Mujhe Aazmane wale Mujhe Aazma kar Roye
By Zariya
Episode 1

شام کے ساے گہرے ہوتے جا رہے تھے ۔ اور پرندے اپنے اپنے نشیمنوں کی طرف رواں دواں تھے ۔ آسمان پر چار سو لالی بکھری ہویی تھی ۔ جو شام کے اس اداس منظر کو اور بھی زیادہ حسین اور پرکیف بنا رہی تھی ۔ اور اس حسین طرین منظر کے دوران وسیع و عریض و حد عالیشان حویلی اپنی پوری مضبوطی و آب وتاب سے اپنی جگہ پر کھڑی تھی ۔۔
اور اس کی سیاہ گاڑی حویلی کے راستے کی طرف گامزن تھی اس کی گاڑی کے پیچھے لاتعداد گاڑیاں تھیں ۔جس میں گارڈز تھے اور اس کے محافظ تھے ۔ گاڑی حویلی کے وسط میں آ کر رکی تو جلدی سے ایک گارڈ نے گاڑی کی اگلی سیٹ کا گیٹ کھولا اور وہ اپنے مغرورانہ انداز میں گاڑی سے نیچے اترا ۔۔
بھرپور قدو و قامت ۔ براون بال ۔پزل براون آنکھیں ۔ جن پر کالے چشمے نے پہرا ڈالا ہوا تھا ۔۔ گوری رنگت جن میں سرخی نمایاں تھی ۔کاندھوں پر شال ڈالے مغرورانہ انداز میں بھینچے ہوے ہونٹوں کے ساتھ وہ مکمل کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا ۔۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوتا کی وہ شہزادہ ہی تو تھا ۔۔ اپنے مخصوص انداز میں چلتا ہوا وہ حویلی کے اندورنی حصے کی جانب بڑھ گیا تھا ۔۔ بی جان جو کی دیوان پر براجمان تھی وہ ان کی جانب آیا اور سلام کرتا ان کے سامنے بیٹھ گیا ۔بی جان نے اسے خود میں سمو لیا اور اپنی بے تہاشہ خوشی کا اظہار کرتے ہوے اس کے ماتھے کو چوم کر اس کا حال و احوال دریافت کیا .اور کہنے لگیں پتتر تو تو شہر جا کر بھول ہی گیا نہ کویی حال نہ احوال دو دن طبعیت بڑی اداس تھی تو نے ایک فون کر کے اپنی خیریت بتانی بھی ضروری نہیں سمجھی ؟ وہ جانتا تھا کی شدید مصروفیت کی وجہ سے وہ حویلی فون نہ کر سکا اور بی جان اس سے خفا ہونگی اور وہی ہوا تھا ۔اس نے ان کے گلے میں باہیں ڈال کر انہیں پل بھر میں منا لیا ۔اور اسے پیار کرتے ہوے وہ مسکرا دیں ۔ جبھی اس کو حویلی کی غیر معمولی خاموشی محسوس ہی ہویی حیرت ہے اتنے لوگوں کا مجوم ہوتے ہوے ہوے بھی آج اتنی خاموشی کیوں تھی ۔
اس نے بی جان سے پوچھا ؟ بی جان سارے لوگ کہیں گیے ہوے ہیں کیا ؟
بی جان نے کہا ۔ ہاں بیٹا زرسانگہ کی سالگرہ تھی تو سب وہیں گیے ہوے ہیں تو تو جانتا ہے میرے گھٹنوں کے درد کا اس وجہ سے میں نہیں جا سکی لیکن اب تو ان کی واپسی کا وقت ہو رہا ہے صبح کے گیے ہوے ہیں سب ۔
زرسانگہ اس کی پھپھو کی بیٹی تھی پھپھو کی شادی بھی خاندان میں ہویی تھی جس کی وجہ حویلی کی رونقیں کبھی کبھار اور بھی عروج پر ہوتی تھی ۔وہ گہری سانس لیتا ہوا بی جان سے اجازت لے کے آرام کی غرض سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔
عباس خان ، وقاص خان ، پیرم خان ، شہباز خان ، چار بھایی تھے ۔اور ان کی تین بہنیں تھی جن کا نام ۔مریم ، ذینب ، اسماء تھیں ۔ ان تمام بہن بھاییوں کی شادیاں خاندان میں ہویی تھی کیوں کی ان کے گھر خاندان سے باہر شادی کرنے کا رواج نہیں تھا ۔
عباس خان کے تین بیٹے تھے ۔ سالک حیدر خان جو اپنے مختلف انداز و اطوار کی وجہ سے پورے خاندان میں “stone man ” کے خطاب سے مشہور تھا اور دو بیٹے معاذ خان اور یوسف خان اور ایک بیٹی جس کا نام علیزے تھا۔
وقاص خان کے دو بیٹے تھے ۔ اشعر و ابراہیم تھے اور ان کی تین بیٹیاں تھیں نمرہ ، مایدہ ، زونیہ ، زونیہ کا نکاح معاذ کے ساتھ ہوا تھا جو بچپن میں طے پزیر تھا ۔
پیرم خان کے چار بیٹے تھے ۔ شاذل ، عیسی ، دعا ، و لایبہ ، اسی طرح شہباز خان کے بھی چار بچے تھے ۔ ضیغم ، فواد ، حمزہ ، شاہ زیب ، اور ایک بیٹی پلوشہ تھی ۔ لڑکوں میں کچھ بیرون ملک پڑھایی کی غرض سے قیام پزیر تھے اور کچھ یہیں تھے ۔ اور لڑکیوں کو حویلی میں ہی رہ کر پڑھنے کی اجازت تھی کہیں باہر جا کر نہیں ۔۔
گرمی اپنے عروج پر تھی وہ سست روی سے چلتی بس اسٹاپ پر آ کر رک گیی ۔ اریشہ نے اس کی غیر معمولی خاموشی نوٹ کی اور اس سے وجہ پوچھی تو وہ ٹال گیی ۔لیکن فکر کی لکیںریں اس چہرے سے نمایاں تھیں ۔ اریشہ کے کیی بار پوچھنے پر اس نے بلاآخر بتا ہی دیا ۔
بس یار بابا کی طبیعت بہت خراب ہے اور ان کے علاج کے لیے بہت پیسے درکار ہیں میں کروں تو کیا کروں تم تو جانتی ہو ہمارے حالات کا امّی بھی پریشان ہیں میری پڑھایی کا خرچ پہلے ہی بہت ہے اب بابا کی بیماری نے انہیں توڑ دیا ہے وہ بھی سلایی کرتی ہے لیکن اس سے کتنا ہوگا کیا ہوگا ۔ ؟
وہ بہت ہی افسردہ تھی اریشہ نے اسے تسلی دیتے ہوے کہا ۔ تم فکر نہ کرو اللہ کو انشااللہ کچھ نہیں ہوگا وہ ٹھیک ہو جاینگے اللہ سب بہتر کرے گا ۔ وہ تسلی آمیز انداز میں مسکرایی تو وہ بھی اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرایی لیکن درحقیقت وہ بہت اداس تھی ۔
وہ سو کر اٹھا تو گھڑی کی سویاں 9:30 بجا رہی تھی وہ اٹھا اور فریش ہو کر نیچے کی حصے کی طرف آیا تو ناصر بابا نے اسے دیکھ کر مودب انداز میں سلام کیا اس نے جواب دیتے ہوے ان سے ناشتے کا کہا ۔ اور ساتھ ہی امّی کے کمرے کی جانب آ گیا ۔وہ اسے دیکھ کر نہال ہو گیں اور دیوانا راز اسے چوما وہ بھی انہیں اتنے دنوں بعد دیکھ کر بہت خوش تھا ۔ انہوں نے کہا ! بیٹا تو سو گیا تھا رات کو ہم لیٹ آے تھے تو بتا کیسا ہے ؟ میرا بچہ کتنا کمزور ہو گیا ہے ۔اس نے ہنستے ہوے کہا ۔ ایسا کچھ نہیں ہے امّی آپ کا پیار ہے یہ بس جبھی وہم کا شکار ہو رہی ہیں اس نے انہیں پیار کرتے ہوے کہا ۔ بیٹا تمہارے بابا اور یوسف بھی تیرا پوچھ رہے تھے پہلے ناشتہ کر لے پھر ان سے ملاقات کر لے ۔
وہ جانتا تھا کی بابا جان بھی اپنی خفگی کا اظہار کریں گے اور اس کی لاپرواہی کا شکوہ بھی اور ایسا ہی ہوا تھا ۔وہ ہنس ہنس کر سب کے سوالوں کا جواب دے رہا تھا آج سب کو حیرت ہو رہی تھی کی وہ اتنے خوشگوار موڈ میں کیوں ہے وگرنہ اس کا موڈ بمہ وقت ایسا ہوتا تھا کی سب اس کے سامنے جوں کرنے سے بھی خوف کھاتے تھے ۔
وہ گھر آیی تو گھر کی ہولناک خاموشی نے اس کا استقبال کیا ۔وہ اداس سی کیفیت میں چلتی ہویی امی اور بابا کے مشترکہ کمرے کی جانب بڑھ گیی ۔وہ اندر داخل ہویی تو دیکھا کی بابا پلنگ پر لیٹے ہوے تھے ۔ اور امّی ان کے پاوں دبا رہی تھیں اس نے آہستہ آواز میں سلام کرتے ہوے بابا کی طبعیت کا پوچھا تو امّی نے کہا کی بہتر ہے بس ذرا پاوں میں تکلیف ہے اس نے دل ہی میں خدا کا شکر ادا کیا کیوں کی پچھلے دو روز سے بابا کی طبعیت خراب تھی ۔ لیکن آج وہ قدرے بہتر لگ رہے تھے وہ چینج کرنے کی غرض سے اپنے کمرے میں چلی گیی ۔
تقریبن ایک ہفتے کے بعد آ ج وہ شہر واپس جا رہا تھا وہ بہن بھاییوں میں تیسرے نبمر پر تھا جبکہ دوسرے پر یوسف اور پہلے پر معاذ تھا اور سب سے چھوٹی علیزے تھی ۔آج کل حویلی میں معاذ اور زونیہ کی شادی کی بات چل رہی تھی نکاح تو بچپن میں ہی ہو گیا تھا لیکن اب بی جان اور دادا جان کو اپنے باقی ارمان بھی پورے کرنے تھے زونیہ کی شادی اس حویلی کی پہلی شادی تھی اس لیے سبھی پرجوش تھے ۔رخصتی کی تیاریاں زور پکڑنے کو تھی ۔وہ گاڑی میں آ کر ببیٹھا تو ڈرایور نے گاڑی بڑھا دی ۔اس کا قیام شہر میں بنے اپنے فارم ہاوس میں ہوتا تھا وہ وہیں سے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی کاموں میں بھی مصروف ہوتا تھا ۔ گاوں میں تو سرگے و پنچایت کا کام بابا خان وہ دادا خان ہی دیکھتے تھے ۔ بہت لمبا اور تھکا دینے والا سفر تھا جب شہر پہنچا تو شام ہو چکی تھی فارم ہاوس پر پہنچ کر سب سے پہلے اس نے اپنے جگری دوست عدنان کو فون کر کے اپنے آنے کی اطلاع دی اور پھر جوتوں سمیت بیڈ پر گر گیا حویلی فون کر کے اپنے خیریت سے پہنچنے اطلاع دی بعد میں بیڈ پر دھنستے ہوے وہ نیند کی وادیوں میں اتر گیا ۔
تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھی اور بلاآخر وہ دن آ ہی پہنچا ۔یونیورسٹی میں آج فنکشن تھا جس میں جانے کے لیے وہ تیار تھی حالانکہ بابا کی طبعیت تو اب بہتر تھی پھر بھی اس کا دل چاہ رہا تھا کی وہ دو روز کی چھٹی لے لے لیکن امّی نے اسے ہر طرح سے مطمین کرتے ہوے اسے اریشہ کے ساتھ جانے پر آمادہ کر ہی لیا ۔اس نے اس فنکشن کے کسی بھی پروگرام میں حصہ نہیں لیا تھا ۔حالانکہ وہ ایک ذہین اسٹوڈینٹ تھی لیکن وہ آج کل جس صدماتی کیفیت سے دو چار تھی اس کے لیے ان تفریح کا کویی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا ۔
اریشہ کے ساتھ وہ یونی کے گیٹ کے اندر داخل ہویی تو اس کے کانوں میں پیچھے سے ایک لڑکی کی آواز ٹکرایی وہ شاید اپنی دوست سے مخاطب تھی ۔ افف سنا ہے آج کے فنکشن میں کویی بہت ہی خاص مہمان اپنی حاضری دینے والے ہیں ۔ اور سننے میں یہ بھی آیا ہے کی وہ ایک فیوڈل سسٹم سے بلانگ کرتا ہے ۔ بلا کا ہینڈسم ہے ۔ آج تو مزہ ہی آ جاے گا ۔ سوہا نے سوچنے لگی کی یہ لڑکیاں پڑھنے کے بہانے اپنی دلی تسکین کو پورا کرنے آتی ہیں اسے ایسی لڑکیوں سے سخت چڑ تھی ۔ یہی وجہ تھی کی اس کی ایک ہی دوست تھی اور بلکل ہی اس کے مزاج تھی ۔ 10 بجے کے قریب فنکشن سٹارٹ ہوا ۔وہ وہ ایک کونے میں کھڑی اریشہ سے باتیں کرتی ہویی ان رونقوں سے بھی لطف اندوز ہو رہی تھی ۔ اریشہ اریشہ اور اس کے ہاتھ میں کین کا ڈبہ تھا ۔جو وہ کینٹین سے لایی تھی جبھی اس کی نظر سامنے اٹھی ۔ بلیک تھریپی سوٹ میں نفاست سے سجے سلکی بال اور آنکھوں پر کالا چشما ڈالے اپنی بے تحاشہ اسمارٹنیس کے ساتھ ایک ہاتھ جیب میں ڈالے وہ پرنسپل فیاض سر سے مصاحفہ کر رہا تھا ۔ وہ اپنے اندر اتنی جاذبیت رکھتا تھا کی ایک لمحے کے لیے سوہا مراد کی نظریں بھی جیسی ٹھٹھک کر اس پر جم سی گیی تھی ۔ دوسرے ہی پل وہ سامنے سے نظریں ہٹا گیی ۔ پھر وہ فیاض سر کے ہمراہ قدم بڑھاتا اسٹیج کی جانب چلا گیا ۔ لڑکیوں میں جیسے ہلچل مچ گیی تھی جو لڑکیاں ذرا بےزاری اور سستی کے عالم میں تھی ان میں بھی جان آ گیی تھی ۔ وہ جب تک بیٹھا رہا ایک بار بھی اس نے اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی تھی ۔ سر فیاض سے محاصفہ بھی اس نے ہلکی سی رسمی مسکراہٹ کے ساتھ ہی کیا تھا ۔ شاید یہ سنجیدگی اس کی طبعیت کی خاصا اہم حصہ تھی اس کی شاندار پرسنالٹی میں ایک عجیب سی مغرورانہ جھلک دکھایی دے رہی تھی ۔وہ تمسخرانہ انداز میں مسکراتی سر جھٹک گیی ۔ اس کے خیالات فیوڈل سسٹم کے بارے میں اچھے نہیں تھے ۔اب تک اس نے فیوڈل سسٹم کے بارے میں جتنا سنا تھا ظالم سفاک دل اور بے رحم ہی سنا تھا ۔ فنکشن کا اختتام ہوا اور وہ جیسے ہء باہری گیٹ کی طرف مڑی کسی شے سے بری طرح سے ٹکرا گیی تھی ۔اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا کیوں ٹکر بہت سخت تھی ۔ جب وہ کچھ دیر بعد سمبھلی اور نظریں اٹھایں تو سامنے سالک حیدر خان کھڑا تھا وہ بے اختیار پیچھے ہٹ گیی ۔ تو وہ اس کی کلایی کو اپنی مضبوط گرفت میں لیتے ہوے غرا کر کہا ۔
ہیلو دیکھ کر چلنا نہیں آتا تمہیں یہ جان بوجھ کر ٹکرایی ہو ؟ اس نے اپنی کلایی چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ غیض و غضب کی تصویر بنا کھڑا تھا ۔ اور پھر وہ اسی انداز میں بولا ۔
کچھ پوچھا ہے میں نے ؟؟ اگر نہیں بتا سکتی تو معافی مانگو !!
اس نے ایک جھٹکے سے کلایی اس کی مضبوط گرفت سے چھڑاتے ہوے ضدی انداز میں کہا ۔۔معافی وہ کیوں ؟؟ غلطی تمہاری ہے تم مانگو میں مر جاوں گی لیکن معافی نہیں مانگوں گی ۔وہ اسے کچھ دیر دیکھتا رہا اور پھر طنزیہ انداز میں اس پر ہنسا اور بولا ۔
تم جانتی میں کون ہوں ؟؟
سوہا مراد نے فورن سے نہیں میں جواب دیا تھا ۔میں تمہیں نہیں جانتی اور نہ ہی جاننے میں کویی دلچسپی نہیں ہے تم جو بھی ہو xyz میرا کویی لینا دینا نہیں ہے ہٹو میرے راستے سے ۔تم جیسے رییس زادوں کا کام لوگوں کو صرف دھمکانا اور نیچا دکھانا ہے ۔لیکن میں ایسا بلکل بھی نہیں کروں گی میں معافی نہیں مانگوں گی سمجھے تم وہ غصے میں لفظ چبا چبا کر بولی ۔
ایک بار پھر اس کی کلایی کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں بری طرح مروڑتے ہوے اس نے غراتے ہوے کہا ۔ معافی تو تمہارا باپ بھی مانگیں گا تم مجھے جانتی نہیں ہو تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے مجھ سے زبان درازی کر کے میں زبان کھینچ لیا کرتا ہوں جو میرے سامنے منھ کھولنے کی گستاخی کرتے ہیں ۔
اس بار اس نے اپنا ہاتھ پورا زور لگا کر چھڑایا اور ایک زناٹےدار تھپڑ اس کے منھ پر دے مارا یونی میں ایک ہلچل سی مچ گیی تھی ارد گرد دیکھ کر تماشہ دیکھ کر بھیڑ لگ گیی تھی اس کے گارڈز دوڑ کر آگے بڑھے لیکن اس نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ۔بعد میں اپنی بےتحاشہ سرخ آنکھیں اس کی آنک اس کی آنکھوں میں ڈال کر گویا شیر کی مانند غرا کر کہا ۔
تم نے جو غلطی کی ہے اس کا خمیازہ تمام عمر تمہیں بھگتنا پڑے گا ۔
جسٹ ویٹ اینڈ واچ !!! اوکے !
یہ کہتے ہوے وہ جھٹکے سے مڑا اور اپنی گاڑی میں جا بیٹھا ۔اس کے برعکس وہ سر جھٹک کر رہ گیی ۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی دھول اڑاتی نظروں سے اوجھل گیی ۔ سر فیاض اطلاع پاکر جب تک لان کی جانب آتے تب تک وہ جا چکا تھا ۔ انہوں نے ایک غصے بھری نظر اس پر ڈال کر اپنے آفس میں آنے کا کہا ۔ اس نے ایک نظر اریشہ کو دیکھا اور اس کے ساتھ آفس کی طرف چلی گیی ۔
سب کی نظر اس پر تھی دبی دبی سرگوشیاں بھی جاری تھیں ۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جن کو اصل معاملے کی خبر تک نہ ہو سکی تھی ۔ اور ایسے بھی تھے جنہوں نے سب کچھ دیکھا تھا لیکن در حقیقت سوہا مراد کو رتی بھر پرواہ نہیں تھی ۔اس کے خیال میں یہ سب دو دن میں دھواں بن کر اڑ جاے گا ۔ ویسے بھی اس کی دانست میں اس نے بہت اچھا کیا تھا ۔ لیکن اب جو وقت اس کی زندگی میں آنے والا تھا اس سے وہ قطعی بے خبر تھی ۔ وہ آفس میں داخل ہویی تو سر فیاض کو بے حد غصے میں اپنا منتظر پایا ۔
جاری ہے !!!