تجھے منھ بھی لگانا پسند نہیں کرتا ۔۔آہل شاہ آفندی غصے کی آگ میں جل کر خاک ہو گیا تھا آنکھوں میں ایک عجیب سا اضطراب تھا جن آنکھوں میں ہمیشہ اپنے عزیز دوست کے لیے محبت ہوتی تھی چمک ہوتی تھی آج انہی آنکھوں میں بے یقینی تھی نفرت تھی شدید نفرت ۔۔۔
آج کے بعد میرے آفس میں تو نظر بھی آیا تو بہت برا ہوگا گیٹ آوٹ آیی سیڈ گیٹ آوٹ !!!! آہل شاہ آفندی کا یے انداز کس نے دیکھا تھا کون یقین کرتا یے اپنے دوست کے لیے ایسا رویہ اختیار کرنا بچپن کا ساتھ پل بھر میں ٹوٹا تھا ۔۔
فارس خالی خالی نظروں سے اپنے مقابل کھڑے شخص کو دیکھ رہا تھا جیسا اب بھی کویی امید باقی ہو جیسے ابھی وہ کہے گا مزاق کر رہا تھا یار !! خیر یے یار لفظ تو کہیں کھو سا گیا تھا ۔۔خون کی بوندیں اب بھی زمین پر ٹپک رہی تھی لیکن زخموں کی پرواہ کس کو تھی آج آہل شاہ آفندی کی وجہ سے اس تکلیف پہنچی تھی جو کبھی خود زمین پر بیٹھ کر اس کے زخموں پر مرہم رکھتا تھا ۔لیکن تب اور آج میں بہت فرق تھا ۔۔۔
چلا جا تو ورنہ دھکے دے کر نکلوا دوں گا فارس گیٹ لاسٹ ۔۔ اس کی طرف دیکھنا آہل شاہ آفندی کے لیے سب سے مشکل ترین کام لگ رہا تھا ۔۔۔
ٹھیک ہے جا رہا ہوں لیکن میری بات یاد رکھنا آہل شاہ آفندی میں نے تمہاری بہن کو کبھی کویی نقصان نہیں پہنچایا نہ سوچ سکتا ہوں ایسا محبت کرتا ہوں اس سے اور کرتا رہوں گا ۔۔۔ ایک آخری الوادعی نظر اپنے دوست پر ڈال لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ جا چکا تھا ۔۔۔
شاید قسمت کو یہی منظور تھا !!!
Sang_Jo_tu_hae
Episode_32
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
ایک لمبی پرسکون سانس لے کر آہل نے خود کو پرسکون کرنا چاہا تھا ۔۔
سر ٹایم ہو گیا ہے میٹنگ کا ۔۔وہ لڑکی پھر سے وہاں پر موجود تھی ۔۔
آپ چلے میں آتا ہوں ۔۔ آہل نے اسے جانے کا اشارہ کیا ۔۔
اوکے سر ! وہ لڑکی جا چکی تھی ۔۔
غایب دماغی سے اسنے بہ مشکل میٹنگ اٹینڈ کی تھی ایک عجیب سی بے چینی تھی دل کر رہا تھا سب کچھ تہس نہس کر دے ایک لمحے میں اس کا دل چاہا اس سارے منظر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غایب ہو جاے ۔۔بلا وجہ گاڑی روڈ پر مسلسل ایک گھنٹے سے دوڑا رہا تھا جیسے کویی منزل ہی نہ ہو ۔۔
فارس کیا ہوا میری جان یے چوٹیں کیسی ہیں ؟؟ ماں ہونے کے تحت ان کا فکر مند ہونا لازمی تھا ۔۔
امی !! یکا یک فارس کی آنکھوں میں آنسوں امڈ گیے تھے کسی معصوم چھوٹے بچے کی طرح وہ اپنی ماں سے لپٹ گیا تھا ۔۔
کیا ہوا ہے فارس بتاو مجھے ؟؟ اس کی امی نے نہایت فکرمندی سے پوچھا تھا ۔۔
امی میں نے آہل کو کویی دھوکہ نہیں دیا میں اسے دھوکہ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا امی وہ ۔وہ مجھے دھوکے باز کہتا ہے اسے لگتا ہے میں نے اسے دھوکہ نہیں دیا امی میری بات کا یقین کرے ۔۔بات تو سو فیصد سچ تھی لیکن کون یقین کرتا ۔۔
میری جان کیا ہوا ہے کھل کر بتاو مجھے بہت فکر ہو رہی ہے ۔۔ انہوں نے فارس کا ہاتھ تھام کر کہا تھا۔ ۔
امی اسے پتہ چل گیا میں بریرہ سے محبت کرتا ہوں لیکن وہ کہتا ہے میں نے کھیل کھیلا ہے میں نے اسے دھوکہ دیا ہے ۔۔۔
بیٹا ہر بھایی اپنی بہن کے معاملے میں بہت حساس ہوتے ہے وہ بھی ایک بھایی بن کر سوچ رہا ہے ۔۔۔ انہوں نے سمجھانا چاہا تھا ۔۔
نہیں امی وہ مجھے دھوکے باز کہتا ہے میں تو سمجھتا تھا وہ یقین کرے گا مجھ پر میری بات سنے گا لیکن وہ تو مجھے دھوکے باز سمجھتا ہے ۔۔فارس کی آنکھوں میں بے یقینی سی بے یقینی تھی ۔۔۔
نہ میری جان اس طرح نہیں کہتے جا کپڑے بدل کر آ میں کھانا لگاتی ہوں ۔۔ ایک محبت سے بھر پور بوسہ انہوں نے فارس کی پیشانی پر ثبت کیا تھا ۔۔
بھایی آپ کے لیے کھانا لگاوں ؟؟ آہل کے گھر میں داخل ہوتے ہی بریرہ نے خوشدلی سے پوچھا تھا ۔۔
کویی جواب دینے کے بجاے اس نے ایک اچٹتی اجنبی بے حد اجنبی نگاہ اس نے اپنی بہن پر ڈالی تھی جو اس کے یقین کے پر خچچے اڑا رہی تھی ۔۔۔
کویی جواب دیے بغیر وہ سڑھیاں چڑھ گیا تھا شاید اسے تنہایی کی طلب ہو رہی تھی ۔۔
آ گیے تم میری کالز کیوں نہیں پک کر رہے تھے ۔۔۔ آہل نے جیسے کمرے میں قدم رکھا تھا مرش نے شکوہ شکویتوں کی بارش کرنی شروع کر دی تھی ۔۔
بزی تھا ۔۔ اس نے سرسری سا جواب دیا تھا ۔۔۔
اتنے بزی تھے کی میری ایک کال پک کرنے کا تمہارے پاس ٹایم نہیں تھا ۔۔مرش فورن برا مان گیی تھی ۔۔
ہاں نہیں تھا ٹایم آفس میں میں کام کرنے جاتا ہوں فارغ نہیں بیٹھا ہوتا ۔۔نہ چاہتے ہوے بھی آہل کا لہجہ تلخ ہو گیا تھا ۔۔
تم مجھ سے اس طرح کیوں بات کر رہے ۔۔مرش فورن اس کا تلخ لہجہ بھانپ گیی تھی ۔۔
کس طرح بات کر رہا ہوں میں ؟؟ آہل بھی اب میدان جنگ میں اتر چکا تھا ۔
تم خود جانتے ہو مجھ سے کیسے بات کر رہے ہو ۔۔ مرش کو اب غصہ آ رہا تھا ۔۔
میں اسی طرح بات کرتا ہوں بہتر ہوگا تم آدی ہو جاو ۔۔ ٹایی کی ناٹ کھولتے ہوے اس نے بے زاری سے کہا تھا ۔۔
ہوا کیا ہے تمہیں ؟؟ اس کی حالت دیکھ کر مرش کو تھوڑی حیرانگی ہو رہی تھی ۔۔
کچھ بھی نہیں سو جاو تم ۔۔حکم دیا گیا تھا ۔
اور تم کیا کرو گے ۔۔ مرش نے چونکتے ہوے پوچھا تھا ۔۔
مجھے کچھ کام ہے میں تھوڑی دیر بعد سووں گا ۔۔ آہل ایک نظر اس پر ڈال کر فورن نظریں چرا گیا تھا وہ نہیں چاہتا تھا اس کی اس حالت کا سب کو علم ہو ۔۔
ٹھیک ہے تم کھانا نہیں کھاو گے ۔۔مرش نے یاد آنے پر فورن پوچھا تھا ۔۔
نہیں بھوک نہیں ہے ۔۔ آہل نے جیسے جان چھڑانی تھی ۔۔
ٹھیک ہے ۔۔ مرش نے کچھ غایب دماغی سے جواب دیا تھا اس نے پہلی بار آہل کا ایسا وریہ دیکھا تھا ہمیشہ نکھرا نکھرا سا آہل شاہ آفندی آج بکھرا بکھرا سا لگ رہا تھا ۔۔
نہ جانے رات کے کس پہر مرش کی آنکھ کھلی تھی آہل کو نہ پا کر اسے تھوڑی حیرت ہو رہی تھی ۔۔۔
تم ابھی تک جاگ رہے ہو ؟؟ مرش چل کر اس کے پاس آ گیی تھی ۔۔
کام بہت تھا اس لیے ۔۔ صاف جھوٹ بولا گیا تھا ۔۔
تم اسموکنگ کر رہے ہو ؟ ایش ٹرے میں رکھے گیے ان گنت سگریٹ کو دیکھ کر مرش کو سدید حیرت ہو رہی تھی اس نے پہلی بار اسے اسموکنگ کرتے ہوے دیکھا تھا ۔۔
ہاں کبھی کبھی جب موڈ ہوتا ہے !! آہل منھ سے دھوا اڑا کر زخمی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا ۔۔
اتنی زیادہ سگریٹ تم نے کش کی ہے پتہ ہے کتنا نقصان دہ ہوتا ہے یے ۔۔مرش نے ہاتھ بڑھا کر آہل کی انگلیوں میں پھنسا سگریٹ چھین لیا تھا ۔۔۔
مرش پلیز تنگ نہ کرو جا کر سو جاو ۔۔ کھونکار نظروں سے اس نے مرش کی طرف دیکھا تھا ۔۔
آہل پلیز !! مرش نے بے بسی سے اسے دیکھا تھا جو ایک بار پھر سے سگریٹ جلا رہا تھا ۔۔
مرش جاو یہاں سے ۔۔ آہل نے اب سختی سے کہا تھا ۔۔
کیوں جاوں میں نہیں جاوں گی اور تم نے یے کیا حولیہ بنا رکھا ہے ہوا کیا ہے !! مرش چل کر اس کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گیی تھی ۔۔
یہی تو چاہیے تھا آہل شاہ آفندی کو کسی سہارے کی ہی تو ضرورت تھی اسے اپنا غم بانٹنے کے لیے اس کسی ساتھی کی ہی تو ضرورت تھی ۔ایک ہارے ہوے جواری کی طرح وہ مرش کے شانے پر اپنا سر رکھ دیا تھا آنسوں کو ضبط کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا تھا ۔۔
آہل کیا ہوا ہے ؟؟ مرش نے ہولے سے پوچھا تھا !!
مرش تم جانتی ہو فارس میرا واحد اور سب سے اچھا دوست تھا میں اسے بھایی کی طرح مانتا تھا لیکن اس نے یے کیا کر دیا اس نے مجھے دھوکہ دیا ہے میری بہن کے ساتھ محبت کا کھیل کھیلا یے سوچے سمجھے بغیر کی وہ میری بہن ہے کیوں کیا اس نے ایسا مجھ سے چھپا کر اس نے سب کی ہے جبکہ میں اس سے بار بار پوچھتا تھا کویی پسند ہے تو بتا دو لیکن تب بھی اس نے نہیں بتایا تھا جانتی ہو وہ دو ٹکے کا علی آج میری غیرت کو للکار کر گیا ہے میری بہن پر انگلی اٹھا کر گیا ہے ۔۔۔ آہل نے سب کچھ مرش کو بتا دیا تھا آنکھوں میں آنسوں آ گیے تھے جسے چھپانے کی ناکام کوشش کی جا رہی تھی ۔۔
آہل تمہیں نہیں لگتا ان سب میں تمہاری بھی کویی غلطی ہے دو محبت کرنے والوں کے بیچ ہم کیا کر سکتے ہے ہم کسیے انہیں الگ کر سکتے ہے آہل فارس تمہارا دوست ہے تمہیں ایک بار سمجھنا چاہیے تھا سوچنا چاہیے تھا ہم کون ہوتے ہے یہ فیصلہ کرنے والے کون کس کے لیے پرفیکٹ ہے ۔۔ مرش کی پوری حمایت فارس اور بریرہ کے ساتھ تھی ۔۔
تم نہیں سوجھوگی !! آہل نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا ۔۔
میں سمجھتی ہوں آہل کیوں کی میں جانتی تھی یے سب ۔۔ مرش نے مسکرا کر یے دھامکہ کیا تھا ۔۔
وآٹ ؟؟ آہل غصے سے اس کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ رہا تھا ۔۔
ہاں لیکن مجھے جلد ہی پتہ چلا ہے اور سچ بتاوں مجھے بہت خوشی ہویی تھی یے سب جان کر ۔۔ مرش خوشی سے بتا رہی تھی آہل کے چہرے کے تاثرات دیکھے بنا ۔۔۔
آہل وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہے چاہتے ہے ایک دوسرے کو پھر ہم ہوتے کون ہے انہیں الگ کرنے والے دیکھو آہل جس طرح تم نے مجھے اتنی تکلیف دی ہے مجھے جس طرح اپنا بنایا ہے شکر کرو فارس نے تمہاری بہن کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا سوچو پھر وہ تم سے کتنا اچھا ہے محبت کے معاملے میں تمہیں لگتا ہے تم اپنی جگہ بلکل ٹھیک تھے سب کو ایسا ہی لگتا ہے ہم اپنی جگہ ٹھیک ہے اسی طرح فارس کو بھی اپنی جگہ بلکل ٹھیک لگ رہی تھی ۔۔۔مرش ہولے ہولے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر کر سمجھانے کی کی کوشش کر رہی تھی ۔۔
آہل ۔۔مرش نے ہولے سے اس کا نام پکارا تھا لیکن تب تک آہل غنودگی میں جا چکا تھا ۔۔
فارس پلیز کال پک کر لو ۔۔یے ایک سو ایک مرتبہ فارس کے موبایل پر کال کی گیی تھی لیکن اس بار بھی بریرہ کو ناکامی کا سامنہ کرنا پڑا تھا ۔۔
فارس تمہیں ہو کیا گیا ہے کال پک کرو ۔۔بریرہ منھ ہی منھ بڑبڑایی تھی وہ کمرے رات کے دو بجے تک فارس کے موبایل پر ٹرایی کرتی رہی لیکن جواب ندارد تھا ۔۔
آہل اٹھ بھی جاو آفس نہیں جانا کیا ۔۔۔ مرش اسے جگانے کی مسلسل کوشش کر رہی تھی ۔۔
میری جان کچھ دیر اور سو لینے دو ۔۔۔آہل جیسے اجازت مانگی تھی ۔۔
بلکل بھی نہیں چپ چاپ اٹھو ورنہ میں ابھی اس جگ کا پانی تمہارے منھ پر انڈیل دوں گی ۔۔۔ مرش نے گویا دھمکی تھی ۔۔
بڑی ظالم بیوی ہو دیکھو کیسا گزارا ہوتا ہے اس معصوم کا ۔۔۔ آہل بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر بیٹھ چکا تھا ۔۔
ہا بڑے آے معصوم شکل دیکھی ہے اپنی ۔۔۔مرش نے اسے شرم دلانی چاہی تھی ۔۔
روز ہی دیکھتا ماشااللہ خدا نے بڑی فرصت میں بنایا ہے مجھے ۔۔۔ آہل نے مسکرا اکر خود کی تعریف کی تھی ۔۔۔
تبھی تو اتنی بری ہے ۔۔مرش بیڈ سے اٹھ گیی تھی شاور لینے کے ارادے سے جیسے ہی آگے بڑھی آہل اس کا بازوں پکڑ کر کھینچا تھا جس سے وہ اس کے مضبوط سینے سے جا لگی تھی آہل نے اس کی گردن میں منھ گھسا کر اپنے لب رکھ دیا تھا ۔۔۔۔
آہل پلیز جانے دو ۔۔مرش مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی ۔۔
یار کبھی تو رومینٹک ہونے دیا کرو ۔۔۔
تم ہمیشہ رومینٹک رہتے ہو میں کون کون سی تمہاری خواہشات پوری کروں ۔۔۔مرش نے جھنجھلاتے ہوے کہا تھا ۔۔
ایک شوہر کی کیا کیا طلب ہوتی ہے اپنی بیوی سے تمہیں تو پتہ ہی ہوگا ۔۔۔ آہل نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر خود سے مزید قریب کیا تھا ۔۔
اچھا جی تو بتاے کون کون سی خواہشات ہوتی ہے وہ میں آپ کی پوری کر دوں ۔۔۔ مرش نے اس کی بکھرے بال کو مزید بکھیر دیا تھا ۔۔
اب میں تمہیں یہ بھی بتاوں !! آہل نے منھ پھلا کر ناراضگی ظاہر کی تھی ۔۔
تو مجھے کیسے پتہ ہوگا آپ کی کیا خواہشات ہیں ؟؟ مرش نے معصومیت سے پوچھا تھا ۔۔
چلو ایک کس دو جلدی سے یہ تو بہت چھوٹی سی خواہش ہے لیکن کویی بات نہیں پہلے اسے پورا کر دو ۔۔۔آہل نے حکم صادر کیا تھا ۔۔۔
کس ؟؟ تم پاگل تو نہیں ہو گیے ہو ؟؟ مرش نے مصنوعی غصہ دکھایا تھا ۔۔
بلکل پاگل نہیں ہوا ہوں بیوی کا فرض ہوتا ہے شوہر کی خواہش پوری کرنا تم اتنی چھوٹی سی خواہش پوری نہیں کر سکتی میری ۔۔۔آہل شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا ۔۔
اچھا لیکن یہ فرسٹ اینڈ لاسٹ کس ہوگی ۔۔۔مرش نے جان چھڑانی چاہی تھی ۔۔
اوکے !! آہل نے فورن اچھے بچوں کی طرح آنکھیں بند کر لی تھی ۔۔۔
مرش نےکچھ جھجھکتے ہوے اس کے گال پر اپنے لب رکھ دیے تھے ۔۔
اب بس !! مرش فورن دو قدم پیچھے ہٹی تھی ۔۔
اچھی تھی لیکن بہت عام سی تھی ۔۔۔آہل اس کے مقابل آ کھڑا ہوا تھا ۔۔
چپ کرو میں جا رہی ہوں شاور لینے ۔۔مرش دوڑ کر فورن واشروم میں گھس گیی تھی ۔۔۔
بیوقوف لڑکی !! آہل نے مسکرا کر منھ ہی منھ بڑبڑایا تھا ۔۔۔
آہل کل میں نے تم سے کچھ کہا تھا ۔۔ ناشتے کی ٹیبل پر جاوید صاحب آہل سے مخاطب ہوے تھے ۔۔
جی دراصل کل میں بہت مصروف تھا وقت ہی نہیں ملا آج آ کر آپ سے بات کرتا ہوں ۔۔ آہل نے ان پر ایک سرسری سی نظر ڈال جواب دیا تھا ۔۔
آہل فارس کیوں نہیں آ رہا کتنے دنوں سے میری اس سے ملاقات نہیں ہویی ہے ۔۔جاوید صاحب فارس کے بارے میں دریافت کر رہے تھے کیوں کی زیادہ تر دنوں سے انہوں نے فارس کو نہیں دیکھا تھا ۔۔
اب وہ آے گا بھی نہیں ۔۔۔!! جوس کا گلاس لبوں سے لگا کر اس نے سرسری سا جواب دیا تھا ۔۔۔
کیا مطلب ؟؟ مریم بیگم چونکی تھی ۔۔
مطلب آپ اپنی بیٹی سے پوچھ لیجیے وہ مجھ سے بہتر بتاے گی آپ کو ۔۔۔آہل نے اپنی سرخ آنکھیں مریم بیگم کے چہرے پر مرکوز کرتے ہوے کہا ۔۔
کیا مطلب ۔۔مریم بیگم کے چلتے ہاتھ رک گیے تھے ۔۔
مجھے لیٹ ہو رہا ہے چلتا ہوں ۔۔ آہل اپنا فون اور کوٹ ہاتھ میں لے کر جا چکا تھا سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کی اس نے بریرہ سے کالج جانے کا پوچھا تک نہیں تھا ۔۔
بریرہ بت کی بنی بیٹھی تھی ۔۔۔
عجیب لڑکا ہے ۔۔جاوید صاحب نے انسنی کر دی تھی اگر دیکھا جاے تو یہ بات انسنی کرنے کے بلکل قابل نہیں تھی ۔۔۔
میں کالج جا رہی ہوں ۔۔۔بریرہ زبردستی کی مسکاراہٹ چہرے پر سجا کر فورن نو دو گیارہ ہو گیی تھی ۔۔
فارس دیکھو بیٹا دروازے پر کون بیل دے رہا ہے ۔۔فارس نے اپنے عقب میں اپنی ماں کی آواز سنی تھی ۔۔۔
جی دیکھتا ہوں !! بے رف سے حولیے میں بھی وہ نہایت ہینڈسم دکھ رہا تھا ۔۔۔
تم یہاں !! دروازے پر بریرہ کو دیکھ کر فارس نے بے یقینی سے کہا تھا ۔۔
مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔۔بریرہ نے الجھتے ہوے اسے دیکھا تھا ۔۔
لیکن مجھے کویی بات نہیں کرنی ۔۔۔نہ چاہتے ہوے بھی فارس کو اپنا لہجہ سخت کرنا پڑا تھا کیوں کی اب وہ مزید کسی کو دھوکہ میں نہیں رکھنا چاہتا تھا ایک پل کو تو فارس کا دل چاہا بریرہ کو گلے لگا قربت کی پیاس کو بجھا لے لیکن اس نے خود پر جبر کیے ہوا تھا اپنے جزبات کو کنٹرول کیے ہوا تھا ۔۔۔
کیوں نہیں تمہیں مجھ سے بات کرنی دیکھو فارس مجھے تم اس طرح اگنور نہیں کر سکتے !! بریرہ کا لہجہ بے بسی سے بھر پور تھا ۔۔
دیکھو بریرہ آج کے بعد یم کبھی نہیں ملیں گے اور پلیز تم یہ کال کرنا بند کر دو ۔۔۔فارس نے مخمور لہجے میں کہا تھا دل کے کسی کونے میں ہلکا سا درد بھی ہوا تھا لیکن اسے اس درد کو برداشت کرنا تھا ۔۔۔
تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو فارس ہوا کیا اور یہ چوٹیں کیسی لگی ہیں ؟؟ بریرہ نے اس کے پیشانی پر لگی چوٹ کو دیکھ کر فکرمندی سے پوچھا تھا ۔۔۔
تمہاری بھایی نے دی ہے !! فارس نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
کیا ؟؟ مجھے صاف صاف بتاو کیا ہوا ہے ۔۔ بریرہ اب رو دینے کو تھی ۔۔
کچھ بھی نہیں ہوا میری بات سنو بریرہ آج کے بعد مجھے کال کرنے کی کوشش مت کرنا نہ مجھ سے کویی رابطہ کرنا میں نہیں چاہتا خواہمخواہ کویی تماشہ ہو میری زندگی میں پہلی ہی مزید الجھن ہے ۔۔۔فارس پوری توجہ سے ڈراینگ کرنے میں مگن تھا لیکن دل کی حالت ایسی تھی کی جیسے کسی سمندر میں غوطے لگا رہا ہو ۔۔
تم ۔۔میں جانتی ہوں تم مجھے چھوڑ رہے ہو کویی اور مل گیا ہوگا تمہیں ایسا ہی ہے نہ ۔۔ بریرہ کی آنکھوں سے مسلسل آنسوں بہے رہے تھے دل پر ایک گھونسا سا پڑا تھا ۔۔
ہاں شاید ۔۔فارس کے اندر اب اتنی ہمت نہیں تھی کی وہ مزید بریرہ کا دل دکھاتا ۔۔۔
آیی ہیٹ یو ۔۔ یہ آخری الفاظ تھے جو بریرہ کے زبان سے ادا ہوے تھے آنکھوں میں شدید بے یقینی تھی یہ یقین کرنا زیادہ مشکل تھا دھوکہ کس نے دیا ہے محبت نے یہ محبت کرنے والے نے ۔۔۔
بہت شکریہ اب گیٹ کے اندر جاو اور مجھے کبھی تنگ مت کرنا ۔۔۔ فارس نے تھوڑی سختی اختیار کر لی تھی ۔۔
آیی ہیٹ یو مجھے زندگی میں کبھی مڑ کر اپنی شکل مت دکھانا ۔۔ بریرہ دروازہ کھول کر تن فن کرتی ناہر نکلی تھی ۔۔۔
تمہاری خواہشات پوری کرنا میرا حق ہے ۔۔۔ فارس نے ایک تیکھی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی تھی اور زن سے آگے بڑا دیا تھا لیکن دل تھا کی کچھ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا دل کہہ رہا تھا سب کچھ بھول بھال کر پھر سے اسی راہ پر چل پڑیں لیکن دماغ کہہ رہا تھا کبھی نہیں یہ غلط ہے ۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_33
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
مرش کافی کا مگ ہاتھ میں لے کر بالکنی میں آ گیی تھی کیوں کی اندر اسے گھٹن محسوس ہو رہی تھی یوں بے دھیانی میں اس یی نظر گیٹ کے اندر داخل ہوتی بریرہ پر پڑی تھی ذہن میں اچانک بے تحاشہ سوال الجھ رہے تھے ۔۔
بریرہ منھ پر انگلی رکھ کر اپنی سسکیاں روکنے کی کوشش کر رہی تھی اندر بہت کچھ ٹوٹا تھا چھن سے ساری امیدیں ٹوٹ گیی تھی لیکن اسے پھر بھی اپنے رویہ پر شرمندگی محسوس ہو رہی تھی پچھتاوا ہو رہا تھا ۔۔
بریرہ کیا ہوا تم ٹھیک ہو ۔۔مرش اسے دیکھ کر فورن دوڑتی ہویی کمرے میں آیی تھی کیوں کی اسے فکر تھی وہ اس کی نند ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی دوست بھی تھی ۔۔۔
ہاں میں ٹھیک ہوں بس یونہی ۔۔بریرہ نے جبرن مسکرانے کی کوشش کی تھی ۔۔
نہیں تم ٹھیک نہیں ہو بتاو مجھے کیا ہوا ہے فارس نے کچھ کہا ہے ۔۔مرش اس کا تھام کر قدرے نرم لہجے میں پوچھ رہی تھی ۔۔
مرش وہ مجھ سے ناراض ہے مجھ سے ٹھیک سے بات نہیں کر رہا پتہ نہیں کیا ہوا ہے وہ کیوں کر رہا ہے ایسا مرش ۔۔بریرہ اس کے گلے لگ کر رو رہی تھی ۔۔
بریرہ حوصلہ رکھو ویسے بھی آہل کو سب پتہ چل گیا ہے شاید اس لیے ۔مرش اس کی پشت سہلا کر تسلی دے رہی تھی کچھ کچھ اندازہ تو اسے بھی تھا فارس کے اس طرح کے رویہ پر ۔۔
کیا ؟؟ بھایی کو پتہ چل گیا یہ تم کیا کہہ رہی ہو مرش کیا بھایی اور فارس کے بیچ فایٹنگ بھی ہویی تھی مرش یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے میں کیا کروں ؟؟ بریرہ رو رو کر اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرا رہی تھی کیوں آدھے سے زیادہ غلطی اسی کی تھی ۔۔
بریرہ یہ تو ہونا ہی تھا تم لوگ کو چاہیے تھا آہل کو پہلے بتا دیے ہوتے کم از کم یہ تماشہ تو نہ ہوتا ۔۔۔ مرش کی بات تو سہی تھی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا ۔۔
اس کی کویی غلطی نہیں ہے مرش وہ تو ہمیشہ سے کہتا تھا بھایی کو بتانے کے لیے لیکن میں نے اسے بتانے نہیں دیا تھا کیوں کی مجھے ڈر لگ رہا تھا سب غلطی میری ہے مرش سب !!! بریرہ کی رونے میں مزید روانی آ گیی تھی ۔۔
اب رونے سے کچھ نہیں ہوگا بریرہ حوصلہ رکھو اور پلیز یہ آنسوں صاف کرو ورنہ میں ناراض ہو جاوں گی ۔۔۔بریرہ کو منانے کی ایک یہی تدبیر مرش کو نظر آیی تھی ۔۔
لیکن مرش اب کیا ہوگا ؟؟ بریرہ نے نہ جانے کس خوف کے تحت پوچھا تھا ۔۔
تم ڈر کس سے رہی ہو بریرہ محبت کی ہے تم نے چوری نہیں اب یہ ڈرنے کا سلسلہ بند کرو ۔۔ مرش نے مصنوعی غصے کے ساتھ اسے ڈپٹا تھا ۔۔
کل رات اڑ رہے تھے ستارے ہوا کے ساتھ ۔۔
اور میں اداس بیٹھا تھا اپنے خدا کے ساتھ ۔۔
یہ تو قبولیت کے طریقے سکھا مجھے ۔۔
یہ مجھ کو باندھ دے اپنی رضا کے ساتھ ۔۔
فارس بیڈ پر سیدھے لیٹ کر چھت کو گھور رہا تھا آنکھوں کے سامنے سارے منظر ناچ رہے تھے کیوں ہوا تھا یہ سب کیا مقصد تھا ان سب کا کس چیز کے تحت یہ سب ہوا تھا کیا چاہتا تھا علی شہروز کیوں کیا اس نے ایسا کیا ملا اسے یہ سب کر کے ۔۔۔
علی شہروز میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں بہت غلط کیا ہے تو نے ایک ایک بات کا بدلہ لوں گا اب میں تمہیں بتاوں گا کون ہوں میں ۔۔ فارس خود سے ہمکلام تھا آنکھیں شدید سرخ ہو رہی تھی غصے کی وجہ سے مٹھیاں بھینچ گیی تھی ۔۔
اب میں تمہاری ہر چیز پر نظر رکھوں گا آخر مقصد کیا ہے تمہارا کیا چاہتے ہو تم ؟ فارس اٹھ کر ببیٹھ چکا تھا بالوں میں انگلیاں پھیر کر اس نے خود سے عہد باندھا تھا ۔۔
امی میں بلکل ٹھیک ہوں آپ سناے آپ کیسی ہے اور بابا کیسے ہیں ؟؟ مرش کمرے میں ٹہل ٹہل کر فایزہ بیگم سے فون پر بات کرنے میں مصروف تھی کیی دنوں بعد اس نے فایزہ بیگم کو فون کیا تھا اس لیے باتوں کا سلسلہ ابھی ختم ہونے والا نہیں تھا ۔۔
میں ٹھیک ہوں اور تمہارے بابا بھی ٹھیک ہے بس تمہیں بہت یاد کرتے ہے ۔۔فایزہ بیگم نے مسکرا کر جواب دیا تھا ۔۔
امی میں آپ لوگوں کو بہت بہت مس کرتی ہوں بس جلدی سے آپ لوگوں کو ملنے آوں گی ۔۔۔مرش نے خود یقین دلانا چاہا تھا شاید اب اسے تھوڑا ممکن لگنے لگا تھا ۔۔
یونہی ہی کچھ کی گفتگو کے بعد سلسلہ منقطع ہو گیا تھا ۔۔ثمرہ کو کال ملانے کے خیال سے وہ دوبارہ فون ہاتھ میں لے کر بیٹھ گیی تھی ۔۔ بدقسمتی سے علی شہروز کی کالنگ آنے لگی تھی ۔۔
اب اسے کیا مسلہ ہے !! مرش نے دانت پس کر خود کو پرسکون کرنا چاہا تھا ۔۔
بولو !! مرش نے بےزاریت کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔
کیسی ہو جانے من ۔۔ مقابل نے بڑی ڈھٹایی کا مظاہرہ کیا تھا ہر فکر سے آزاد گویا کچھ ہوا ہی نہیں ہے جنگل میں آگ لگا کر خود بڑے مزے لے رہا تھا ۔۔
مسٹر علی اگر آپ مجھے کویی کمزور لڑکی سمجھ رہے ہے تو نہایت غلط سوچ رہے ہیں آپ جاہل انسان ۔۔۔ مرش کچکچا کر بولی تھی جیسے علی شہروز نظروں کے سامنے ہی ہو ۔۔
جانے من کیا آواز ہے تمہاری میں تو فین ہو گیا تمہارا ۔۔ علی نے ہنستے ہوے کہا تھا مطلب اسے مرش کے لفظوں سے کویی فرق نہیں پڑا تھا ۔۔۔
بکواس بند کرو ۔۔مرش اکتا کر بولی تھی ۔۔
میری بات دھیان سے سنو بنا چوں چاں کیے ورنہ اپنے نقصان کی زمیدار خود ہوگی تم پانچ منٹ کے اندر گاڑی گیٹ پر آے گی ایک لفظ منھ سے نکالے بغیر گاڑی میں بیٹھ جانا ویسے میں تمہیں ایڈریس سینڈ کر دیتا ہوں تاکی کویی مشکل نہ پیش آے اگر تمہیں اپے باپ کی جان عزیز ہے تو میرا کہا مان لو میری جان ورنہ بڑا نقصان ہوگا تمہارا اور ہاں ایک اور بات اگر کسی کو بھی کچھ بتانے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کویی نہیں ہوگا اب فون رکھتا ہوں ملتے ہیں کچھ دیر بعد خدا حافظ سویٹ ہارٹ !! کال کٹ چکی تھی لیکن مرش کا سر چکرانے لگا تھا کچھ وقت لگا تھا اسے سمبھلنے میں علی نے کیا کہا تھا کیا کرنا چاہتا تھا ۔۔سوچ سوچ کر اس کا ذہن ماوف ہو رہا تھا ۔۔
اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی آنکھیں آنسوں سے بھر آیی تھی اپنے بابا کا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا کہیں کچھ غلط ہو گیا تو اس کی قصوروار صرف اور صرف مرش خود کو قصوروار ٹھہراتی اسے اپنے بابا کی فکر رہی تھی اور کسی کی نہیں اسے اپنے بابا کو بچانا تھا چاہے جیسے بھی ۔۔
مرش بہت ہی لاابالی سی لڑکی تھی ہر فیصلہ جزبات میں کرنا اس کی سب سے بڑی بیوقوفی تھی ۔۔
بی بی جی آپ نہیں جا سکتی صاحب کا حکم ہے ہم آپ کو کہیں نہیں جانے دے سکتے ۔۔ گاڈز فورن اس کے راستے میں ہموار ہوے تھے کیوں کی وہ بھی مجبور تھے اپنے صاحب کے حکم کو ماننا ان کے لیے ضرورت سے زیادہ لازمی تھا ۔۔
ہٹو میرے راستے سے مجھے جانا ہے دیکھو تم لوگو مجھے جانے دو کویی ایمرجنسی پیشْ آ گیی ہے ۔۔مرش کو نہ چاہتے ہوے بھی انہیں جواب دینا پڑا تھا ایک تو وہ پہلے سے بوکھلایی ہویی تھی اوپر سے یہ لوگ ۔!!
دیکھیں بی بی جی ۔۔گاڈز نے پھر زبان کھولی تھی لیکن مرش درمیان میں ہی بول پڑی تھی ۔۔
تم لوگ میرا راستہ چھوڑ رہے ہو یہ نہیں ہٹو میرے راستے سے ۔۔۔مرش کو سخت غصہ آ رہا تھا دل کر رہا تھا سب تہس نہس کر دے ۔۔
گاڈز راستے میں سے ہٹ گیے تھے اب کہاں اتنی مجال تھی کی وہ کچھ اور بولتے کچھ بھی تھا لیکن پھر بھی مرش ان کے لیے قابل عزت تھی ۔۔
انجان گاڑی میں اسے بیٹھتے دیکھ کر گاڈز کو شدید حیرت ہویی تھی گھر میں موجود بےتحاشہ گاڑی ہونے کے باوجود مرش بی بی کس انجان گاڑی میں بیٹھ رہی تھی اس سے پہلے کی وہ کچھ پوچھتے گاڑی ہایی اسپیڈ سے آگے بڑھ گیی تھی ۔۔۔
صاحب جی بی بی جی ابھی ابھی گھر سے باہر نکلی ہے ۔۔ واچمین نے فورن آہل کو فون کھڑکایہ تھا کیوں کی اسے ہر ہال میں اپنے صاحب کو اطلاع دینی تھی جو کی بے ضروری تھی ۔۔
کس کے ساتھ گیی ہے ؟؟ آہل کو بے تحاشہ غصہ آ رہا تھا مرش کی اس جرت پر جس لڑکی کے لیے وہ اتنا خوار ہو رہا تھا اس کے نزدیک اس کی بات کی کویی اہمیت نہیں تھی ۔۔
صاحب جی انجان گاڑی تھی !! واچمین نے تعابداری سے بتایا تھا ۔۔
کیا مطلب پہلیاں کم بجھواو صاف صاف بتاو ۔!!! آہل نے ٹھوس لہجے میں پوچھا تھا ۔۔۔
صاحب جی انجان گاڑی تھی باہر آیی تھی بی بی جی جا کر بیٹھ گیی گاڑی آگے بڑھ گیی تھی اور اس سے زیادہ کچھ نہیں پتہ صاحب جی ۔۔واچمین نے گھبراتے ہوے بتایا تھا اسے ڈر لگ رہا تھا کہیں اس کی اچھی خاصی کلاس لے لی نہ جاے ۔۔
بیوقوف انسان فون رکھو !! آہل فون ٹیبل پر پٹکھا تھا ۔۔
آہل کو اب پریشانی ہو رہی تھی اسے بتاے بغیر مرش جا کہاں سکتی ہیں آہل مرش کے فون پر مسلسل کالز ملا رہا تھا لیکن کویی جواب نہیں مل رہا تھا اسے شدید غصہ آ رہا تھا کم از کم مرش کالز تو پک کر سکتی تھی لیکن نہیں اسے کس کی پرواہ تھی اپنے علاوہ ۔۔
آہل تھک ہار کر گھر آ گیا تھا پریشانی کا عالم بڑھتا ہی جا رہا تھا روم میں آ کر وہ بیڈ پر تھک ہار کر گرنے والے انداز میں سویا تھا اس کی سمجھ باہر تھا آخر مرش جا کہاں سکتی تھی شاپنگ پر بھی جاتی تو گھر کی گاڑی سے جاتی لیکن یوں اس طرح اسے بتاے بغیر کسی انجان گاڑی میں بیٹھ کر کیسے جا سکتی تھی ۔۔اس نے ایک بار پھر سے کال ملایی تھی جیسے اسے کویی امید ہو شاید اس بار مرش کال پک کر لے گی لیکن روم میں بجتی رنگ ٹون نے اس کا دھیان اپنی طرف مبذول کیا تھا ۔۔
جلدبازی میں مرش اپنا فون روم میں ہی بھول گیی تھی اسے تو صرف جانے کی جلدی تھی فون لے جانا اس کے ذہن سے بلکل نکل گیا تھا ۔۔
اوہ تو میڈم اپنا فون بھول کر گیی ہے ۔۔ مرش کا فون ہاتھ میں لے کر آہل منھ ہی منھ بڑبڑایا تھا شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا شاید بہت بڑا نقصان ہونے سے بچ سکتا تھا ۔۔
مرش کا فون ہاتھ میں لے کر یونہی بے دھیانی میں آہل کی نظر اسکرین پر چمکتے میسیجیس پر پڑی تھی لفظ بہ لفظ اس نے میسیج پڑھا تھا ایک اور انکشاف ہوا تھا ببے حد غیر متوقع نہ جانے ابھی کتنے امتحانات باقی تھے ۔۔آہل کو بے حد غصہ آ رہا تھا اتنا کی شاید اگر اس وقت مرش اس کے سامنے ہوتی تو وہ اسے شوٹ میں کرنے میں ایک لمحہ زایا نہیں کرتا ۔۔ لیکن اس وقت اسے عقلمندی سے کام لینا تھا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ گاڑی میں آ کر بیٹھا تھا اسے مرش تک پہنچنا تھا چاہے کسی بھی طرح کاش اس وقت۔ وقت کو پر لگ جاتے ۔۔آہل کے دل نے شدت سے خواہش کی تھی ۔۔ آج آہل شاہ آفندی بے حد تیز یاہی اسپیڈ سے گاڑی ڈرایو کر رہا تھا زندگی میں پہلی بار اس نے اتنی فاسٹ ڈروایو کی تھی اگر اس وقت ایکسیڈینٹ ہو جاتا تو کویی شک نہیں تھا ۔۔۔
ایک کمرے میں لاکر مرش کو چھوڑ دیا گیا تھا کمرا کا حال اچھا خاصا برا تھا شراب کی بوتلیں زمین پر رقص کر رہی تھی سگریٹ کے پیک کھلے پڑے تھے اور نہ جانے کتنی دیگر چیزیں تھی جو کی مرش کے علم میں ہرگز نہیں تھی جو شاید ایک گھٹیا انسان ہی استعمال کرتا ہے ۔۔۔کچھ وقت بیتنے کے بعد علی کمرے میں داخل ہوا تھا شرٹ کی بٹن پوری طرح سے آزاد تھی کالر کو عجیب بے ڈھنگے طریقے سے اسٹایل کیا گیا تھا ۔۔ علی کو سامنے پا کر مرش نے فورن اپنی خشک زبان پر لب پھیر کر سوال کیا تھا ۔۔
علی میرے بابا کہاں ہیں ؟؟ مرش کی آنکھوں میں خوف صاف جھلملا رہے تھے۔۔
بڑی معصوم ہو تم آج مجھے پورا یقین ہو گیا یار معصوم ہونے کے ساتھ بڑی بیوقوف بھی ہو قسم سے اگر مجھے پتہ ہوتا شکاری اتنی آسانی سے جال میں پھنس جاے گا تو میں جال بھچھانے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتا ۔۔۔ راکنگ چییر پر جھولتے ہوے علی شہروز نے اسے اپنے ارادے سے آگاہ کیا تھا ۔۔
کیا مطلب تمہارا !! مرش کی چھٹی حس نے فورن گرین سگنل دیا تھا ۔۔
دیکھو میں تمہیں حاصل کرنا چاہتا کر لیا حاصل اور اب میں تمہارے جسم تک رسایی حاصل کرنا چاہتا ہوں جس سے تم مجھے روک نہیں سکتی ! ہے نہ ؟؟ علی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا تھا شاید اپنے ہونے والے گمان کو یقین میں بدلنے کے لیے ۔۔
دیکھو میرے قریب بھی مت آنا ۔۔ مرش دو قدم پیچھے ہویی تھی ۔۔
کیوں شرم آ رہی ہے کیا ۔۔علی چییر سے اٹھ گیا تھا ۔۔
آہل تمہیں چھوڑے گا نہیں ۔۔نہ جانے مرش نے کس گمان میں آہل کے حوالے سے اسے ڈرانا چاہا تھا ۔۔
وہ مجھے پکڑے گا تب نہ میری جان جب وہ یہاں پر ہوگا ۔۔علی اس کے مد مقابل آ کھڑا ہوا تھا ۔۔
دور رہو مجھ سے ۔۔مرش کی آنکھوں میں آنسوں بھر گیے تھے خوف سے دل لرز رہا تھا ۔۔
کیوں مجھے کویی حق نہیں ہے کیا میری جان ۔ علی شہروز مرش کا ہاتھ تھام کر خباثت سے مسکرایا تھا ۔۔
میں نے کہا میرا ہاتھ چھوڑو ۔۔مرش اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن گرفت خاصی مضبوط تھی جس سے رہایی پانا تھوڑا مشکل تھا ۔۔
نہیں چھوڑا تو اب چپ کر جاو یار ابھی میں تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں تم واقعی میرے سامنے ہو ۔۔ علی شہروز تھوڑا اور اس کے قریب ہوا تھا ہاتھ بڑھا کر جیسے اس نے مرش کے گلے میں جھولتا دوپٹہ اتارنا چاہا تھا اچانک کسی نے اس کے بڑھتے ہوے ہاتھ کو روک دیا تھا شاید کویی فرشتہ تھا جس کو اللہ نے مدد کے لیے بھیجا تھا یہ شاید مرش کی قسمت بہت اچھی تھی جو آج ناپاک ہونے سے صاف صاف بچ گیی تھی ۔۔
تم ؟؟ سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر علی کو اپنی آنکھوں پر یقین کرنا کافی مشکل تھا ۔۔
ہاں میں مسٹر علی کیوں حیرت ہو رہی ہے کیا مجھے دیکھ کر ۔۔ایک زور دار ک گھونسا علی کے منھ پر پڑا تھا ۔۔
مرش نے ڈرتے ڈرتے اپنی آنکھیں کھولی تھی جسم میں ایک سکون کی لہر دوڑی تھی گویا وہ بچ گیی تھی وہ بلکل پاکدامن تھی کویی اس کے اوپر کیچڑ نہیں اچھال سکتا تھا ۔۔
بھابھی آپ پلیز سایڈ ہو جاے ۔۔فارس نے ایک نظر مرش کو دیکھ کر کہا تھا ۔۔
ایک اور مزے کا گھونسا علی کے پیٹ میں پڑا تھا جس سے وہ زمین پر منھ بل جا گرا تھا ۔۔
فارس آرام سے کہیں تمہیں چوٹ نہ لگ جاے ۔۔۔مرش نے گھبراتے ہوے کہا تھا جس طرح کی فایٹنگ ہو رہی تھی اس کا گھبرانا لازمی تھا ۔۔
مرش ؟؟ کچھ دیر بعد آہل بھی بلا آخر پہنچ ہی گیا تھا آہل کو سامنے پاکر مرش کی تو گویا سانس ہی تھم گیی تھی خوف سے چہرہ لال ہو گیا تھا پلیکں اوپر اٹھا کر اس کی طرف دیکھنا دنیا کا سب سے مشکل ترین کام لگ رہا تھا ۔۔
آہل شاہ آفندی چند لمحے ساکت ہو گیا تھا سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا عزیز دوست وہاں موجود تھا اس کی عزت جس نے بچایی تھی وہ آہل شاہ آفندی کا دوست تھا جس کو ابھی کل آہل شاہ آفندی منھ کے بل گرا کر آیا تھا آج وہی دوست اس کے خاطر لڑ رہا تھا خود کو زخمی کر رہا تھا۔۔۔
آہل شاہ آفندی نے اپنے دوست کو اکیلے لڑنے نہیں دیا تھا وہ بھی اس کے ساتھ تھا اس نے بھی فارس کا مکمل ساتھ دیا تھا چند گھنٹوں بعد علی شہروز کو پہچان پانا کافی مشکل ثابت ہوا تھا آہل اور فارس نے مل کر اس کی وہ درگت بنایی تھی جس کو شاید اس نے کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچا ہوگا ۔۔آہل موقع کی مزاکت کو دیکھتے ہوے گھر سے نکلنے کے کچھ دیر بعد پولیس کو انفارم کر دیا تھا ۔۔ جس سے پولیس عین موقع پر وہاں پہنچ گیی تھی ۔۔
کچھ پوچھ گچھ کے بعد پولیس آفیسر نے علی شہروز کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا ۔۔
تم مجھ سے زیادہ دن تک بچ کر نہیں رہ سکتے آہل شاہ آفندی میں واپس آوں گا تو دونوں کو دیکھ لوں گا ۔۔جاتے جاتے علی شہروز دھمکی دینا نہیں بھولا تھا پتہ نہیں یہ صرف کھوکھلی دھمکی تھی یہ اس میں بھی کچھ حقیقت چھپی تھی یہ تو وقت ہی بتاے گا ۔۔
آپ ٹھیک ہیں بھابھی ؟؟ فارس صرف اور مرش سے مخاتب تھا گویا اس کے علاوہ یہاں پر اور کویی موجود نہیں ہے ۔۔
جی میں ٹھیک ہوں فارس لیکن آپ کی انگلی سے تو خون بہہ رہا ہے ڈاکٹر کے پاس چلیں ۔۔ مرش کے لیے واقعی پریشان تھی اور کیوں نہ ہوتی ظاہر ہے یہ زخم اسی کی وجہ سے تھے ۔۔
جی بس ڈاکٹر کے پاس ہی جاوں گا بہت شکریہ خدا حافظ ۔۔ فارس ایک زخمی مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا چہرے سے اداسی صاف عیاں تھی لیکن شاید وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
ؑ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچھڑا کچھ اس ادا سے کی رت ہی بدل گیی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پل کو ان دونوں کی نظریں ملی تھی اور ایک ہی پل میں جھک گیی تھی ۔۔فارس یوں ہی نظریں جھکاے آہل کے پاس سے گزر گیا تھا کیا اب وہ دونوں ہمیشہ ایسا ہی رہیں گے کیا ان کے بیچ کبھی پہلی جیسی دوستی نہیں ہو پاے گی ؟ آہل بس فارس کو دیکھ کر رہ گیا تھا الفاظ ہی کہاں تھے وہ اس سے کچھ کہتا کہیں یہ شرمندگی تو نہیں تھی ؟
فارس جا چکا تھا آہل کی اب پوری توجہ مرش کی جانب تھی ایک قہر برساتی نظروں سے اس نے مرش کو دیکھا تھا اور کلایی دبوچ کر گاڑی میں لے آیا تھا درد کی شدت سے مرش بلبلا اٹھی تھی لیکن زبان سے کچھ نہیں کہا تھا ۔۔۔
صوفے پر اس دھککا دینے والے انداز میں پٹکا گیا تھا ۔۔
آہل ایم سوری ۔۔۔مرش نے آنسوں سے لبریز آنکھوں کے ساتھ آہل کو دیکھا تھا جو اس وقت آنکھ بند کر کے شاید غصہ تھوڑا کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔
ایم سوری !! مرش نے پھر سے وہی کھوکھلا سا سوری لفظ دہرایا تھا ۔۔
مرش تم پاگل تو نہیں ہو گیی تھی مجھے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کیا سچ میں تم اتنی معصوم ہو یہ صرف دکھاوے کے لیے اپنی معصومیت سے سب کو امپریس کرنا چاہتی ہو ۔۔ آہل کو شدید غصہ آ رہا تھا اسے مرش سے کم از کم اس حماقت کی توقع ہرگز نہیں تھی ۔۔
وہ میرے بابا کو مار دیتا آہل ؟؟ اپنی صفایی کے چکر میں مرش حد سے زیادہ احمقانہ جواز پیش کی تھی ۔۔۔
وآٹ تم کسی دن مجھے پاگل کر کے چھوڑو گی مرش میں مر گیا تھا ہاں ؟؟ آخر تم نے مجھ کیوں نہیں بتایا کیا اتنا سا بھی بھروسہ نہیں تھا مجھ پر ۔۔ آہل اسے گھور رہا تھا غصہ کرنے کا حق تھا اسے مرش کی اس بیوقوفی پر ۔۔
مجھے ڈر لگ رہا تھا تمہیں بتاتے ہوے ۔۔ اپنے آنسوں کو ٹشو پیپر سے صاف کر کے مرش نے کہا تھا ۔۔۔
آیی یو میڈ تمہیں پتہ ہے میں کتنا ڈر گیا تھا میری کیا حالت ہو گیی تھی مرش وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتا تھا ایک بار بھی میرے بارے میں تمہیں خیال نہیں آیا ۔۔ آہل اس کے لگاتار بہتے آنسوں کے سامنے تھوڑا نرم پڑ گیا تھا شاید کچھ زیادہ ہی روڈ ہونے لگا تھا دل تو کر رہا تھا اس بیوقوف لڑکی کو خوب کھری کھری سنا کر دماغ سیٹ کر دے لیکن اس کے روانی سے بہتے آنسوں کو دیکھ کر فورن اپنے دل کو ڈپٹا تھا ۔۔
تم مجھے بیوقوف کہہ رہے ہو ؟؟ مرش منھ پھلا کر فورن پواینٹ کی بات پر آیی تھی ۔۔۔
میری جان میں تمہیں بیوقوف نہیں کہہ رہا لیکن خود سوچو اگر وہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچاتا تو میرا کیا ہوتا کم از کم میرے بارے اتنا سا سوچ لیا کرو ۔۔ آہل اسے شانوں سے تھام کر سینے سے لگا لیا تھا ابھی کچھ دیر پہلے وہ اس کے پاس نہیں تھی کیسے پاگل ہو رہا تھا تو گویا یہ سچ تھا کہ آہل شاہ آفندی مرش سرفراز کے بنا نہیں رہ سکتا تھا ۔۔
تم مجھ ناراض تو نہیں ہو ؟؟ مرش نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔۔
تم سے ناراض رہ سکتا ہوں میں لیکن پلیز مجھ سے وعدہ کرو اب تم مجھے ساری بات بتاوگی کسی بھی راز کو راز نہیں رکھو گی ۔۔ آہل اپنا ہاتھ اس کے آگے پھیلا دیا تھا جس پر مرش نے مسکرا کر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا مطلب وعدہ پکا !!
آہل مرش کو تھوڑا اور خود سے قریب کیا تھا اسے بال پر اپنا ہونٹ رکھ کر چوما تھا ۔۔مرش کو اتنے قریب دیکھ کر آہل شاہ آفندی کے جزبات مچل اٹھے تھے آج بہت دنوں بعد اس کا موڈ تھوڑا فریش ہوا تھا اتنی خواری کے بعد کم از کم آہل یہ سب ڈیزو کرتا تھا ۔۔
آہل کا ہاتھ یک لخت اس نیوی بلو فراک کی زپ پر جا کر رکا تھا جس کو ہولے ہولے آہل نیچے کر رہا تھا ۔۔
آہل !! مرش کی آواز کہیں دم توڑ رہی تھی ۔۔
آج میں کچھ بھی سننے کے موڈ میں نہیں ہوں مرش ۔۔آہل اس کے لبوں پر انگلیاں رکھ اسے دانستہ چپ کرا چکا تھا ۔۔
مارے شرم کے اس کا چہرہ مزید سرخ ہو گیا تھا عارض دہک رہی تھی مرش ہار چکی تھی آہل شاہ آفندی کی باہوں میں اس نے چپ چاپ اپنا آپ سونپ دیا تھا ۔۔
آہل اسے اپنے بازوں میں اٹھا کر بیڈ پر لے آیا تھا اس کے اوپر جھک کر اس نے مرش کی گردن پر اپنا ہونٹ رکھ دیا تھا حیا سے پلیکں مزید جھک گیی وہ اس کی طرف دیکھنے سے مکمل گریز کر رہی تھی ۔۔۔
آہل اپنی شرٹ کے بٹن ایک ایک کر کے کھول رہا تھا آخری بٹن بھی قید سے آزاد ہو چکا تھا اس نے اپنی شرٹ صوفے پر اچھال دی تھی اس کے اوپر جھک کر اپنا ہونٹ مرش کے لرزتے ہونٹوں پر رکھ دیا تھا مرش بھی مکمل ساتھ دے رہی تھی اس کا شرم و حیا ایک طرف رکھ کر مرش بھی اس کے پیار میں پور پور ڈوب چکی تھی ۔۔
آہل نے آہستہ سے اس کی آستین کاندھے سے تھوڑا نیچے کی اور اس کے کاندھے پر اپنے ہونٹ رکھ کر چوما تھا مرش کی آنکھیں یک لخت سختی سے بھینچ گیی تھی ۔۔
آہل نے آہستگی سے اس کے کانوں میں جھومتے جھومکے کو اتارا تھا اور اس کی کان کی لویں کو چوما تھا آہستہ آہستہ وہ پوری طرح مرش کے جسم تک رسایی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔۔آج آہل شاہ آفندی پوری طرح ایک شوہر ہونے کا حق حاصل کر چکا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ مغرور ہی سہی ، مجھے اچھا بہت لگا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ وہ اجنبی تو تھا مگر اپنا بہت لگا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ روٹھا ہوا تھا ہنس تو پڑا مجھے دیکھ کر ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ مجھ کو تو اس قدر بھی دلاسہ بہت لگا ۔۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_34
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
صبح سورج کی چمکتی کرن آہل کے چہرے کا طواف کر رہی تھی فورن اس کی آنکھ کھلی تھی معمول وقت کے مطابق تھوڑی دیر ہو گیی تھی اس نے ذرا سی گردن مڑ کر بےسدھ سویی مرش پر ڈالی تھی لبوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ مچل گیی تھی شاید صبح صبح محبوب کا دیدار اتنا ہی دلکش ہوتا ہے ۔۔کچھ دیر وہ اس کے چہرے کودیکھتا رہا بے ساختہ دل میں ایک ننھی سی خواہش جاگی تھی اور اسے اپنی خواہش پوری کرنے میں کسی قسم کی کوویی پابندی نہیں تھی ۔۔وہ اس کے اوپر تھوڑا سا جھک کر اپنے ہونٹوں سے اس کی پیشانی پر محبت بھری مہر ثبت کی تھی اس وقت اگر مرش بے خبر نہیں سوتی تو ضرور تھوڑا سا واویلا مچاتی لیکن نیند اتنی گہری تھی کہ آہل کی اس حرکت کو دیکھنا نہ ممکن تھا ۔۔
اس نے مرش کو ڈسٹرب کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا شاید اسے مرش کا ضرورت سے زیادہ ہی خیال تھا یہ پھر کسی سوے ہوے انسان لو ڈسٹرب کرنا اس کی گڈ بکس میں شامل ہی نہیں تھا بہرحال وہ آفس کے لیے تیار ہو کر نیچے آ گیا تھا جہاں سبھی موجود تھے سواے بریرہ کے ۔۔
مدہم لیجے میں سلام کر کے وہ چییر پر براجمان ہو گیا تھا ۔۔
آہل آخر ایسا کب تک چلے گا ؟؟ جاوید صاحب بے حد سنجیدگی سے آہل کو دیکھ کر پوچھ رہے تھے ۔۔
کیا ؟؟ میں سمجھا نہیں ؟ آہل نے چونکتے پوے پوچھا تھا کیوں کی اس کی سمجھ سے باہر کی بات تھی ڈیڈ کس سلسلے میں بات کر رہے ہیں !
مرش کے بارے میں بات کر رہا ہوں میں وہ تمہاری بیوی ہے اگر تمہیں یاد ہو تو اسے اس طرح سے قید کر کے رکھنے سے تمہیں کیا خوشی مییسر ہوتی ہے ذرا وضاحت کرنے کی تکلیف کرو گے !! جاوید کا لہجہ سنجیدگی سے بھر پور تھا آہل کی حرکتوں سے وہ کافی پریشان تھے انہیں مرش کا خیال تھا کہیں اس کے ساتھ کویی زیادتی تو نہیں ہو رہی تھی ۔۔
ڈیڈ آپ کی بہو مجھے کتنا خوار کرتی ہے کتنا تنگ کرتی ہے کیا بتاوں !! آہل محض سوچ کر رہ گیا تھا زبان سے کچھ نہیں کہا تھا ۔۔
ڈیڈ میں کوشش کروں گا آیندہ آپ کو ایسی شکایت نہ ہو !! آہل نے مسکرا کر انہیں یقین دلایا تھا ۔۔
خیال رکھنا آہل اسے ہم سے کویی شکایت نہ ہو ۔۔ جاوید صاحب میکانکی انداز میں بولے تھے ۔۔
جی ضرور ۔۔آہل چییر سے اٹھ گیا تھا کیوں کی اسے آفس جانا تھا ۔۔
تقریبن دس بجے کے قریب مرش کی آنکھ کھلی تھی فریش ہو کر وہ نیچے آ گیی تھی آج ایسا پہلا دن تھا کی اس کی آنکھ اتنی لیٹ کھلی تھی ۔۔
السلام علیکم مام اینڈ ڈیڈ ۔۔ جاوید صاحب اور مریم بیگم اسے لاونج میں ہی نظر آ گیے تھے مسکرا کر وہ ان کے قریب آ گیی تھی ۔۔
وعلیکم السلام بیٹا ۔۔دونوں نے تازگی بھری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا ۔۔
تو کیسی رہی میری بیٹی کی نیند ؟؟ مریم بیگم نے مسکرا کر پوچھا تھا ۔۔
بہت اچھی ۔۔آنکھوں کے سامنے رات کا منظر لہرایا تھا لبوں پر ایک شرمیلی مسکراہٹ سج گیی تھی ۔۔
مرش بیٹا میں سوچ رہا تھا کیوں نہ آج آپ کو آپ کی امی کے گھر چلیں میری ایک میٹنگ بھی ہے وہی سے گزروں گا تو آپ کو ڈراپ کر دوں گا آپ کی تفریح بھی ہو جاے گی ۔۔ اخبار میز پر رکھ کر انہوں نے مسکرا کر مرش سے کہا تھا ۔۔
واو سچی میں ضرور چلوں گی ڈیڈ لیکن آہل کہیں برا نہ مان جاے ۔۔مرش کے دل میں تھوڑا سا خوف بھی تھا اور شاید اس کی فکر بھی تھی ۔۔
نہیں وہ کیوں برا ماننے لگا کچھ نہیں ہوتا چلو ساباش تیار ہو جاو ابھی کچھ دیر میں نکلنا ہے ہمیں ۔۔ جاوید صاحب ٹھوس لہجے میں بولے تھا ۔۔
ٹھیک ہے میں تیار ہو کر آتی ہوں۔ ۔مرش خوشی سے چہک اٹھی تھی ابھی رات میں ہی کیا گیا وعدہ بھی رتتی برابر اسے یاد نہیں تھا وہ ایسی ہی تھی لاابالی سی لاپراوہ ہر چیز سے بے نیاز ۔۔
ماں میں نے ایک دو جگہ جاب کے لیے اپلایی کیا ہے بس انٹریو کال کا انتظار ہے ۔۔ فارس اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر پر عزم لہجے میں کہہ رہا تھا ۔۔
فارس میرے بچے بس یہ جاب واب کا چکر چھوڑو میری بس اتنی سی خواہش ہے اپنے پوتے پوتیوں کو کھلا سکوں ۔۔ ایک ماں کا خواب جس طرح کا ہوتا ہے اس کے بارے میں تو شاید سب کو علم ہوگا فارس کی ماں کی بھی بس اتنی سی خواہش تھی ۔۔
ماں کون دے گا مجھ غریب کو اپنی بیٹی آج کل کے زمانے میں پیسہ بہت اہم ہوتا ہے ۔۔ فارس نے ہنس کر بات کا مزاق اڑایا تھا ۔۔
ایسے کیسے کویی نہیں دیے گا اپنی بیٹی میرے چاند جیسے بیٹے کو بس تمہارے ہاں کا انتظار ہے مجھے ۔۔ انہوں نے ممتا بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا اسے ۔۔
اچانک فارس کے موبایل کی بپ جلترنگ سے بجنے لگی تھی ماں اور بیٹے کی گفتگو کے بیچ میں خلل پڑی تھی ۔۔
ماں اہم کال ہے سن کر آ رہا ہوں ۔۔ فارس فون ہاتھ میں لے کر چھت پر آ گیا تھا محبوب سے بات کرنے کے لیے تنہایی سب سے بہتر جگہ ہوتی ہے ۔۔
بریرہ میں نے منا کیا تھا نہ کال نہیں کرنے کو ۔۔ فارس کا لہجہ ضرورت سے زیادہ تلخ تھا کیوں کی اسے تلخ رکھنا تھا وہ نرم نہیں پڑنا چاہتا تھا وہ مزید کسی کو دھوکہ نہیں دینا چاہتا تھا ۔۔
تمہیں کیا لگا تمہارے منا کرنے سے میں مان جاوں گی تم نے سوچ بھی کیسے لیا میں تمہاری جان لے لوں گی اگر اب کال کرنے کے لیے مجھے منا کیا تو !! بریرہ اپنے آنسوں کو بے رحمی سے رگڑ کر دھمکی دی تھی ۔۔
بریرہ لیسن ٹو می ہمہارا الگ رہنے ہی میں بہتری ہے ۔۔فارس یک لخت نرم پڑ گیا تھا وہ کب ایسے رویوں کا آدی تھا اور جن سے بے پناہ محبت ہوتی ہے ان کے لیے تو دل خودبخود مایل ہوتا جاتا ہے ۔۔
مجھے کچھ نہیں سننا کچھ بھی نہیں اور نا ہی تم مجھے منا کر سکتے ہو ایک بار نہیں ہزار بار کال کروں گی کیا کر لو گے تم ؟ بریرہ کی آواز دھیمی پڑ گیی تھی بچوں کی طرح وہ ضد کر رہی تھی ۔۔
میری جان پلیز رونا بند کرو ورنہ ابھی تمہارے پاس آ جاوں گا ۔۔۔ فارس ہار چکا تھا آخر کب تک وہ بریرہ سے اس طرح کا رویہ رکھتا اس کے لیے تو سب سے زیادہ مشکل تھا دو دن کیسے اس نے گزارے تھے کویی اس کے دل سے پوچھتا کیا حالت تھی اس کی ۔۔ کیسے دو دن گزرے تھے ۔۔
نہیں ہوں میں تمہاری جان اگر ہوتی تو تم اس طرح نہیں کہتے اتنی بدتمیزیاں نہیں کرتے ۔۔ بریرہ منھ پھلا کر شکوہ شکایت پر اتر آیی تھی کیوں یہ اس کا حق تھا ۔۔
بتاو کیا کرتا میں ایک تو تمہارے بھایی نے اچھی خاصی درگت بنا دی میری ابھی بھی جسم سے کراہ اٹھ رہی ہے ۔۔۔فارس ہنس دیا تھا کتنی دردناک ہنسی تھی کیسا کرب چھپا تھا اس ہنسی میں یہ ہنسی تو بہت مختلف تھی پہلی کی نسبت ۔۔۔
ایم سوری فارس سب میری وجہ سے ہوا ہے بھایی بھی مجھ سے بات نہیں کر رہے سخت ناراض ہے مجھ سے ۔۔۔ بریرہ کا لہجہ افسردگی سے بھرپور تھا لیکن فارس سے بات کر کے اسے تھڑی ڈھارس بندھی تھی ۔۔
ہاں تو کیوں نہ ہو ناراض تم نے اس سے اس کا لاڈلا اور پیارا دوست جو چھین لیا ہے ۔۔ فارس کا قہقہہ بے ساختہ تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا ۔۔
تمہیں مزاق سوجھ رہا ہے فارس ۔۔بریرہ برا مان گیی تھی ۔۔
مزاق کیوں کروں گا حقیقت بتا رہا ہوں ۔۔ فارس اب شرارت پر اتر آیا تھ۔ا ۔۔۔
فارس بھایی کیسے مانیں گے وہ مجھ سے ناراض ہے ان کا موڈ بہت خراب ہے ۔۔بریرہ آہل کی جانب سے قدرے پریشان تھی اسے ڈر تھا لگ رہا تھا نہ جانے کب تک ایسا چلے گا بھایی مانیں گے بھی یہ نہیں ۔۔
اس کا تو مجھے بھی کویی علم نہیں لیکن میں بتا رہا ہوں اب میں اپنی ہڈییاں توڑوانے کا رسک بلکل بھی افورڈ نہیں سکتا ۔۔ فارس نے ٹھیک ٹھاک افسوس کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔
جب بھی بولنا فضول ہی بولنا ۔۔ بریرہ نے دانت پیستے ہوے غصہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔
اور نہ جانے کتنے گھنٹوں تک دو دلوں کے درمیان سرگوشیاں ہوتی رہی تھی ۔۔۔
مرش فایزہ بیگم کے گلے میں جھول کر یکدم بچوں کی طرح نہ جانے کتنے گھنٹوں سے باتوں میں مصروف تھی ۔۔
امی میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں کتنے دن بعد اپنا کمرہ دیکھوں گی میں آپ کو بتا نہیں سکتی مجھے کتنی خوشی محسوس ہو رہی ہے ۔۔۔مرش فورن اپنے کمرے میں جانے کے لیے کھڑی ہو گیی تھی ڈیر سارا کھانے پینے کا شاپر ہاتھ میں لے کر وہ اپنے کمرے میں داخل ہویی تھی ۔۔کچھ نہیں بدلہ تھا سب کچھ ویسا کا ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیی تھی کسی نے سہی کہا ہے اپنا کمرہ واقعی اپنی بادشاہت ہوتی ہے بیڈ پر پھیل کر بیٹھ کر وہ ساتھ میں لاے گیے کھانے پینے کی چیزیں پھیلا کر بیٹھی تھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کون سی چیز سے آغاز کیا جاے کیوں ضرورت سے زیادہ چیزیں تھی چیومگم کی مقدار حد سے زیادہ تھی کیوں چیومگم چبانا اس کا فیوریٹ مشغلہ تھا ۔۔۔
ڈیڈ آپ مجھے یہاں سے جلد از جلد باہر نکلوایں ۔۔ علی شہروز جیل کی سلاخوں کے پیچھے کسی بھپرے ہوے شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا ۔۔
یو ڈونٹ وری بیٹا میں نے وکیل سے بات کر لی ہے بہت جلد تمہاری ضمانت ہوگی ۔۔۔ مسٹر شہرز نے بیٹے کو یقین دلایا تھا ۔۔
میں آہل شاہ آفندی کو جان سے مار دوں گا ڈیڈ اس کی سانسں چھین لوں گا تڑپا تڑپا کر اسے موت کے گھاٹ اتاروں گا ۔۔۔ علی شہروز کی آنکھوں میں یقین تھا یقین سے بڑھ کر غرور تھا ۔۔
میں تمہارے ساتھ ہوں بیٹا ۔۔ مسٹر شہروز نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تھا کیسا تھا یہ باپ بیٹے کو روکنے کے بجاے اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کر رہا تھا ۔۔لعنت ہے ایسے لوگوں پر ۔۔۔
سمیرا ؟ آہل ایک ایک کر کے تن فن کرتا سڑھیاں اترنے کے ساتھ تیز آواز میں ملازمہ کو پکار رہا تھا ۔
جی صاحب جی ۔۔ سمیرا نظریں نیچے جھکاے کھڑی تھی ۔۔
مرش کہاں پر ہے ؟؟ آہل کا سر چکرا گیا تھا مرش کو نا پا کر اسے ڈر تھا کسی انہونی سے کیوں وہ جانتا تھا اس بیوقوف لڑکی سے کچھ بھی توقع ک جا سکتی تھی۔۔
مرش تو اپنے والدین کی طرف گیی ہویی ہے میرے خیال سے وہ تمہیں بتانا بھول گیی ہوگی ۔ ۔۔ جواب سمیرا کے دینے کے بجاے مریم بیگم نے دیا تھا ۔۔
کس کی اجازت سے گیی ہے ؟؟ آہل اب شدید غصہ آ رہا تھا جبکہ دیکھا جاے تو اس میں کویی غصہ کرنے والی بات نہیں تھی وہ کسی غیر کے گھر نہیں بلکہ اپنے والدین کے گھر گیی ہویی تھی ۔۔
تمہارے بابا نے کہا تھا بیٹا ۔۔ مریم بیگم نے حقیقت بتایی تھی ۔۔
ڈیڈ بھی نا ” اوکے تھینکس ” آہل نے ایک نظر مریم بیگم پر ڈالی تھی اور باہر چلا گیا تھا ۔۔
السلام علیکم آنٹی ؟؟ آہل مسکرا کر فایزہ بیگم کو سلام جھاڑا تھا ۔۔
وعلیکم السلام ارے آہل بیٹا تم آو آو مجھے امید نہیں تھی تم آو گے مرش نے بھی کویی ذکر نہیں کیا تھا ۔۔ فایزہ نے نہایت خوشی سے اس کا استقبال کیا تھا کیوں نہ کرتی آخر وہ اس گھر کا اکلوتہ داماد تھا ۔۔
جی ” آنٹی ” میں مرش کو لینے آیا تھا ۔۔ آہل قریب رکھے صوے پر بیٹھ گیا تھا ۔۔
اچھا پہلے تم بیٹھو میں تمہارے لیے چاے لاتی ہوں ۔۔ فایزہ بیگم اٹھ گیی تھی چاے کا ارادہ کر کے ۔۔۔
نو نو آنٹی ، بہت شکریہ پلیز آپ تکلف نہ کریں ۔۔آہل نے انکار میں سر ہلا دیا تھا دراصل اسے چاے زیادہ پسند ہی نہیں تھی ۔۔
کچھ دیر کی گفتگو کے بعد آخر فایزہ بیگم نے اسے مرش کے کمرے کی جانب اشارہ کیا تھا ۔۔
آہل نے کمرے میں جیسے ہی قدم رکھا تھا سامنے کا منظر دیکھ کر اسے قدرے حیرت کا جھٹکا لگا تھا ۔۔
مرش چیومگم کے ذریعے بڑا سا گبارہ پھلا کر بیٹھی تھی جیسی ہی اس کی نظر سامنے کھڑے آہل پر پڑی تھی غبارہ کو فورن منھ کے اندر کیا گیا تھا اسے تھوڑی شرمندگی بھی محسوس ہو رہی تھی نہ جانے آہل کیا سوچے اس کی اس حرکت پر ۔۔
تم ؟؟ مرش نے تھوڑی حیرانگی کا ردعمل ظاہر کیا تھا ۔۔
جی میں اور آپ بتانا پسند کریں گی یہ منھ میں کون سی چیز چبایی جا رہی ہے ۔۔ اس کے مسلسل حرکت کرتے منھ کو دیکھ کر آہل نے آنکھ دکھایی تھی ۔۔
آ ۔۔ وہ میں دراصل میں چیونگم کھا رہی تھی ۔۔ مرش نے مسکرا کر بتایا تھا اس کا اندازہ تھا آہل خوش ہو جاے گا ۔۔
مرش کیا بچوں کی طرح پورے کمرے کو بےحال بنا رکھی ہو اور پلیز فورن اس چیونگم کو تھوک کر آو ورنہ مجھ سے برا کویی نہیں ہوگا ۔۔ بیڈ پر سوز سمیت بیٹھ کر آہل نے مصنوعی غصے سے کہا تھا ۔۔
لیکن آہل مجھے پسند ہے لو تم بھی ٹرایی کرو ۔۔ مرش نے ایک چیونگم کا پیک اس کی طرف بڑھا کر مسکراتے ہوے کہا تھا ۔۔
مرش میں تم سے کہہ رہا ہوں اسے باہر تھوک کرو ۔۔۔آہل نے غرارتے ہوے کہا تھا شاید تھوڑا بہت اثر ہو جاے مرش پر ۔۔
ٹھیک ہے !! مرش منھ پھلا کر چیونگم ڈسٹبین میں ڈال دی تھی لیکن دل بے حد اداس ہو گیا تھا ابھی تو اس نے چیونگم کا خوب اچھے سے مزہ بھی نہیں لیا تھا ۔۔
اور یہ ساری چیزیں کون کھاے گا ۔؟؟ آہل کا اشارہ بیڈ پر پھیلی دیگر چیزوں کی طرف تھا جو ایک انسان کے حساب سے بہت زیادہ تھی ۔۔
یہ سب میں کھاوں گی ۔۔ مرش نے اپنی جانب اشارہ کیا تھا جبکہ سچ تو یہ تھا کی مرش کھانے پیننے میں حد سے زیادہ کاہل تھی جس کا اندازہ آہل کو بخوبی تھا ۔۔
مرش دوپٹہ کہاں پر ہے تمہارا ۔۔ آہل اس کا نیلا رنگ کا دوپٹہ دیکھ کر بولا تھا جس کا ایک حصہ زمین پر تھا اور ایک حصہ بیڈ پر تھا یہ نہیں تھا کی آہل شاہ آفندی اس کے اوپر پابندیاں لگا رہا تھا وہ صرف اس کو احساس دلانا چاہتا تھا اس کی اتنی لاپرواہی سہی نہیں تھی آج تو چل گیا کیوں اس کا شوہر تھا اس رازداں تھا اس کی عزت اپنی عزت سمجھنے والا تھا لیکن اگر اسی جگہ کویی اور شخص ہوتا تو وہ کس نظر سے دیکھتا کیا نیت ہوتی اس کی ۔!!!
دوپٹہ یہ رہا ۔۔مرش اندر ہی اندر خفیف ہو رہی تھی لیکن وہ جھٹ سے دوپٹہ زمین سے اٹھا کر اپنے ارد گرد اچھے سے پھیلا رہی تھی اور ْآہل اسے یوں دوپٹہ سہی کرتے ہوے بڑی دلچسپ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
ایم سوری مجھے یاد ہی نہیں تھا دوپٹہ میرے پاس نہیں ہے ۔۔ مرش نہ جانے کیوں وضاحت دینے پر اتر آیی تھی ۔۔
مرش میں چاہتا ہوں تم اپنے آپ کو چھپا کر رکھو صرف میرے لیے کیوں تمہارے اوپر کسی غیر کی نظر میں برداشت نہیں کر سکتا تمہیں میں صرف تمہیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں اپنے آپ کو بہت زیادہ چھپا کر رکھا کرو میرے سامنے تم کسی بھی حالت میں رہوگی وہ مجھے قبول ہے کیوں کی ہمارا رشتہ ہی ایسا ہے لیکن پلیز اپنا خیال رکھا کرو ۔۔ آہل اس کا تھام کر بے حد سنجیدگی سے کہہ رہا تھا کیوں کی وہ جانتا تھا مرد کی نیت بدلنے میں ایک لمحہ نہیں لگتا اب علی شہروز کو ہی دیکھ لیں ۔۔۔
اوکے !! مرش اچھے بچوں کی طرح گردن ہاں میں ہلا دی تھی ۔۔
میں تمہارے لیے پانی لاتی ہوں ۔۔ آہل اس سے پہلے کویی اور گستاخی کرتا مرش فورن اپنا ہاتھ چھڑا کر نو دو گیارہ ہو گیی تھی ۔۔
دیوار پر لگی تصویروں کو دیکھ کر آہل کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گیی تھی کیوں کی وہ اس کی دشمن جاں کی تصویرے تھی ۔۔
رینک میں بے تحاشہ کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا کتابوں کے ساتھ ساتھ البمس بھی بڑی نفاست کےساتھ سجاے گیے تھے ۔۔ آہل کے دل میں نہ جانے کیا خیال آیا وہ اٹھ کر رینک کے قریب آ گیا تھا ۔ حیرت تو اسے اس بات پر ہو رہی تھی کالج بکس ایک بھی موجود نہیں تھی سواے رومینٹک ناولوں کے علاوہ اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک ناول نکالا تھا کچھ دیر یونہی ورک گردانی کرنے کے بعد وہ دوبارہ کتاب اسی جگہ پر سجا دیا تھا ۔۔
اچانک اس کی نظر ایک البم پر پڑی تھی دل میں شدید خواہش جاگی تھی مرش کے بچپن کو دیکھنے کی ، بچپن میں کس قدر موٹی تھی ؟ یہ محض آہل کی سوچ تھی آنکھیں شرارت سے چمکنے لگی تھی لبوں پر شریر مسکراہٹ رقص کرنے لگی تھی ۔۔وہ البم ہاتھ میں لے کر بیڈ پر آ گیا تھا ۔۔ پہلی ہی فوٹو پر آہل کا قہقہہ برامد ہوا تھا ۔۔ جس میں مرش چاکلیٹ کھاتے کھاتے اپنے پورے منھ میں تھوپی ہویی تھی موٹی گپلو ایسی مرش بے حد کیوٹ لگ رہی تھی جیسے آج بھی لگتی ہے ۔۔ ایک کے بعد دو ، دو کے بعد تین ایسے ایسے تصویرں کا جایزہ لیتے ہوے آہل کا قہقہہ اچانک ہوتا تھا ۔۔
آہل یہ لو میں تمہارے لیے کافی بنا کر لایی ہوں ۔۔مرش ہاتھ میں کافی کا ٹرے لیے کمرے میں داخل ہویی تھی ۔۔جیسے ہی اس کی نظر البم پر پڑی حلق سے ایک جی دار چیخ برامد ہویی تھی ایسا لگ رہا تھا مرش کی نا جانے کون سی چوری پکڑی گیی تھی ۔۔ اس نے جلدی سے ٹرے میز پر رکھا تھا اور فورن اس کی طرف بھاگی آیی تھی چہرہ شرم کے مارے سرخ ہو گیا تھا کیوں البم میں موجودہ تصوریں حد زیادہ فنی فنی تھی ۔۔
واو مرش لگتا ہے بچپن میں خوب کھایی پیی تھی دیکھو کتنی ہلدی لگ رہی ہو ۔۔ آہل کا انداز سراسر مزاق اڑانے والے تھا ۔۔
آہل پلیز مجھے یہ البم دو ۔۔ مرش اب اس کے ہاتھ سے البم جھپٹنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔
اس میں یار کیا غضب کی لگ رہی ہو میں سوچ رہا ہوں تم چل کیسے پاتی تھی یار تمہارا ویٹ بچپن میں جب اتنا زیادہ تھا تو اب کتنا ہوگا ؟ آہل تصویروں سے نظریں ہٹا کر اس کا مکمل جایزہ لینے میں مگن تھا ۔۔
آہل تمیں شرم آنی چاہیے کسی کی پرسنل چیز اس طرح سے دیکھنا وہ بھی اس کی اجازت کے بغیر ۔۔مرش نے ایک بار پھر سے البم جھپٹنے کی کوشش کی تھی نتیجہ آہل اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ہلکا سا جھٹکا دیا تھا جس سے مرش اس کے چوڑے سینے سے آ لگی تھی پلیکں یکایک زمین پر گڑھ گیی تھی لب لرزنے لگے تھے ۔۔
دیکھ رہا ہوں آج اتنا وزن ہے جب میرے بچوں کی مما بنو گی تب کتنا ہوگا ۔۔ آہل کا لہجہ ہنوز شرارت تھا ۔۔
آہل وہ البم مجھے دو ۔۔مرش اس کی باہوں میں ابھی بھی قید تھی لیکن پھر بھی وہ اسی طرح البم لینے کا جدوجہد کر رہی تھی ۔۔
کیوں نہ مما پاپا بننے کی تیاری کی جاے کیا خیال ہے ۔۔ آہل کا لہجہ حد سے زیادہ بے باقی لیے ہوے تھا ۔۔
شرم سے مرش کا نظریں ملا پانا مشکل ہو رہا تھا وہ اس کی باہوں میں آزاد ہونے کے لیے کسمسا رہی تھی لیکن گرفت خاصی مضبوط تھی آزادی ملنا اتنا بھی آسان نہیں تھا ۔۔
اچانک ایک بہت بڑا انکشاف ہوا تھا وقت ٹھہر سا گیا تھا پلکیں جھپکنا بھول گیی تھی یک لخت آہل کی گرفت کمزور ہویی تھی جس پر مرش کو تھوڑی حیرت بھی ہویی تھی ۔۔
مما !! آہل نے یہ لفظ منھ ہی منھ کہا تھا جس کو شاید اس نے ٹھیک سے سنا بھی تھا یہ نہیں ۔۔
یہ ۔۔یہ کون ہے مرش ؟؟ ایک بڑے سایز کا فوٹو آہل کے ہاتھوں میں تھا جس میں اس کی مما یعنی فایزہ بیگم اور نورا بیگم کی تصویرے تھی جو صرف آفندی ہاوس میں تھی جاوید صاحب کے پاس آہل نے تو ان تصویروں کو کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کی اپنی مما کا فوٹو ہمیشہ اس کے وایلٹ میں محفوظ ہوتا تھا ۔۔
یہ میری امی ہے اور یہ امی کی کویی جاننے والی ہے جو کی امی بے حد عزیز ہے میں ان سے کبھی ملی نہیں ہوں امی اکثر ذکر کرتی ہیں ان کا شاید میری کویی دور دراز کی کویی آنٹی ہے ۔۔۔ مرش کے علم میں جو کچھ تھا سب کچھ اس نے آہل کے گوش گزار کر دیا تھا ۔۔
چھوڑو تم یہ سب دیکھو اس چکر میں کافی بھی ٹھنڈی ہو گیی ۔۔مرش دوبارہ سے کافی کا ٹرے لینے کے لیے پلٹی تھی شاید وہ آہل کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ پایی تھی ۔۔۔
فوٹو جینز کی جیب میں ڈال کر وہ تن فن کرتا کمرے سے باہر نکل گیا تھا اسے اپنے سوالوں کے جواب چاہیے تھے اسے حقیقت جاننی تھی جس سے وہ قطی لاعلم رکھا گیا تھا اور اس کا جواب صرف ایک انسان دے سکتا تھا وہ تھا اس کا باپ ” جاوید شاہ آفند”
آہل کافی ۔۔مرش کی آواز کہیں بہت پیچھے رہ گیی تھی اس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔آہل کو ہوا کیا ہے خیز وہ اتنا سوچنے والوں میں سے کہاں تھی کی سوچتی کویی ضروری کام ہوگا ۔۔یہی کہہ کر اس نے خود کو پرسکون کر لیا تھا ۔۔۔
آہل ہایی اسپیڈ سے گاڑی چلا رہا تھا ایک الجھی ہویی گھتھی تھی جس کو سلجھانا بے حد ضروری تھا ۔۔
گاڑی کس بہت بڑی عمارت کے سامنے آ کر رکی تھی اس وقت جاوید صاحب سیاستدانوں کی محفل میں بیٹھ کر ایک بے حد ضروری اہم میٹںگ میں تھے ۔۔
سر اندر میٹںگ چل رہی ہے سر کا سخت آڈر ہے کویی اندر نہیں جا سکتا ۔۔۔ دروازے پر ہی گاڈز نے اسے اندر جانے سے روکا تھا ۔۔۔
سامنے سے ہٹو آہل شاہ افندی ہوں میں ۔۔ بس اتنا سا کہنا تھا کی فورن اندر جانے کا راستہ صاف ہو چکا تھا ۔۔۔
ڈیڈ ؟ آہل اپنی سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھ رہا تھا جو اس وقت شہر کے اعلی بزنیسمین کے ساتھ میٹنگ کرنے میں مصروف تھے لیکن آہل کی آواز سن کر یک لخت ان کی زبان کو بریک لگا تھا ۔۔۔
مجھے بات کرنی ہے آپ سے ۔۔۔ آہل سوچ کر آیا تھا سوالوں کا جواب لیے بغیر وہاں سے ہلے گا بھی نہیں ۔۔
ایک معزرت خواہ نظر جاوید شاہ آفندی نے بیٹھے ہوے لوگوں پر ڈالی تھی ۔۔
چند ہی منٹ میں روم خالی ہو گیا تھا صرف باپ اور بیٹے رہ گیے تھے ۔۔
فایزہ آنٹی اور مما کا کیا ریلشن ہے ڈیڈ آپ مجھے اس سوال کا جواب دے ۔۔ آج وہ گھڑی آ گیی تھی جس راز کو راز گیا تھا آج اس کے فاش ہونے کی گھڑی آ گیی تھی ۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_35
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
ڈیڈ آپ خاموش کیوں ہیں بتاے مجھے پلیز ایسے کون سے راز ہیں جن سے مجھے اب بھی بےخبر رکھا گیا ہے ؟؟ آہل زمین پر گھٹنے کے بل بیٹھ کے جاوید صاحب کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھ رہا تھا اسے اندر سے بےچینی تھی ایک اضطراب تھا عجیب قسم کی بےسکونی تھی کیا اس سے چھپایا گیا تھا یہ پھر کیا چھاپایا جا رہا تھا ۔۔۔
فایزہ بیگم اور نورا بیگم بہن ہے ” سگی بہن ” تمہاری ماں کی بہن ہے مرش کی ماں !! یہ بات ہم نے تم سے چھپایی نہیں تھی آہل دراصل تم نے جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی زندگی میں ہمیشہ ایک بات یاد رکھنا آہل” ہر انسان غلط نہیں ہوتا اس کی سوچ اسے غلط اور سہی بناتی ہے ” ہر کسی کے دیکھنے کا نظریہ الگ الگ ہوتا ہے اور تمہارا نظریہ یہ تھا کی تم نے مریم کو ہمیشہ غلط سمجھا ہے ۔۔ تم جانتے ہو آہل مریم تم سے بے بناہ محبت کرتی ہے وہ اپنی سگی اولاد سے بڑھ کر تمہیں اپنا مانتی ہے ۔۔لیکن تم ؟؟ تم نے اسے کبھی ماں کا درجہ نہیں دیا کیوں کیوں کی تمہاری نظر میں وہ ایک غددار عورت ہے ۔۔آہل نورا اور میں نے لو میرج کی شادی کی تھی جس کے خلاف نورا کا پورا گھرانہ تھا لیکن اس نے صرف میرے لیے اپنے پیاروں کو چھوڑ دیا تھا ۔۔ہم ایک ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے اور پھر تم ہماری زندگی میں آ گیے پھر ہماری ایک چھوٹی سی فیملی بن گیی تھی میں اور نورا بہت خوش تھا لیکن پھر ایک دن اچانک تمہاری ماں کی طبیعت خراب ہو گیی تھی ڈاکٹرز کا کہنا تھا اسے بلڈ کینسر ہے بہت کم دن رہ گیے تھے اس کے پاس میں نے اس کا ایک سے بڑے ایک ڈاکٹر سے ٹریٹمینٹ کروایا تھا لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا نورا کو معلوم تھا اس کی زندگی کے چند دن اور باقی ہے وہ تمہیں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتی تھی وہ تم سے بے پناہ محبت کرتی تھی کیوں کی تم ہماری محبت کی نشانی تھے اور وہ اس نشانی کو کبھی ختم نہیں کرنا چاہتی تھی وہ نہیں چاہتی تھی زندگی میں کبھی تمہیں ماں کی کمی محسوس ہو اس نے اپنی موت کے ایک دن پہلے میرا نکاح مریم سے کروا دیا تھا اپنی ہوش حواس میں پتہ ہے یہ نکاح صرف اور صرف تمہاری بھلایی کے لیے کیا تھا میں نے کیوں اس وقت تم محض پانچ سال کے تھے اور تمہیں ماں کی اشد ضرورت تھی ۔۔نورا نے مریم سے مرتے مرتے وعدہ لیا تھا وہ تمہیں کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دے گی ایک سگی ماں کی طرح تمہارا خیال رکھے گی ۔۔آہل ؟ مریم نے صرف اور صرف اس کیے گیے وعدے کو پورا کرنے کے لیے اور تم سے بےپناہ محبت ہونے کی وجہ سے تمہاری نفرتوں کو برداشت کرتی رہی آہل اس نے بھی قربانی دی تھی صرف تمہارے لیے لیکن تمہاری بدگمانیاں دن بدن بڑھتی ہی جا رہی تھی اس لیے میں نے تمہیں ہوسٹل میں ڈال دیا تھا شاید تمہارے اندر تھوڑا بہت سدھار آ جاے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تم اپنی ماں سے مزید بدگمان ہوتے چلے گیے ۔۔۔اور اچانک پھر تمہیں مرش مل گیی تھی شاید اسے ہی کہتے ہے دنیا گول ہے میں نہیں جانتا تم نے اسے اپنانے کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا تھا لیکن مِن بہت خوش ہوں تم نے مرش سے شادی کی اپنی خالہ کی بیٹی سے اگر اس وقت نورا ہوتی تو وہ بھی بہت خوش ہوتی کیوں کی مجھ سے شادی کرنے کے بعد اس کے سارے رشتے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیے تھے صرف ایک تصویر رہ گیی تھی میرے پاس جو نورا اپنے ساتھ لے کر آیی تھی میں نے فایزہ کو ہر جگہ تلاش لیا تھا کیوں کی تمہاری کی خواہش تھی وہ ایک بار اپنی چھوٹی بہن سے مل لیں ۔۔اس کی یہ خواہش تو پوری نہیں ہویی لیکن مرش سے شادی کر کے تم نے مجھے ایک سکون بخش دیا ہے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے میں نے تمہاری کی ماں کی خواہش پوری کر دی ہے ۔۔
لیکن شاید تم اس بات کو کبھی نہ سمجھو !!!! جاوید صاحب کی آواز رندھ گیی تھی آنکھوں میں آنسوں امڈ آے تھے دل بھر سا آیا تھا نورا بیگم کی یاد ایک بار پھر تازہ ہو گیی تھی ان کے لیے بھی آسان نہیں تھا کسی دوسری عورت سے نکاح کرنا لیکن وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دینا چاہتے تھے ۔۔
ڈیڈ آپ نے مجھے یہ سب پہلے کیوں بتایا ؟؟ آہل کی آنکھوں میں شکوہ تھا شرمندگی تھی ملال تھا جس عورت کو وہ ہمیشہ اپنا دشمن مانتا رہا اسی عورت نے آہل شاہ آفندی کے لیے ملازمہ سے بھی زیادہ بدتر زندگی گزار رہی تھی صرف کس کے لیے ؟؟ آہل شاہ آفندی کے لیے ۔۔
کیسے بتاتا میرے بچوں کے پاس کبھی وقت ہوتا تھا میری بات سننے کا میرے ساتھ چند لمحے گزارنے کا ۔۔ جاوید صاحب نے اپنے آنسوں کو ضبط کر لیا تھا لیکن پانی اپنا راستہ بخوبی بنا لیتے ہے ان کی آنکھوں سے چند قطرے گر کر گالوں کو بھگو رہے تھے ۔۔۔
ڈیڈ مجھے معاف کر دیں پلیز میں تو شاید اس قابل بھی نہیں ہوں مجھے معافی ملے لیکن میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں مجھے معاف کر دیں ۔۔ آہل شاہ آفندی زندگی میں پہلی بار کسی کے سامنے ہاتھ جوڑ رہا تھا خیز وہ ” کسی ” نہیں اس کے سگے باپ تھے ۔۔
بیٹا معافی مجھ سے نہیں اپنی ماں سے مانگو کیوں مجھ سے زیادہ تم نے اسے تکلیف پہنچایی ہے ۔۔ جاوید صاحب نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا آواز میں ایک کھنک سی آ گیی تھی در و دیوار پر خوشیاں رقص کر رہی تھی بلاآخر آہل شاہ آفندی کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو ہی گیا تھا ۔۔ بھلے دیر ہی سہی “
آیی لو ڈیڈ ۔۔ آہل شاہ آفندی ایک دم چھوٹے معصوم بچوں کی طرح اپنے باپ کے گلے لگ گیا تھا آج اس نے زندگی میں پہلی بار باپ کے وجود کا لمس محسوس کیا تھا جس ہمیشہ وہ محروم رہا تھا ۔۔۔
آیی لو یو ٹو مایی سن ۔۔جاوید صاحب نے بھی اسے گلے میں بھینچ لیا تھا ۔۔
اب جلدی سے جاکر میری بیٹی کو گھر لے کر آو آج ہم نے ایک ساتھ ڈنر کرنا ہے ۔۔۔ جاوید صاحب نے مسکرا کر بولے تھے آج کی مسکراہٹ ایک عجیب پر کشش لیے ہویی تھی آج انہیں اپنے باپ ہونے پر فخر محسوس ہو رہا تھا ۔۔
اوکے ڈیڈ ۔۔آہل خوشی سے کہہ کر واپس پلٹا تھا قدم اپنے آپ آگے بڑھ رہے تھے آج ایک الجھی ہویی گھتھی سلجھی تھی ۔۔
فرمایے مل گیا جناب کو موقع ؟؟ مرش فون ریسیو کرتے ہی بگڑی تھی اسے تھوڑا تھوڑا غصہ بھی آ رہا تھا کم از کم آہل کو اس طرح تو چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا کچھ بتا کر پی چلا جاتا تاکہ فایزہ بیگم کو جواب دینے میں تھوڑی آسانی ہو جاتی ۔۔
سوری سویٹ ہارٹ جلدی میں تھا کہیں تم مجھے مس تو نہیں کر رہی تھی ۔۔ ایک ہاتھ سے فون کان میں لگا کر دوسرے ہاتھ سے ڈرایونگ کرنے میں مگن تھا ۔۔
مس اور میں ؟؟ جناب عالی مجھے اور بھی کام ہوتے ہے آپ کو مس کرنے کے علاوہ ۔۔ مرش نے مسکرا کر کہا تھا ۔اس کا ارادہ ابھی آہل کو سہی جواب دینے کا نہیں تھا ۔۔
اچھا کون کون سے کام ہوتے ہے میری جان کو بتانا پسند کریں گی آپ مجھے بھیی میں بھی تو جانو ایسے کون سے اہم کام ہے جو مجھے یاد کرنے نہیں دیتے آپ کو ۔۔ آہل کا ارادہ ابھی مزید شرارت کا تھا ۔۔
یہ تو میں نہیں بتانے والی ۔۔ ہاں لیکن ایک راز کی بات بتاوں ؟؟ مرش کی آواز قدرے آہستہ ہو گیی تھی جیسے ایک رازداں اپنا راز دوسروں کے حوالے سرگوشی کے انداز میں کرتا ہے ۔۔
راز جلدی بتاو یار ۔۔ آہل کو بےچینی ہویی تھی راز جاننے کی ۔۔
راز کی بات یہ ہے اس وقت میں آپ کو ہی مس کر رہی تھی ۔۔ مرش نے کچھ جھجھکتے ہوے کہا تھا ۔۔ اس طرح اعتراف عشق کرنا تھوڑا مشکل لگ رہا تھا ۔۔
ہاے کہیں میں مر ہی نہ جاوں آپ کے اس راز پر سچ میں یار جادو کر دیا ہے تم نے مجھ پر ایک پل بھی تمہارے بنا رہنا مشکل لگنے لگتا ہے ۔۔ آہل نے سچا اعتراف کیا تھا واقعی مرش کے بغیر رہنا اس کے لیے بہت مشکل تھا اس لڑکی نے تو اس کے اوپر جادو کر دیا تھا اپنے عشق کے سحر میں گرفت کر لیا تھا ۔۔۔
ہمیشہ مرنے کی باتیں نہ کیا کرو ورنہ میں ناراض ہو جاوں گی ۔۔
مرش کو سخت برا لگتا تھا اس کا یوں مرنے مرنے مرانے کی باتیں کرنا دل کانپ سا جاتا تھا ۔۔۔ اگر دیکھا جاے تو مرش کو اب بھی آہل شاہ آفندی سے نفرت کرنی چاہیے تھی لیکن آہل اسے اپنی محبت میں گوڈے گوڈے ڈبو چکا تھا اس نے کچھ غلط نہیں کیا تھا ایک لڑکی کا نقصان اس کی وجہ سے ہوتا اس کی وجہ سے علی شہروز مرش کو نقصان پہنچا سکتا تھا لیکن آہل شاہ آفندی کے اندر انسانیت تھی وہ اپنی وجہ سے کسی لڑکی کا نقصان ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا اگر مرش کی جگہ کویی اور لڑکی ہوتی تو بھی شاید یہ وہی کرتا جو مرش کے لیے کیا ہے ۔۔مرش کو تو شکر گزار ہونا چاہیے آہل شاہ آفندی کا اس کے دامن پر آہل شاہ آفندی نے داغ لگنے نہیں دیا تھا اس کی حفاظت اپنے سر لے لی تھی ۔۔
اچھا نہیں کرتا سوری لیکن میں تمہیں پک کرنے آ رہا ہوں تیار ہو جاو تم اور پلیز آج ریڈ لپسٹک ہونٹوں پر لگانا کیوں کی آج کی رات کو میں بہت اسپیشل بنانا چاہتا ہوں ۔۔۔ آہل مرش سے باتیں کرنے میں اتنا مگن تھا کی اس کے آگے پیچھے چلتی گاڑیوں کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں گیا تھا جو اس کی گاڑی کا مسلسل پیچھا کر رہی تھی ۔۔
کیوں آج کی رات میں ایسی کون سی خاص بات ہوگی ۔۔ شرم و حیا کی وجہ سے مرش کی پلکیں جھکی ہویی پلکیں مزید جھک گیی تھی یوں جیسے آہل اسے دیکھ رہا ہو ۔۔
یہ تو رات کو ہی بتاوں گا ۔۔آہل ہنس دیا تھا لیکن آج وہ بہت سرشار تھا جسم میں خوشی کی رگیں دوڑ گیی تھی ۔۔
آج میں تمہیں ایک سرپرایز دوں گا ۔۔۔ باتوں کا سلسہ ٹوٹ چکا تھا آسمان میں فایرینگ کی آواز گونج رہی تھی آہل کی گاڑی ڈیسبلینس ہو رہی تھی جس کو سمبھالتے سمبھالتے شاید بہت دیر ہو چکی تھی ۔۔۔
پورے چہرے کو کالے نقاب سے چھپاے تین نامعلوم افراد گاڑی سے نیچے اترے تھے ہاتھوں ایک سے ایک بڑی ریوالر تھی ۔۔۔
آہل شاہ آفندی کو اپنے سامنے موت کھڑی دکھایی دی رہی تھی موبایل کس طرف جا کر گرا تھا وہ خود بھی نہیں دیکھ پایا تھا دو دلوں کی باتوں کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا دو دلوں کی محبت کسی سمندر میں اپنا وجود دھیرے دھیرے کھو رہی تھی ۔۔۔
ارے لگتا ہے کہیں یہ مر تو نہیں گیا ۔۔۔ پہلے نقاب پوش نے دوسرے سے استفار کیا ۔۔
جو بھی ہو ہمیں اپنا کام کرنا ہے ۔۔۔ پہلے نقاب پوش نے اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکالا تھا ۔۔۔ پیشانی سے خون کی بوندیں زیادہ مقدار میں بہہ رہی تھی ہاتھ پر بھی زخموں کا نشان صاف نمایاں ہو رہے تھے ۔۔۔
آہل !!!!!!!!! ایک چینختی نسوانی آواز آہل کے پیچھے سے آیی تھی یہ آواز تو بے حد جانی پہچانی تھی کون اسے نہیں پہچانتا ۔۔۔
پیڑ سے پرندوں کا جھرمٹ بندوق کی آواز سن کر ایک ساتھ اڑان چڑھا تھا شاید ان کا دل بھی دہل گیا تھا ۔۔۔
ایک !! ایک کے بعد دو بندوق کی گولیاں آہل شاہ آفندی کا سینہ چھلنی کر رہی تھی خون کی ایک لکیر سی بن کر زمین پر اپنا راستہ ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔
ایک آخری بار دنیا کی رنگنیوں کو آہل شاہ آفندی آپنی آنکھوں میں قید کر رہا تھا اور اپنی ان معصوم آنکھوں کو بند کر لیا تھا کون جانے زندگی کا کیا بھروسہ تھا ۔۔
چل جلدی کر ۔۔ تینوں نقاب پوش فورن گاڑی کی طرف بھاگے تھے اس سے پہلے کی وہ پکڑے نہ جاے اور پھر کیا پانچ منٹ کے اندر نو دو گیارہ ہو گیے تھے ۔۔۔
آہل آنکھیں کھول آہل نہیں پلیز آنکھیں کھول آہل میری جان میں ۔۔۔میں تیرا دوست ایک بار آنکھیں کھول دیں ۔۔۔ فارس کی چینخ آسمان کو ہلانے کے لیے کافی تھی شاید اس کی دعایں عرش تک پہنچ جاے ۔۔۔
م ۔۔م۔ ۔میں تجھے کچھ نہیں ہونے دوں گا کبھی نہیں تو ۔۔۔تو مجھے کیسے چھوڑ کے جا سکتا ہے دیکھ تیری سانسیں چل رہی م۔۔میں تجھے بچا لوں آیی پرامس ۔۔۔ آج کی شام ان دو دوستوں کے نام ۔۔ویران شام ویران جگہ کویی اپنا نہیں تھا آہل شاہ آفندی فارس کی گود میں سر رکھ کر محو خواب تھا خون بے تحاشہ بہہ رہے تھے فارس اسے کسی معصوم بچے کی طرح سینے سے لگا کر آسمان کی طرف منھ کر کے پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا ۔۔۔
ایک دو لوگوں کی مدد کی سہارے فارس اسے اٹھا کر گاڑی میں لے آیا تھا اس کی حالت تو ایسی نہیں تھی کی وہ ڈرایونگ کر پاتا لیکن اسے کرنی تھی اپنے عزیز دوست کے لیے جس کے ساتھ اس کا بچپن گزرا تھا ۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_36
Zariya_FD
Do_not_copy_without_my_permission
فارس جیسے تیسے ڈرایو کر کے ہاسپٹل پہنچا تھا وقت بہت کم تھا ۔۔آہل کا خون رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے آنکھیں اسی طرح بند تھی پیشانی پر بال بکھرے ہوے انداز میں گرے تھے ۔۔
آپ پلیز باہر رکیں ۔۔۔ نرس نے فارس کو آپریشن تھیٹر کے اندر جانے سے روکا تھا ۔۔
آہل شاہ آفندی کی سانسیں اکھڑ رہی تھی پورا جسم بے جان مردے کی طرح پڑا تھا یوں جیسے یہ آخری منظر ہو آج کے بعد آہل شاہ آفندی ہمیشہ کے لیے سب کو چھوڑ کر چلا جاے گا سب ختم ہو جاے گا موت اسی کے انتظار میں کھڑی ہے لیکن ہمیں امید ہوتی ہے ہمیں ڈاکٹروں پر یقین ہوتا ہے وہ ہمیں بچا لیں گے ۔۔
ڈاکٹر پلیز میرے دوست کو کچھ نہیں ہونا چاہیے میں آپ سے بھیک مانگتا اسے بچا لیجیے ۔۔خدا کے واسطے ۔۔ فارس اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں جوڑ کر التجا کر رہا تھا اس کی سفید شرٹ خون سے لال ہو گیی تھی آنکھوں میں بےیقینی سی بےیقینی تھی ایک ڈر تھا دل میں ایک خدشہ تھا نہ جانے قسمت کو کیا منظور تھا یہ ساتھ کب تک کا تھا کون جانے ۔۔
ہم کوشش کریں گے آپ بس دعا کیجیے ۔۔ڈاکٹر معاذ نے اس کے کاندھے پر رکھ کر تسلی دی تھی اور آگے بڑھ گیے تھے ۔۔
نہیں امی ایسا کیسے ہو سکتا ہے میرے آہل کو کچھ نہیں ہو سکتا کبھی نہیں ۔۔ مرش چینخیں لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھی فارس نے انہیں فون کر کے بتا دیا تھا جو کی بے حد ضروری تھا ۔۔ اتنی ہی دیر مرش سمیت پوری فیملی ہاسپٹل میں موجود تھی رو رو کر سب کا برا حال تھا لیکن جاوید صاحب بہت ہمت سے کام لے رہے تھے لیکن کویی ان کے دل سے پوچھتا ایک باپ کے اوپر اس وقت کیا گزر رہی تھی ۔۔مرش کی حالت بد بدتر ہوتی جا رہی تھی اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا ابھی ۔۔چند صرف چند لمحے پہلے آہل اس سے کیسے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا اور ابھی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا ۔۔۔
بیٹا حوصلہ رکھو بس دعا کرو کچھ نہیں ہوگا میرے بچے کو ۔۔ فایزہ بیگم اسے گلے سے لگا کر تسلی دے رہی تھی ان کی بھی حالت مرش سے کچھ کم نہیں تھی لیکن انہوں اپنے آنسوں پر ضبط کیا ہوا تھا ۔۔ آہل کو اس وقت آنسوں سے زیادہ دعاوں کی ضرورت تھی ۔۔ بریرہ کو ایک چپ سی لگ گیی تھی اس کا جان سے عزیز بھایی اس وقت موت کا سامنہ اکیلے کر رہا تھا ۔لب مسلسل ہل رہے تھے آہل شاہ آفندی کی زندگی کی دعا کی جا رہی تھی نہ جانے کس کی دعا رنگ لے آے ۔۔
امی میرے آہل کو کچھ نہیں ہوگا مجھے بتاے نہ امی ؟؟ روتے روتے مرش کی آواز مدہم ہو گیی تھی ۔۔ اپنے سامنے اسے سواے اندھیروں کو کچھ نہیں دکھایی دے رہا تھا ؟۔تو کیا اللہ نے چھین لیا تھا مرش سے اس کا آہل ۔۔کیا ان کا ساتھ بس اتنا سا ہی تھا ۔۔۔
مرش اللہ سے دعا کرو میری بچی دعا میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔۔ مریم بیگم مرش کو گلے لگا کر سمجھا رہی تھی اگر ان کے بس میں ہوتا تو آہل کی جگہ شاید وہ خود موت کے حوالے کر دیتی اور اپنے لخت جگر کو بچا لیتی ۔۔۔
یا اللہ میرے آہل کو مجھے واپس کر دے میرے مولا وہ میری زندگی میں سب سے اہم ہے اس کی سانسوں کو معطر کر دیں مالک وہ میرے لیے بہت قیمتی ہے وہ نہیں تو میں کچھ بھی نہیں ہوں وہ میری زندگی ہے میں اسے نہیں کھونا چاہتی ۔۔۔ مرش آنکھ بند کر کے جانماز پر بیٹھ کر سجدے میں گر سی گیی تھی وہ اپنے رب سے اس کی زندگی کی دعا مانگ رہی تھی اور نہ جانے کتنی دیر تک وہ سجدوں میں گر کر روتی رہی تھی ۔۔۔
میم یہ پیشینٹ کی دیگر چیزیں ہے ۔۔۔ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک کم عمر کی نرس ہاتھوں میں وایلیٹ ‘ واچ ۔۔اور بھی کچھ ضروری سامان تھے جس کو وہ فایزہ بیگم کے ہاتھوں میں تھما رہی تھی ۔۔
میرا بچہ اب کیسا ہے خدا کے لیے مجھے بتاے ۔۔ نرس کے ہاتھوں سے سامان پکڑ کر فایزہ بیگم بلک بلک کر پوچھ رہی تھی ۔۔۔
ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا ایم سوری ۔۔ نرس نے بے حد آہستہ سے کہا تھا اور الٹے قدموں واپس چلی گیی تھی ۔۔
اچانک آہل کے وایلیٹ سے ایک بےحد چھوٹے سے سایز کا فوٹو زمین پر آ گرا تھا لگتا ہے وہ جو کویی بھی تھا بہت قیمتی تھا آہل شاہ آفندی کی زندگی میں جبھی تو اسے یوں چھپا کر رکھا گیا تھا ۔۔
فایزہ بیگم نے جھک کر وہ فوٹو اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا تھا آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیی تھی اس فوٹو کا کیا مطلب تھا یہ آہل کی وایلیٹ میں کیا کر رہا تھا۔یہ تو ان کی بہن نورا ہاشم کا فوٹو تھا ۔۔۔
یہ فوٹو آہل کی ماں کا ہے نورا شاہ آفندی کا ۔۔۔ مریم بیگم نے ان کے ہاتھ سے فوٹو لے کر بے حد اداس لہجے میں بولی تھی آنکھیں آنسوں سے لبریز تھی کچھ بھی تھا آہل ان کی سگی اولاد سے بڑھ کر تھا ۔۔۔
یہ۔۔یہ تو میری بہن نورا ہے ۔ ۔فایزہ بیگم بےیقینی سی بولی تھی آج انہیں یاد آ رہا تھا وہ اکثر آہل کا چہرہ دیکھ کر کھو سی کیوں جاتی تھی یہ چہرہ اتنا جانا پہچانا سا کیوں سا لگتا تھا ۔۔
جی یہ آپ کی بہن ہے میں جانتی ہوں اور یہ آہل کی ماں ہے اس کی سگی ماں لیکن کینسر جیسی بیماری نے انہیں زیادہ مہلت نہیں دی تھی اور آہل کی زمیداری میرے سپرد کر گیی تھیں ۔۔ ہمیں اسی دن پتہ چل گیا تھا جس دن ہم آہل کے لیے مرش کا ہاتھ مانگنے گیے تھے لیکن یہ بات ہم آپ سے چھپا گیے تھے کیونکہ ہمیں ڈر تھا سچایی جاننے کے بعد آپ ہمیں مرش کا ہاتھ دینے سے انکار کر دیں گی ۔۔۔ مریم بیگم فایزہ بیگم کے قریب بیٹھ کر انہیں حقیقت سے آگاہ کر رہی تھی ۔۔ جس بہن کو انہوں نے گلی گلی ڈھنڈا تھا وہ ملی بھی تو ایسی قدرت نے اس طرح ان کا ملن کروایا تھا انہیں بے حد دکھ بھی ہوا تھا ان ک بہن اب اس دنیا میں نہیں تھی لکین ایک خوشی کا احساس بھی ہوا تھا۔۔ ان کی اپنی سگی بہن کا بیٹا آہل نہ صرف ان کا داماد تھا بلکہ ان کی بہن کا بیٹا تھا ۔۔
آنٹی آپ نے مجھے یہ سب پہلے کیوں نہیں بتایا تھا ۔۔۔ مرش ابھی ابھی جانماز لپیٹ کر روم سے باہر آیی تھی لیکن مریم بیگم کے الفاظ پر اس کے پیر اسی جگہ پر جم سے گیے تھے ۔۔
ہمیں ڈر تھا مرش پتہ نہیں تمہارا کیا ریکشن ہوگا ۔۔۔ مریم بیگم اس کے چہرے کو دیکھ کر نرمی سے بولی تھی ۔۔
آہل نہ صرف اس کا شوہر تھا بلکہ اس کی خالہ کا بیٹا بھی تھا ۔۔ یہ بات مرش کے اندر ایک خوشی لی لہر دوڑ گیی تھی لیکن فلحال اس کا شوہر اور خالہ کا بیٹا موت کے منھ میں تھا ۔۔۔
تقریبن چار گھنٹے کے بعد آپریشن روم کھلا تھا ۔۔ڈاکٹرز کو باہر آتا دیکھ کر مرش ان کی طرف دوڑ لگایی تھی ۔۔۔
ڈاکٹر پلیز بتاے آہل ٹھیک ہے یہ نہیں ؟؟ مرش کی آنکھوں سے آنسوں کی مسلادھار بارش ہو رہی تھی جسم میں شدید تکلیف محسوس ہو رہی تھی کیوں کی ملسل چار گھنٹے سے وہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھ کر روے جا رہی تھی حلق تک خشک ہو گیا ایک تنکا بھی اس کے اوپر حرام تھا اگر جو اس نے منھ میں ڈالا ہوتا اسے صرف آہل شاہ آفندی چاہیے تھا اس کے بغیر تو اس کے وجود کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا زمانے کی دھوپ اور چھاو سے اسی نے ہمیشہ اسے چھپا کر رکھا تھا اس کا مجازی خدا تھا اسے اس کے سنگ جینا تھا اس کا محافظ تھا اس کا رازداں تھا ایک بیوی کا شاید سب سے اچھا رازداں اس کا شوہر ہی ہوتا ہے ۔۔
اپنے آپ کو سمبھالیے میسیز آہل سب کچھ اللہ کے منصحر ہے میں اور آپ کچھ نہیں کر سکتے آپریشن تو ہو گیا ہے ان کی دونوں گولیاں باہر نکال لی گیی ہے لیکن اگر چوبیس گھنٹے میں انہیں ہوش نہیں آیا تو ایم سوری !!!! ڈاکٹر معاذ کو بے تحاشہ ترس آیا تھا مرش کی اس حالت پر لیکن وہ کیا کر سکتے تھے سواے دواوں کے زندگی اور موت تو کسی کے ہاتھ میں نہیں ہوتی اگر ایسا ہو جاے تو شاید دنیا کے کویی بھی انسان اپنے پیاروں کو مرنے نہیں دیتا ۔۔۔
اور اگر چوبیس گھنٹے میں ہوش نہیں تو ۔؟؟ تو کیا ؟؟ کیا میرا آہل مجھے چھوڑ کر چلا جاے گا ہاں ؟؟ ایسے کیسے نہیں ۔۔نہیں ۔۔ وہ ایسے کیسے جا سکتا ہے ۔۔ وہ نہیں جا سکتا ۔۔نہیں جا سکتا وہ ۔۔۔ مرش کی چینخ فضا میں گونج اٹھی تھی آنکھوں میں سونامی امڈ رہی تھی اس کے اوپر قیامت ٹوٹ پڑی تھی ۔۔ ڈاکٹر معاذ کا گریبان مرش کے ہاتھوں میں جکڑا ہوا تھا وہ جیسے ڈاکٹر معاذ کو زندہ مار دے گی ۔۔
مرش سمبھالو خود کو میری بچی چھوڑو اسے ۔۔ جاوید صاحب مرش کو بڑی مشکل سے پکڑے ہوے تھے ۔۔
ڈیڈ دیکھیں نہ یہ ڈاکٹر کہہ رہا ہے چوبیس گھنٹے میں اگر آہل کو ہوش نہیں آیا تو وہ ہمیں چھوڑ کر چلا جاے گا ۔ مرش غایب دماغی کے ساتھ جاوید صاحب کو دیکھ رہی تھی اگر اس وقت کویی مرش کو پاگل قرار دیتا تو کویی بعید نہیں تھی ۔۔
مرش میری بچی چھوڑو انہیں چلو ہم وہاں پر چل کر بیٹھتے ہے ۔۔ بلا آخر جاوید صاحب کامیاب ہو ہی گیے تھے مرش کسی روبوٹ کی طرح ان کے ساتھ چلنے لگی تھی ۔۔۔
ڈیڈ اس نے کہا صرف چوبیس گھنٹے ہے آہل کے پاس ۔۔ کیوں ؟ ڈیڈ اگر آہل کو ہوش نہیں آیا تو ۔۔ مارے خوف کے مرش کا پورا جسم لرز اٹھا تھا ۔۔
ایسے کیسے اسے ہوش نہیں آے گا اگر اسے ہوش نہیں آیا تو بہت ڈاٹ لگاوں گا میں اسے پھر دکیھنا کیسے ہوش میں نہیں آتا ۔۔ جاوید صاحب مرش کو اپنے ساتھ لگا کر کسی چھوٹے بچوں کی طرح پچکار رہے تھے ۔۔لیکن ان کی اپنی حالت ایسی تھی کویی دیکھ لیتا تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا یہی جاوید شاہ آفندی ہے ٹھاٹ بھاٹ سے رہنے والے ۔۔
رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی گھڑی کی سویی ایک رفتار سے چل رہی تھی چاہے کتنے بھی بڑے دکھ اور غم کیوں نہ کو لیکن ظالم وقت کبھی نہیں رکتا ۔۔
مرش آیی ۔۔سی ۔۔یو ۔۔ کے باہر کھڑی ہو کر اندر بے سدھ بے خبر سوے ہوے شخص کو دیکھ رہی تھی کیا اس کے اندر ذرا بھی رحم نہیں تھا کیسے تڑپا رہا تھا لوگوں کو اور اپنے کتنے مزے سے سویا ہوا تھا ۔۔ مرش اس کے مضبوط جسم لو دیکھ کر یک ٹک سوچے جا رہی تھی ٹپ ۔۔ٹپ آنسوں زمین پر اپنا راستہ بنا رہے تھے ۔۔ دل کر رہا تھا اندر جا کر اسے جھنجھوڑ کر جگا دے کیوں دے رہا ہے وہ اسے اتنی بڑی سزا ۔۔
آہستہ آہستہ گھڑی کی سویی آگے بڑھ رہی تھی ظالم وقت اپنا پورا ہونے کی اطلاع دے رہا تھا ۔۔ نرس ڈاکٹرز کا ایک جھنڈ اندر کی جانب دوڑا تھا ۔۔ باہر بیٹھے لوگوں کی سانسیں دھیری ہو رہی تھی خاموشی کا ایک عجیب راز تھا درو دیوار سے خوف ٹپک رہا تھا باہر ہوتی تیز بارش نہ جانے کس طوفان کا پتہ دے رہی تھی آہیں سسکیاں سب زمین میں دھسی چلی جا رہی تھی پلکیں بےحس ہو گیی تھی لب ایک دوسرے میں پیوست ہو گیے تھے ۔۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد ڈاکٹروں کا جھنڈ باہر آیا تھا ۔۔۔ مرش سمیت پوری فیملی خالی خالی نظروں سے سامنے کھڑے ڈاکٹرز کو دیکھ رہی تھی ۔۔
ان کے چند الفاظ نہ جانے طوفان لانے والے تھے یہ ہر سو خوشیاں بکھیرنے والے تھے ۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_37
Zariya_FD
Do_not_copy_without_
_
ڈاکٹر پلیز بتاے آ۔۔ آہل کو ہوش آیا یہ نہیں ؟؟ مرش نے بہ مشکل ٹوٹتی پھوٹتی زبان میں پوچھا تھا اسے اپنا دل گہرایی میں ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔
مبارک ہو آپ سب کو آپ لوگ کی دعایں رنگ لایی ہے مسٹر آہل کو ہوش آ گیا ہے ۔۔ ڈاکٹر معاذ نے مسکرا کر بتایا تھا انہیں بھی بہت خوشی محسوس ہو رہی تھی آخر ان کی کامیابی رنگ لایی تھی ۔۔
کیا ؟؟ یہ اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تو واقعی اپنے بندے کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا ۔۔ مریم بیگم کی آنکھیں مارے خوشی کی بھررا گیی تھی ۔۔
آہل ۔۔ میرا آہل زندہ ہے ۔امی آہل ہوش میں آ گیا ۔۔ امی اللہ نے میری سب لی ۔۔مرش فورن فایزہ بیگم کے گلے میں جھول گیی تھی مارے خوشی کے دل باغ باغ ہو گیا تھا ہک لخت مسکراہٹ نے اس کے لبوں پر اپنا گھیرا بنا لیا تھا وہ اللہ تعالی کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا ۔۔
جاوید صاحب کی آنکھیں مارے خوشی سے چمک اٹھی تھی ان کا شہزادہ جو واپس آ گیا تھا ۔۔۔
اللہ میاں آپ کا بہت زیادہ والا شکریہ آپ نے میرے بھایی کو ٹھیک کر دیا ۔۔ بریرہ بھی بھی بے پناہ خوش تھی اس کا جان سے عزیز زندگی اور موت کی جنگ لڑتے لڑتے آخر کو زندگی کو فتح کر لیا تھا ۔۔۔
اللہ اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا تو واقعی رحیم و کریم ہے ۔۔ سرفراز صاحب جاوید صاحب کے گلے لگ گیے تھے انہیں بھی نہایت خوشی محسوس ہو رہی تھی کیوں کی یہ بات ہی خوشی کی تھی ۔۔
آپ ان سے مل سکتی ہے لیکن پلیز اس بات کا خاص خیال رکھیے انہیں کسی قسم کی ٹینشن نہ ہو ۔۔ ڈاکٹر معاذ اپنے ڈاکٹر ہونے کے حوالے سے چند ضروری ہدایات دے رہے تھے ۔۔
فارس بھایی کو ہوش آ گیا ۔۔ بریرہ کوررنر کی سایڈ میں جا کر فارس کو اس خوشخبری کی اطلاع دے رہی تھی کیوں کی یہ فارس کی ایک ہزار مرتبہ کال تھی بریرہ کے فون پر ۔۔ اسے بے چینی تھی بے سکونی تھی دل پرملال تھا پتہ نہیں اس نے ہاسپٹل لے جانے میں کہیں دیر تو نہیں کر دی تھی ۔۔آہل کو ہاسپٹل پہنچانے کے بعد فارس سیدھا گھر آ کر کمرے میں بند ہو گیا تھا دراصل اس کی ساری ہمت ختم ہو گیی تھی کسی کا سامنہ کرنے کی ہمت نہیں بچی تھی ۔۔اگر آہل کو خدانخواستہ کچھ ہو جاتا تو اس کا اصل زمیدار فارس ہوتا اس نے اسے ہاسپٹل لے جانے میں دیر کر دی اس کی وجہ سے آج اس کا دوست ان کے درمیان نہیں ہے ۔۔ یہ محض فارس کی سوچ تھی۔۔
یہ اللہ میں تیرا جتنا بھی شکر کروں وہ کم ہے تونے مجھے میری زندگی مجھے واپس کر دی اگر آہل کو کچھ ہو جاتا تو میں خود سے نظریں ملانے کے بھی قابل نہیں رہتا ۔۔ فارس آنکھ بند کر کے دل ہی دل میں اللہ تعالی کا شکریہ ادا کر رہا تھا ۔۔۔
سر وہ تینوں آدمی ہاتھ لگ گیے شہر سے بھاگنے کی تیاری کر رہے تھے لیکن اس وقت وہ ہماری کسٹڈی میں ہے ۔۔ فارس کے گاڈز نے ان تینوں نقاب پوشوں کا پتہ لگا لیا تھا اور اب وہ اپنے باس کو خوش خبری سنا رہے تھے ۔۔
ویری گڈ میں بس آ رہا ہوں ۔۔ فارس مسکرا دیا تھا آخر کو وہ کامیاب ہو گیا تھا اس کے دوست کا مجرم اب زیادہ دیر تک اس دنیا میں آزاد نہیں گھوم سکتا تھا ۔۔ آہل کے ایکسیڈینٹ کے دوران فارس نے ان نقاب پوشوں کے گاڑی کا نمبر اپنے ذہن میں نقش کر لیا تھا جس کے تحت وہ مجرموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیے تھے ۔۔
کچھ دیر بعد فارس کی آنکھوں کے سامنے گھٹنے کے بل زمین پر بیٹھ کر سر جھکاے وہ اپنے جرم کا اعتراف کر رہے تھے ۔۔۔
ہماری کویی غلطی نہیں ہے ہمیں تو یہ کام کرنے کے لیے کہا گیا تھا جس کے لیے ہمیں رقم دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اور بس !! اس کے آگے ہم کچھ نہیں جانتے ۔۔ پہلے نقاب پوش نے اپنا جرم قبول کیا تھا ابھی بھی دنیا میں ایسے لوگ پاے جاتے ہیں جو صرف پیسے کی لالچ میں اپنا ضمیر تک بیچ دیتے ہیں ۔۔
کس نے کہا تھا یہ سب کرنے کے لیے ۔۔ میں نے پوچھا کس نے کہا تھا نام بتاو اس کا ۔۔ ان کے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ کر ان کا چہرہ اپنی طرف کر کے فارس بھپرے ہوے شیر کی طرح پوچھ رہا تھا اس نے خود سے وعدہ کر لیا تھا وہ اپنے دوست کا خون ظایا نہیں ہونے دے گا ۔۔
ع ۔۔ علی ۔۔علی شہروز نامی لڑکے نے ۔۔ تیسرا نقاب پوش نے ہکلاتے ہوے اپنے مالک کا نام بتایا تھا ۔۔
اوہ تو وہ کمینہ انسان ہے ۔۔ فارس منھ ہی منھ بڑبڑایا تھا ۔۔
ان تینوں کو اتنا مارو اتنا مارو کی ان کی سانسیں تو چلیں لیکن مرنے نہ پاے ۔۔ اپنے گاڈز کے چہرے کو دیکھ کر فارس نے کچکچا کر رہا تھا ۔۔
جو حکم سر !! گاڈز نے فورن ہاں میں گردن ہلایی تھی ۔۔
ہیلو علی شہروز کیا حال ہے ؟؟ فارس علی کے مقابل چییر پر بیٹھ مسکرا کر پوچھ رہا تھا جو کی اس وقت بڑے مزے سے موموز سے انصاف کرنے میں مگن تھا ۔۔
اوہ تو تم آے ہو میں جانتا تھا تم آو گے ظاہر ہے میرے جیل سے رہا ہونے کے بعد میرا دیدار تمہارے لیے فرض ہے ۔۔ علی کے مسلسل چلتے منھ کو یک لخت بریک لگا تھا فارس کو اپنے سامنے دیکھ کر لیکن دل میں خوشی کی لہر امڈ رہی تھی آخر میرے سامنے یہ لوگ گھٹنے ٹیک ہی دیے ۔ ۔
ہاں میں نے سوچا کیوں نہ تم سے مل لیا جاے دشمنوں کو بھی یاد رکھنا میرا پسندیدا مشغلہ ہے ۔۔ فارس ہاتھ بڑا ایک موموز اپنے منھ میں رکھ مسکرا کر بولا تھا لیکن دل کر رہا تھا سامنے بیٹھے شخص کا منھ نوچ لے ۔۔
ہا ہا ۔۔ مجھے بڑا افسوس ہوا تمہارے دوست کا میرے خیال سے تم سب کی سمجھ میں آ گیا ہوگا ۔۔ میں چیز کیا ہوں ۔۔ کالر جھاڑ کر علی اپنی تعریف کرنے میں مگن تھا ۔۔
ہاں یہ تو ہے تم واقعی بہت بڑی چیز ہو ۔ ۔۔ ہم تو ڈر گیے تم سے ۔۔ فارس نے اس کی آنکھوں میں آکھیں ڈال کر پرسکونی سے کہہ رہا تھا ۔۔
اسی لیے کہتے ہے انسان کو اپنی اوقات دیکھ کر پر پھیلانا چاہیے ۔۔لیکن تمہارے دوست نے اوقات دیکھے بنا ہی اپنے پر پھیلا دیے تھے ۔۔ علی کی آنکھوں میں فتح کی چمک تھی ہونٹوں پر ناچتی مسکراہٹ بیہودگی سے بھری تھی ۔۔۔
بات میں دم ہے تیری یہ سچ میں تو واقعی بہت بڑی چیز ہے لیکن مجھے یقین نہیں آ رہا تو ۔ تو جیل میں تھا پھر آہل کو گولی کیسے لگی مطلب تو جھوٹ بھی تو بول سکتا ہے کہیں تو کسی اور کا کریڈیٹ اپنے نام تو نہیں کر رہا ۔؟؟ فارس اپنی شکی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ دراصل وہ سچ کے بے حد قریب تھا ۔۔
میں تجھے اتنا کمزور دکھتا ہوں کیا میں نے کہا تھا نہ میں واپس آوں گا اور دیکھو میں آ بھی گیا اور اپنا کیا گیا وعدہ بھی پورا کر دکھایا ۔ابھی میں اتنا گرا پڑا نہیں ہوں کی دوسروں کا کریڈٹ اپنے نام کروں ایسے ایسے کام میں تو میں ماہر ہوں بھلے اس وقت میں جیل میں تھا لیکن میں جیل کے اندر بیٹھ کر اپنے کچھ آدمیوں سے تیرے دوست کو موت کے گھاٹ اتارا دیا جس کے لیے میں بے تحاشہ خوش ہوں ۔۔ ناسمجھی میں علی شہروز اپنی موت کو دعوت دے چکا تھا اس بات سے بے خبر کی اس کے ایک الفاظ الفاظ ریکارڈ ہو رہے تھے ۔۔
میں تو امپریس ہو گیا تمہاری کاگردگی سے ایم بیگیسٹ فین آف یو ۔۔ فارس مسکرا کر کھڑا ہو گیا تھا وہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہو گیا تھا ۔۔۔
صاحب جی باہر پولیس آیی ہے ۔۔ علی کے گھر کا ملازم پولیس کو باہر کھڑا دیکھ کر دوڑ کر اپنے صاحب کے پاس آیا تھا ۔گھبراہٹ سے اس کی آواز بے حد آہستہ تھی ۔۔
پولیس لیکن کیوں ؟؟ علی کو بے حد حیرت ہو رہی تھی اب پولیس کا کیا کام اس کا جرم تو کب کا معاف پو چکا تھا ۔۔
بیسٹ آف لک علی شہروز مان گیا تو دنیا کا سب سے بڑا بیوقوف انسان ہے ۔۔ فارس کا قہقہ بے ساختہ تھا ۔۔
علی کی سمجھ سے باہر تھا ہو کیا رہا ہے کیا وہ پکڑا گیا تھا ۔۔ بے یقینی سی نظروں سے وہ ایک بار فارس کو ایک بار اپنے سامنے کھڑی پولیس کو دیکھ رہا تھا جو اسے کے سامنے آ کھڑی ہویی تھی ۔۔
سر یہ رہا ثبوت مجرم کو سزا دینے کے لیے آپ لوگ کو ثبوت چاہیے نہ تو یہ رہا ثبوت !! فارس پولیس آفیسر کے سامنے ریکاڑڈنگ آن کر دیا تھا ۔۔۔
پھر کیا یہی پر ہوتا ہے علی شہروز کا قصہ تمام ۔۔ اب وہ پولیس کی گرفت میں تھا دس دس سال کی سزا کے لیے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جیل کا مہمان ہو کر رہ گیا تھا ۔۔
آخر فارس ہاشمی اپنے دوست کے قاتل کو سزا دلانے میں کامیاب ہو ہی گیا تھا ۔۔
آہل میرے بچے خدا کا شکر ہے تم ٹھیک ہو ۔۔ جاوید صاحب نے محبت سے برا بوسہ اس کی پیشانی پر ثبت کیا تھا ۔۔
آہل شاہ آفندی پھر سے زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا لیکن بے حد کمزور سا لگ رہا تھا آہستہ آہستہ اس نے اپنی آنکھیں کھولی تھی پٹیوں سے جکڑا جسم اسے کروٹ لینے میں تکلیف تک دے رہے تھے نہ جانے اسے کب تک اس ہاسپٹل کی زینت بن کر رہنا تھا ۔۔
ڈ ۔۔ڈیڈ ۔۔ ٹوٹی پھوٹی زبان میں وہ بہ مشکل اپنے ڈیڈ کو پکار رہا تھا ۔۔
ہاں میرے بچے آپ بلکل ٹھیک ہوں میں آپ کے پاس ہی ہوں میری جان ۔۔ جاوید صاحب آہستہ آہستہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہے تھے ۔۔آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر گرے تھے ۔۔۔
آہل میرے بچے آپ جلدی سے ٹھیک ہو جاو ہم آپ کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتے ۔۔۔ مریم بیگم اس کا تھام کر بلکتے ہوے کہہ رہی تھی اپنے آنسوں پر ضبط کرنا ان کے لیے بے حد مشکل تھا ۔۔
مام ۔۔ آہل کے ذہن میں پورن جھماکا سا ہوا تھا یہ نہیں تھا اسے کچھ یاد نہ ہو نہ ہی اس کا حافظہ اتنا کمزور تھا اسے تو سب یاد تھا وہ ساری باتیں جو جاوید صاحب نے اسے بتایی تھی وہ ساری حقیقت جس سے وہ باخبر تھا وہ تو اپنی ماں سے معافی مانگنے جا رہا تھا اپنی غلطیوں کی تلافی کرنے جا رہا تھا لیکن قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔۔
مام ایم سوری ۔۔ آہل کی آنکھیں بھررا سی گیی تھی اللہ تعالی نے اسے پھر سے زندگی عطا کی تھی تو وہ معافی مانگنے میں دیر کیوں کرتا اسے ڈر تھا کہیں اس کی سانسیں پھر سے نہ چھین لی جاے اور وہ ہمیشہ کے لیے گنہگار رہ جاتا ۔۔
سوری کس بات کی میرے بچے ۔۔ تم بس جلدی سے اچھے ہو جاو ۔۔ مریم بیگم کو اپنی سماتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا لیکن وہ آہل کا جھکا ہوا سر دیکھنے کی کب خواہش مند تھی ۔۔۔
مام آیی لو یو ۔۔ آہل شاہ آفندی کی خوبصورت مسکراہٹ لوٹ آیی تھی ۔۔
آیی لو یو ٹو میری جان ۔۔ مریم بیگم نے اپنے لب اس کے ہاتھوں پر رکھ دیا تھا ۔۔ آج ماں اور بیٹے کے درمیان سبھی غلطفہمیاں دور ہو گیی تھی آج ایک ماں اور بیٹا ایک ہو گیے تھے ۔۔۔
فایزہ بیگم کو بے تحاشہ خوشی ہو رہی تھی ان کا آہل واپس آ گیا تھا اور اب تو ان کا ایک نہیں بلکہ دو دو رشتہ تھا ۔۔
آہل میری جان بس اب اس بستر کو چھوڑ دو میں مزید تمہیں اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی ۔۔ فایزہ بیگم اس کے قریب آ کھڑی ہویی تھی اس کے چہرے کو بغور دیکھ رہی تھی ان کی نورا کا صاف عکس آہل کے چہرے سے جھلملا رہا تھا ۔۔
میں تو ٹھیک ہو جاوں گا آپ نے اپنی کیا حالت بنا لی ہے ۔۔ آہل مسکرا دیا تھا ۔۔
اگر تم ٹھیک نہیں ہوے تو میں نورا کو کیا جواب دوں گی تم مجھے شرمندہ کرنا چاپتے ہو اس کے سامنے ۔۔ فایزہ بیگم اس کے گھنے کالے بالوں میں ہاتھ پھیر کر شکوہ کر رہی تھی ۔۔
اچھا کیا مام آپ سے روز ملنے آتی ہیں کیا ۔۔ آہل شرارت سے مسکرا دیا تھا ۔۔
ہاں میرے خوابوں میں آ کر مجھ سے پوچھے گی تو میں کیا جواب دوں گی ۔۔ فایزہ بیگم نے اسی کے انداز میں اسے جواب دیا تھا ۔۔
تم میرے لیے بہت قیمتی ہو آہل میری نورا کے واحد نشانی ہو تم تمہیں کھونے کی ہمت میرے اندر نہیں ہے سچ بتاوں تو یہ سب جان کر مجھے اتنی خوشی محسوس ہویی ہے جتنی کی آج سے پہلے کبھی نہیں ہویی ۔۔
تادیر فایزہ بیگم اور آہل شاہ آفندی کے درمیان ایموشنل سین چلتا رہا تھا ۔۔
بھایی آپ اس جگہ پر بلکل نہیں جچ رہے بلکل اچھے نہیں لگ رہے !! بریرہ بھی اپنے بھایی کا ہاتھ تھام کر شکوہ کر رہی تھی آخر وہ کیوں دیر کرتی اس سے ملنے سے اس کا جان سے عزیز بھایی جو تھا ۔۔
میری گڑیا میرا بس چلے نہ تو ابھی یہاں سے بھاگ جاوں مجھے بھی ذرا اچھا نہیں لگ رہا ۔۔ آہل کی آنکھوں میں ٹھنڈک سی پڑ گیی تھی بریرہ کو دیکھ کر اتنے دن کی ناراضگی آخر کو ختم تو ہویی تھی ۔۔
اچھا ایک بات بتاو تمہاری بھابھی نہیں دکھایی دے رہی ۔۔ آہل سب سے مل چکا تھا سواے مرش کے اسے حیرت ہو رہی تھی اب تک مرش کیوں ملنے نہیں آیی ۔۔
وہ تو کل رات سے روے جا رہی ہے ایک منٹ میں اسے بھیجتی ہوں ۔۔ بریرہ مسکرا کر اٹھ گیی تھی اسے اپنے بھایی کے دل کی بےچینی کا تھوڑا تھوڑا سا اندازہ تو تھا ۔۔
آہل نے بس مسکرانے پر اکتفا کیا تھا دل میں شدید خواہش جاگی تھی مرش کا روتا ہوا چہرہ دیکھنے کی ۔۔
کچھ دیر بعد مرش نگاہیں زمین پر گاڑے کمرے میں داخل ہویی تھی سوجی سوجی سی آنکھیں بکھرا بکھرا سا حولییہ ایک عجیب دلکشی لیے ہوے تھا ۔۔
آہل لبوں پر بے حد خوبصورت مسکراہٹ رینگ گیی تھی اسے اندازہ تو تھا مرش کی حالت کا لیکن اتنا نہیں تھا جتنا اس وقت اسے دیکھ کر ہو رہا تھا ۔۔
مرش یکدم خاموشی سے چل کر اس کے پاس آ کر بیٹھ گیی تھی گلے میں جھولتا دوپٹہ کا کونا زمین کو پر جھول رہا تھا ۔۔
کیسے ہو ؟ مرش کی آنکھیں کو سے آنسوں پھر سے گر کر گال کو بھگونے لگے تھے ضبط کی کڑی ٹوٹ رہی تھی ۔۔
تمہارے سامنے ہوں دیکھ لو ۔۔ آہل کے لبوں پر بے حد خوبصورت مسکراہٹ مچل رہی تھی ۔۔
ت ۔ تم ۔۔ سارے الفاظ ٹوٹ گیے تھے زبان لڑخھڑا سی گیی تھی وہ اس بات کی پرواہ کیے بغیر کی اسے اس کے اس عمل سے تکلیف بھی ہو سکتی تھی فورن اس کے گلے لگ گیی تھی ۔۔
آہ ۔۔آہل کے منھ سے ہلکی سی چینخ برامد ہویی تھی ۔۔
کیا ہوا درد ہو رہا ہے ۔۔ مرش نے چہرہ اوپر کر کے پوچھا تھا ۔۔
ہاں ! آہل اپنی بے ساختہ ابھرنے والی مسکراہٹ کو ضبط کر گیا تھا ۔۔
اوہ سوری ۔۔ مرش شرمندہ سی ہو گیی تھی ۔۔
مرش فارس کہاں ہے ؟؟ کیا وہ نہیں آیا ۔۔ آہل نے بہت ہمت کر کے پوچھا تھا ۔۔
نہیں ۔۔ وہ نہیں آیا شاید اسے معلوم نہ ہو تمہیں ہوش آ گیا ۔۔ مرش نے سرسری سے انداز میں جواب دیا تھا ۔۔
میں نہیں مانتا اسے معلوم نہ ہوا ہوگا اور مجھے اچھی طرح سے یاد ہے میں نے اپنی آنکھ فارس کی ہی گود میں بند کی تھی میں نے آخری آواز اسی کی سنی تھی ۔۔ آہل بہت سنجیدگی سے بول رہا تھا ۔۔شاید فارس کو یہاں نہ پاکر اسے تکلیف ہویی تھی ۔۔
میں کچھ نہیں جانتی تم پہلے مجھے یہ بتاو تم کب تک یونہی سوے رہو گے میں یہاں زیادہ دن تک نہیں رہ سکتی جلدی سے ٹھیک ہو جاو پلیز میرے لیے ۔۔ مرش کی رندھی رندھی سی آواز کمرے میں کھنک رہی تھی ۔۔
کیوں تمہیں اچھا نہیں لگ رہا مجھے اس طرح دیکھ کر ۔۔ آہل کا ارادہ اسے تنگ کرنے کا تھا ۔۔
ہاں نہیں اچھا لگ رہا ۔۔ مرش کی آنکھوں سے مسلادھار بارش پھر سے شروع ہو گیی تھی ۔۔
کہیں محبت تو نہیں ہو گیی مجھ سے ؟ آہل کو اپنے چاروں طرف سکون قلب محسوس ہو رہا تھا مرش کو اپنے لیے یوں فکرمند دیکھ کر ۔۔کم از کم اس کی اتنی سی تو اہمیت تھی کی وہ اس کے لیے فکرمند تھی ۔۔
ہاں ہو گیی ہے محبت بے حد بے پناہ اور اب میں تم سے ایک سیکینڈ کے لیے دور نہیں رہ سکتی میری تکلیف کو دور کر دو میرے بے چین دل کو سکون قرار دو ۔۔آیی لو یو ۔ آیی لو یو سو مچ ۔۔ مرش اس کا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگا لی تھی محبت کی چاشنی پورے جسم میں گھل گیی تھی ۔۔۔
ایی لو یو ٹو جان آہل ۔۔ آہل اس کا دونوں ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگا لیا تھا ۔۔ بے چین دل کو صبرو سکون مل گیا تھا دو دلوں کی محبت اپنی آمدگی پر بے پناہ خوش تھی ۔۔۔
Sang_Jo_tu_hae
Episode_38
Zariya_FD
Do_not_copy_without_
بیس دن بعد !!
آہل آرام سے بیٹا ۔۔ جاوید صاحب اسے کاندھوں سے پکڑ کر سہارہ دینے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔
ڈیڈ پلیز آپ نے تو مجھے بلکل چھوٹا بچہ سمجھ لیا ہے ایم فاین ۔۔ آہل قدرے اکتا سا گیا تھا حد سے زیادہ سب کا کیر کرنا اسے پتہ نہیں کیوں اچھا نہیں لگ رہا تھا سب لوگوں نے تو اسے محض دو سال کا بچہ ہی بنا لیا تھا ۔۔ آج ہاسپٹل سے آہل ڈسجارج ہو کر گھر آیا تھا جہاں اس کے استقبال کے لیے شاندار انتظام کیا گیا تھا ۔۔
میرے بچے ابھی تم پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوے ہو اس لیے تمہارا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے ۔۔ مریم بیگم نے مسکرا کر بیچ میں لقمہ دیا تھا ۔۔
ایک بے حد شاندار قسم سے آہل شاہ آفندی کا استقبال کیا گیا تھا لوگوں کا ملنا ملانا کچھ دیر چلتا رہا ۔۔ ڈاکٹروں کی ہدایت کے تحت آہل کو زیادہ سے زیادہ بیڈ ریسٹ کرنا تھا جس کی اسے اس وقت شدید طلب ہو رہی تھی لوگوں کا جھنڈ دیکھ کر ۔۔
مام کیا اب مجھے اپنے روم میں جانے کی اجازت مل سکتی ہے دراصل تھوڑا تکلیف محسوس ہو رہی ہے پلیز ؟ آہل نے بے امید بھری نظروں سے مریم بیگم کو دیکھا تھا ۔۔تکلیف تو سراسر ایک گول مول سا بہانہ تھی مقصد تو صرف مرش سے تنہایی میں ملنے کی شدید خواہش بےچین کر رہی تھی ۔۔
ہاں ہاں کیوں نہیں ۔ مریم بیگم کو فورن اس کی تکلیف کا اندازہ ہوا تھا ۔۔
ایک ملازم کی مدد بلاآخر آہل اپنے روم میں آنے کے لیے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا ۔۔ملازم اسے بیڈ پر لیٹا کر الٹے قدموں واپس چلا گیا تھا ۔۔
تھوڑا سایڈ ہو میں تکیہ سہی کر دوں ۔۔ مرش اسے روم میں جاتا دیکھ کر فورن کمرے میں داخل ہویی تھی شاید آہل کے معاملے میں وہ حد سے زیادہ احساس ہو گیی تھی ۔۔
پہلے دروازہ بند کر دو ۔۔ آہل کھلے ہوے دروازے کی طرف اشارہ کر کے مسکرایا تھا ۔۔
وہ کس خوشی میں !! مرش کمر پر دونوں ہاتھ رکھ بے حد لڑاکو بیویوں والے انداز میں پوچھ رہی تھی ۔۔
وہ اس لیے تاکہ کویی ہمارے بیچ ڈسٹربینیس نہ پیدا کرے ۔۔ آہل کا جواب ذومعنی تھا ۔۔
پلیز یار اب گھورنا بند کرو قسم سے کویی غلط ارادہ نہیں ہے بس یونہی کہہ رہا ہوں ۔۔ مرش کی نظروں کو اپنے اوپر جماے دیکھ بے حد معصومیت سے بھرپور لہجے میں بولا گیا تھا ۔۔
اچھا کرتی ہوں ۔۔ مرش کو بے اختیار ہنسی آ گیی تھی اس طرح اسے صفایی دیتے ہوے ۔۔ لیکن پھر بھی بنا کویی سوال کیے اچھی بیویوں کی طرح شوہر کے حکم کو مان گیی تھی دروازہ بند کر کے اس نے مسکرا کر پلٹ کر اسے دیکھا تھا ۔۔
یہ کیا کر رہے ہو تم ؟ مرش چونک گیی تھی اسے دیکھ کر جو اس وقت بے حد مشقت کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنی شرٹ کے بٹن کھول رہا تھا ۔۔
شرٹ چینج کرنی ہے ۔۔۔ آہل سرسری سے انداز میں جواب دے کر پھر سے اپنے کام میں مغشول ہو گیا تھا ۔۔
میں کرتی ہوں نہ مجھ سے نہیں کہہ سکتے ؟ مرش کو غصہ آ رہا تھا ایک بار تو اسے کہنا چاہیے تھا وہ تو دوڑی چلی آتی ہے دل میں ایک سے بڑھ کر ایک خواہش جاگ رہی تھی کس طرح سے آہل کی خدمت کی جاے اتنے دنوں میں اس نے دن رات ایک کر دیا تھا آہل کا خیال رکھنے میں ۔۔۔
مجھے لگا شاید تمہیں اچھا نہ لگے ۔۔ آہل کی شرارت سے بھرپور مسکراہٹ ابھرنے کی جوڑ توڑ کوشش کر رہی تھی لیکن اسے ضبط کر گیا تھا کہیں وہ اپنے مقصد میں فیل ہی نہ ہو جاے ۔۔
سچ بتاوں تو اب مجھے صرف تمہارا ہی کام کرنا اچھا لگتا ہے اب زیادہ نکھرے نہ دکھاو ہاتھ ہٹاو میں اتارتی ہوں ۔۔ مرش اس کا ہاتھ تھام کر آہستہ سے ہٹا دی تھی کہیں اسے تکلیف نہ ہو اتنا خیال تو اس نے اپنا کبھی نہیں رکھا تھا جتنا آج اس شخص کا رکھ رہی تھی ۔۔
شرم و حیا کی وجہ پلکیں لرز رہی تھی کیی رنگ ایک ساتھ چہرے پر آے تھے لب کچلتے ہوے اسے مزید شرمندگی ہو رہی تھی جس طرح آہل اسے دیکھ رہا تھا اس کی نظروں کی تپش سے مرش کے چہرہ لال گلاب کی مانند دمک رہا تھا آج کتنے دنوں بعد یہ قربت حاصل ہویی تھی ۔۔ کتنے دنوں بعد آج وہ ایک دوسرے کے بے قریب ہوے تھے ۔۔
ایک منٹ بس !! مرش اسے بار بار ہدایت دے رہی تھی ایسے ہو اب ایسے ۔۔ اسی چکر میں نہ جانے وہ کب اس کے اتنے قریب ہو گیی تھی اس کی بالوں کی لٹ آہل کے گال سے بار بار مس ہو رہی تھی ۔۔
اللہ کر کے یہ مرحلہ طے ہوا تھا آخر کار وہ کامیاب ہو ہی گیی تھی ۔۔
میں دوسری شرٹ لے کر آتی ہوں ۔۔ مرش کے اندر اب اور برداشت کرنے کی ہمت نہیں تھی اس کی مسکراہٹ ہر سچے جزبے سے چمکتی آنکھیں کسرتی جسم پیشانی پر پر بکھرے بکھرے سے بال آہل شاہ آفندی کی اسمارٹنیس کو مزید دوبالا کر رہے تھے ۔۔
آج تمہیں یہ شرٹ پہننی ہے ۔۔ اس کی واڈروب سے ایک نیوی بلیو کلر کی شرٹ مرش اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کے پاس آیی تھی ۔۔
آہل پلیز اپنی آنکھیں بند کر لو ۔۔ایک فضول سی خواہش ظاہر کی گیی تھی ۔۔
کیوں ؟؟ آہل چونکتے ہوے پوچھا تھا ۔۔
کیوں تم مجھے جن نظروں سے دیکھتے ہو میں اس جنم میں کیا اگلے جنم ساتجنم میں بھی تمہیں شرٹ نہیں پہنا پاوں گی ۔۔ تھوڑی شرم تھوڑی جھجک کے ساتھ بلا آخر مرش بول ہی دی تھی ۔۔
عجیب ہے اب بندہ اپنی بیوی کو دیکھ نہیں سکتا رومینس تو دور کی بات ہے ۔۔ آہل شاید اس کی باتوں سے خفا ہو گیا تھا یہ بننے کی ایکٹینگ کر رہا تھا ۔۔
نہیں میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں میں تو !!
تم کچھ بھی کہو میں اپنی آنکھیں اس جنم میں کیا اگلے سات جنم میں نہیں بند کروں گا ۔۔ مرش کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے آہل درمیان میں بول پڑا تھا ۔۔
تم !! مرش اس سے پہلے کی کچھ بولتی اس نظر شرٹ کے اندر سے زمین پر گری چمکتی شے پر پڑی تھی ۔۔ اس نے تھوڑا جھک کر وہ چمکتی ہویی چیز اپنے ہاتھوں میں اٹھا لی تھی ۔۔
آہل یہ ۔۔ یہ بریسلیٹ ۔۔ اپنے ہاتھوں میں چمکتا ہوا بریسلیٹ دیکھ کر وہ کچھ جیسے یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔
ہاں یہ بریسلیٹ بہت خاص ہے میرے لیے دراصل یہ بریسلیٹ میری ایکس گرل فرینڈ کا ہے ۔۔ اس کے ہاتھ میں سے بریسلیٹ لے کر آہل نہایت سنجیدگی سے بریسلیٹ کو دیکھ غمگین سے لہجے میں بول رہا تھا جیسے ابھی ابھی محبوب سے جدایی ہویی ہو ۔۔
جلن کی ایک رگ مرش کے پورے جسم میں دوڑ گیی تھی منھ کا زاویہ بھی ہلکا پھلکا بگڑ گیا تھا ۔۔ لیکن وہ اس کے سامنے اپنی بےعزتی کسی قیمت پر نہیں ہونے دینے دے سکتی تھی ۔۔
لیکن یہ تو میرا ہے مجھے یاد ہے میرا بریسلیٹ کہیں کھو گیا تھا ۔۔ مرش کے ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا اسے یاد تھا جس دن وہ علی سے بچ کر بھاگی تھی اسی دن اس کا بریسلیٹ گم گیا تھا ۔۔۔
وآٹ ؟ تو تمہارے کہنے کا مطلب ہے تم میری ایکس ہو ۔۔ آہل کی آنکھیں شرارت سے مزید چمکنے لگی تھی نہ جانے اسے اتنی خوشی کیوں ملتی تھی مرش کو تنگ کر کے ۔۔۔
میں نے ایسا کب کہا میرا مطلب میرا بھی بریسلیٹ ایسا ہی تھا ۔۔ مرش نے کچھ الجھتے ہوے جواب دیا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ بریسلیٹ کا سوچے یہ اس کی ایکس کے بارے میں ۔۔
سویٹ ہارٹ چیزیں سیم بھی ہو سکتی ہے ضروری تو نہیں تمہاری جیسی چیزیں کسی کے پاس نہ ہو ۔۔ آہل مرش کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر بیٹھا کر اس کے جھکے ہوے سر کو اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر آہستہ سے اوپر اٹھایا تھا ۔۔۔
میرا کہنے کا مطلب تھا کہ ۔۔ بس یونہی ہوتا تھا وہ اس کے سامنے بے حد کمزور پڑ جاتی تھی بہت کچھ کہنے کی خواہش بھی تھی کچھ نہ کہہ پانے کی کسک بھی ۔۔
ویسے کویی بات نہیں یہ بریسلیٹ تو میں اپنی ایکس گرل فرینڈ کو نہیں دے سکا لیکن اب بیوی کو تو دے سکتا ہوں ۔۔ آہل اب اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کر کے اس کی کلایی میں بریسلیٹ پہنا دیا تھا ۔۔
اچھا ہے نہ ۔۔ نہ جانے آہل نے کس تحت پوچھا ۔۔
بہت ۔۔ مرش مسکرا دی تھی اسے بے پناہ خوشی اس بات کی ہو رہی تھی کم از کم آہل نے اپنی ایکس گرل فرینڈ کی یاد میں یہ بریسلیٹ سمبھال کر تو نہیں رکھا اور اسے پہنا دیا ۔۔
میری جان اب شرٹ پہنا بھی دو ۔۔ آہل اپنی مسکراتی آنکھوں کے اشارے سے شرٹ پہنانے کو کہہ رہا تھا ۔۔
اچھا پہناتی ہوں ۔۔ مرش تھوڑا اور اس کے قریب ہو کر بیٹھ گیی تھی ۔۔
آہل یکدم اچھے بچوں کی شرٹ پہن لیا تھا ۔۔
اچھا لگ رہا ہوں نہ ۔۔ مرش کو اپنی جانب متوجہ پا کر آہل نے اپنی تعریف میں دو چار قصیدے سننا اپنا حق سمجھ رہا تھا ۔۔
بے حد بے تحاشہ “” اتنے اچھے لگ رہے ہو کی دل کر رہا ہے ؟؟؟ ۔۔ آج مرش نے پہلی بار دل کھول اس کی تعریف کی تھی لیکن تعریف تھوڑی مہنگی پڑ گیی تھی ۔۔
کیا دل کر رہا ہے بولو رک کیوں گیی ؟؟ اسے خاموش دیکھ کر آہل کو بے چینی سی ہونے لگی تھی ۔۔
۔ ن نہیں کچھ بھی دل نہیں کر رہا ۔۔ مرش تھوڑا پیچھے کی اور سرکی تھی ۔۔
میں بتاوں میرا کیا دل کر رہا ہے ؟؟ آہل اس کی کم میں ایک ہاتھ ڈال کر جھٹکا دیا تھا جس سے مزید اس کے قریب آ گیی تھی ۔۔
کیا ؟؟ اس کی جھیل سی آنکھوں میں دیکھ کر یک لخت مرش کی زبان پھسلی تھی ۔۔
یہ ۔۔ اپنے ہونٹوں کو اس کے ہونٹوں پر رکھ آہل شاہ آفندی نے محبت بھری مہر لگا دی تھی ۔۔
آہل جانے دو ۔۔ مرش اس کی باہوں میں کسمسا کر آزادی کی بھیک مانگ رہی تھی ۔۔
ٹھیک ہے سویٹ ہارٹ اس وقت جانے دیتا ہوں لیکن پھر اس کے بعد کبھی نہیں مجھے روکو گی ۔۔ آہل کو شاید ترس آ گیا تھا اس پر اس لیے اپنی قید سے آزاد کر دیا تھا ۔۔
پرامس کبھی نہیں روکوں گی ۔۔ مرش نے سکون کا سانس لیا تھا ۔۔
کچھ دیر بعد جب وہ شاور لے کر باہر نکلی تو ۔ دروازے پر دستک ہویی تھی ۔۔
آ جاو ۔۔ مرش نے اجازت دی تھی ۔۔
بی بی جی کھانا لگ گیا ہے صاحب جی بلا رہے ہے آپ دونوں کو ۔۔ ملازمہ دروازے پر کھڑی جاوید صاحب کا پیغام پہنچانے آیی تھی ۔۔
ٹھیک ہے تم جاو ہم آتے ہے ۔۔ مرش نے اسے جانے کی اجازت دے دی تھی ۔۔
آہل تم روم میں ہی رہنا میں یہی پر کھانا لے کر آتی ہوں ۔۔ مرش تولیے سے بالوں کو ہلکا ہلکا رگڑ کر اسے نیچے نہ آنے کی ہدایت دے رہی تھی ۔۔
بلکل نہیں ۔ ۔۔ میں جا رہا ہوں اویں ہی کمرے میں بیٹھ کر کھانا کھاو فالتو کی بات ۔۔ آہل بغیر اس کی پرواہ کیے کمرے سے نکل گیا تھا ۔۔
پیچھے مرش منھ کھولے حیرت سے اسے دیکھتے رہ گیی تھی ۔ ۔۔۔
نہایت خاموشی سے سب کھانے میں مصروف تھے ۔جاوید نے آہل کی اچھی خاصی کلاس لی تھی ان کا ماننا تھا آہل کو ضرورت سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔۔ لیکن یہ لڑکا سننا ہی کس کی گوارہ کرتا تھا ۔۔
کھانے کے ہی دوران جاوید صاحب کے موبایل کی رنگ ہویی تھی ۔۔ کھانے سے ہاتھ روک کر انہوں کال پک کی تھی شاید کویی ضروری کال تھی ۔۔
ہیلو ؟ جاوید صاحب نے ایک سب پر ڈال کر سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔
سلام دعا کے بعد جس ٹاپک پر بات ہو رہی تھی سب لوگ بڑے دھیان سے سن رہے تھے ۔۔
سر آپ کے کہنے سے پہلے ہی مجرم کو سزا مل چکی ہے ۔۔
کیا کیسے کس نے دلوایی ہے اسے سزا ؟ جاوید صاحب کو حیرت ہو رہی تھی آہل جب ہاسپٹل میں تبھی انہوں نے اپنے آدمیوں کو مجرموں کو ڈھونڈ نکالنے کا کام سونپا تھا لیکن یہ بات ابھی ان کے علم میں آیی تھی مجرم کو سزا کب کی مل چکی ہے ۔۔
جی فارس ہاشمی نامی شخص نے مجرموں کو سزا دلوایی ہے ۔ دوسری طرف سے مزید انفارمیشین میں اضافہ کیا گیا تھا ۔۔
فارس نے ؟؟ جاوید صاحب نے فارس کا نام دہرایا تھا جس کو آہل کے کانوں نے بخوبی سنا تھا ۔۔
نام کیا مجرم کا ؟؟ جاوید صاحب نے اپنی روبیلی آواز میں پوچھا تھا ۔۔
علی شہروز اس نے ہی آپ کے بیٹے پر حملہ کروایا تھا ۔۔ دوسری طرف سے یکدم سہی انفارمیشن دی گیی تھی ۔۔
اچھا ٹھیک ہے میں بعد میں بات کرتا ہوں آپ سے !! جاوید صاحب فون رکھ دیے تھے انہیں تو حیرت اس بات پر ہو رہی تھی یہ سب علی شہروز کروا سکتا ہے ۔۔
آہل کیا دشمنی تھی تمہاری اس سے ؟؟ جاوید صاحب آہل کی طرف دیکھ بے حد سنجیدگی سے پوچھ رہے تھے ۔۔
ڈیڈ صرف بزنیس کو لے کر جھگڑا تھا اینڈ میری اس سے کبھی بنی ہی نہیں ۔۔ آہل پوری سچایی کے ساتھ جاوید صاحب کو بتا دیا تھا آخر ان سب کے پیچھے ریزن کیا تھا ۔۔۔
اچھا خیر چھوڑو اس سے میں بعد میں نبٹ لوں گا ۔۔ مجھے تم سے ایک بڑی ضروری بات کرنی ہے ۔۔ جاوید صاحب علی کے معاملے کو رفع دفع کر کر کسی دوسری بات کی متعلق کچھ بات کرنا چاہتے تھے ۔۔۔
جی کہے ۔۔ آہل ان کی بات پوری توجہ کے ساتھ سن رہا تھا ۔۔
تم میرے دوست ندیم کو تو جانتے ہو نہ ۔۔؟؟ جاوید صاحب نے اپنے کسی دوست کا نام لے کر اس کی طرف دیکھا تھا ۔۔
یس جانتا ہوں !! آہل اچھی طرح سے ندیم احمد کو جانتا تھا ان کی کیی ڈیلینگ بھی ساتھ رہی تھی دراصل ندیم احمد سے آہل کی کبھی کبھار ہی ملاقات ہو پاتی تھی ۔۔۔
ان کا ایک بیٹا ہے فہد ابھی جلدی ہی لنڈن سے واپس آیا ہے پڑھایی مکمل کر کے اپنا بزنیس بھی ہے دراصل ندیم نے مجھ سے فہد کے لیے ہماری بریرہ کا ہاتھ مانگا ہے میں اتنی جلدبازی میں کویی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا تمہیں جیسا مناسب لگے مجھے بتاو ۔۔ جاوید نے شاید آہل سے یوں پوچھ رہے تھے جیسے اس کی مرضی سب سے زیادہ اہم ہے ۔۔ یہ شاید واقعی اہم ہے ۔۔
بریرہ کے جسم میں ایک کراہ سی اٹھ رہی تھی دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا لب ایک دوسرے میں پیوست ہو گیے تھے حلق مزید خشک ہو گیا تھا جیسے پانی کبھی نصیب ہی نہ ہوا ہو ۔۔
ہاں اچھا لڑکا ہے مجھے تو کافی پسند ہے ۔۔ آہل ایک لقمہ بنا کر منھ میں رکھ جاوید صاحب کی بات سے اکتفا کیا تھا ۔۔
مرش کو اس وقت بے حد غصہ آ رہا تھا اسے اچھے سے اندازہ تھا بریرہ کی حالت کا لیکن وہ بےچاری کیا کر سکتی تھی سواے آہل کو کھا جانے والی نظروں سے گھورنے کے علاوہ ۔۔
ڈیڈ ہم بعد میں اس ٹاپک پر بات کرتے ہے ۔۔ آہل کو جیسے ترس آ گیا تھا بریرہ کی حالت پر یہ شاید کچھ اور ۔۔
ٹھیک ہے تم ابھی کچھ دیر میں میرے کمرے میں آ جانا کیوں کی مجھے انہیں جواب بھی دینا ہے ۔۔ جاوید صاحب نے بے حد صاف گویی سے معاملے نوییت آہل کو سمجھا پھر سے کھانے میں مصروف ہو گیے تھے ۔۔
کھانے سے فارغ ہو کر آہل جاوید صاحب سے بات کر کے آیا تھا لیکن معاملہ حد سے زیادہ سنگین تھا اس لیے وہ دونوں کمرے میں اس وقت بے حد اہم ٹاپک پر بحث کرنے میں مصروف تھے ۔۔
آہل تم اتنے ظالم کیسے ہو سکتے ہو ۔۔ مرش کو بے تحاشہ غصہ آ رہا تھا ۔۔
جو بھی ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے ۔۔ آہل موبایل پر ای میل چیک کرنے میں اتنا مگن تھا کی اسے مرش کی کسی بات سے کویی فرق نہیں پڑتا تھا ۔۔
تم ۔۔ تم جانتے ہو بریرہ فارس ایک دوسرے کو پسند کرتے ہے لیکن نہیں تم کیوں جانو گے تمہیں تو کویی فرق ہی نہیں پڑتا ہے ۔۔۔ مرش اپنی بولے جا رہی تھی اس کے برعکس آہل بے حد آرام سے بیٹھ کر فون دیکھنے میں مگن تھا ۔۔
مرش پلیز میں کویی بحث نہیں کرنا چاہتا اور مجھے جو سہی لگا میں نے وہ کیا ۔۔۔ آہل فون میز پر رکھ کر اس کی طرف دیکھ قدرے اکتاے ہوے لہجے میں بولا تھا ۔۔۔
آہل تم غلط کر رہے ہو ! بہت غلط یہ تو سراسر بریرہ کے ساتھ زیادتی ہے ۔۔ مرش کو ہرگز توقع نہیں تھی آہل سے اس طرح کی ۔۔
مرش کیا سہی ہے کیا غلط میرے خیال سے یہ بات میں تم سے بہتر جانتا ہوں اینڈ جب ڈیڈ کو اس رشتے پر کویی اعتراض نہیں تو پھر مجھے کیوں ہو ۔۔ آہل کا جواب سن کر مرش کو یقین نہیں آ رہا تھا آج ایک بار سے وہ اسے وہی ظالم آہل شاہ آفندی لگ رہا تھا ۔۔۔
اوہ میں تو بھول گیی تھی تم وہی آہل شاہ آفندی ہو مجھے گمان ہونے لگا تھا تم بدل رہے ہو بدل گیے ہو لیکن آج مجھے پتہ چلا میں غلط تھی۔ ۔ ۔۔ مرش کو آہل اتنی سنگدلی ذرا برابر نہیں جچ رہی تھی ۔۔
اچھا یار یہ سب چھوڑو فضول کی بحث ہے میرے سر میں درد ہو رہا ہے ذرا مساج کر دو پلیز ۔۔ آہل مسکرا دیا تھا اس بات کی پرواہ کیے بغیر اس کے دل پر اس وقت کیا گزر رہی تھی ۔۔
میں کچھ نہیں کروں گی جو کرنا ہے خود کر لو ۔۔ مرش بیڈ پر جا کر سیدھے لیٹ گیی تھی یہ شاید ناراضگی اظہار کرنے کا یہ سب سے بہترین طریقہ تھا ۔۔
مرش ۔؟؟ آہل کو یقین تھا یہ صرف سونے کا ڈرامہ کیا جا رہا ہے اس لیے بڑے پیار کے ساتھ اس کا نام پکار رہا تھا ۔۔
مرش ؟ آہل نے ہھر سے آواز لگایی تھی لیکن اس بار مرش کا رد عمل کچھ مختلف تھا کروٹ لے کر سر سے پاوں تک کمبل تان لی تھی ۔۔۔
ناراض ہو ؟؟ آہل اٹھ کر بیڈ پر اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا تھا ۔۔
تمہیں کیا فرق پڑتا ہے ۔۔ جواب دیے بغیر مرش کو رہ نہیں گیا تھا لیکن انداز حد سے زیادہ خفا خفا سا تھا ۔۔
اچھا میری جان سوری ۔۔ آہل تھوڑا اس کے اوپر جھکا تھا ۔۔
مجھے نہیں کرنی تم سے بات ۔۔ مرش دوسری طرف کروٹ بدل گیی تھی مطلب صاف تھا وہ نہیں مانی ہے اور نہ ہی منانے کا کویی چانس ہے !!
Sang_Jo_tu_hae
39_Second_last_Episode
Zariya_FD
Do_not_copy_without_
دس دن بعد !!
مرش پلیز تم بھایی سے بات کرو وہ ایسا کیسے کر سکتے ہے میرے ساتھ پلیز مرش ہیلپ می پلیز !! جب سے بریرہ کو پتہ چلا تھا جاوید صاحب اور آہل نے مل کر اس کا رشتہ پککا کر دیا ہے تب سے کمرے میں بیٹھ مرش کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔۔
بریرہ میں نے آخری کوشش کر کے دیکھ لی ہے لیکن کویی فایدہ نہیں ہے آہل تو یکدم میری طرف سے کان بند کر لیا ہے بولو میں کیا کروں !! مرش اس کے بالوں میں آہستہ آہستہ ہاتھ پھیر رہی تھی اور ساتھ میں خود بھی روے جا رہی تھی اسے اندازہ تھا بریرہ کے دل پر اس وقت کیا گزر رہی تھی ۔۔
میں یہ شادی نہیں کروں گی بھایی اور بابا نے مجھ سے پوچھنا تک گوارہ نہیں کیا میری مرضی کے بغیر انہوں نے ہاں کہہ دیا کم از کم بھایی کو مجھے وقت دینا چاہیے تھا میں ذہنی طور پر تیار تو ہو جاتی اتنی جلدی تھی انہیں پانچ دن کے اندر اندر میرا رشتہ پککا کر دیا اور کل میری شادی ہے ۔۔ ایک ایسی شادی جس سے میں خوش ہی نہیں ہوں ۔۔ رونے کی وجہ سے بریرہ کی آنکھیں مزید لال اور سوج گیی تھی بات تو اس کی بھی سہی تھی لیکن کویی سمجھتا تب نہ چار دن سے گھر میں شادی کا ماحول بنا ہوا تھا ۔۔ سب خوش تھے اس گھر کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی کی شادی ہونے جا رہی تھی اس بات کی پرواہ کیے بغیر کی وہ اکلوتی اور لاڈلی بیٹی خوش ہے بھی یہ نہیں ۔۔
بریرہ چپ کر جاو میری جان اب کچھ نہیں ہو سکتا بس اتنا سمجھ لو قسمت کے آگے کسی کا زور نہیں چلتا ۔۔ مرش اس وقت اتنی بے بس دکھایی دے رہی تھی کی جیسے شطرنج میں ہارا ہوا کھلاڑی لیکن وہ بے چاری کیا کر سکتی ہر ممکن کوشش کر کے دیکھ چکی تھی ایک ہی ٹاپک پر بحث کر کر کے ان دونوں میں چار دن سے بول چال بند تھی ۔۔ آہل تو کبھی کبھار اسے مخاطب کر لیتا تھا لیکن وہ نہ بولنے کی قسم کھا کر بیٹھی تھی ۔۔
مرش تم باہر جاو مجھے بریرہ سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔ آہل نہ جانے کب وہاں پر آ دھمکا تھا اور مرش کو اس طرح کمرے سے جانے کا حکم دے رہا تھا جیسے وہ کویی بہت غیر ہو ۔۔
اوکے !! اتنی بے عزتی پر مرش کا وہاں رکنا مزید بےعزتی سے کم نہیں تھا ۔۔
مرش فورن کمرے سے باہر نکل گیی تھی اسے شوق بھی نہیں تھا بھایی بہن کی باتیں سننے کا ۔۔
میری گڑیا ناراض ہے مجھ سے ۔۔ بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھ کر آہل محبت بھرے لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔۔
بھایی آپ ایسا کیسے کر سکتے ہے ؟ بریرہ بس اتنا ہی بول پایی تھی اور رونا پھر شروع ہو گیی تھی ۔۔
بریرہ تم میری بہن ہو کیا تمہیں اپنے بھایی پر بھروسہ نہیں ہے میں جانتا ہوں ہم نے تمہاری مرضی نہیں پوچھی گڑیا جس پر ہمیں مان ہوتا وہ ہمارا کیا گیا فیصلہ کبھی رد نہیں کریں پھر ان کی مرضی کویی معنی نہیں رکھتی اور مجھے بھی تم بہت مان ہے کیوں کی میں جانتا ہوں تم میرا فیصلہ کبھی نہیں رد کرو گی ۔۔ کیا مان تھا کیا غرور تھا آہل شاہ آفندی کی آنکھوں میں اتنا یقین اتنا بھروسہ صرف ایک بار “ایک بار اگر اس کی بہن اس شادی سے انکار کر دیتی تو کیا رہ جاتا سارا غرور مٹی میں مل جاتا ۔۔
بھایی میں کبھی آپ کے فیصلے پر انکار نہیں کرتی لیکن ۔۔ !!
بریرہ مجھ سے وعدہ کرو اپنے بھایی کا یہ مان کبھی نہیں توڑو گی سب کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے فیصلہ تمہارے اوپر ہے ۔۔ آہل کی آنکھوں میں بہن کی لیے محبت ہی محبت تھی پھر سب کچھ جانتے ہوے اتنا بے حس کیسے بن گیا تھا ۔۔۔
بریرہ ہار گیی تھی اپنے بھایی کی محبت کے آگے یقین کے آگے مان کے آگے ۔۔ بے بس وہ ہو گیی تھی وہ اس نے تو کبھی اپنے بھایی کو شرمندہ نہیں کیا تھا آخر کار بریرہ شاہ آفندی ہار چکی تھی اپنے بھایی کے سامنے اور ہاں میں سر ہلا دی تھی ۔۔ قسمت کا لکھا سمجھ کر ۔۔!
آیی لو یو ۔۔ آہل اسے اپنے سینے سے لگا لیا تھا وہ اس کی اکلوتی بہن تھی جو صرف آج رات کی مہمان تھی کل کو پیا دیس سدھارنا تھا اپنے آنگن کو سونا سونا چھوڑ کر ۔۔
آہل اور جاوید صاحب نے مل کر بریرہ کا رشتہ فکس کر دیا تھا آہل کی ہی بےقراری کی وجہ سے پانچ دن کے اندر اندر شادی کی ڈیٹ بھی فکس کر دی گیی تھی ۔۔ اور پورے گھر میں شادی کا سماں تھا تیاریاں زورشور سے چل رہی تھی لیکن مرش دل پر پتھر رکھ کر ایک ایک کام میں دلچسپی لے رہی تھی اس رات کے بعد آہل اور مرش کے درمیان کویی بات نہیں ہویی تھی اگر ہوتی بھی تو سواے بحث کے ۔۔۔
آنٹی تو آپ آیں گی نہ ۔۔ آج اتنے دنوں کے بعد آہل شاہ آفندی خود اپنے پیروں سے چل کر فارس ہاشمی کے گھر آیا تھا اپنے دوست کے گھر ۔۔
ہاں ۔۔ ہاں کیوں نہیں میں تو ضرور آوں گی ۔۔ فریحہ بیگم کی چہرہ مارے خوشی کے دمک رہا تھا مسکراہٹ ان کے لبوں ہر جم سی گیی تھی نہ جانے آہل نے ان سے کیا باتیں کی تھیں کی وہ اتنی خوش ہو گیی تھی کی جتنی آج سے پہلے کبھی نہیں ہویی تھیں۔۔
ماں میں آپ کی دوا لے آیا یہ لیں ۔۔ فارس ہاتھ میں دوا کا پیک لیے فریحہ بیگم کے کمرے میں داخل ہوا تھا لیکن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیی تھی سامنے بیٹھے ہنستا مسکراتا آہل کا چہرہ دیکھ کر ۔۔
بہت شکریہ بیٹا ۔۔ فریحہ بیگم اس کے ہاتھوں سے دوا کا پیک لے لی تھیں ۔۔
فارس دیکھو آہل آیا ہے تم سے ملنے ۔۔ فریحہ بیگم خوشی خوشی بتا رہی تھی ۔۔
ایک لمحے کو دونوں کی نظریں ملی تھیں کویی بتا ہی نہیں سکتا تھا کسی وقت میں یہ ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست رہ چکے تھے اس وقت انجان بے انجان سے لگ رہے تھے دونوں جیسے آج پہلی بار ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔۔
کیا حال ہے ؟ فارس کے اندر کم از کم تھوڑا بہت احساس تو تھا اور گھر آے مہمان کے ساتھ وہ کسی قسم کی بدسلوکی نہیں کر سکتا تھا خیر یہ کویی مہمان نہیں اس کا دوست تھا ۔۔
اچھا ہوں میں صبح سے تیرے فون پر کال کر رہا تھا تو پک نہیں کر رہا تھا اس لیے سوچا خود تم سے ملنے آ جاوں ۔۔ اس برعکس آہل مسکرا کر بتا رہا تھا یہ مسکراہٹ تو یکدم سچی تھی بلکل شفاف یہ تو وہی ہنسی تھی جب کبھی یہ دونوں کسی بات پر ہنسا کرتے تھے مسکراتے تھے ۔۔
اوہ میں اپنا روم میں ہی بھول گیا تھا ماں کی دوا لانا تھا تو چلا گیا تھا ۔۔ فارس نے جیب ٹٹولتے ہوے سنجیدگی سے اسے بتایا تھا اور سچ میں وہ اپنا فون گھر پر ہی بھول گیا تھا ۔۔
چل کویی بات نہیں میں تجھے ایک خوشخبری سنانے آیا ہوں ۔کل بریرہ کی شادی ہے ایم سوری شاید میں نے تھوڑا لیٹ کر دیا ہے انوایٹ کرنے میں لیکن کویی بات اس لیے ایم سوری ۔۔ ایکچولی میں تجھے اور آنٹی کو انوایٹ کرنے آیا تھا میری اکلوتی بہن کی شادی ہے اور میری دلی خواہش ہے آپ لوگ شرکت کرے ۔۔ تو ‘ تو ضرور آنا کیوں سارے انتظامات تجھے ہی دیکھنے ہے ابھی میں اتنا بہتر نہیں ہوا ہوں کی کچھ کر سکوں ۔۔ تو آے گا نہ ؟؟ ۔۔ کتنا بے حس تھا آہل شاہ آفندی بلکل پھتر کی مانند کسی کی پرواہ ہی نہیں تھی کچھ فرق ہی نہیں پڑتا تھا کون کیا سوچ رہا ہے کیا گزر رہی ہے اس کے اوپر ۔۔
فارس کے گویا قدموں تلے زمین کھسک گیی تھی آنکھیں پتھترا سی گیی تھی اندر دل چینخ رہا تھا جواب مانگ رہا تھا یہ سب اس کے ساتھ کیوں ہو رہا ہے ۔۔
کتنا خود غرض ہے تو آہل میں نے کبھی سوچا تک نہیں تھا تو اتنا سنگ دل ہے میں نے تیرح لیے کیا کچھ نہیں کیا اور تو ۔۔ تو کیسے مجھے میری بربادی کی دعوت دینے آ گیا کیسے ؟؟؟ فارس کے اندر ایک آگ سی بھڑکی تھی اسے آج زندگی میں پہلی بار آہل سے چڑھ محسوس ہو رہی تھی ۔۔
تو کچھ بول کیوں نہیں رہا ؟؟ فارس کو خاموش دیکھ کر آہل نے جانچتی ہویی نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔
آ ۔۔ ہاں کیوں نہیں میں ضرور آوں گا ماں کو ساتھ لے کر میرا تو فرض بنتا ہے بریرہ کی شادی میں آنا تیرا تیرا دوست ہونے کے ناطے ۔۔ فارس دل پر جببر کر کے بولا تھا اس نے خود سے عہد کر لیا تھا وہ جاے گا اس شادی میں جس میں آہل شاہ آفندی نے خود انوایٹ کیا تھا ۔۔ “” میں آوں گا آہل شاہ آفندی میں دیکھنا چاہتا ہوں آخر اس لڑکے کے اندر ایسا کیا ہے جو میرے اندر نہیں ہے ۔۔ فارس اتنی ہی دیر میں نہ جانے کتنے عہد خود سے کر بیٹھا تھا ۔۔
اچھا آنٹی میں چلتا ہوں انتظار رہے گا مجھے آپ لوگ کا ۔۔ ایک آخری الوداعی نظر آہل شاہ آفندی فارس پر ڈال کر باہر نکل گیا تھا ۔۔
کتنا پیارا بچہ ہے بھیی میں تو شادی میں ضرور جاوں گی اور تم بھی اچھے سے تیاری کر لو ۔۔ فریحہ بیگم جوش سے بول رہی تھی بیٹے کے چہرے کے تاثرات دیکھے بغیر ۔۔ تو کیا اب فارس ہاشمی کی زندگی میں بریرہ نامی کتاب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دی گیی تھی تو کیا قسمت کو یہی منظور تھا ۔۔
ایک چھوٹے بچوں کی طرح فارس اپنے کمرے میں بند پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا اس نے تو صرف بریرہ سے محبت کی تھی ۔۔ اور وہ بھی اسے حاصل نہیں ہویی تھی کل وہ کیسے دیکھ پاے گا اپنی بریرہ کو کسی اور کا ہوتے ہوے دیکھ ۔۔ کہاں سے لاے گا وہ اپنے اندر اتنی ہمت ۔۔
آج ظالم وقت اور دن کی آمد ہو چکی تھی آج کے دن بریرہ شاہ آفندی نہ جانے کیا بننے والی تھی ” شاہ آفندی سے ہٹ کر “
مرش فنگر کی ڈریسینگ چینج کر دو پلیز !! آہل کی آواز میں درد تھا محبت تھی اپناییت تھی وہ خود کر لیتا لیکن مرش کو مخاطب کرنے کے لیے کسی نہ کسی بہانے کی ضرورت تو تھی ہی ۔۔
میں فری نہیں ہوں !! آینے کے سامنے کھڑے ہو بالوں کو سلجھاتے ہوے مرش بے فکری سے بولی تھی ۔۔
پلیز کر دو یار ۔۔ آہل بیڈ سے اٹھ کر عین اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا تھا یہ بھی ایک منانے کا بہترین طریقہ تھا ۔۔
مرش کی پلکییں فورن ہی آینے کے سامنے اٹھی تھی کتنی مکمل تھی نہ ان کی جوڑی کتنا مکمل تھا آہل شاہ آفندی ہر چیز سے نوازا گیا تھا اسے سواے ایک نرم دل کے ۔۔
آہل میں نہیں ہوں پھری مجھے اور بھی بہت سے کام ہے آج بریرہ کی شادی ہے مجھے تیاری کرنی ہے کسی اور سے جا کر کروا لو ۔۔ مرش ایک سیکینڈ کے اندر آینے کے سامنے سے ہٹی تھی خفا خفا سا چہرہ صبح صبح بے حد دلکش لگ رہا تھا ۔۔
ٹھیک ہے پھر کسی ملازمہ سے جا کر کروا لیتا ہوں جب تم نہیں کرو گی ۔۔ اتنی معصومیت سے کہا گیا تھا کی مرش مجبور ہو گیی تھی اس کا چہرہ دیکھنے پر ۔۔لیکن اس سے پہلے کی کچھ بولتی آہل کمرے سے جا چکا تھا ۔۔
لیکن مرش کو کویی پچھتاوا محسوس نہیں ہو رہا تھا اس نے جو کیا تھا سہی کیا تھا ۔۔۔
ہاے اللہ میری بہت پیاری لگ رہی ہے اللہ نظر بد سے بچاے ۔۔
ریڈ کلر کے لہنگے میں بریرہ آج بے حد خوبصورت لگ رہی تھی میکپ بھی بے حد سلیقےسے کیا گیا تھا ۔۔۔ ہر ماں کی طرح مریم بیگم اسے سینے سے لگا کر دعاوں سے نواز رہی تھی ۔۔
امی میں آپ لوگ کو بہت مس کروں گی ۔۔ برہرہ پھر سے رونے پر اتر آیی تھی۔۔
تو ہم کون سا اپنی گڑیا بھول جایں گے تو صرف اس گھر سے جا رہی ہو ہمارے دلوں سے نہیں ۔۔ آہل کسی کام سے کمرے میں آیا تھا لیکن بہن کو دیکھ کر اسے سارے کام بھول گیے تھے ۔۔
بھایی میں آپ کو بہت مس کروں گی ۔۔ بریرہ آہل کے سینے سے لگ کر رو دی تھی ۔۔
میں بھی آپ کو سب سے زیادہ مس کروں گا ۔۔ اس کا ہاتھ تھام کر آہل محبت سے لبریز لہجے میں بولا تھا ۔۔ آنکھوں کے کونے میں نمی سی تیر گیی تھی آخر کو وہ اس کی اکلوتی اور لاڈلی بہن تھی ۔۔
مہمانوں کی تعداد اچھی خاصی تھی بزنیس پاٹنر کولیگز اور دیگر لوگ تھے ڈیکوریشن حد سے زیادہ خوبصورت کی گیی تھی لایٹس میوزک کیمرہ ایک ایک چیز شادی کی زینت بنی ہویی تھی ۔۔۔ ویٹرز کی تعداد گننے میں نہیں آ رہی تھی سب لوگ تشریف لا چکے تھے سواے فارس اور اس کی ماں کے علاوہ ۔۔
افف اللہ کیا کروں یہ زپ تو مجھ سے بند ہی نہیں ہو رہی ۔۔ اسکایی بلیو کلر کے فراک میں مرش بے تحاشہ خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔ نہ جانے وہ کتنی دیر سے فراک کی زپ بند کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس کا ہاتھ نہیں پہنچ رہا تھا ۔۔
اچانک واشروم کا دروازہ کھلا تھا آہل ٹاول ہاتھ میں لے کر بالوں کو ہلکا ہلکا رگڑتے ہوے اندر سے برامد ہوا تھا ۔۔ مرش حیرت زدہ اسے دیکھ رہی تھی اس کا خیال تھا کی آہل جا چکا ہوا ہے لیکن خیال بے حد غلط نکلا تھا ۔۔
مجھے کیا جاے یہ نہ جاے !! مرش بے فکری سے شانے اچکا کر پھر زپ بند کرنے کی کوشش میں لگ گیی تھی ۔۔
واڈروب کھول کر آہل نے نیو وایٹ کلر کی شرٹ باہر نکالی تھی لیکن پورا دھیان مرش کی جانب تھا جو بےچاری اس وقت حد سے زیادہ پریشان لگ رہی تھی ۔۔
شرٹ کی آستین کہنی تک فولڈ کرتے ہوے آہل آینے کے سامنے اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا ۔۔
ہاتھ ہٹاو میں بند کر دیتا ہوں ۔۔ شاید آہل کو دیکھ نہیں گیی تھی اس کی پریشانی اس لیے بنا کسی لگی لپٹی رکھے آفر کر دی تھی ۔۔
نو تھینکس میں خود کر لوں گی ۔۔ مرش ایک نظر اسے دیکھ کر فورن اس کی گیی آفر کو ٹھکرایی تھی ۔۔
میں کہہ رہا ہوں ہاتھ ہٹاو ۔۔ آہل کے مزاج میں تھوڑا سختی آ گیی تھی صرف دکھاوٹی تھی اگر نہ ہوتی تو مرش کبھی نہیں مانتی ۔۔
ایک سیکنڈ لگا تھا مرش کو ہاتھ ہٹانے میں اس کی بھی مجبوری تھی ۔۔
جب بیوی اتنی خوبصورت ہو تو دل کرتا ہے راتیں بھی ہمیشہ خوبصورت ہو “” آہل کو بہکنے میں ایک لمحہ لگا تھا ۔۔ آینے کے سامنے کھڑے وہ دونوں ایک دوسرے کے چہرے کو بڑی غور سے دیکھ رہے تھے ۔۔
زپ بند کرنے سے پہلے اس نے اپنے ہونٹوں کو مرش کی گردن پر رکھ دیا تھا اور مرش آہستہ سے اپنی دونوں آنکھیں بند کر لی تھی کیوں اسے پوری امید تھی آہل سے اس طرح کی جرکت کی ۔۔ جو کی غلط بھی نہیں تھی ۔۔
دو انگلیوں کی بیچ زپ کو پھنسا کر آہستہ سے اس نے اوپر کر دیا گیا تھا ۔۔ایک سکون کی سانس مرش نے لی تھی اور دوڑتے ہوے کمرے سے باہر نکل گیی تھی ۔۔پیچھے آہل کے لبوں پر خوبصورت سی مسکراہٹ منڈلا گیی تھی ۔۔
بریرہ کو اسٹیج پر لا کر بیٹھا دیا گیا تھا ۔۔ آج وہ اتنی مجبور ہو گیی تھی سواے آنسوں کو بہانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی تھی آج اس کے اوپر اس کے دل پر قیامت گزر رہی تھی آنکھیں کالین پر جم گڑھ سی گیی تھی ۔۔
مردوں سے زیادہ عورتوں کا ہجوم تھا رنگین آنچلوں کی بھرمار تھی ۔۔
فریحہ بیگم اور فارس بھی تشریف لا چکے تھے ۔۔ فارس ہاشمی خود کو بہت سمجھا بجھا کر آیا تھا لیکن ساری ہمت گویا سلب ہو گیی تھی رگیں تن سی گیی تھی دل میں شدید خواہش جاگی تھی سب کچھ تہس نہس کرنے کرنے کی ۔۔
فریحہ بیگم کا استقابال بے حد اچھا ہوا تھا وہ تو یوں مسکرا رہی تھی جیسے بیٹے کا دکھ ایک لمحے میں بھول بھال سی گیی تھی ۔۔
نکاح خواہ تشریف لا چکے تھے گہما گہمی مچ گیی تھی بریرہ کا دل اندر ہی اندر چینخ رہا تھا نا انصافی ہو رہی تھی اس کے ساتھ ہو رہی تھی اس کے ساتھ ۔۔
میری جان اس طرح روں گی تو ابھی تمہارے پاس آ جاوں گا ۔۔
محبت کرتا ہوں تم سے ۔۔۔
جاننے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔
شاید کویی جاننے والا ہو ۔۔
ایک کے بعد ایک سوچ بریرہ کا دماغ گھما رہی تھی چکر سا آنے لگا تھا ۔۔ فارس میں آج کسی اور کے نام ہونے جا رہی ہوں کہاں ہو تم کہاں چلے گیے دیکھو تمہاری بریرہ کسی اور کی ہونے جا رہی ہے کسی اور کو اپنا سب کچھ سوپنے جا رہی ہے ۔۔ کہاں ہو تم فارس ۔۔ موتیوں کی لڑی ایک ساتھ گالوں پر گری تھی ۔۔ اسے نہیں پتہ تھا محبت کے راستے پر چلانے والا اس کا ساتھی اس کے سامنے ہی کھڑا تھا بت بن کر ۔۔
بریرہ شاہ آفندی ولد جاوید شاہ آفندی آپ کو فارس ہاشمی کے نکاح میں سکہ رایج الوقت 1 لاکھ روپے دیا جاتا ہے !!! کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟؟ یک ٹک سب کی نظریں بریرہ کے چہرے کا طواف کر رہی تھی ۔۔ اس نے سنا ہی کہاں تھا مولوی صاحب کیا بول رہے تھے ۔۔
بریرہ شاہ آفندی ولد جاوید شاہ آفندی اپ کو فارس ہاشمی کے نکاح میں سکّہ رائج الوقت 1 لاکھ روپے دیا جاتا ہے .۔۔
کیا آپ کو قبول ہے؟؟؟ !! کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ۔۔ مریم بیگم نے اسے ہلکے سے ٹہکا دیا تھا اور تب جا کر وہ ہوش کی دنیا میں آیی تھی ۔۔ کیا ہو رہا تھا یہ سب سمجھ سے باہر تھا ۔۔
قبول ہے ۔۔! اس نے آہستگی سے ہاں میں گردن ہلا دی تھی ۔۔
ّاور تیسری بار بھی پوچھنے پر اس نے ہاں میں گردن ہلا دی تھی ۔۔
مام یہ ۔۔ یہ نکاح تو فارس کے ساتھ ہو رہا ہے مطلب فہد ۔! یہ سب کیا ہو رہا ہے مام ؟؟ مرش کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا کیا ہو رہا تھا یہ سب ۔۔ گھبراہٹ کی وجہ سے اس کے الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔۔
مرش بیٹا ہماری بریرہ کا نکاح تو فارس کے ساتھ ہی ہونا تھا دراصل یہ سرپرایز تھا جو آپ سے بھی چھپایا گیا تھا ۔۔ مریم بیگم کو ہنسی آ گیی تھی ۔۔ کیوں انہیں علم تھا مرش کی حالت کیا ہو گی وہ ضرور بتا دیتی مرش کو اگر آہل انہیں نا روکتا ۔۔
وآٹ ؟ مرش ابھی بھی حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی ۔۔
فارس کو اپنا نام تو سنایی دیا تھا لیکن کہاں یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا ذہن تو یکدم ماوف ہو گیا تھا ۔ کیا تھا یہ سب ۔۔
اب یہیں پر کھڑا رہے گا یہ اسٹیج پر بھی چلے گا ۔۔ آہل اس کے پاس آ کر سنجیدگی سے بولا تھا ۔۔لیکن آنکھوں میں شرارت کی چمک جگمگا رہی تھی ۔۔
آ ۔۔آہل تو ۔۔ الفاظ کہاں تھے کی کچھ بولے جاتے وہ دونوں دوست ایک دوسرے کے گلے لگ گیے تھے ۔۔ کتنے دنوں بعد آج دونوں دوست یکدم پہلے جیسے لگ رہے تھے ۔۔
تیری عادت بدلی نہیں نہ مجھے سرپرایز دینے کی !! فارس کی مسکراہٹ میں کیا بات تھی ایک پل کو آہل کھو سا گیا تھا کتنی زیادتی کی تھی اس نے فارس کے ساتھ غصے کی آگ میں اس نے اپنے جان عزیز دوست کو کیا کچھ نہیں کہا تھا لیکن ایک رات ایسی نہیں گزری تھی کی وہ پچھتایا نہ تھا ۔۔
کیسی جاتی تونے ہی تو لگایی ہے ۔۔ آہل کھلکھلا کر ہنس دیا تھا ۔۔
فارس بے حد اچھا اور ہینڈسم دکھ رہا تھا ۔۔ ان آنکھوں میں صرف ایک لمحے میں اداسی کی جگہ چمک آ گیی تھی ۔۔
آہل اسے اپنے ساتھ لے کر اسٹیج پر چڑھ گیا تھا ۔۔
نکاح خواہ نے نکاح پڑھنا شروع کر دیا تھا ۔۔
فارس ہاشمی ولد آیاز ہاشمی بریرہ جاوید شاہ آفندی ولد جاوید شاہ آفندی کے ساتھ آپ کا نکاح طے پایا گیا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟؟ مولوی صاحب فارس کا چہرہ دیکھ رہے تھے ۔
قبول ہے ۔۔
مولوی صاحب نے دوسری بار پوچھا تھا ۔۔
قبول ہے !!
تیسری بار ؟
قبول ہے ۔!! زندگی بھی کتنی عجیب ہے نہ گھما پھرا کر ہمیں ہمارے ہی مقام پر لا کھڑا کر دیتی ہے ۔۔ اپنے سایڈ میں بیٹھے فارس کا چہرہ دیکھ بریرہ کی مسکراہٹ اندر جانے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔۔
زندگی مسکرا دی تھی ۔۔
اس نے مارے خوشی سے پلکیں اٹھا کر آہل کو دیکھ رہی تھی کتنا اچھا تھا اس کا بھایی لاکھوں میں ایک سچ میں بریرہ کو ایسا بھایی ملنے پر بے تحاشہ رشک ہو رہا تھا اس نے کیسے سوچ لیا تھا اس کا بھایی اسے کویی تکلیف دے سکتا تھا ۔۔۔
آج میں نے بہت خوش ہوں یوں جیسے میں نے دنیا فتح کر لی ہے ۔۔ موقع پاتے ہی فارس بریرہ کے کان میں پھسپھسایا تھا ۔۔
کیوں ؟؟ بریرہ کو جواب چاہیے تھا تاکی تھوڑا وہ اور خوشی محسوس کر سکے ۔۔
کیوں کی ” سنگ جو تم ہو ” اپنا ہاتھ اس نے آہستہ سے بریرہ کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا ۔۔ اور کیمرے میں ہنستی مسکراتی ایک فوٹو اور قید ہو گیی تھی ۔۔
کیا باتیں ہو رہیں ہے کہیں میری بہن کو تنگ تو کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ؟؟ آہل فارس کے قریب رکھے صوفے پر آ کر بیٹھ گیا تھا اور بناوٹی غصہ چہرے پر سجا کر فارس سے پوچھ رہا تھا ۔۔
جی نہیں میں آپ کی بہن کو نہیں اپنی بیوی کو تنگ کر رہا ہوں !! فارس بریرہ کو دیکھ کر گرمجوشی سے بول رہا تھا ۔۔
اچھا بڑا غرور آ گیا ہے تیرے اندر مجھے تو آج لاین ہی نہیں مل رہی ہے بھیی نہ ہی بہن دے رہی ہے اور نہ ہی دوست !! آہل چہرہ رو دینے والا تھا ۔۔
ہا ۔۔ہا ہا ظاہر ہے بیوی آنے کے بعد سب بدل جاتے ہے انہیں لوگوں میں میں بھی شمار ہوں !! فارس نے بریرہ کا ہاتھ تھام آہل کو آنکھ مار کر ہری جھنڈی دکھایی تھی ۔۔
تجھے تو میں بعد میں دیکھ لوں گا ۔۔ آہل نے گھور کر فارس کو دھمکی دی تھی ۔۔
آہل تھیکنس !! فارس سنجیدہ تھا ۔۔
کس بات کے لیے ؟ آہل ٹھٹکا تھا ۔۔
اس سرپرایز کے لیے ۔!! فارس اپنی چمکتی آنکھیں آہل کے چہرے پر جما کر بولا تھا ۔۔
اب تو مجھے شرمندہ کر رہا ہے سچ بتاوں تو یہ تیرا حق تھا ۔۔ آہل اسے گلے لگا گیا تھا اسے اپنا دوست بہت بہت زیادہ عزیز تھا ۔۔
Sang_Jo_tu_hae
40_Episode_last
Zariya_FD
Do_not_copy_without_permission
آہل یہ کیا حرکت تھی تم نے مجھ سے یہ سب کیوں چھپایا ۔۔ فنکشن ختم ہونے کے بعد مرش کمرے میں ایک ہی پوزیشن میں غبارے کی طرح منھ پھلا کر ایک ہی سوال بار بار دہراے جا رہی تھی ۔۔
کیوں کی میں جانتا تھا تم سے کویی بات چھپتی نہیں ہے ؟ آہل بیڈ پر بیٹھ کر اسے مسکرا مسکرا کرچھیڑ رہا تھا ۔۔
کیا مطلب ہے تم مجھے بتا سکتے تھے ۔۔ لیکن نہیں میری کیا امپورٹینس ہے تمہارے نزدیک ؟ مرش رخ دوسری طرف پھیر گیی تھی ۔۔
اب اتنی دور سے امپورٹینس پوچھوگی تو کیسے بتاوگا پاس آو تب بتاتا ہوں ۔۔اس کا ہاتھ تھام کر آہل اسے لو دیتی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔
نہیں آوں گی میں پاس کیوں کی میں ناراض ہوں تم سے ۔۔ مرش تھوڑا اور اس سے دور ہویی تھی ۔۔
ٹھیک ہے میں آ جاتا ہوں پاس ۔میں تو ناراض نہیں ہوں ۔۔ آہل اس کمر میں اپنا بازوں حایل کر کے سینے سے لگا لیا تھا ۔۔
آہل اچھا بتاو تم نے یہ سب کیسے کیا ؟؟ مرش کو ابھی بات کی تحقیق کرنی تھی ۔۔
جس دن ڈیڈ نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا تھا تو میں نے ساری بات ڈیڈ کو بتا دی تھی اور مجھے اچھی طرح سے پتہ تھا بریرہ کے لیے فارس سے اچھا اور کویی لڑکا نہیں ہو سکتا ۔۔ ڈیڈ کو بھی فارس بہت پسند تھا سو بس ہو گیی بات ۔۔ اب ساری باتیں تمہیں بتا دی پلیز موڈ سہی کر لو ۔۔ آہل اسے بیڈ پر جھٹکے سے گرایا تھا جس سے وہ لیٹ گیی تھی اور آہل اس کی انگلیوں میں اپنی انگلیوں پھنساے اس کے اوپر جھکا ہوا تھا ۔۔
آہل تم ۔۔ تم بہت اچھے ہو سچ میں ۔۔ مرش اس کی گردن میں دونوں ہاتھ ڈال کر مسکرا کر بولی تھی ۔۔
اور تم بہت زیادہ خوبصورت سچ بتاوں باہر تمہیں دیکھ کر دل کر رہا تھا فورن گود میں اٹھا کر بیڈروم میں لے آوں اور بہت زیادہ پیار کروں ۔۔ اس کے چہرے کے قریب اپنا چہرہ لے جا کر آہل جوش سے بول رہا تھا ساری دوریاں مٹ گیی تھی ۔۔۔ قربت کی پیاس بجھ گیی تھی ۔۔
تو لے آتے میں کون سا انکار کرتی ۔۔ اس کا کالر اپنے ہاتھ ہاتھوں سے سہی کر کے مرش آہستہ سے بولی تھی ۔۔
انکار تو تم اب بھی نہیں کر سکتی۔۔ لے آتا سویٹ ہارٹ لیکن بہت زیادہ بےشرم شوہر نہیں کہلانے لگتا ۔۔
مجھے تو بہت بہت بہت زیادہ پسند ہے اپنا یہ بے شرم شوہر ۔۔ مرش آج ساری شرم و حیا ایک طرف رکھ کر ڈھیٹایی سے بول رہی تھی ۔۔
اور مجھے اپنی یہ خوبصورت بیوی بہت زیادہ پسند ہے ۔۔بس جلدی سے پاپا بننے کی بھی خواہش پوری کر دو ۔۔
تمہیں کچھ زیادہ ہی جلدی ہے پاپا بننے کی ابھی میں صرف تمہاری بی بی ہوں پاپا کی بی بی کچھ دنوں بعد آے گی جب تک اس بے بی کو خوب پیار کرو ۔۔ مرش منھ پھلا لی تھی ۔۔
ٹھیک ہے تو پاپا کی بے بی کو ساری باتیں ماننی ہونگی پاپا ہر رات کو اپنی بے بی کے ساتھ اسے طرح پیار کریں گے ۔۔ بے بی کو کویی اعتراض تو نہیں ہوگا نہ ۔۔ اس کی لٹوں کو کان کے پیچھے کر کے آہل نے ہلکے سے سرگوشی کی تھی ۔۔
بلکل نہیں ہوگا بے بی صرف آپ کی ہے ۔۔ مرش اس کی شرٹ پکڑ کر اور خود سے قریب کی تھی ۔۔۔
آہل مسکراتی ہویی نظروں سے اسے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر اپنا ہونٹ رکھ کر بےتحاشہ پیار کیا تھا اس کے بعد اس کی گردن میں اپنا لب رکھ دیا تھا۔۔ آہستہ آہستہ اس نے ہاتھ اس کی نشت میں ڈال کر زپ کو نیچے کیا تھا ۔مرش سختی سے آنکھیں بھینچ گیی تھی ہلکی ہلکی گھبراہٹ بھی محسوس ہو رہی تھی لیکن بے تحاشہ خوشی بھی ۔۔ آہل اس کے اوپر سے اٹھ کر اپنی شرٹ کو اتار کر دور کہیں زمین پر اچھال دیا تھا ۔۔ اور پھر سے اس کے اوپر جھکتا چلا گیا تھا جسم کے ایک ایک حصے پر آہل شاہ آفندی اپنے ہونٹوں کو رکھ کر مہر ثبت کرچکا تھا ۔۔ محبت کے سمندر دونوں شرابور ہو چکے تھے ۔۔ ان دونوں کی پیروں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنس گیی تھی اور پھنستی چلی گیی تھی ۔۔ محبت کی یہ رات ایک خوبصورت خواب کی طرح آہستہ آہستہ گزر رہی تھی ۔۔
حجلہ عروسی میں بیٹھ کر بریرہ کی دل کی دھڑکن لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔۔ کمرے کی کویی خاص ڈیکوریشن نہیں تھی کیوں کی سب کچھ لا علمی میں ہوا تھا ۔۔ لیکن پھر بھی ایک ایک چیز سلیقے سے رکھی گیی تھی صاف پتہ چل رہا تھا کسی امیر زادے کا کمرے تھا ۔۔
دروازے پر ہلکی سی دستک ہویی تھی ۔۔
بریرہ کو بے حد شرم آ رہی تھی مارے شرم کے نظریں زمین پر گڑھ سی گیی تھی ۔۔
اس طرح شرماوگی تو رات بہت بھاری پڑ جاے گی سویٹ ہارٹ ! فارس دروازہ بند کر کے بیڈ پر آ کر اس کے مقابل بیٹھ گیا تھا ۔۔
بریرہ حد سے زیادہ شرما رہی تھی جیسے آج سے پہلے کبھی اب دونوں کا سامنا ہی نہیں ہوا تھا ۔۔
بریرہ پلیز اب شرمانا بند کرو ! فارس اس کی حالت دیکھ کر محفوظ ہوا تھا ۔۔
فارس ! بس اتنا سا الفاظ ہی اس کی زبان سے ادا ہوا تھا ۔۔
جی جان فارس ! فارس تھوڑا اور اس کے قریب ہوا تھا ۔۔
تنگ نہ کرو ! بریرہ رو دینے کو تھی شرم سے بے حال چہرہ غلاب کی طرح کھل رہا تھا ۔۔
آج تو میں کچھ نہیں سننے والا تمہاری ۔۔ مہندی کے رنگوں سے رنگا ہاتھ تھام کر فارس اس کی آنکھوں میں محبت بھرے لہجے میں بول رہا تھا ۔۔ آج تو اس کے منھ سے پھول جھڑ رہے تھے آج وہ واقعی سہی معنوں میں خوش ہوا تھا ۔۔ خود کو دنیا کا سب سے لکی انسان تصور کر رہا تھا ۔۔
فارس !!!! بریرہ ہار گیی تھی ۔۔
ہشش !! فارس اس کے لبوں پر انگلی رکھ کر خاموش کرا دیا تھا ۔۔
اس کے بعد کورٹ کی جیب سے ایک چھوٹا سے سایز کا ڈبہ باہر نکالا تھا ۔۔ اتنی افرا تفری میں سب کچھ ہوا تھا کی وہ کچھ خاص گفٹ نہیں لے پایا تھا لیکن پھر بھی ایک رنگ اپنے کسی ملازم کے توسط منگا لیا تھا ۔۔ اس نے تو سوچا تھا کی دوسرے دن کویی گفٹ دے گا لیکن آج کی رات بہت خاص تھی اور وہ بریرہ کو اس چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دینا چاہتا تھا ۔۔
ڈبے کے اندر ایک خوبصورت سی رنگ جگمگا رہی تھی ۔۔ جسے دیکھ کر بریرہ کے لبوں پر مسکراہٹ مچل گیی تھی ۔۔
اس کا ہاتھ تھام کی فارس نے ہاتھ کی تیسری انگلی میں رنگ پہنا دی تھی اور اس کا ہاتھ لبوں سے لگا گیا تھا ۔۔یہی محبوب کی سب سے دلکش ادا ہوتی ہے ۔۔
اس کی کمر میں اپنا بازو حایل کر کے فارس اسے اپنے سینے سے لگا کر اس کی پیشانی پر اپنے لبوں کو رکھ دیا تھا ۔۔
اور بریرہ کی حالت ایسی تھی کی اس کی شرٹ اپنی دونوں مٹھیوں میں جکڑ کر سختی سے آنکھ بھنچی ہویی تھی ۔۔ ایک خواب سا لگ رہا تھا سب کچھ جیسے ابھی آنکھ کھلے گی اور سب کچھ ختم ہو جاے گا ۔۔
فارس اسے بیڈ پر سیدھا لیٹا دیا تھا اور مزید اس چہرے پر جھکتا چلا گیا تھا ۔۔ اپنے ہونٹوں کی بہت آہستگی سے اس نے بریرہ کے لرزتے ہونٹوں پر رکھ کر چوما تھا اس کے بعد اس کی گردن کے تھوڑا نیچے اپنے ہونٹ رکھ کر پیار کیا تھا ۔۔ ایک بعد ایک گستخایی ہوتی چلی گیی تھی ۔۔۔ اور رات آہستہ آہستہ اندھیرے میں پوری طرح ڈوب گیی تھی ۔۔ آگے ایک ہنستی مسکراتی زندگی بے صبری سے ان کا انتظار کر رہی تھی ۔۔
ختم شد !
1 thought on “Sang Jo Tu Ha Full Novel in Text Episode wise 1 to 40 episodes Full”